ہفتہ، 18 جون، 2022

چند چیزیں جو یونیورسٹی سے باہر آکر دیکھنے/سیکھنے کو ملیں

 #specially #For #Teachers

چند چیزیں جو یونیورسٹی سے باہر آکر دیکھنے/سیکھنے کو ملیں 


1۔ یہ ایک غلط فہمی ہوتی ہے کہ ہم ایم ایس سی/ایم فل کر کے آرہے ہیں تو ہمارے برابر کا کوئ نہیں ہے،مارکیٹ میں ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہنر مند اور با صلاحیت لوگ موجود ہیں۔ 


2۔ نالج جہاں سے مل رہا ہو اسے حاصل کریں اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ جی میں نے تو ماسٹرز کیا ہے اور مجھے سب آتا ہے۔


3۔ چاہے آپ گولڈ میڈلسٹ ہو یا آپ کی #Cgpa  اپنی کلاس میں سب سے لوئسٹ ہی کیوں نہ تھی ۔ فیلڈ میں آپ تب کامیاب ہوں گے جب آپ اپنا پڑھانے کا لیول سٹوڈنٹس کے حساب سے ایڈجسٹ کریں گے۔


4۔ کسی بھی سکول/کالج میں پڑھاتے ہوئے وہاں کے سینئر سٹاف کا چلتے پھرتے 2،4 منٹ کا لیکچر سن لیا کریں اور ان کا وائٹ بورڈ کا استعمال دیکھا کریں کیونکہ وائٹ بورڈ استعمال کرنا بھی ایک آرٹ ہے جو کہ ہم میں سے %70 لوگوں کو نہیں آتا۔


5۔ جتنی legs pulling ایک ہی سجکیٹ کا ٹیچر کررہے ہوتے ہیں اتنی کوئ دوسرا نہیں کرتا۔ 


6۔ اکثر سکول/کالج میں #ڈیمو لیا جاتا ہے یا کہا جاتا ہے کہ آپ کو ہم ایک ہفتہ ٹرائیل بیس پر رکھ رہے ہیں۔ یہ سب کرنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ دیکھا جائے کہ آپ کو کیمسٹری آتی ہے یا نہیں ۔ بلکہ وہ آپ کا کلاس روم میں #باڈیلینگوج  #ڈسپلن اور #لیکچرڈلیور_میتھڈ چیک کر رہے ہوتے ہیں ۔


7۔ پرائیویٹ ڈیپارٹمنٹ میں آپ تب تک سٹیبل ہو جب تک آپ ادارے کے مفادات اور ہیڈ کی good book میں ہیں اور اگر آپ کمزور بچوں کو پاس کرانے کی ایبلٹی رکھتے ہوں  تو یہ بھی آپکی سٹیبیلیٹی میں اضافہ کرتا ہے۔


08۔ جیسے ہی آپ کی ڈگری کمپلیٹ ہو اگر گورنمنٹ جابز نہیں آئی ہوئی تو پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنا سٹارٹ کر دیں اگر پرائیویٹ میں بھی جگہ نہیں مل رہی اپنے محلہ کے کوئی 3 4 بچوں جو میٹرک ایف ایس سی کے ہوں ان کو مفت پڑھانا شروع کر دیں۔ بجائے اس کے کہ 2 سال تک ایسے اپنے آپ کو زنگ آلود کرتے رہیں۔


09۔کلاس روم میں جانے سے پہلے 5 منٹ اپنا ٹاپک دیکھ کر جائیں چاہے آپ کتنی ہی بار اسے پڑھا چکے ہیں ۔ آپ کو مزید کچھ نئی باتیں نئے پوائنٹس ملیں گے۔


12۔ کامیاب ٹیچر بننے کے لئے اپنے بچوں میں #Questioning کا اعتماد بحال کریں کیونکہ جو سوال جواب کلاس میں ہوں گے ان سے آپ کو اتنا کچھ سیکھنے کو ملے گا جتنا آپ نے کبھی اپنی سٹوڈنٹ لائف میں نہیں سیکھا ہوگا۔


10۔ کہیں پر بھی آپ سے کوئی سوال پوچھتا ہے دکھنے میں وہ چاہے ایک چھوٹے لیول کا سوال ہی کیوں نہ ہو آپ کو چاہیے اسے ایک تسلی بخش جواب دیں ۔ اگر نہیں آتا تو کہہ دیں کہ اس کو چیک کر کے بتاوں گا۔ بجائے اس پر طنز و مزاح یا کسی غلط انداز میں جواب دینے کے ۔ 


11- ہر ھال میں شکر پڑھا کریں کسی سے حسد نہ کیا کریں۔ کیونکہ آپ کسی کے ساتھ ویسے تو لڑائ جھگڑا کر سکتے ہیں اس کا گریبان تک پکڑ سکتے ہیں لیکن اس کے نصیب اس کے لک سے نہ آپ لڑ سکتے ہیں اور نہ اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ سب اللہ کی طرف سے عطا کردا ہے 


12۔ سب سے پہلے آپ اور آپ کی فیملی اس کے بعد کوئی دوسرا ۔ اپنی فیملی کو اہمیت دیں. لوگوں سے وابستہ امیدیں ہمیشہ آپ کو تکلیف اور ٹینشن میں مبتلا کریں گی۔


نوٹ__انسانغلطبھی ہو سکتاہےتومیریباتیں_ بھی غلطہوسکتیہیںاختلاف_ راے سبکاحقہے 


شکریہ

جمعہ، 17 جون، 2022

پرویز مشرف کس نایاب بیماری میں مبتلا ہیں!

 *پرویز مشرف جس بیماری میں مبتلا ہے بہت کم لوگوں کو ھوئی اس میں سے ایک سینئر بش اور دوسرا فرعون تھا*


میرا اپنے اس دوست ڈاکٹر کے پاس رکنے کا بالکل بھی ارادہ نہیں تھا۔۔ بس سلام دعا کر کے نکلنا چاہتا تھا مگر اتفاق سے اس کے پاس اسکا ایک اور ڈاکٹر دوست بھی آ کر بیٹھا تھا اور یہ دونوں دوست جس عنوان پہ محو گفتگو تھے میں چاہ کر بھی وہاں سے نہ اٹھ پایا۔۔گفتگو دلچسپ بھی تھی سنسی خیز بھی اور عبرتناک بھی۔۔سو میں وہیں رک گیا۔۔

یہ ہفتہ بھر پہلے کی بات ہے جس دن سابق صدر پرویز مشرف کی موت کی خبریں دھڑا دھڑ چلائی جا رہی تھیں۔۔اور اسی تناظر میں سنیئر ڈاکٹر اپنے جونیئر دوست کو اس پراسرار بیماری سے آگاہ کر رہا تھا جس نے اس شخص کو اپنی گرفت میں لے کر اہل جہاں کیلئے یوں عبرت کا نشاں بنا دیا کہ دنیا کے جدید ترین ہاسپیٹلز اور ماہر ترین ڈاکٹرز نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے۔۔

*ڈاکٹر بتا رہا تھا کہ اس بیماری کو ایملوئیڈوسز (Amyloidosis) کہتے ہیں۔ اور دنیا میں یہ ایسی نایاب بیماری ہے کہ اس سے بہت کم لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ بلکہ آپ یوں کہہ لیں کہ اس بیماری کو قدرت نے چند ایک مخصوص کرداروں کیلئے رکھا ہوا ہے۔*


 *ایسے کردار *جن پہ خود کو ہی سب کچھ سمجھ لینے کا جنون اور پاگل پن سوار تھا۔۔*


*ایسے لوگوں کو جب یہ نایاب بیماری اپنے بے رحم شکنجے میں لیتی ہے تو ان کے پورے جسم کے اعضاء یعنی دل، دماغ، گردے، تلی اور جسم کے دیگر حصوں کے سیلز میں ایملوئیڈ (Amyloid) کے غیر معمولی پروٹین جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ان پروٹین کی غیر معمولی افزائش کے نتیجہ میں متاثرہ شخص کے اعضاء کی کارکردگی نہ صرف متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ مریض ہلنے جلنے سے بھی قاصر ہو جایا کرتا ہے۔۔*


79 سالہ سابق صدر 2018ء سے اس پراسرار اور نایاب بیماری کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے انکی حالت کو تشویش ناک قرار دے رکھا ہے۔۔

یہ بیماری کیوں لاحق ہوتی ہے۔۔اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے حیران کر دینے والا جواب دیا کہ میڈیکل سائنس باوجود اتنی تحقیق و جدید ہونے کے ابھی تک یہ کھوج لگانے میں ناکام رہی ہے کہ اس بیماری کے لاحق ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔البتہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جین میں تبدیلی اس بیماری کے لاحق ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے۔۔

*اس بیماری کی علامات میں مریض کا خود کو کمزور اور تھکا ہوا محسوس کرنا، وزن کا بلاوجہ گر جانا، پیٹ، ٹانگوں، پاوں، ٹخنوں کا سوج جانا، جلد پر خراشوں کا آجانا، آنکھوں کے گرد جامنی دھبوں کا پڑ جانا، ہلکی سی چوٹ لگنے پہ بھی خون کا معمول سے زیادہ نکلنا، زبان کا حجم بڑھ جانا اور سانس کا پھول جانا شامل ہے۔۔*

*( میں چاہوں گا کہ ہم سب سابق صدر کو لاحق بیماری کی وجہ سے درپیش علامات کو دوبارہ پڑھیں، عبرت حاصل کریں اور عافیت مانگیں)*

*ایملوئیڈوسز کی تشخیص اور علاج دنیا بھر میں موجود بیماریوں کے مقابلہ میں مشکل ترین ہے۔ اسکی تشخیص کیلئے ڈاکٹر بائی آپسی (Biopsy) کے ذریعے متاثرہ اعضاء سے مریض کے سمپلز لیتے ہیں۔*

ڈاکٹر فرما رہے تھے کہ ابھی تک اس بیماری کا کوئی علاج نہیں۔۔آپ موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی میڈیکل سانئس کو اس بیماری کے سامنے بے بس پایئں گے۔ بس اس بیماری کے بعد وہ مریض ہوتا ہے۔۔اس کے اہل خانہ یا پھر خدائے بزرگ و برتر۔۔کہ وہ اس شخص کو کب تک اس حالت میں رکھنا چاہے۔۔

*سابق صدر پچھلے کئی برسوں سے اس کنڈیشن میں ہے۔۔ان کے اعضاء گل سڑ رہے ہیں۔۔وہ دیکھتے ہیں مگر پہچان نہیں پاتے، زبان ہے مگر بولنے سے قاصر ہیں۔۔ہاتھ پاوں موجود ہیں مگر انکو حرکت دینے سے قاصر ہیں۔۔ کان سلامت ہیں مگر سننے کی صلاحیت کب کی کھو چکے ہیں۔۔ انکی ٹانگیں وجود کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہیں ۔۔ان کا کھانا پینا بند ہے۔۔وہ برائے نام لیکویڈ چیزوں پہ زندہ ہیں۔۔اور ستم ظریفی یہ کہ انکی اس خراب تر کنڈیشن میں بھی انہیں وینٹی لیٹر پہ منتقل کرنا ممکن نہیں۔۔بس ایک بے بسی ہے۔۔لاچارگی ہے۔۔عبرت کا سامان اور توبہ کا مقام ہے۔۔*

ڈاکٹر صاحبان کی بحث ابھی جاری تھی مگر میں نے کہیں آگے جانا تھا۔۔سو میں اٹھا ہاتھ ملایا اور اجازت لینے سے پہلے ایک سوال کا جواب چاہا۔۔کہ ماضی میں بھی یہ بیماری کسی کو لگی ہے۔۔جس کا شکار ہمارے سابقہ صدر ہیں۔۔؟ اس پہ کچھ دیر ڈاکٹر نے سوچا اور پھر کہا۔۔ شاید بش سنیئر کو۔۔اور کچھ لوگوں کے بقول فرعون کو بھی۔۔اس وقت چونکہ میڈیکل نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔۔مگر تاریخ میں لکھی اسکی موت کی وجوہات میں بھی علامات یہیں تھیں۔۔*

مجھ میں اس سے زیادہ سننے کی سکت نہیں تھی۔۔میں تیز قدموں سے نکلا اور باہر موجود بھیڑ میں گم ہوتا گیا۔۔

سابق صدر کا موضوع جو کہ جلد کلوز ہونے والا ہے۔۔اس پہ میری یہ غیر جذباتی تحریر آخری تحریر ہے۔۔کیونکہ میں نہیں چاہوں گا کہ کسی مرنے والے پہ ایسا کچھ لکھا جائے۔۔ جو مناسب نہ ہو۔۔۔تاہم اتنا ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ 


*اس دنیا کو اسی لیئے باعث تماشہ بھی کہا جاتا ہے اور باعث عبرت بھی۔۔*کیا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے کہ چند سال پہلے کا وہ طاقتور شخص جس کے حکم پہ سینکڑوں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے تھے۔۔جس نے باجوڑ مدرسہ میں بمباری اور سو کے قریب بچوں کی شہادت پہ اپنی چھاتی پہ ہاتھ مار کے کہا تھا کہ یہ ہم نے کیا ہے۔۔جس نے اسلام آباد کے وسط میں موجود مدرسہ و مسجد کو تہس نہس کر کے معصوموں کے جسموں کے پرخچے اڑاتے ہوئے اسکو اپنی عظیم فتح کہا تھا۔۔جس کی ناقص پالیساں اس ارض پاک پہ خودکش حملوں کا باعث بنیں تھیں۔۔جس نے بگٹی کو کہا تھا کہ میں تمہیں وہاں سے ہٹ کروں گا کہ جہاں سے تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔۔اور تب سے بلوچستان آگ میں سلگ رہا ہے۔۔جس نے کراچی میں ان گنت معصوم لوگوں کی خون آلود لاشوں کو سڑکوں پہ پڑا دیکھ کر اسلام آباد میں مکے ہوا میں لہراتے کہا تھا کہ آج کراچی میں دیکھ لی ہماری طاقت۔۔*


وہ شخص آج دیار غیر میں، لاچارگی و بے بسی کی تصویر بنا موت کا منتظر بھی ہے اور خواہش مند بھی۔۔مگر موت اس سے کوسوں دور بھاگ رہی ہے۔۔وہ اپنے وطن سے دور ہسپتال کے ایک گمنام کمرے میں پڑا واپس اپنی مٹی میں مدفن ہونے کا خواہشمند اور درخواست گزار ہے۔۔جلد ہی اسکی بچی کھچی اور ٹوٹتی جڑتی سانسیں اسکا ساتھ چھوڑ جایئں گی اور یوں کسی قبرستان میں مٹی کے ایک ڈھیر کا اضافہ ہو جائے گا۔۔جسکو کوئی بھی کبھی بھی مڑ کر نہیں دیکھے گا کہ یہاں کون مدفن ہے۔۔


غلام شبیر منہاس


====================

Forwarded as received

June 16, 2022

🪱

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آس عبرت ناک انجام سے بچانے۔

آمین

ہفتہ، 11 جون، 2022

نماز کے بارے میں کچھ سوال و جواب

 • حضرت ، ذرا نماز سے متعلق کچھ باتیں پوچھنی ہیں۔"

نوجوان نے بیٹھتے ہی سوال داغا


پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ جہان دیدہ بزرگ نے انتہائی شفقت سے جواب دیا۔۔۔۔


• یہ بتائیں کہ نماز کی نیت زبان سے کرنی ہے کہ دل میں۔


میاں نیت زبان سے کرو یا دل میں کرو، ہر صورت میں خالص ہونی چاہیے۔"


• جواب کچھ عجیب تھا لیکن اگلا سوال :اچھا ہاتھ کانوں تک اٹھانے ہیں یا کاندھے تک؟


 میاں کان اور کاندھے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ حقیقت میں تو ہاتھ نفس کی پوجا سے اٹھانے ہیں۔


• اچھا ہاتھ کہاں باندھنے ہیں، سینے پر کہ ناف کے نیچے ؟


 ارے صاحبزادے، ہاتھ ادب سے باندھنے ہیں ، جہاں ادب محسوس ہو وہیں رکھ لو۔


• سورہ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی ہے یا چپ رہنا ہے؟


 بھائی ، جب تمہارا نمائیندہ خدا سے سب کے لیے باآواز بلند بول رہا ہو تو تمہیں بولنے کی کیا ضرورت؟ اور جب وہ خاموش ہو تو تمہارے چپ رہنے کا کیا مقصد؟


• اچھا سمجھ گیا لیکن یہ آمین زور سے بولنی ہے کہ آہستہ؟


 میاں، آمین کا مطلب ہے" قبول فرما"۔ تو کبھی یہ آہ زور سے نکلتی ہے تو کبھی آہستہ۔دعا کی قبولیت آواز کی بلندی نہیں دل کی تڑپ کا تقاضا کرتی ہے۔


• سنا ہے رکوع میں کمر اتنی سیدھی ہوئی ہو کہ پانی کا پیالہ بھی پشت پر رکھ دیا جائے تو اس کا لیول برقرار رہے؟


 میاں ، جب غلام جھکتا ہے تو کیا بادشاہ پیالہ رکھ کر کمر کا تناو چیک کرتا ہے؟ وہ تو تمہارے بے اختیار سے جھکنے کو دیکھتا ہے اور بس۔


• کیا رکوع سے اٹھ کر دوبارہ رفع یدین کرنا ضروری ہے؟


 جناب من ، اصل کام تو تکبیر یعنی خدا کی بڑائی بیان کرنا ہے، اب یہ بڑائی ہاتھ اٹھاکربیان کرلو یا بنا ہاتھ اٹھائے۔


• حضور ، کیا سجدے میں اتنا اونچا ہونا لازمی ہے کہ ایک چھوٹا بکری کا بچہ نیچے سے نکل جائے؟


 میرے دوست، سجدہ تو عاجزی و پستی کی انتہائی علامت ہے۔ بادشاہوں کے بادشاہ کے حضور ناک رگڑتے وقت کس کو ہوش ہوگا ہے کہ اونچائی اور لمبائی کتنی ہے؟


• حضرت آپ تو ساری باتوں میں اتنی وسعت اور آپشنز پیدا کررہے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "صلو کما رائتمونی اصلی" یعنی نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔


 ارے بھائی ہم نے تو نبی کریم کو نماز میں روتے ہوئے دیکھا گڑگڑاتے دیکھا، ادب و احترام کا پیکر بنے قیام میں دیکھا قرآن کو سمجھ کر پڑھتے ہوئے دیکھا، اپنے رب کے آگے بے تابی سے جھکتے دیکھا، تڑپتے ہوئے سجدہ کرتے دیکھا، قومہ و قعدہ میں بھی دعائیں مانگتے ہوئے دیکھا، تسبیحات بدل بدل کر پڑھتے ہوئے دیکھا، اپنے رب کو خوف و امید سے پکارتے ہوئے دیکھا۔ہم نے یہی دیکھا اور یہی سمجھا کہ نماز کا اصل مغز یہی سب کچھ ہے ۔ یہی وہ نماز ہے جس کے لیے نبی نے حکم دیا کہ نماز اس طرح پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ 


• بات اس کی سمجھ آچکی تھی کہ آج تک وہ نماز پڑھتا تو رہا ، ادا نہ کرپایا۔ موذن حی علی الصلوٰۃ کی صدائیں لگارہا تھا اور وہ اس حکم پر عمل کرنے کے لیے بے تاب تھا " صلو کما رائیتمونی اصلی"---"نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ 

                              نوٹ 

 مختصر یہ کہ آپ جیسے بھی نماز ادا کریں گے نماز ادا ہو جاۓ گی ۔ اب اختلاف ختم کرکے یہ دیکھیں کی اس طرح نماز پڑھتے نمازی کتنے فیصد ہیں اور ایسی نماز کے بارے میں فرمایا تھا کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔۔۔۔

کیا پاکستان صرف جی ٹی روڈ کا نام ہے؟

 کیا پاکستان صرف جی ٹی روڈ کا نام ہے؟

تحریر : آصف محمود 

 بلوچستان میں آگ لگی ہے۔چلغوزے کے قیمتی جنگلات جل کر راکھ ہو رہے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ یہ آگ کیٹیگری کرائون میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ جنگل میں لگنے والی آگ میں یہ سب سے خطرناک قسم ہوتی ہے کیوں کہ یہ جنگل کی زمین پر نہیں پھیلتی بلکہ اس کے شعلوں کاپھیلائو اتنا مہیب ہوتا ہے کہ یہ درختوںکے تنوں کی بجائے درختوں کی چھتری کو اپنی لپٹ میں لے لیتی ہے۔26 ہزار ایکڑکے رقبے میں چلغوزے کے یہ قیمتی باغات جل چکے ہیں۔


 ان باغات کی اہمیت بھی سمجھ لیجیے۔ بلوچستان میں واقع یہ باغات دنیا بھر میں چلغوزے کے سب سے بڑے باغات میں شمار ہوتے ہیں۔چلغوزے کی قیمت کا تو آپ سب کو معلوم ہی ہو گا کہ یہ کتنا مہنگا ڈرائی فروٹ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان با غات سے ہر سیزن میں سات سو میٹر ک ٹن چلغوزہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اب ذرا اس کے کلوگرام نکالیے اور پھر اس کی کل قیمت کا تخمینہ لگائیے۔اس کے بعد جمع تقسیم کر کے دیکھیے کہ یہ باغات بلوچستان کے لوگوں کے روزگار اور ملکی معیشت کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔اس دوران البتہ یہ یاد رکھا جائے کہ آپ باغات کی قیمت کا تعین نہیں کر رہے بلکہ ان سے حاصل ہونے والی ایک سال کی پیداوار کی مالیت نکال رہے ہیں۔


اس آگ سے ماحولیات اور وائلڈ لائف پر کتنے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے یہ ایک الگ بحث ہے اور اس کی جزئیات کی سنگینی جنگل کے معاشی نقصانات سے کم نہیں ہے۔


 آپ فیصلہ ساز طبقات کی سنجیدگی دیکھیے کہ جو آگ 30 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیل چکی ہے اس کو بجھانے کے لیے صرف 2ہیلی کاپٹر میدان عمل میں مصروف ہیں۔ کوئی بے نیازی سی بے نیازی ہے کہ ہمارا ڈرائی فروٹ کا سب سے بڑا جنگل جل کر راکھ ہو گیا ہے اور ہمارے پاس یہاں بھیجنے کو تیسرا ہیلی کاپٹر نہیں ہے۔ ایک ہیلی کاپٹر کیمیکل چھڑک رہا ہوتا ہے اور دوسرا پانی پھینک رہا ہوتا ہے۔ پانی پھینکنے والا ہیلی کاپٹر آگ پر پانی ڈال کر جب تک نیا پانی لے کر واپس آتا ہے تب تک بجھائی جانے والی آگ دوبارہ بھڑک اٹھتی ہے۔


یہاں اگر بیس پچیس ہیلی کاپٹر بیک وقت استعمال ہوں تو ایک دن میں آگ بجھائی جا سکتی ہے ۔وسائل سے زیادہ نیت اور ترجیحات کا مسئلہ ہے۔ ایک جہاز تو خبر ہے کہ ایران نے بھی فراہم کر دیا ہے۔ جن کے اپنے گھر کو آگ لگی ہے وہ صرف دو ہیلی کاپٹر دے سکے۔ سنجیدگی اسی تناسب سے واضح ہے۔ ہمارے باقی کے ہیلی کاپٹر اشرافیہ کی آنیوں جانیوں کے لیے مصروف ہیں


۔حیرت ہوتی ہے بلوچستان میں پولیس اہلکار شہید ہو جائیں تو ان کے جسد خاکی گھروں کو بھیجنے کے لیے ایمبولینس نہیں ہوتیں اور وہ بسوں کی چھت پر رکھ کر بھیجے جاتے ہیں اور وہاں کے جنگلات جل کر راکھ ہو رہے ہوں توآگ بجھانے کو صرف دو ہیلی کاپٹر بھیجے جاتے ہیں۔یہ سوتیلا پن کس کے فکری افلاس کا تاوان ہے؟


 چنانچہ سوشل میڈیا پربلوچستان کا نوجوان صرف یہ شکوہ نہیں کر رہا کہ اس کے مسائل حل نہیں کیے ہو رہے، وہ یہ گلہ بھی کر رہا ہے کہ ہمارا قومی بیانیہ اس کے دکھوں سے لاتعلق ہے ۔


اہل سیاست ہوں یا ہمارا میڈیا ، سب کا رویہ یکساں افسوسناک ہے۔ شیرانی کے جنگلات جل اٹھیں یا پیر کوہ کے علاقے میں ہیضے کی وبا پھیل جائے، سیاست اورمیڈیا کے لیے یہ سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں۔


اسلام آباد میں ایک نیم پاگل شخص بندوق لے کر سڑک پر آ جائے تو میڈیا چوبیس گھنٹے براہ راست کوریج کرتا ہے، حتی کہ اس کے رفع حاجت کے مناظر بھی براہ راست دکھائے جاتے ہیں اور ساتھ نیوز کاسٹرز کا ،رواں تبصرہ کانوں میں رس گھول رہا ہوتا ہے کہ یہ دیکھیے ناظرین ہمارا نیوز چینل یہ مناظر آ پ کے لیے خصوصی طور پر دکھا رہا ہے ۔یہ بات میں تفنن طبع کے لیے نہیں کہہ رہا ، آپ اس روز کی کوریج نکال کر دیکھ لیجیے ، سکرینوں پر Exclusive کی سٹرپ بھی چل رہی تھی تا کہ سند رہے کہ یہ قوت مشاہدہ ہمارے کیمرہ مین کی ہے۔


 چند سیاسی جماعتوں کے جلسے ہوں ہوں تومیڈیا شرکاء کی تعداد سے لے کر جلسے میںرکھی کرسیوں کے رنگوں تک کو زیر بحث لاتا ہے، چند بڑے شہروں میں کوئی گدھا گاڑی کسی کھمبے سے ٹکرا جائے تو یہ بریکنگ نیوز ہوتی ہے اور نیوز کاسٹر اور نمائندے کی سانس پھولی ہوتی ہے،آپ کو گدھے کا شجرہ نسب بھی بتاتے ہیں اور ساتھ ساتھ فخر سے اعلان ہوتا رہتا ہے کہ ناظرین کرام یہ مت بھولیے کہ گدھے کے آباو اجداد کے بارے میں اندر کی یہ خبر سب سے پہلے ہم نے آپ کے سامنے رکھی ہے۔


 ہماری سیاست اور ہمارا میڈیا ( اب اس کے ساتھ سوشل میڈیا کا اضافہ کر لیں)،یہ قومی بیانیے کے ابلاغ کے بنیادی ذرائع ہیں۔لیکن ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ ان کی ساری بحث نصف درجن سیاسی خانوادوں اور چند بڑے شہروں تک محدود ہے۔روز بیسیوں ٹی وی چینلز پر سینکڑوں ٹاک شوز ہوتے ہیں لیکن بلوچستان، اس کے مسائل اور اس کا بیانیہ ان میں کہیں جگہ نہیں پا سکتا ۔


قومی ایشوز پر بلوچستان کے اہل سیاست کو مدعو نہیں کیا جاتا اور بلوچستا ن کے مقامی ایشوز کبھی زیر بحث نہیں لائے جاتے۔چنانچہ بلوچستان کے سیاستدان ہمارے میڈیا کو صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب وہاں کوئی حادثہ ہو جاتا ہے۔


کوئی ایک ٹاک شو بلوچستان سے نہیں ہو رہا۔ سوشل سوشل میڈیا کے موضوعات بھی دیکھ لیجیے ، احباب موضوعات باندھتے باندھتے ایران توران تک چلے جائیں گے لیکن بلوچستان کا راستہ بھول جائیں گے۔


 سیاسی گہما گہمی میں بھی بلوچستان لاتعلق ایک طرف کھڑا ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر نے اگلے روز دلچسپ تبصرہ کیا کہ پاکستان کے ہرسیاسی ہیجان کا تعلق جی ٹی روڈ کے اطراف کی اشرافیہ سے رہاہے۔ اس کی قیمت البتہ پورے ملک کو چکانا پڑتی ہے۔


سوال اب یہ ہے کہ کیا پاکستان صرف جی ٹی روڈ کا نام ہے؟ خوشی بھی اسی کی ، غم بھی اسی کے ، میڈیا بھی اسی کا ، سیاست بھی اسی کی۔

Copied

وراثت کی تقسیم کا مکمل اسلامی قانونی طریقہ کار

 *وراثت کی تقسیم کا مکمل اور جامع قانونی طریقہ کار*


(١): جائیداد حقداروں میں متوفی پر واجب الادا قرض دینے اور وصیت کو پورا کرنے کے بعد تقسیم ہوگی.


(٢): اگر صاحب جائیداد خود اپنی جائیداد تقسیم کرے تو اس پر واجب ہے کہ پہلے اگر کوئی قرض ہے تو اسے اتارے، جن لوگوں سے اس نے وعدے کیۓ ہیں ان وعدوں کو پورا کرے اور تقسیم کے وقت جو رشتےدار، یتیم اور مسکین حاضر ہوں ان کو بھی کچھ دے.


(٣): اگر صاحب جائیداد فوت ہوگیا اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی اور نہ ہی جائیداد تقسیم کی تو متوفی پر واجب الادا قرض دینے کے بعد جائیداد صرف حقداروں میں ہی تقسیم ہوگی.


جائیداد کی تقسیم میں جائز حقدار:


(١): صاحب جائیداد مرد ہو یا عورت انکی جائیداد کی تقسیم میں جائیداد کے حق دار اولاد، والدین، بیوی، اور شوہر ہوتے ہیں.


(٢): اگر صاحب جائیداد کے والدین نہیں ہیں تو جائیداد اہل خانہ میں ہی تقسیم ہوگی. 


(٣): اگر صاحب جائیداد کلالہ ہو اور اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں تو کچھ حصہ سوتیلے بہن بھائی کو جاۓ گا اور باقی نزدیکی رشتے داروں میں جو ضرورت مند ہوں نانا، نانی، دادا، دادی، خالہ، ماموں، پھوپھی، چچا، تایا یا انکی اولاد کو ملے گا.

X


(1): شوہر کی جائیداد میں بیوی یا بیویوں کا حصہ:


(١): شوہر کی جائیداد میں بیوی کا حصہ آٹھواں (1/8) یا چوتھائی (1/4) ہے.


(٢): اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہونگی تو ان میں وہی حصہ تقسیم ہوجاۓ گا.


(٣): اگر شوہر کے اولاد ہے تو جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ بیوی کا ہے، چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کا ہے اور باقی بچوں کا ہے.


(٤): اگر شوہر کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، بیوی کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کیلئے ہے.


(٥): اگر شوہر کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیوی کیلئے جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ ہے اور شوہر کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. 


(٦): اگر شوہر کے اولاد نہیں ہے تو بیوی کا حصہ چوتھائی (1/4) ہو گا اور باقی جائیداد شوہر کے والدین کی ہوگی.


(٧): اگر کوئی بیوی شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاتی ہے تو اسکا حصہ نہیں نکلے گا.


(٨): اگر بیوہ نے شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے دوسری شادی کرلی تو اسکو حصہ نہیں ملے گا.


(٩): اور اگر بیوہ نے حصہ لینے کے بعد شادی کی تو اس سے حصہ واپس نہیں لیا جاۓ گا.


(2): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ: 


(١): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ نصف (1/2) یا چوتھائی (1/4) ہے. 


(٢): اگر بیوی کے اولاد نہیں ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور نصف (1/2) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے.


(٣): اگر بیوی کے اولاد ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے، اور چھٹا (1/6) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے اور باقی بچوں کا ہے.


(٤): اگر بیوی کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، شوہر کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد بیوی کے والدین کیلئے ہے.


(٥): اگر بیوی کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور بیوی کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. 


(٦): اگر شوہر، بیوی کے والدین کی طرف سے جائیداد ملنے سے پہلے فوت ہو جاۓ تو اس میں شوہر کا حصہ نہیں نکلے گا.


(٧): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے بچے ہیں تو بیوی کا اپنے والدین کی طرف سے حصہ نکلے گا اور اس میں شوہر کا حصہ چوتھائی (1/4) ہوگا اور باقی بچوں کو ملے گا. 


(٨): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گا. 


(3): باپ کی جائیداد میں اولاد کا حصہ: 


(١): باپ کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے.


(٢): باپ کی جائیداد میں پہلے باپ کے والدین یعنی دادا، دادی کا چھٹا (1/6) حصہ، اور باپ کی بیوہ یعنی ماں کا آٹھواں (1/8) حصہ نکالنے کے بعد جائیداد اولاد میں تقسیم ہوگی.


(٣): اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں، دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، آٹھ واں (1/8) حصہ بیوہ ماں کا ہوگا اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کوملے گا.


(٤): اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے، آٹھواں (1/8) حصہ بیوہ ماں کیلئے ہے اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کیلئے ہے. 


(٥): اگر باپ کے والدین یعنی دادا یا دادی جائیداد کی تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا.


(٦): اگر کوئی بھائی باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوگیا اور اسکی بیوہ اور بچے ہیں تو بھائی کا حصہ مکمل طریقہ سے نکالا جاۓ گا.


(٧): اگر کوئی بہن باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاۓ اور اسکا شوہر اور بچے ہوں تو شوہر اور بچوں کو حصہ ملے گا. لیکن اگر بچے نہیں ہیں تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گ


(4): ماں کی جائیداد میں اولاد کا حصہ: 


(١): ماں کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے.


(٢): جائیداد ماں کے والدین یعنی نانا نانی اور باپ کا حصہ نکالنے کے بعد اولاد میں تقسیم ہوگی.


(٣): اور اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، باپ کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد ماں کے والدین کیلئے ہے.


(٤): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، باپ کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور ماں کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. 


(٥): اگر ماں کے والدین تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا.


(٦): اور اگر باپ بھی زندہ نہیں ہے تو باپ کا حصہ بھی نہیں نکالا جاۓ گا ماں کی پوری جائیداد اسکے بچوں میں تقسیم ہوگی.


(٧): اگر ماں کے پہلے شوہر سے کوئی اولاد ہے تو وہ بچے بھی ماں کی جائیداد میں برابر کے حصہ دار ہونگے


(5): بیٹے کی جائیداد میں والدین کا حصہ:


(١): اگر بیٹے کے اولاد ہو تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. 


(٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا.


(٣): اگر بیٹے کے اولاد نہیں ہے لیکن بیوہ ہے اور بیوہ نے شوہر کی جائیداد کے تقسیم ہونے تک شادی نہیں کی تو اس کو جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ملے گا اور باقی جائیداد بیٹے کے والدین کی ہوگی.


(٤): اگر بیٹے کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. 


(٥): اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. 


(٦): اگر بیٹا رنڈوا ہے اور اسکے کوئی اولاد بھی نہیں ہے تو اسکی جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے اور دو تہائی (2/3) حصہ باپ کا ہے اور اگر بیٹے کے بہن بھائی بھی ہوں تو اسکی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور باقی باپ کا ہے.


(6): بیٹی کی جائیداد میں والدین کا حصہ:


(١): اگر بیٹی کے اولاد ہے تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. 


(٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا.


(٣): اگر بیٹی کے اولاد نہیں ہے لیکن شوہر ہے تو شوہر کو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ملے گا اور نصف (1/2) جائیداد بیٹی کے والدین کی ہوگی.


(٤): اور اگر بیٹی کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے ایک چوتہائی (1/4) حصہ اور باقی والدین کا ہے. 


(٥): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے چوتہائی (1/4) حصہ اور والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. 


(٦): اگر بیٹی بیوہ ہو اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہوگا اور اگر بیٹی کے بہن بھائی ہیں تو ماں کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہوگا اور باقی باپ کو ملے گا.


(7): کلالہ: 


کلالہ سے مراد ایسے مرد اور عورت جنکی جائیداد کا کوئی وارث نہ ہو یعنی جنکی نہ تو اولاد ہو اور نہ ہی والدین ہوں اور نہ ہی شوہر یا بیوی ہو.


(١): اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہوں، اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں، اور اگر اسکا صرف ایک سوتیلہ بھائی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے، یا اگر صرف ایک سوتیلی بہن ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.


(٢): اگر بہن، بھائی تعداد میں زیادہ ہوں تو وہ سب جائیداد کے ایک تہائی (1/3) حصہ میں شریک ہونگے.


(٣): اور باقی جائیداد قریبی رشتے داروں میں اگر دادا، دادی یا نانا، نانی زندہ ہوں یا چچا، تایا، پھوپھی، خالہ، ماموں میں یا انکی اولادوں میں جو ضرورت مند ہوں ان میں ایسے تقسیم کی جاۓ جو کسی کیلئے ضر رساں نہ ہو.


(8): اگر کلالہ کے سگے بہن بھائی ہوں:  


(١): اگر کلالہ مرد یا عورت ہلاک ہوجاۓ، اور اسکی ایک بہن ہو تو اسکی بہن کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلئے ہے. 


(٢): اگر اسکی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلیے ہے.


(٣): اگر اسکا ایک بھائی ہو تو ساری جائیداد کا بھائی ہی وارث ہوگا.


(٤): اگر بھائی، بہن مرد اورعورتیں ہوں تو ساری جائیداد انہی میں تقسیم ہوگی مرد کیلئے دوگنا حصہ اسکا جوکہ عورت کیلئے ہے.


الله تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور الله ہر شے کا جاننے والا ہے.


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

اور ہر ترکہ کیلئے جو ماں باپ اور عزیز و اقارب چھوڑیں ہم نے وارث قرار دئیے ہیں اور جن سے تم نے عہد کر لئے ہیں ان کا حصہ ان کو دیدو بیشک الله ہر شے پر گواہ ہے. (4:33)


مردوں کیلئے اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں ایک حصہ ہے اور عورتوں کیلئے بھی اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں تھوڑا یا زیادہ مقرر کیا ہوا ایک حصہ ہے. (4:7)


اور جب رشتہ دار و یتیم اور مسکین تقسیم کے موقع پر حاضر ہوں تو انکو بھی اس میں سے کچھ دے دو اور ان سے نرمی کے ساتھ کلام کرو. (4:8)


الله تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے اور اگر فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو ترکے کا دو تہائی (2/3) ان کا ہے اور اگر وہ ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے نصف (1/2) ہے اور والدین میں سے ہر ایک کیلئے اگر متوفی کی اولاد ہو تو ترکے کا چھٹا (1/6) حصہ ہے اور اگر متوفی کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کیلئے ترکہ کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے اور اگر متوفی کے بہن بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے بعد تعمیل وصیت جو وہ کر گیا ہو یا بعد اداۓ قرض کے تم نہیں جانتے کہ تمہارے آباء یا تمہارے بیٹوں میں سے نفع رسانی میں کون تم سے قریب تر ہے یہ الله کی طرف سے فریضہ ہے بیشک الله جاننے والا صاحب حکمت ہے. (4:11)


اور جو ترکہ تمہاری بے اولاد بیویاں چھوڑیں تمہارے لئے اس کا نصف (1/2) حصہ ہے اور اگر ان کے اولاد ہو تو تمہارے لئے اس ترکہ کا جو وہ چھوڑیں چوتھائی (1/4) حصہ ہے اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کی ادائیگی کے بعد اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو جو ترکہ تم چھوڑو ان عورتوں کیلئے اس کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور اگر تمہارے اولاد ہو تو ان عورتوں کا اس ترکہ میں آٹھواں (1/8) حصہ ہے جو تم چھوڑو بعد از تعمیل وصیت جو تم نے کی ہو یا قرض کی ادائیگی کے اور اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور اگر وہ تعداد میں اس سے زیادہ ہوں تو بعد ایسی کی گئی وصیت کی تعمیل جو کسی کیلئے ضرر رساں نہ ہو یا ادائیگی قرض کے وہ سب ایک تہائی (1/3) میں شریک ہونگے یہ وصیت منجانب الله ہے اور الله جاننے والا بردبار ہے. (4:12)


تجھ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں کہہ دے کہ الله تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا آدمی ہلاک ہوجاۓ جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو پس اس کی بہن کیلئے اس کے ترکہ کا نصف (1/2) حصہ ہے. (اگر عورت ہلاک ہوجاۓ) اگر اس عورت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کا وارث اس کا بھائی ہوگا اور اگر اس کی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے اس کے ترکہ کا دو تہائی (2/3) ہے اور اگر بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کیلئے دوگنا حصہ اس کا جو کہ عورت کیلے ہے الله تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور الله ہر شے کا جاننے والا ہے.

انے والے طوفان کی تیاری کیجئے

پٹرول کی قیمتوں پے بحث و تکرار ختم ہو گئی ہو تو زرا اس آنے والے طوفان کی تیاری کیجیے جس سے نہ تو پٹواری بچے گا نہ یوتھیا اور جسے نہ شہباز روک پائے گا نہ عمران 

حالات اس قدر سنگین ہو سکتے ہیں کہ شاید کھانے پینے کی بھی بہت سی اشیاء آپ کی دسترس سے باہر ہو جائیں لہذا چند ضروری اقدامات کر لیں شاید آپ کم متاثر ہوں

اپنے تمام غیر ضروری(جن کے بغیر گزارہ ممکن ہے) اخراجات ترک کر دیں،اور اپنی آمدن کا 5،10 یا 20 فیصد ضرور بچائیں اور کوشش کریں کہ اس سے کوئی ایسی چیز خرید کے رکھ لیں جس کی قیمت یا ڈیمانڈ کم ہونے کے کوئی چانسز نہ ہوں مثلا(سونا وغیرہ) تاکہ مشکل وقت میں وہ آپ کے کام آ سکے

غیر ضروری سفر و سیاحت،باہر کے کھانوں،کپڑوں اور اپلائنسز کی خریداری موخر کر دیں

موبائل اور انٹرنیٹ کے پیکجز آدھے کر دیں

اپنے گھروں میں جس قدر ممکن ہو سبزیاں اگانا اور مرغیاں پالنا شروع کریں اور جن کے پاس وافر جگہ ہے وہ دودھ دینے والا کم از کم ایک جانور ضرور رکھیں

نوجوان ٹک ٹوک یا دیگر سوشل ایپس پے وقت ضائع کرنے کے بجائے آن لائن بزنس سکلز سیکھیں اور انٹرنیشنل کمپنیوں(ایمازون،ای بے) وغیرہ پے فی الفور کام شروع کر کے آمدنی بڑھائیں

صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں اور قرب و جوار میں موجود بے آسراء لوگوں کا خیال رکھیں

جتنا ممکن ہو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دیں

تاجر حضرات اپنے دل نرم کریں اور غرباء و مساکین کو ہر ممکن رعایت دیں

چیزوں کی شارٹیج پے panic نہ ہوں اور پاگلوں کی طرح لپک نہ پڑیں بلکہ اطمینان سے رہیں اور حقداروں کو لینے دیں

اور آخر میں اللہ کی طرف رجوع(توبہ) کریں اور جو بھی میسر ہے اس پے اس کا شکر اداء کریں کیونکہ اس کا وعدہ ہے "لان شكرتم لازيدنكم" اگر تم شکر بجا لاو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہنگائی کے طوفان میں

 : مہنگائی کے اس طوفان میں


 اجتماعی طور پر رویوں کو 


بدلنا ہوگا



از قلم مفتی علی اصغر 

3 ذی قعدہ شب 1443

2 جون 2022


ایک ہفتے میں پیٹرول کا دو بار مہنگا ہو کر 60 روپے کا اضافہ ہو کر200 سے اوپر فی لیٹر چلا جانا، گھی پر 100 روپے لیٹر سے زیادہ اضافہ چاول پر بھی فی کلو 50 روپے اضافے کی اطلاع ہے

نا جانے کیا کیا چیز مہنگی ہونی ہے ۔لیکن ایک متوسط آدمی کی تنخواہ وہی 25 سے 50 ہزار کے درمیان ہے 

اس ہوش ربا مہنگائی کا مقابلہ آپ صرف اور صرف لائف اسٹائل بدل کر ہی کر سکتے ہیں۔بچت کرنا اور اسراف سے بچنا واحد حل ہے ۔

لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ جس کی تنخواہ ضروری امور میں ہی پوری نہیں ہو رہی وہ اسراف کا تو سوچتا بھی نہیں ہے ۔اس کا حل یہ ہے کہ ہماری پوری سوسائٹی کو بدلنا ہوگا۔ ٹھیک ہے ہم نے بیرون ملک سے اشیائے پر تعیش پر تو پابندی لگا دی ہے لیکن کیا ٹی وی اور فلموں میں پر تعیش زندگی دکھانے پر بھی کوئی پابندی لگائی ہے کسی نے ؟

ہم نے اس میڈیا نحوست کے ذریعے نہ جانے کس کس چیز کو اپنے رہن سہن کا حصہ بنا لیا ہے آپ کے ذہن میں یہ بات کس نے ڈالی ہے کہ خوب کھانے کے بعد بوتل بھی پینا ہےاور ایک بوتل میں تقریبا 7 چمچ چینی شامل ہوتی ہے یہ بات ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات میں تھوڑی بتائی جاتی ہے وہاں تو ایک کلچر کی ترغیب ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ کولڈ ڈرنک ہمارے ثقافت میں تو کہیں بھی نہیں تھی یہ کہاں سےآیا ہے میڈیا سے آیا ہےٹی وی اشہارات سے آیا ہے 

اور بھی نا جانے کیا کیا چیزیں ہیں جو بیان کی جا سکتی ہیں 

 اگر ہمیں معاشرے کو بدلنا ہے تو خود کو بدلنا ہوگا اور ہمیں باہمی تعاون سے اضافی اخراجات کم کرنا ہوں گے مثلا 

شادی بیاہ کے اخراجات

جہیز پر بے جا خرچہ اور مطالبہ 

مہمان داری کے تکلفات

بے جا سفر 

اور دیگر ان چیزوں سے بچنا ہوگا جہاں سے پیسہ بے جا خرچ ہوتا ہو 

رشتہ دار مٹھائی کا ڈبا نا لائے تو منہ بن جاتا ہے اب پانچ سو ہزار کی وہ مٹھائی لائے 2 ہزار ٹیکسی میں دے کیا ہم اس کا خرچہ بچانے میں رسومات ختم کر کے تعاون نہیں کر سکتے ؟

بڑا دل ،خندہ پیشانی اور ایک دوسرے کی تکلیف سمجھ کر احساس کر کے جینا سیکھیں 

جائز بات پر طعن نہیں بنتا لیکن قومی مشکلات پر امیر لوگوں کو بھی اپنی عادات و اطوار بدلنا چاہیے۔ایک طرف گلی گلی میں ہوٹل و ریسٹونیٹ پر مرغ مسلم کھائے جا رہے ہوں دوسری طرف غریب آدمی کے گھر میں آٹے کے پیسے بھی نا ہو تو معاشرے میں کتنا عدم توازن پیدا ہوگا 

غرباء کے لئے اگرچہ کہ بہت سارے ہسپتال سہولیات دیتے ہیں لیکن اب فوڈ بینک بڑھانے کی حاجت ہے اور مزدور اور کم تنخواہ داروں کے لئے کاش کوئی ادارہ ایسا کارڈ جاری کرے کہ جس سے کم تنخواہ پر نوکری اور کام پر جانے والوں کا کرایہ ادا ہو سکے بے شک انکوائری کے ذریعے ہو اور قید ہو کہ اس گاڑی میں اس کارڈ ہولڈر کے علاوہ دیگر لوگ نہیں بیٹھیں گے 

دیگر ملکوں میں لیبر کو اے سی گاڑی میں لانا چھورنا کمپنی کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن یہاں ایک مزدور روز ٹھیک ٹھاک سفر کر کے بسوں میں مرغا بن کر سفر کرتا ہے دبئی میں عرب شریف میں میں نے دیکھا ہے کہ کمپنی لیبر کو گاڑی دینے کی پابند ہوتی ہے 

ہمارے یہاں بھی ایسا ہو سکتا ہے بہت ساری جگہوں پر ایسا ہوتا بھی ہے اگر کمپنی چھوٹی ہے تو کئی کمپنیاں مل کر لیبر کو ٹرانسپورٹ دے سکتی ہیں 

موٹر سائیکل کلچر بڑے شہروں کے لئے سب سے بڑی مصیبت ہے 

اگر اندرون شہر بہتر سفری سہولت ہو تو کوئی بھی موٹر سائیکل پر آنا جانا نہ کرے ۔ترکیہ کے شہر استنبول میں میں نے دیکھا کہ 4 طرح سفری سہولیات دستیاب ہیں 

ٹرام 

میٹرو بس

زیر زمین میٹرو ٹرین 

سمندری سفر کے لئے فیری

ایک آدمی کو جو سہولت ہو وہ سستی ٹرانسپورٹ پکڑ لیتا ہے 

موٹر سائیکل کلچر یا ذاتی گاڑی پر آنے جانے کے درج ذیل نقصانات معاشرے کو پہنچ رہے ہیں 

1۔۔پیٹرول زیادہ خرچ ہو رہا ہے بائیک پر جانے والے کو اچھی ٹرانسپورٹ ملے تو وہ کیوں بائیک گھسیٹے گا ۔ذاتی گاڑی پر جانے والا تنہا کار میں جا رہا ہوتا ہے اچھی ٹرانسپورٹ ملے تو یہ کیوں اتنا خرچہ کرے گا۔

2۔۔کراچی ہو یا لاہور بلکہ ان دونوں شہروں سے زیادہ ٹریفک جام کا مسئلہ میں نے پشاور اور کوئٹہ میں دیکھا ہے جب ہر بندہ ذاتی گاڑی اور بائیک پر آئے گا تو پارک بھی پھر روڑ پر کرتا ہے جو کہ ٹریفک جام کا بڑا سبب ہے 

3۔۔بائیک پر ایکسیڈنٹ کا تناسب سب سے زیادہ ہے پھر موسم کا اپ ڈاون الگ مسئلہ پیدا کرتا ہے دھواں اور فضائی آلودگی الگ نقصان پہنچاتی ہے ۔ایکسیڈنٹ کا ریشو کیا ہے کوئی شخص جناح ہسپتال کے دماغ کی ایمرجنسی کے گیٹ پر جا کر دیکھ لے کہ روز کتنے درجن ایکسیڈنٹ صرف بائیک کے ہو رہے ہوتے ہیں 

4۔۔۔۔ترکیہ یعنی ترکی کے لوگوں کی اوسط عمر 90 سال ہے میں نے اپنے 2021 کے سفر میں وہاں کے 12 شہروں کا سفر کیا میں نے ایک مسجد میں بھی وہاں کرسی نہیں دیکھی بوڑھے لوگ بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں ۔جہاں اس کی ایک بنیادی وجہ وہاں کا پر فضا موسم یا مورثی اسباب ہو سکتے ہیں وہیں لائف اسٹائل بھی ایک اہم عنصر ہے کیوں کہ ایک بندے کو بس میں یا پبلک ٹرانسپورٹ پر جانا ہے تو تھوڑا سا وہ گاڑی پکڑنے کے لئے چلتا ہے اور تھوڑا سا اتر کر چلتا ہے یوں ایک روٹین کی واک ہو جاتی ہے

خلاصہ کی طرف آتے ہیں

: خلاصہ یہ ہے کہ مشکلات تو بظاہر کم ہونے کا نام نہیں لیں گی لیکن ہمیں مشکلات کاانفرادی اور اجمتاعی حل کیسے نکالنا ہے حل نکالتے ہوئے زندگی گزارنا ہوگی محض مایوس ہونا مسائل کا حل نہیں ہوتا بلکہ متبادل کیا ہوگا یہ اہم چیز ہے ۔

یہ بھی ایک بد قسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں مہنگائی ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ حکومتیں جو قرضہ لیتی ہیں ان کا سود کہاں سے ادا ہوگا اس کے لئے قرضہ دینے والے عالمی ادارے منہگائی کہ شرط مقرر کرواتے ہیں تا کہ ان کا پیسہ بمع سود انہیں واپس مل سکے۔

اللہ پاک سود کی نحوست سے بھی ہمیں نجات عطا فرمائے

اپنے فائدے کے لیے دوسرون کو موت فروخت نہ کریں

 اپنے فائدے کیلئے دوسروں کو موت نہ فروخت نہ کریں ....

ایک مسالہ ہے کیلشیم کاربائیڈ CaC2 جسے بازار میں موجود اکثریت آموں کو لگا کر آموں کا رنگ بدلا گیا ہوتا ہے۔ یہ ایک زہر ہے جو پوری دنیا میں پھلوں کو لگا کر پکانا ممنوع ہے۔ اسکا ایک استعمال آپکو بتاتا ہوں۔ گیس ویلڈنگ دیکھی ہے؟ جو لوہے کی بڑی سی ٹینکی ہوتی اس میں ایک مسالہ ڈال کر آگ پیدا کی جاتی جس سے ویلڈنگ کی جاتی ہے۔ وہ مسالہ یہی کیلشیم کاربائیڈ ہوتا ہے۔ یہ آتش گیر مادہ ہے جسے فیکٹریوں میں استعمال کیا جاتا۔ آموں کی پیٹی میں اسکی تھوڑی سی مقدار اتنی حرارت پیدا کر دیتی کہ آموں کا رنگ بدل جاتا اندر تک گل سڑ جاتے آم۔ اور یہ زہر آموں میں بھی سرائیت کر جاتا ہے۔ 


 اسکا استعمال پاکستان میں بھی ممنوع ہے مگر یہاں قانون صرف طاقتوروں کے گھر کی باندی ہے۔ اسکے ساتھ ایک تو آم کی قدرتی خوشبو بدل جاتی۔ دوسرا کیلشیم کاربائیڈ سے پکے آم فوری تو منہ میں تیزابیت پیدا کرتے۔ گلا پکڑا جاتا جلے میں جلن سی ہوتی ہے، خوراک کی نالی میں زخم ہوجاتے اور لانگ ٹرم نقصانات میں معدے کے السر انتڑیوں کے زہر، اسکن پرابلمز اور کینسر، گردے فیل ہونا جیسی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ 


دوسری طریقہ ہے ایک گیس کا استعمال۔ جس کا نام ہے ethylene ایتھائلین C2H2 ہے۔ یہ گیس آموں کے اپنے اندر بھی ہوتی ہے۔ جس سے خود ہی آم پک جاتے ہیں۔ اسے پنجاب فوڈ اتھارٹی سمیت پوری دنیا پھل پکانے کے استعمال میں ریکمنڈ کرتی ہے۔ ایک بند چیمبر میں آم پھیلا کر ایتھائلین گیس چھوڑ دی جاتی ہے۔ اس سے پکے آم رنگ تو بہت زیادہ پیلا نہیں کرتے۔ مگر ان کا ذائقہ بلکل قدرتی اور کمال ہوتا ہے۔ دوسرا صحت کے لیے اسکا کوئی بھی نقصان نہیں، 


پاکستان میں زیادہ تر آم کیلشیم کاربائیڈ سے ہی پکائے جاتے ہیں ۔

امداد نہیں کوڑے

 . امداد نہیں کوڑے 


          انڈونیشیا نے سال دوہزار انیس میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا کرومائیٹ اور Chromite ore برآمد کیا. "کرومائیٹ اور" سٹین لیس سٹیل بنانے کا خام مال ہوتا ہے. تب انہوں نے سوچا کہ بے حد سستا کرومائیٹ اور بیچنے انتہائی غلط کام ہے ہمیں سٹین لیس سٹیل بنا کر بیچنا چاہیئے. 

   

      ورلڈ اکنامک فورم کے ایک اجلاس میں انڈونیشیا کے وزیر تجارت نے بتایا کہ انہوں نے *کرومائیٹ اور" کی برآمد پر پابندی لگا دی اور پابندی لگانے کے بعد صرف اگلے سال دس ارب ڈالر کا سٹین لیس سٹیل برآمد کیا. اس سے اگلے سال اکیس ارب ڈالر کا سٹین لیس سٹیل. ان کا کہنا ہے کہ کہ صرف تین سال میں وہ دنیا کے دوسرے بڑے سٹین لیس سٹیل کے برآمد کنندہ بن گئے ہیں ان کی کل برآمدات کا دس فیصد صرف سٹیل ہوتا ہے. 


    آپ کو مزے کی بات بتاؤں. ان کا "کرومائیٹ اور" چھیالیس فیصد کا ہے. جبکہ مسلم باغ بلوچستان میں پایا جانے والا کرومائیٹ پچپن سے ساٹھ فیصد کروم آکسائیڈ کا حامل. ہے اور ہم دہائیوں سے سر جھکائے اسے کوڑیوں کے مول جاپان اور چین کو برآمد کررہے ہیں پھر ان سے انتہائی مہنگے داموں سٹین لیس سٹیل درآمد کرتے ہیں. 


   صرف کرومائیٹ ہی نہیں، "کاپراور" ، "زنک اور" ، فاسفیٹ روک، روٹائیل، باکسائیٹ ،میگناسئیٹ اور نہ جانے کیا کیا… ہم. سب کچھ، ساری قومی دولت کوڑیوں کے بھاؤ لٹا رہے ہیں. کوئی سننے دیکھنے اور سوچنے پر آمادہ نہیں. پھر اسی کفران نعمت کا عذاب ہے جو وزیراعظم صاحب کہتے پھرتے ہیں کہ ہم نے ان سے کہا ہم بھکاری نہیں بس حالات خراب ہیں اللہ کے نام پر ہماری مدد کرو.


      بخدا ایسے زبردست وسائل کے حامل ملک کے کرتا دھرتا در در بھیک مانگیں تو انہیں کوڑے مارنے چاہیئں اور انہیں بھی جو طاقت پر قابض ہوکر کسی کو کچھ کرنے نہیں دیتے. 


         اللہ کے بندو.. ابھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا.. اللہ کی عطا کردہ بے پایاں نعمتوں کا ضیاع بند کرو.. سمت درست کرو علم ہنر عام کرو . فیکٹریاں لگانے کے لیے ماحول سازگار کرو.. خود بھی بھیک مانگنے کی ذلت سے بچو اور ملک کو بھی خوش حال ہونے دو . 


تحریر از قلم استاد محترم

                     ( ابن فاضل )

#ابن_فاضل

#Ibn_e_fazil

جمعہ، 3 جون، 2022

مہنگائی کے سونامی کا مقابلہ کیسے کریں؟

 پٹرول کی قیمتوں پے بحث و تکرار ختم ہو گئی ہو تو زرا اس آنے والے طوفان کی تیاری کیجیے جس سے نہ تو پٹواری بچے گا نہ یوتھیا اور جسے نہ شہباز روک پائے گا نہ عمران 

حالات اس قدر سنگین ہو سکتے ہیں کہ شاید کھانے پینے کی بھی بہت سی اشیاء آپ کی دسترس سے باہر ہو جائیں لہذا چند ضروری اقدامات کر لیں شاید آپ کم متاثر ہوں

اپنے تمام غیر ضروری(جن کے بغیر گزارہ ممکن ہے) اخراجات ترک کر دیں،اور اپنی آمدن کا 5،10 یا 20 فیصد ضرور بچائیں اور کوشش کریں کہ اس سے کوئی ایسی چیز خرید کے رکھ لیں جس کی قیمت یا ڈیمانڈ کم ہونے کے کوئی چانسز نہ ہوں مثلا(سونا وغیرہ) تاکہ مشکل وقت میں وہ آپ کے کام آ سکے

غیر ضروری سفر و سیاحت،باہر کے کھانوں،کپڑوں اور اپلائنسز کی خریداری موخر کر دیں

موبائل اور انٹرنیٹ کے پیکجز آدھے کر دیں

اپنے گھروں میں جس قدر ممکن ہو سبزیاں اگانا اور مرغیاں پالنا شروع کریں اور جن کے پاس وافر جگہ ہے وہ دودھ دینے والا کم از کم ایک جانور ضرور رکھیں

نوجوان ٹک ٹوک یا دیگر سوشل ایپس پے وقت ضائع کرنے کے بجائے آن لائن بزنس سکلز سیکھیں اور انٹرنیشنل کمپنیوں(ایمازون،ای بے) وغیرہ پے فی الفور کام شروع کر کے آمدنی بڑھائیں

صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں اور قرب و جوار میں موجود بے آسراء لوگوں کا خیال رکھیں

جتنا ممکن ہو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دیں

تاجر حضرات اپنے دل نرم کریں اور غرباء و مساکین کو ہر ممکن رعایت دیں

چیزوں کی شارٹیج پے panic نہ ہوں اور پاگلوں کی طرح لپک نہ پڑیں بلکہ اطمینان سے رہیں اور حقداروں کو لینے دیں

اور آخر میں اللہ کی طرف رجوع(توبہ) کریں اور جو بھی میسر ہے اس پے اس کا شکر اداء کریں کیونکہ اس کا وعدہ ہے "لان شكرتم لازيدنكم" اگر تم شکر بجا لاو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔