اتوار، 11 مارچ، 2018

الدنیا مزرعة الاخرة : حدیث ھے یا مشہور قول؟

الدنیا مزرعة الاخرة : 
حدیث ھے یا مشہور قول؟  
ایک تحقیقی جائزہ: 

آج کل پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب میں "الدنیا مزرعۃ الاخرہ" کے حدیثِ رسول یا مشہور قول ھونے پر بحث جاری ھے کیونکہ پہلے والی کتب میں اسے حدیث لکھا گیا تھا اور اب اس جملے کو مشہور قول لکھا گیا ھے ۔ 

اس جملے "الدنیا مزرعۃ الاخرہ" کی تحقیق سے پہلے ایک اہم بات کو ذہن نشین کرانا ضروری ھے ۔ 

بعض اوقات قرآن و حدیث کی تفسیر کرتے ھوئے کوئی صحابی یا مفسر یا محدث یا ولی اللہ ایسا زبردست جامع جملہ استعمال کرتا ھے کہ وہ زبان زدِ عام ھو جاتا ھے ۔ وہ مفہومًا درست اور کسی آیت یا حدیث کی کامل تفسیر ھوتا ھے لیکن پھر بھی قولِ رسول (ص) نہیں ھوتا۔ اب بعض اوقات کوئی خطیب یا نیک آدمی بے دھیانی میں یا علم کی کمی کی وجہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے ھوئے اس جملے کو حدیثِ رسول (ص) کہہ دیتا ھے اور سننے والے اس کو پھر بطور حدیث بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ قولِ صحابی میں اکثر ایسا ھو جاتا ھے کہ قولِ صحابی کو حدہثِ رسول کہہ کر بیان کر دیا جائے ۔ پھر وہ بعض حدیث کی کتب میں بھی آ جاتا ھے اور بطور حوالہ بیان ھونے لگتا ھے، لیکن اپنے مفہوم کی کاملیت، اعلٰی کلام اور صحیح تفسیر ھونے کے باوجود بھی وہ حدیث نہیں قرار دیا جا سکتا۔ 

اب آتے ہیں زیرِ بحث جملہ "الدنیا مزرعۃ الاخرہ" (دنیا آخرت کی کھیتی ھے) کی طرف۔ 

یہ جملہ صحاحِ ستہ(بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) میں کہیں پر بھی بطور حدیث درج نہیں ھے۔ 

محدث ابوبکر بن لال (متوفی 398ھ) نے اپنی کتاب "مکارم الاخلاق" میں اسے حدیث قرار دیا ھے ۔ 

امام حاکم (متوفی 405ھ) نے "مستدرک حاکم" میں اسے صحیح حدیث قرار دیا ھے ۔ ان کی روایت میں ایک راوی عبدالجبار نام کا بھی ھے ۔

محدث ابو شجاع الدیلمی(متوفی 509ھ) نے اپنی کتاب "المسند الفردوس" میں بلاسند ابن عمر سے مرفوعًا روایت کیا ھے اور حدیث قرار دیا ھے ۔ 

اب آتے ہیں دوسری آراء کی طرف۔۔۔۔۔۔

امام ابوجعفر محمد بن عمرو بن موسی العقیلی (م 322ھ) نے اسے اپنی کتاب الضعفاء میً ضعیف قرار دیا ھے ۔

امام غزالی (م 505ھ) نے الاحیاء العلوم میں فرمایا ھے کہ میں اس قول کو بطور حدیث نہیں جانتا۔ 

امام شمس الدین الذہبی (م 748 ھ) نے امام حاکم کے اسے صحیح حدیث قرار دینے پر ان کا تعاقب کیا ھے اور اس کو قولِ منکر یعنی حدیثِ منکر قرار دیا ھے کیونکہ اس میں ایک راوی عبدالجبار موجود ھے جو کہ اپنے احوال کے لحاظ مجہول و نامعلوم ھے ۔ 

مشہور محدث شمس الدین امام سخاوی (م 902ھ) نے اپنی مشہود کتاب " المقاصد الحسنۃ فیما اشتھر علی الالسنۃ" (حسین مقاصد کے وہ اقوال جو لوگوں کی زبانوں پر مشہور ھو گئے ہیں) میں کہا ھے کہ میں بطور حدیث اس قول سے واقف نہیں ھوں ۔ 

مشہور محدث حضرت ملا علی قاری (م 1014ھ) نے اپنی کتاب "موضوعات کبیر" میں اسے موضوع حدیث قرار دیتے ھوئے یہ فرمایا ھے : 
"یہ حدیث نہیں ھے البتہ حکمت کا اعلی قول ھے جو علماء استعمال کرتے ہیں، اور اس کا معنی صحیح ھے جو قرآن مجید کی سورہ شورٰی کی آیت 30 کے مطابق ھے کہ 
"من کان یرید حرث الاخرہ نزد لہ فی حرثہ"

لہذا مندرجہ بالا ساری بحث سے نتیجہ یہ اخذ ھوتا ھے کہ قول "الدنیا مزرعۃ الآخرہ" کو حدیثِ رسول(ص) قرار نہیں دیا جاسکتا البتہ یہ ایک حکمت سے بھرپور قول ھے جو کئی قرآنی آیات اور احادیث کے مفہوم کے مطابق ھے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں