جمعرات، 14 جولائی، 2022

ترقی کی ماں

 ترقی کی ماں !

نعیم مسعود

10 جولائی ، 2022




زندہ ہوتی تو پنجابی میں کہتی ’’پتر ایویں ’جھل کداندا‘ پھرنا اے !‘‘ لیکن ہمیں بھی معلوم ہے، ممتا کے سامنے مروجہ اصولوں اور معروف فارمولوں کی کیا وقعت ہے، اس کا پنجابی میں کہنے کا اردو مطلب ہوتا کہ، ان آوارہ گردیوں میں کیا رکھا ہے گر تحقیق نہیں؟ مگر اس کا کہنا شیریں بیانیوں کا وہ مُرغ و مُتَنجَن ہوتا ہے کہ بس رہنے ہی دیجئے۔ یار ! یہ ہر ماں ترقی ہی کی ماں کیوں بن جاتی ہے؟


گود سے گور تک کا سبق بھی تو وہی دیتی ہے کہ علمی دامن سے چپکے رہنا ہے، بناکر فقیروں کاہم بھیس غالبؔ ... تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں، تو شکایتیں کیسی ؟ جب راقم یہ کہتا ہے کہ امریکہ کو عذابِ الٰہی کے علاوہ کوئی شکست نہیں دے سکتا، تو رقیبوں سے ہم نوا کہتے ہیں چائنہ کم نہیں، روس یہ، روس وہ، جرمنی کی ٹیکنالوجی کی یہ بات اور جاپان کی کمٹمنٹ کی وہ بات۔ میں سنتا رہتا ہوں ، اور وہ امریکی آتش و آہن کے طریقوں اور سلیقوں کو وجہ کامیابی گردان کر مزید سیخ پا ہو جاتے ہیں، تو میں عرض کرتا ہوں ، لوگو! بات امریکی جنگوں اور بموں کی کہانیوں کی نہیں ہے، بات اس کی پانچ ہزار سے زیادہ ان دانش گاہوں کی ہے جہاں محققین قابلِ عمل تحقیق کو رواج اور قوت بخشتے ہیں۔ جب تک امریکہ کی ریسرچ بکتی ہے تب تک امریکہ کو نیست و نابود کرنا دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اور آپ کے ہاں بھی کوئی دیوانگی کے سپنوں سے ہٹ کر جو سائنس و ٹیکنالوجی کے خواب دیکھتے ہیں، امریکہ ان کو بھی بمعہ اہل و عیال ’’اغوا‘‘ کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ پھر آپ ماتم کرتے پھرتے ہوکہ برین ڈرین ہوگیا۔ ایف آئی آر کٹواتے پھرتے ہو کہ، فل برائٹ اسکالر شپ بھی امریکی سازش ہے۔ جب آپ جہاد بالقلم بھول جاؤ ، تحقیق کی ان روایات کو بالائے طاق رکھ دو جو کبھی بغداد کے کوچہ و بازار میں نو من تیل بھی رکھتی تھی اور رادھا کا ناچ بھی ، تو امریکہ سے شکایتیں کیسی ؟


جب آپ کا اپنا قرآن بارہا جہاد کی بات کرتا ہےتو کم از کم آپ کی اپنی جامعات جو آپ کی دانش گاہیں اور محققین کی کمین گاہیں ہیں، وہ عہد حاضر میں یہ فرمان کیوں نہیں سمجھتے کہ، سائنس و ٹیکنالوجی و انجینئرنگ ہی جہاد ہے، اور جہاد بالقلم بھی!


ریاست کے اندر کی ’’سب-اسٹیٹس‘‘، اسٹیٹ کی کامرس، اکنامکس، بائیو ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ ، فارماسیوٹکس اور معاشرتی علوم کو کتنا تیار یا خام مال ایکسپورٹ کرتی ہیں، اسی سے حساب لگ جاتا ہے کہ قوم کا تخیل، خواب، امید اور مفید کس ڈگر پر ہیں۔ کسی قوم کے دماغ خالی ہوں گے تو اس کی جامعات ایکسپورٹ کوالٹی کو رواج کیسے بخشیں گی، اگر جامعات ایکسپورٹ کوالٹی کے معیار اور اعتبار کو جنم اور رُخ نہیں دیں گی، تو کوئی اسٹیٹ سوشل انجینئرز اور سماجی سائنس دانوں کو اسٹیٹ مین کا درجہ کیسے دے گی؟ المعروف گلوبل ولیج ایک اکنامک وار پلیس ہے جہاں جنگ و جدل میں بھی مثبت نفسیات دودھ اور شہد کی نہریں بہاتی ہے، جہاں روشن خیالی بائیولوجیکل وار کے در و دیوار پر بھی ویکسین سازی کے پھول اور بیلیں چڑھاتی ہے، جہاں انسان دوست حرص و ہوس کی جنگ میں بھی جوہری توانائی سے زخم دینے کے بجائے کینسر کا علاج اور کوڑھ کی کاشت کا خاتمہ چاہتا ہے، اور یہ سب جنگل کے سوداگر ملکوں میں ملتا ہے مگر کوئی تو ہو جو ہماری وحشتوں کا ساتھی ہو اور امن کے پیامبروں اور بناؤ کے پیغمبروں کی امت میں سے اٹھ کر جہاد بالقلم کی بات کرے اور نوبل پرائز کے حصول پر نظر رکھے کہ ہم آزادی کشمیر کے پلیٹ فارم پر آن بان اور شان سے کہہ سکیں کہ، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اور ہمارے کہنے کا وزن ہو۔


دو تین ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچا رہاہے، کبھی گارنٹی مانگی جاتی ہے اور کبھی فیٹف سے نکلنے کی تصدیق، اور یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یونیورسٹیاں ریاست کو معیاری جینا مرنا مہیا نہیں کر رہیں اور ریاست یونیورسٹیوں کو لیڈرشپ کے بجائے ’’فیڈرشپ‘‘ دینے کے درپے ہے۔ نہ ایچ ای سی کا چیرمین بغیر سفارش ملتا ہے نہ کوئی شیخ الجامعہ ہم میرٹ پر لانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ پھر کوڑھ کی کاشت نہ ہو، تو کیا ہو؟ پھر جمہوریت کے پھولوں کے بجائے آمریت کے کانٹے نہ ہوں تو کیا ہو؟ لیڈر اسٹیٹس مین کی جگہ حرص و ہوس کا پجاری نہ ہو تو کیا ہو؟


ورنہ ماں ، جو یونیورسل ترقی کی ماں ہے، وہ جو دولت ہم قرض اور مدد کی مد میں مانگتے پھرتے ہیں،ماں نے تو گود ہی میں کان میں پھونک دیا تھا کہ علم بڑی دولت ہے!


امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پلیجرزم کے کانٹوں کے بجائے تحقیق کی نکہتیں ، عرق آمیزے اور فارمولے بکتے ہیں، سو رب بھی عقل اور محنت کو زوال نہیں دیتا، اور رب قبول بھی نعروں کو نہیں ریاستوں کو کرتا ہے۔ ان باتوں کا اظہار جب پچھلے دنوں یونیورسٹی آف پونچھ، راولا کوٹ، آزاد جموں و کشمیر میں کرنا پڑگیا تو حاضرین میں سے جواں ہمت محققین کے چہروں سے وہ پرامید کرنیں پھوٹیں جو ایکوسسٹم کیلئے ضیائی تالیف کا باعث بنتی ہیں۔ ان آفتاب و ماہتاب کے اندر کی تڑپ کی گواہی پرعزم اور متحرک قوتوں کے مالک وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر بھی دیں گے، جو لاہور میں کو تو اسلاموفوبیا کے توڑ اور اوکاڑہ میں ہوں تو تعمیرسازی کے جوڑ میں فکر مند رہتے ہیں، توقع ہے پونچھ کی فضاؤں اور راولاکوٹ کوٹ کی ہواؤں کو لیڈرشپ کی شعاعوں سے منور اور معطر کریں گے ورنہ ہم نے ایسی لیڈر شپ بھی دیکھ رکھی ہے جو اربوں روپے عمارت سازی پر لگا دیتی ہے مگر پی ایچ ڈی کرانے والی کیمسٹری لیب میں سال بھر پانی نہیں ملتا۔ کاش وہ عمارت سازی کے کمیشن کے بجائے تعمیر سازی کی انٹرپرنیورشپ سے کمیشن کی توقع رکھتے!


تحقیق اور محقق کے مابین عشق جبکہ سیاستدان اور جمہوریت کے مابین الفت کا رشتہ کہتا ہے کہ، وہ ماں کبھی نہیں مرتی جو پلنے کیلئے گود اور کھِلنے کیلئے دھرتی مہیا کرتی ہے۔ وہ قدموں تلے جنت رکھنے والی ماں ہو یا ریاست کی شکل میں وسیع اور پاکدامنی والی۔ اگر بلاولوں اور مریموں نے یہ سبق سیکھ لیا تو ہم آبِ حَیات کے کنارے کنارے آباد بصورتِ دیگر ہم بھکاری اور بیماری۔ سبسڈی پر قوم کو کھڑا کرنا معیار نہیں ویلفیئر اسٹیٹ کے طور پر پاؤں جمانا معیار ہے، اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے نہیں اسٹیٹ کی منشا پر چلانا معیار ہے۔ ماں ’جھل کدانے‘ کے طنز میں دراصل پاؤں جمانے کی بات کرتی تھی، ماں تو نام ہی ترقی کی نشاندہی کا ہے، تبھی تو ہم کبھی کشمیر تو کبھی پنجاب کی دانش گاہوں سے خیر مانگتے ہیں تو کبھی سندھ، کے پی اور بلوچستان کی درس گاہوں سے!

لمبے عرصہ تک جوان رہنا چاہتے ہیں تو توجہ دیجئے

 ٹاپ لابسٹر

جاوید چوهدری




لابسٹر (Lobster) سمندر میں ہوتے ہیں اور ہم انسان انھیں بڑی رغبت سے کھاتے ہیں، ہم اور لابسٹر دونوں مکمل طور پر مختلف مخلوق ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دونوں میں ایک چیز کامن ہے اور وہ ہے سیروٹونین (Serotonin) اور آکٹوپامن (Octopamin) کیمیکل کا کمبی نیشن، ہم انسانوں اور لابسٹر کی ترقی اور تنزلی کا سسٹم ایک ہی ہے، ہم دونوں ایک ہی طرح زندگی میں آگے بڑھتے اور کام یاب ہوتے ہیں، یہ سسٹم کیا ہے؟


ہم اسے ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھ سکتے ہیں، آپ مختلف قسم کے لابسٹرز کو پکڑیں اور کسی ڈرم میں پھینک دیں، لابسٹر فوری طور پر ڈرم کے مختلف کونوں میں گردش کریں گے اور پھر چند لمحوں میں ڈرم کو اچھے اور برے دو حصوں میں تقسیم کر دیں گے اور پھر اچھی جگہ کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیں گے، ان کی لڑائیاں چاراسٹیجز میں ہوں گی، سب سے پہلے بڑے سائز کا لابسٹر اس اچھی جگہ پر قابض ہو جائے گا، ڈرم میں اگر اس وقت صرف ایک لابسٹربڑا اور باقی سائز میں چھوٹے ہوں گے تو چھوٹے بڑے کے حق کو تسلیم کر لیں گے اور یوں یہ معاملہ پہلی اسٹیج پر نبٹ جائے گا لیکن اگر ڈرم میں دو یا دو سے زائد برابر سائز کے لابسٹر ہوں گے تو پھر لڑائی کا دوسرا فیز شروع ہو جائے گا، یہ آمنے سامنے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کر دیں گے۔



 

اس فیز میں اگر کوئی ایک لابسٹر جیت گیا اور دوسرے یا دوسروں نے سائز میں برابر ہونے کے باوجود اپنی ہار مان لی تو معاملہ یہاں بھی نبٹ جائے گا اور اس ڈرم میں سب اطمینان اور شانتی کے ساتھ زندگی گزارنے لگیں گے لیکن اگر ڈرانے اور دھمکانے کے بعد بھی جنگ کا فیصلہ نہیں ہوتا تو پھر جھڑپیں شروع ہو جائیں گے، بڑے سائز کے لابسٹر ایک دوسرے کے خلاف چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کر دیں گے، یہ جنگ اگر یہاں سیٹل ہو گئی تو ٹھیک ورنہ بہترین جگہ کے حصول کی لڑائی چوتھے اور آخری فیز میں داخل ہو جائے گی، فریقین کے درمیان خوف ناک لڑائی ہو گی اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کوئی ایک اپنی شکست نہیں مانتا یا کوئی ایک مر نہیں جاتا۔


اگر ایک فریق شکست مان لے تو ڈرم کی بہترین جگہ جیتنے والے کے قبضے میں چلی جائے گی اور یوں ڈرم میں امن ہو جائے گا اور جیتنے والا ڈرم کے تمام باسیوں کا سردار بن جائے گا اور ہارنے والے اس کی رعایا، یہ آخری جنگ سیٹل ہونے کے بعد ڈرم کی فضا میں ایک نئی تبدیلی آ جائے گی، کام یاب لابسٹر کا سائز مزید بڑا ہو نے لگے گا اور یہ پہلے سے زیادہ خوب صورت ہو جائے گا اور تمام فی میل لابسٹرز اس کام یاب لابسٹر کی طرف متوجہ ہو جائیں گی اور وہ مضبوط، خوب صورت اور سائز میں بڑے لابسٹر پیدا کریں گی، یہ کام یاب لابسٹرحیاتیات کی زبان میں ٹاپ لابسٹر کہلاتا ہے۔


ماہرین طویل مدت سے ریسرچ کر رہے تھے لابسٹر ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے کیوں ہیں؟ جیتنے والے لابسٹر جیت کے بعد مزید بڑے اور خوب صورت کیوں ہو جاتے ہیں اور ہارنے والوں کا سائز کیوں چھوٹا رہ جاتا ہے اور یہ بدصورت اور بے ہمت کیوں ہو جاتے ہیں؟ طویل ریسرچ کے بعد پتا چلا یہ دو کیمیکلز سیروٹونین اور آکٹوپامن کا کھیل ہے، لابسٹر جوں جوں جیتتا جاتا ہے اس کے جسم میں سیروٹونین کیمیکل کی مقدار بڑھتی اور آکٹوپامن کی کم ہوتی جاتی ہے اور یہ جب حریفوں کو مکمل طور پر شکست دے دیتا ہے تو سیروٹونین انتہائی بلندی اور آکٹوپامن انتہائی پستی کو چھو رہا ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کے سائز اور کشش دونوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔



 

یہ ٹاپ لابسٹر بن جاتا ہے جب کہ باقی لابسٹر اس سے کم تر، چھوٹے اور بدصورت ہونے لگتے ہیں اور یہ باقی زندگی اس سے لڑنے یا الجھنے کی غلطی نہیں کرتے، ہم انسانوں میں بھی ترقی اور تنزلی، بہادری اور بزدلی اور خوب صورتی اور بدصورتی کا یہی کمبی نیشن ہوتا ہے، ہم بھی انھی دونوں کیمیکلز کا کھیل ہیں، ہم جب زندگی میں کام یاب ہونے لگتے ہیں تو ہمارا سیروٹونین بھی بڑھنے لگتا ہے اور آکٹوپامن کی سطح نیچے آنے لگتی ہے، ہم جوں جوں آگے بڑھتے جاتے ہیں ہمارا سیروٹونین اوپر جاتا جاتا ہے اور آکٹوپامن نیچے سے نیچے ہوتا جاتا ہے جب کہ ناکامی کی صورت میں سیروٹونین کا لیول پست ہوتا جاتا ہے اور آکٹوپامن کی سطح بڑھتی جاتی ہے لہٰذا ناکام لوگ پست ہمتی، بے بسی، خودترسی اور مظلومیت کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں۔


سیلف ہیلپ کی دنیا میں طویل عرصے سے یہ بحث چل رہی تھی امیر اور کام یاب آدمی کی دولت، صحت، عمر، انرجی، خوب صورتی اور چارم میں کیوں اضافہ ہو جاتا ہے اور غریب آدمی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیوں مزید غریب، بیمار، بد صورت اور چارم لیس ہوتا جاتا ہے، لابسٹر پر ریسرچ کے بعد پتا چلا اس کے ذمے دار سیروٹونین اور آکٹوپامن کیمیکلز ہیں، ان کی شرح غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بناتی چلی جاتی ہے، ہماری دولت اور کام یابی میں جوں ہی اضافہ ہوتا ہے ہماری شخصیت میں چارم بھی پیدا ہو جاتا ہے، ہم خوب صورت بھی ہو جاتے ہیں اورہماری عمر بھی لمبی ہو جاتی ہے جب کہ غریب آدمی میں یہ سائیکل الٹا ہوتا ہے، یہ جوں جوں ناکام ہوتا جاتا ہے اس کا آکٹوپامن لیول اوپر جاتا جاتا ہے اور یوں یہ غربت کے ساتھ ساتھ بیمار بھی ہوتا جاتا ہے، اس کا قد اور وزن بھی کم ہوتا جاتا ہے اور یہ چارم لیس بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔



 

یہ تھیوری جوں ہی آئی یہ گتھی بھی سلجھ گئی کام یاب آدمی مزید کام یاب، امیر آدمی مزید امیر، اچھا اسپورٹس مین مزید اچھا اسپورٹس مین، مشہور لکھاری مزید مشہور لکھاری، کامیاب ایکٹر مزید کام یاب ایکٹر، کام یاب سیاست دان مزید کام یاب سیاست دان اور کام یاب سائنس دان مزید کام یاب سائنس دان کیسے بن جاتے ہیں؟ یہ بھی معلوم ہو گیا ایڈی سن نے صرف 84 سال کی زندگی میں 1093 ایجادات کیسے کر لی تھیں، دنیا کے تین ہزار بلینئر کورونا کے زمانے میں مزید امیر کیسے ہو گئے، شاہ رخ خان اورسلمان خان اسٹار سے سپر اسٹار کیسے بن گئے اور برین ٹریسی کی تخلیق اور ریسرچ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ کیسے ہوتا گیا اور دنیا کے کام یاب لوگ ستر اسی سال کی عمر میں نئی شادی کیوں اور کیسے کر لیتے ہیں اور ان پر نوجوان لڑکیاں کیوں مرنے لگتی ہیں اور ان لوگوں کی اوسط عمر نوے سال کیوں ہوتی ہے؟


یہ سب سیروٹونین کا کمال ہے، یہ کام یاب لوگوں کے جسم کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید سے مزید ککس دیتا جاتا ہے اور یہ آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں، یہ نکھرتے چلے جاتے ہیں، پاکستان میں سید بابر علی، عمران خان، طلعت حسین، مستنصر حسین تارڑ، عطاء الحق قاسمی اور پروفیسر احمد رفیق اس کی مثال ہیں، یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ جوان، متحرک، چارم فل، بزلہ سنج اور بہادرہوتے جا رہے ہیں، طلعت حسین صحافی ہیں، یہ پانچ سال سے مشکل دور سے بھی گزر رہے ہیں لیکن یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ فٹ، خوب صورت اور بہادر ہوتے جا رہے ہیں، پروفیسر احمد رفیق نوے سال کو ٹچ کر رہے ہیں لیکن یہ آج بھی پندرہ پندرہ گھنٹے بولتے اور درجنوں لوگوں سے روزانہ ملتے ہیں اور ہم عمران خان اور میاں شہباز شریف کی سیاسی زندگی سے بھی لاکھ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ لوگ جسمانی لحاظ سے انتہائی فٹ بھی ہیں اور یہ ایک بار پھر اپنی "سیاسی سپیس" بھی پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں، یہ کیوں اور کیسے ہو رہا ہے؟ بس دو کیمیکلز۔


ہم اب آتے ہیں، اس سوال کی طرف، کیا عام انسان اپنا سیروٹونین لیول بڑھا اورآکٹوپامن کم کر سکتا ہے؟ سو فیصد کر سکتا ہے، ہمیں پہلے یہ بات ذہن نشین کرنی ہو گی یہ دونوں کیمیکلز کام یابی سے متعلق ہیں، ہم جوں جوں کام یاب ہوتے جاتے ہیں ہمارا سیرٹونین لیول زیادہ اورآکٹوپامن کم ہوتا جاتا ہے جب کہ ہار اور شکست کی شکل میں یہ سائیکل الٹ ہو جاتا ہے لہٰذا ہمیں جان بوجھ کر، سوچ سمجھ کر اپنی کام یابیاں بڑھانا اور ناکامیاں کم کرنا ہوں گی مثلاً آپ چھوٹی چھوٹی کام یابیوں کی فہرست بنائیں، صبح جلدی اٹھنا، تیار ہو کر باہر نکلنا، کتابیں پڑھنا، واک اور ایکسرسائز، وقت کی پابندی، زیادہ سننا، کم بولنا، شکر بڑھانا اور شکوہ کم کرنا، ناراض گاہک کو راضی کرنا، دوسروں کی بدتمیزی برداشت کر لینا، صدقہ اور خیرات بڑھانا، دائیں جانب چلنا، دوسروں کو راستہ دینا، خواتین کا احترام کرنا اور لوگوں سے خوش دلی سے ملنا، یہ بظاہر چھوٹے چھوٹے کام ہیں لیکن یہ کام یابیاں ہیں۔


یہ آپ کا سیروٹونین لیول بڑھاتی ہیں اور یہ لیول بڑھتے بڑھتے آپ کو کام یاب لوگوں کی فہرست میں لے آتا ہے اور آپ جلد یا بدیر ٹاپ لابسٹر بن جاتے ہیں اور یوں آپ کے قد کاٹھ، خوب صورتی، عمر اور دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور آپ اگر یہ عادات نہیں اپناتے تو پھر آپ کا آکٹوپامن لیول بڑھتاچلا جائے گا اور اس کے نتیجے میں آپ کا قد، قامت، رنگ، اعتماد، صحت اور تعلقات ہر چیز دائو پر لگ جائے گی لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ روزانہ کم از کم دس بار چھوٹی چھوٹی کام یابیاں حاصل کرتے رہا کریں، ان شاء اللہ آپ کی زندگی بدل جائے گی۔

خیرات۔ بیماریوں سے نجات

 جان ڈی راک فیلر کبھی دنیا کے امیر ترین آدمی تھے۔ دنیا کا پہلا ارب پتی۔ 25 سال کی عمر میں، اس نے امریکہ کی سب سے بڑی آئل ریفائنریوں میں سے ایک کو کنٹرول کیا۔ 31 سال کی عمر میں، وہ دنیا کا سب سے بڑا تیل صاف کرنے والا بن گیا تھا۔ 38 سال کی عمر میں، اس نے امریکہ میں 90 فیصد تیل کو صاف کیا۔

 50 تک، وہ ملک کا سب سے امیر آدمی تھا۔ ایک نوجوان کے طور پر، ہر فیصلہ، رویہ، اور رشتہ اس کی ذاتی طاقت اور دولت پیدا کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا.


 لیکن 53 سال کی عمر میں وہ بیمار ہو گئے۔ اس کا پورا جسم درد سے لرز گیا اور اس کے سارے بال جھڑ گئے۔ مکمل اذیت میں، دنیا کا واحد ارب پتی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی خرید سکتا تھا، لیکن وہ صرف سوپ اور کریکر ہضم کر سکتا تھا۔ ایک ساتھی نے لکھا، وہ سو نہیں سکتا تھا، مسکرا نہیں سکتا تھا اور زندگی میں کوئی بھی چیز اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ اس کے ذاتی، انتہائی ماہر ڈاکٹروں نے پیش گوئی کی تھی کہ وہ ایک سال کے اندر مر جائے گا۔ وہ سال اذیت سے آہستہ آہستہ گزر گیا۔


 جب وہ موت کے قریب پہنچا تو وہ ایک صبح اس مبہم احساس کے ساتھ بیدار ہوا کہ وہ اپنی دولت میں سے کچھ بھی اپنے ساتھ اگلے جہان میں لے جانے کے قابل نہیں ہے۔ وہ آدمی جو کاروباری دنیا کو کنٹرول کر سکتا تھا، اچانک احساس ہوا کہ وہ اپنی زندگی کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس کے پاس ایک انتخاب رہ گیا تھا۔


 🌹اس نے اپنے اٹارنی، اکاؤنٹنٹ، اور مینیجرز کو بلایا اور اعلان کیا کہ وہ اپنے اثاثوں کو ہسپتالوں، تحقیق اور خیراتی کاموں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ 

 جان ڈی راک فیلر نے اپنی فاؤنڈیشن قائم کی۔ یہ نئی سمت بالآخر پینسلین کی دریافت کا باعث بنی، ملیریا، تپ دق اور خناق کا علاج۔


 🌹لیکن شاید راکفیلر کی کہانی کا سب سے حیرت انگیز حصہ یہ ہے کہ جس لمحے اس نے اپنی کمائی ہوئی تمام چیزوں کا ایک حصہ واپس دینا شروع کیا، اس کےجسم کی کیمسٹری میں اس قدر نمایاں تبدیلی آتی چلی گئی کہ وہ بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا۔ ایک وقت تھا کہ ایسا لگتا تھا وہ 53 سال کی عمر میں ہی مر جائے گا۔ لیکن وہ 98 سال کی عمر تک زندہ رہا۔ مال خیرات کرنے سے وہ تندرست ہو گیا۔ گویا یہ خیرات نام کی چیز بھی ایک طریق علاج ہے۔ اسے بھی آزما کر دیکھ لیجئے .


 اپنی موت سے پہلے، اس نے اپنی ڈائری میں لکھا، 

*"سپریم انرجی نے مجھے سکھایا، کہ سب کچھ اس کا ہے، اور میں اس کی خواہشات کی تعمیل کرنے کے لیے صرف ایک چینل ہوں۔* _

میری زندگی ایک طویل، خوشگوار چھٹی رہی؛ کام اور کھیل سے بھرپور۔

میں نے پریشانی کو راستے میں چھوڑ دیا اب میں تھا اور میرا خدا تھا_

 _میرے لیے ہر دن اچھا تھا۔"_

صالح دعا۔قبولیت یقینی

 دعا اگر صالح دعا ہوتو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ لیکن بڑی بڑی دعائیں ہمیشہ تاخیر کے ساتھ قبول ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال حضرت ابراہیم کی دعا ہے۔ حضرت ابراہیم نے تعمیر کعبہ کے وقت ایک آخری پیغمبر کے ظہور کی دعا کی تھی(البقرۃ، 2:129)۔یہ دعا قبول ہوئی۔ لیکن اس پیغمبر کا ظہور عملاً دعا کے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد پیش آیا۔تاریخ کے بڑے بڑے واقعات ہمیشہ اسی طرح لمبی مدت کے بعد ظہور میں آتے ہیں۔ بڑی بڑی دعاؤں کے لیے پوری تاریخ کو مینج کرنا پڑتا ہے۔ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، حالات کو اس کے مطابق بنانا پڑتا ہے۔ اس لیے قانونِ قدرت کےمطابق، کوئی بڑی دعاکبھی اس طرح قبول نہیں ہوتی کہ دعاکرنے والے نے دعا کیا۔ اور اس کے فوراً بعد اس کی قبولیت بھی سامنے آگئی۔

دعا کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ (2:186)۔ یعنی اور جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، پس ان کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر یقین کریں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

اس آیت میں بتایا گیاہے کہ خدا بندے کے قریب ہے۔ اور وہ بندے کی دعا کا جواب دیتا ہے۔ لیکن جواب کی صورت کیا ہوتی ہے، اس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں موجود نہیں۔ اجیب دعْوة الداع اذا دعان کے فورا بعد جو الفاظ آئے ہیں، وہ یہ ہیں:فلیستجیبو لی ولیؤ منوا بی لعلھم یرشدون۔یعنی ان کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر یقین کریں، اسی میں ان کی فلاح ہے۔

یہاں دعا کے بعد جواب دعا کا ذکر نہیں۔ یہ قرآن کا ایک خاص اسلوب ہے کہ اس میں کسی بات کے ایک پہلو کا ذکر ایک مقام پر ہوتا ہے، اور اُس کے دوسرے پہلو کا ذکر دوسرے مقام پر ۔ مثلاً قرآن میں قصہ آدم کے تحت یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے غلطی کرنے کے بعد جب توبہ کی، تو ان کی توبہ قبول ہوئی، اور دعا کے الفاظ بھی ان کو تلقین کیے گئے۔ مگر یہ دونوں بات ایک جگہ موجود نہیں۔ مثلاً سورہ البقرۃ آیت37 میں توبہ کا ذکر ہے۔ لیکن جہاں تک الفاظِ دعا کا تعلق ہے، وہ دوسرے مقام پر سورہ الاعراف آیت23 میں بتائے گیےہیں۔

یہی اسلوب قرآن کی مذکورہ آیت میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب ریح (یوسف،12:94) کی صورت میں ملتا ہے۔ ریح کے لفظی معنی خوشبو (fragrance) کے ہیں۔ یہاں ریح کا لفظ سادہ طور پر مہک کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اچھی خبر (good news)ہے۔ یہ حضرت یعقوب کو انسپریشن (inspiration)کی صورت میں آئی تھی۔ یعنی ان کو یہ انسپریشن آتا تھا کہ خدا ان کی دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا، بلکہ یوسف کو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے استعمال کرے گا۔ یوسف کے بھائیوں نے یوسف کواندھے کنوئیں میں ڈال دیا تھا، لیکن اللہ نے ان کو مخصوص انتظام کے تحت مصر کے تخت پر پہنچادیا۔

دعا کی یہ قبولیت ہر انسان کے لیے مقدر ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کی ایک شرط ہے۔ وہ شرط قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ (12:90)۔ یعنی جو شخص ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی یہ خصوصی نعمت اس انسان کو ملتی ہے، جو احسان کے درجے میں اس کا استحقاق ثابت کرے۔ یعنی ہمیشہ اللہ سے پر امید رہے، اور ہر حال میں وہ صابرانہ انتظار کی روش پر قائم رہے۔

(مطالعہ قرآن)

بیٹوں کی کامیاب اور بابرکت زندگی کے رہنما اصول

 *بیٹوں کی کامیاب اور بابرکت زندگی کے رہنما اصول .*



بیٹوں کی تربیت ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے۔ اکثر والدین اولاد کی سرکشی کی وجہ سے شدید دکھ اور تکلیف میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔


اس سلسلے میں *ابن القیم الجوزي رحمہ اللہ* کہتے ہیں:

*"بے شک گناہوں میں سے کچھ گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کفارہ انسان کو اولاد کی طرف سے ملنے والے غم کے سوا کچھ نہیں ہوتا! تو خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے بیٹوں کی تربیت کا اہتمام اس طریقے پر کرتا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالی کی پسند اور رضا کا ہے. اور خوشخبری ہے اس کے لیے جس کے لیے اولاد کی تربیت میں تکلیف اٹھانا اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ لہذا اگر تم اپنے بیٹوں میں کوئی ایسی بات دیکھو جو تمہیں ان کی تربیت کے معاملہ میں تھکا دیتی ہو تو اپنے رب سے اپنے گناہوں بخشش طلب کرو۔"*



*مقاتل بن سلیمان رحمہ اللہ، منصور عباسی خلیفہ* کے پاس آئے. جس دن ان کی خلافت پر بیعت کی گئی تو منصور نے ان سے کہا:

"اے مقاتل! مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔"


تو مقاتل کہنے لگے:

"کیا میں تمہیں (اس میں سے) نصیحت کروں جو میں نے دیکھا یا (اس میں سے) جو میں نے سنا؟"


تو منصور نے کہا:

"اس میں سے جو آپ نے دیکھا ہے۔"


تو مقاتل نے کہا:

"سنو اے امیر المومنین! عمر بن عبد العزیز کے گیارہ بیٹے تھے اور وہ صرف اٹھارہ دینار چھوڑ کر فوت ہوئے جن میں سے پانچ دینار کا وہ کفن دیے گئے اور چار دینار سے ان کے لیے قبر خریدی گئی اور باقی دینار ان کے بیٹوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اور ھشام بن عبد الملک کے ہاں بھی گیارہ لڑکے تھے جب اس کا انتقال ہوا تو اس نے ترکہ میں ہر لڑکے کے حصے میں دس لاکھ دینار چھوڑے۔ اللہ کی قسم! اے امیر المومنین میں نے ایک ہی دن عمر بن عبد العزیز کے ایک بیٹے کو دیکھا وہ اللہ کی راہ میں سو گھوڑے صدقہ کر رہا تھا اور ھشام کے بیٹے کو دیکھا وہ بازاروں میں بھیک مانگ رہا تھا!!!"



جب عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بستر مرگ پر تھے تو لوگوں نے ان سے پوچھا:

"اے عمر! تم اپنے بیٹوں کے لیے کیا چھوڑے جارہے ہو؟


انہوں نے فرمایا:

*"میں نے ان کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی کا تقوی چھوڑا ہے. پس اگر وہ نیکوکار ہوئے تو اللہ سبحانہ و تعالی نیکوکاروں کا دوست ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ کچھ اور ہوئے تو میں ان کے لیے وہ مال ہر گز نہ چھوڑوں گا جو وہ اللہ کی نافرمانی کے کاموں میں ان کا مددگار بنے۔"*



یہ بہت قابل غور بات ہے کہ عموما لوگ مال جمع کرنے کے لیے سخت محنت اور مشقت کرتے ہیں اور اپنی اولاد کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی موت کے بعد ان کی اولاد کے پاس مال ہوگا تو ہی وہ خوشحال رہیں گے اور امن میں ہوں گے. جبکہ وہ اس سے زیادہ بڑے امان، جو کہ اللہ کا تقوی ہے، اس سے غافل رہتے ہیں اور اپنی اولاد کو تقوی کا توشہ نہیں دیتے. 



ایک آدمی جب اپنے کسی بیٹے میں اخلاقی زوال دیکھتا تو صدقہ کرتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا اور اس آیت کی تلاوت کرتا تھا:


*خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا.*

"ان سے ان کے مالوں میں سے صدقہ لے کر ان کو پاک کیجئے اور اس سے ان کا تزکیہ کیجئے۔"

اور دعا کرتا کہ

*"اے اللہ! میرا یہ صدقہ کرنا اس لیے ہے کہ میرے بیٹے کا اخلاقی تزکیہ ہو جائے کیونکہ اس کا یہ بگاڑ مجھ پر اس کی جسمانی بیماری سے زیادہ بھاری ہے۔"*



اسی طرح ایک اور شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ غربت کی زندگی گزارنے کی وجہ سے جب وہ صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ پاتا اور اس کا بیٹا اس کو ستاتا تو وہ رات کو قیام اللیل میں سورة البقرة پڑھ کر دعا کرتا اور یوں کہتا کہ:

*"اے اللہ! یہ میرا صدقہ ہے، تو مجھ سے قبول کر لے اور اس کی وجہ سے میرے بیٹے کی اصلاح فرما دے۔"*



 اپنے بیٹوں کی اصلاح کی نیت سے اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف عبادت کے ذریعے رجوع کریں۔ اگر انہوں نے تمہاری کوششوں کو مغلوب کر بھی لیا تو وہ تمہاری نیتوں کو ہرگز مغلوب کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔


✨ *رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.*


"اے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا امام بنا۔"

آمین

اتوار، 10 جولائی، 2022

 ایک کنوارے صحابی رضی اللہ عنہ کے نکاح کا معاملہ اور قربانی کے جانور کی رقم

 ایک کنوارے صحابی رضی اللہ عنہ کے نکاح کا معاملہ اور قربانی کے جانور کی رقم


صحیح بخاری میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ منقول ھے.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے. ایک عورت آئی اور اس نے اپنا نفس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سپرد کر دیا کہ اس کی جہاں چاہیں شادی کر دیں. ایک غریب کنوارے صحابی وہاں موجود تھے. انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس کی شادی آپ مجھ سے کر دیجیئے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا : "تمھارے پاس اسے حق مہر دینے کے لیے کچھ ہے؟ " اس نے کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں ھے.


آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جاؤ اگر لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے تو لے آنا ھم وہی حق مہر بنا کر اس کا نکاح تجھ سے کر دیں گے. وہ صحابی اپنے گھر گیا مگر غربت کا عالم یہ تھا کہ گھر سے لوھے کی ایک انگوٹھی بھی نہ ملی. اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرے پاس ایک چادر ھے. اس میں سے آدھی میں حق مہر میں اسے دے دیتا ھوں اور آدھی خود رکھ لیتا ھوں. 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :"وہ آدھی نہ آپ کے کسی کام آئے گی اور نہ اس کے کام آئے گی." 

وہ خاموشی سے ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا. تھوڑی دیر بیٹھا رہا مگر اٹھ کر جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلایا اور پوچھا:"تمھیں قرآن میں سے کچھ یاد ھے؟" اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں.

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے ان سورتوں کے عوض تمھارا نکاح اس سے کر دیا( یعنی وہ سورتیں تم اسے یاد کروا دینا )"

( صحیح البخاری :5121)


اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ دور نبوت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی غربت کا کیا عالم تھا. ایک صحابی کے پاس حق مہر دینے کے لیے جو کہ فرض تھا، ایک لوھے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی چاندی اور سونا تو دور رہا.

کتب احادیث میں ایسی غربت کے بیشمار واقعات ملتے ہیں.


▪️ اب آئیئے اصل مسئلہ کی طرف 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں دس سال گزارے اور ہر سال آپ نے قربانی کی حتی کہ ایک سال سو اونٹ نحر کیئے. آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دس سالوں میں کبھی یہ نہیں کہا کہ اس سال ھم قربانیاں نہیں کریں گے بلکہ قربانی کا پیسہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی پر خرچ کریں گے.

اگر قربانی کے جانور ذبح کرنے کی بجائے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی پر پیسہ خرچ کرنا قربانی سے افضل ھوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ضرور اس کا حکم دیتے مگر آپ نے تو شادی کی استطاعت نہ رکھنے والوں سے فرمایا :


"اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کی استطاعت رکھتا ھے وہ شادی کر لے اور جو استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، اس لیئے کہ یہ روزہ اس کے لیئے( گناہ سے بچنے کی )ڈھال ثابت ھو گا."

( صحیح البخاری :5066)


جوں جوں قربانی کے ایام قریب آئیں گے، غریبوں کے بہت سے خیرخواہ ( لبرل ) اپنی بلوں سے نکلنا شروع ھو جائیں گے. ان کا مقصد غریبوں کی حمایت نہیں بلکہ شعائر اسلام کی تحقیر ھوتا ھے. ان کے دلوں میں شعائر اسلام کا بغض اور نفرت کوٹ کوٹ کر بھرا ھوتا ھے.


قربانی ایک عظیم عمل ھے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ھے. شکوک و شبہات سے بچیئے اور اللہ کے دیئے ھوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں جانور ذبح کیجیئے. اسی میں خیر اور بھلائی ھے.


واٹس آپ سے کاپی

ابو عبداللہ

یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ سے متعلق تحریریں

 🏕️۔⛰️ *یوم عرفہ اپنا اپنا*⛰️۔🏕️ 

.


✍🏻ایک بنیادی بات یاد رکھیے۔۔ 

یوم عرفہ سے مراد نو ذوالحجہ ہے ، اسکا حاجیوں کے وقوف عرفات سے کوئی تعلق نہیں ...کیونکہ وقوفِ عرفات زوال سے مغرب تک ہے اور روزہ سحری سے مغرب تک - اور حجاج کے وقوفِ عرفات سے اسکے تعلق کی کوئی واضح دلیل نہیں -  

  جب حاجی وقوف کر رہے ہوتے ہیں تب آسٹریلیا سے پرے "جزائر ہوائی" والے سونے کے لیے بستر پر جا چکے ہوتے ہیں یعنی اگر وہ سعودی چاند کے "مقلد" بھی بن جائیں تو روزہ پہلے ہی رکھ کے کھول چکے ہوں گے ، 

اب کیا کریں گے؟

 اور جب حاجی عرفات سے نکل کے سو کر خراٹے لے رہے ہوں گے تب تک چلی ، لاطینی امریکہ والے ابھی سو کر اٹھے بھی نہیں ہوتے۔۔۔ 

ان بے چاروں کا کیا ہو گا ؟

روزہ تو نکل گیا ، روزہ کیا یہاں تو حاجی صاحب بھی نکل گئے ، سوال تو ہے نا ؟

انکے تو دو سال کے گناہ ان کے کھاتے میں ہی رہ گئے اس لیے کہ روزہ کے وقت ان کے ہاں تھی ہی رات - اب اگر اگلے دن رکھتے ہیں۔ تو وقوفِ عرفات سے کیا تعلق جوڑیں گے ؟

ایک اور سوال بھی ہے کہ اگر اس روزے کا حجاج کے وقوف سے تعلق ہوتا تو پہلے ۔۔۔۔تیرہ سو سال امت کے روزے کیا ہوئے ؟

ان کا تو وقوف کا دن کبھی ایک تھا ہی نہیں ،

 ❓تب کون سا ٹی وی، نیٹ اور ریڈیو ہوتا تھا ؟

تو کیا کہا جا سکتا ہے کہ 


ان کے روزے چونکہ وقوف عرفہ کے ساتھ نہ تھے،تو کیا وہ بے کار ہوئے؟


اب رہا چاند تو اس ضمن میں صحیح بخاری کی حدیث ہے :

صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ - صحیح بخاری ، کتاب الصوم

چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے 30 دن پورے کر لو۔

یہ ایسی حدیث ہے کہ جس سے تمام اشکالات ختم ہو جاتے ہیں لیکن بعض احباب پھر بھی موجودہ دور کے ذرائع رسل و مواصلات کو لے کے بیٹھے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جی :

"موجودہ تیز تر وسائلِ نقل و حرکت اور ذرائع ابلاغ کے پیشِ نظر ، حجاجِ کرام کے میدانِ عرفات میں ہونے کی خبر لمحہ بہ لمحہ دنیا بھر میں پہنچ رہی ہوتی ہے ، لہذا یومِ عرفہ کا روزہ بھی اسی دن رکھا جائے جب حجاج کرام ، عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔"

پہلا اعتراض تو یہی ہے کہ حاجیوں کے وقوف سے یوم عرفہ کے روزے کا تعلق ثابت کیا جائے 

دوسرا اعتراض اس موقف پر یہ ہے کہ 

"لیبیا ، تیونس اور مراکش چند ممالک ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب 10۔ذوالحجہ کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں یومِ عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا ، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہوا اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔"

اب اس مسلے کا ان احباب کے نزدیک کیا حل ہے کہ جو سعودیہ کے وقوف عرفات کو تمام دنیا کے لیے یوم عرفہ قرار دیتے ہیں ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول حدیث عائشہ کے مطابق

 " یکم سے نو ذوالحجہ تک روزے رکھتے تھے " 

سو سنت نبوی سے الگ سے روزہ تو آپ کو ملے گا نہیں 

- *سو الجھائیے مت اور الجھیے بھی مت* ...آرام سے پاکستان کے چاند کے مطابق اللہ تعالی سے رحمت کی امید رکھتے ہوئے روزہ رکھیے ۔


⛰️۔🏕️ *یومِ عرفہ اپنا اپنا*🏕️۔⛰️


🍃🌹🍃

يوم العرفة 


آپ نے عرفہ کے دن اور اس کی فضیلت کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہوگا یہاں تک کہ اب وہ ایسی حقیقت بن گیا ہوگا جو بار بار دہرائی جاتی ہے۔۔


آپ خود سے پوچھئے⁉️  


▪️کیا میں نے اچھی طرح سے سمجھا اور غور و فکر کیا کہ دراصل عرفہ ہے کیا؟


▪️کیا اس عظیم دن کی عظمت کو سمجھ پائی؟


▪️کیا میں ان دن کو بھی عام دنوں کی طرح گزار دوں گی؟


مجھے یہ بتانے دیجئے کہ آپ کا دل اس قدر زور زور سے کیوں دھڑک رہا ہے اس خیال سے ہی کہ آپ کو اس عظیم دن کو دیکھنے کی نعمت سے نوازا گیا ہے ۔


1️⃣ یہ تمام دنوں میں سب سے بہترین دس دن ہیں جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔


2️⃣ اس دن اللہ تعالی نے اپنے دین کو مکمل فرما دیا اور اپنی نعمت کو لوگوں پر تمام فرما دی اور اسلام کو ہمارے لئے دین چن لیا۔


3️⃣ عرفہ کے دن اللہ تعالی سب سے زیادہ لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزادی عطا فرماتا ہے۔ 


4️⃣ یہ سال کا واحد دن ہے جب اللہ تعالی دنیاوی آسمان پر نازل ہوتا ہے۔ ( دن کے وقت)


5️⃣ اس دن اللہ تعالی اپنے بندوں کے اوپر فخر فرماتا ہے فرشتوں کے سامنے۔


سبحان اللہ۔ کوئی بد بخت انسان ہی ہوگا جو اس دن کو ضائع کردے گا اور عام دنوں کی طرح گزر جانے دے گا۔


⭕ وہ کون سے بہترین اعمال ہیں جو میں اس دن کر سکتی ہوں؟


*دعا۔ دعا۔ دعا*


 جی ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- 

*بہترین دعا وہ ہے جو عرفہ کے دن کی جائے*


⭕ یہ خاص وقت کب شروع ہوتا ہے؟


عشية عرفة


جمھور علماء کے مطابق یہ وقت ظہرسے مغرب تک کا ہے یا عصر سے تھوڑا پہلے سے لے کر مغرب تک۔


*یہ سارا وقت دعا کا ہے*۔ جی ہاں۔


آپ پر گھبراہٹ طاری ہوئی کیا؟ 

میں دعا شروع کیسے کروں!

کون سی پہلے مانگوں!

ساری کیسے مانگوں!


⭕ یہاں 7 آسان پوائنٹس ہیں دعا کے حوالے سے۔


1️⃣ شروعات اللہ تعالی کی تحمید اور تسبیح سے کیجئے۔

اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے ذریعے سے اس کی تعریف کیجئے یہاں تک کہ آپ کا دل اس کی عظمت و محبت سے بھر جائے۔ اس کے لئے قرآنی اور مسنون دعاوں کا سہارا لیجئے۔


2️⃣ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجئے۔

جلدی نہ مچائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تھک کاوشوں اور تکلیفوں کے بارے میں سوچئے جو انہوں نے اٹھائی دین ہم تک پہنچانے کے لئے۔


3️⃣ اللہ تعالی کا شکر ادا کیجئے اس کی تمام نعمتوں پر جو اس نے آپ پر کی ہیں اور اس کی پناہ مانگئے ان نعمتوں کے چھن جانے سے۔


4️⃣ کثرت سے توبہ استغفار کیجئے۔اپنے گناہوں کا اعتراف کیجئے انتہائی عاجزی کے ساتھ اور گڑگڑائیے رحمان کے سامنے۔

جلدی نہ مچائیں ۔ رو رو کر بخشش مانگئے۔


5️⃣ اپنی ذاتی دعائیں مانگئے۔ وہ سب کچھ جو آپ کے دین اور دنیا کے لئے بہترین ہو۔صحت۔ دولت۔ شادی۔ ہدایت۔ کامیابی۔ سب کچھ۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ سن رہا ہے اور وہ جانتا ہے اور ضرور میری دعائیں قبول فرمائے گا۔


6️⃣ *البرزخ* برزخی ذندگی!! دعا کیجئے حسن الخاتمہ کی۔ مرتے وقت۔ مرنے کے بعد۔ قبر میں ۔ قیامت کے دن۔ پل صراط پر۔ جنت کا حصول اور جہنم سے پناہ ۔ اللہ سے حسن الخاتمہ اور قبر کے سوالوں کے وقت ثابت قدمی مانگئے۔


7️⃣ اختتام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجئے اور اللہ تعالی سے قیامت کے دن ان کی شفاعت اور حوض کوثر سے پانی پینا نصیب ہو کی دعا مانگئے۔


🛑 اچھا خاصا وقت صرف کیجئے ہر دعا میں ۔ اللہ تعالی کو اپنی انتہائی عاجزی اور کمزوری دیکھائے اور گڑگڑائیے۔


🛑 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

*خير الدعا دعاء يوم عرفة، و خير ما قلت أنا والنبيون من قبلي لا اله الا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير* 


بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور بہترین دعا جو مجھے بتائی گئی اور جو نبی مجھ سے پہلے تھے:- نہیں کوئی معبود برحق سوائے اللہ کے۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کے لئے بادشاہت ہے اور سب تعریفیں صرف اسی کے لئے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔


تو اپنی دعاوںکے درمیان وقتا فوقتا یہ ضرور پڑھیں 


*لا اله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير* 


🛑 اپنی دعاوں میں اپنے والدین اور ان کے والدین، اپنی اولاد اور ان کی اولاد اور تمام امت مسلمہ کو یاد رکھئے۔


میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو اس دن کی زیادہ سے زیادہ خیر سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بہترین دعائیں مانگنے والا بنائے اور آپ کی دعاوں کو قبول فرمائے، آپ کو ہدایت دے اور دنیا و آخرت میں آپ کے درجات بلند فرمائے۔


اللهم آمين يارب العالمين


9⃣ *ذوالحجہ* یعنی *یوم عرفہ کا دن کیسے گزاریں❓*

♾️♾️☘️🕋☘️♾️♾️




❓ *اس دن کو کیسے گزارا جائے؟* 


👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻



❌یہ دن گھر کو صاف ستھرا کرنے کا نہیں، 



❌بازاروں میں گھومنے پھرنے اور شاپنگ کی نذر کرنے کا نہیں 



❌اور نہ ہی آرام و نیند کی نذر کرنے کا ہے   


👈🏻اس *دن کو اللہ تعالی نے عظیم مقام* عطا فرمایا ہے۔



👈🏻 *یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی اھل عرفہ کے بارے میں فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہیں*۔


👈🏻یہ ایسا مبارک دن ہے جو جہنم سے لوگوں کو آزادی کا پروانہ دیتا ہے۔ 


👈🏻 *یہ دن اطاعت رب اور اس کی بھرپور عبادت کا ہے۔*


📢 *دعاؤں میں بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے*

لھذا اس دن کو غنیمت جانیں اور جتنی بھی خیرو بھلائی اس روز کر سکتے ہیں *اسے کر ڈالیں۔*


    📋 *کرنے کا کام* 

 


📢 *نو ذوالحجہ* کے لیے خود کو تیار کریں  


📝شیڈول بنائیں ۔ بلکہ اس شیڈول میں اپنے حلقہٴ احباب کو بھی شامل کریں ۔ 

 کیونکہ یہ *دنیا کے بہترین اور افضل ایام میں سے افضل ترین دن ہے*   

👈🏻جو سال میں ایک مرتبہ آتا ہے:-


1⃣۔ رات جلدی سوئیں تاکہ اللہ تعالی کی عبادت واطاعت میں کچھ ہمت وطاقت محسوس ہو۔


2⃣۔ فجر سے پہلے اٹھ جائیے تاکہ آپ اس دن کے روزے کی نیت کرکے سحری کھائیں۔ 


👈🏻یہ روزہ ہمارے گذشتہ اور آنے والے سال کے گناہوں کو معاف کرانے کا سبب بنے گا۔

ان شاء اللہ تعالیٰ 



3⃣۔ حسب استطاعت شوق سےدن کے نوافل ادا کریں 


4⃣۔ فجر سے قبل کا وقت استغفار کرنے میں لگا دیجئے۔تاکہ ہمارا شمار سحری کے وقت استغفار کرنے والوں میں ہو جائے۔ 


5⃣۔ اذان فجر سے کم از کم پانچ منٹ قبل تیار ہو جائیے۔ بہترین وضو کریں  

 پھر وضوکے بعد کی دعا پڑھئے۔ 


6⃣۔ فجر کی نماز باجماعت پڑھیں اور اپنی جگہ طلوع صبح تک بیٹھ کر ذکر واذکا ر اور تلاوت قرآن کریم میں گزارئیں ۔


 7⃣سلام کے بعد تکبیرات پڑھنا بھی نہ بھولیں 


8⃣ نماز اشرق کو بھی وہیں ادا کیجئے تاکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کئے گئے حج وعمرہ کا ثواب پاسکیں۔ 

اس نماز کو بالکل نہ بھولئے۔


👈🏻 اب آپ چاہیں تو کچھ منٹ سو جائیں اور نیت یہ ہو کہ اللہ تعالی کی مزید عبادت کے لئے تازہ دم ہو نا ہے ۔ 

👈🏻اٹھ کر چار رکعت نماز چاشت ادا کریں 



🛣اور پھر *قرب الہٰی* کے مزید راستے تلاش کریں۔ 


مثلا صدقہ کرنا، بیمار کی عیادت یا رشتہ داروں کا خیال وغیرہ۔



👈🏻 *تکبیر، ذکر، تلاوت،* 


اور *لاإلہ إلا للہ وحدہ لا شریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئ قدیر۔* خوب پڑھیں۔



👈🏻۔مرد حضرات نماز ظہر با جماعت اداکریں ،اور تکبیر و تسبیح و تحمید کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن کریم بھی کیجئے۔ 


👈🏻 *قیلولہ کریں* 


👈🏻۔ نماز عصر ادا کیجئے اورتلاوت قرآن ہر نماز کے بعد لازمی کریں، 


👈🏻تکبیرات پڑھیں شام کے اذکار اور تسبیحات بھی کیجئے۔



📢 *کثرت سے دعائیں کریں* 


اللہ تعالیٰ روزہ دار کی دعائیں قبول کرتا ہے یہ ذہن میں رکھتے ہوئے خوب عاجزی سے جہنم سے نجات مانگیں 



📢 اپنے پیاروں اور امت مسلمہ کو دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں


👈🏻 *مزید جو بھی آپ مانگنا چاہیں،،،،، مانگیں*


 اللہ تعالیٰ نوازیں گے 


*ان شاء اللہ تعالیٰ*  



🔊📋🔊📋🔊📋📋

بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچوں کو

 *A piece of poetry for the students in Examination Hall.*



Bay-nigah aankho`N se dhaikhte hien parcho`N ko...

be-khiyaal ankho`N se..

un-bunay se lafzo`N per... ungliya`N ghumate hien.



ya sawal-namay ko... dhaikhte hee jate hien.


her taraf kan-akhiyo`N se... bach-bacha k takte hien.



*dosro`N k parcho`N ko... rah-numa samajhte hien.*


shayad is tarah koii raasta hii mil jaye...!


be-nisha`N khwabo`N ka kuch pata hii mil jaye..!


mujh ko dekhte hien tu..

youn juwab-copy per hashiye lagatay hien..

jaise un ko parchay k sub jawaab aatay hien..!



is tarah k manzar Me..

imtihan-gaho`N mien.. daikhta hii rehta hoon..!


naQal kerne walon k.. nit-naye tareeko`N se..

aap lutf leta tha, dosto`N se kehta tha..!


kis taraf se janay ye...

aaj dil k aangun mien... ik khiyaal aaya hai...



*sainkaro`N sawalo`N sa ik sawal aaya hai*


waQt ki aadalat mien... zindagii ki soorat mien...

ye jo mere haatho`N mien...

 ik sawal-nama haii..


kis ne banaya hai.. ?

kis liye banaya hai?


kuch samajh mein aaya hai?



*Zindagii k parchay k..

sub sawal lazim hain...!


Sub sawal mushkil hien!



be-nigah ankho`N se daikhta hoon parche ko..


un-bunay se lafzo`N per ungliya`N ghumata hoon.


hashiye lagata hoon..


daaire banata hoon..


ye sawal-namay ko

daikhta he jata hoon ..!


*(Amjad Islam Amjad)*

جب موت ائے گی تو۔۔!

 🔹 جب موت آئے گی تو یقین جانیں کہ کچھ بھی کام نہ آئے گا،

• آپ کے دنیا سے جانے پر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا،

• اور اس دنیا کے سب کام کاج جاری رہیں گے،

• آپ کی ذمہ داریاں کوئی اور لے لے گا،

• آپ کا مال وارثوں کی طرف چلا جائے گا،

• اور آپ کو اس مال کا حساب دینا ہوگا،

🔹 موت کے وقت سب سے پہلی چیز جو آپ سے چلی جائے گی وہ نام ہوگا،

• لوگ کہیں گے کہ dead body کہاں ہے؟

• جب وہ جنازہ پڑھنا چاہیں گے تو کہیں گے کہ جنازہ لائیں،

• جب دفن کرنا شروع کریں گے تو کہیں گے کہ میت کو قریب کر دیں،

• آپ کا نام ہرگز نہ لیا جائے گا،

🔹 مال، حسب و نسب، منصب اور اولاد کے دھوکے میں نہ آئیں۔

🔹 یہ دنیا کس قدر زیادہ حقیر ہے اور جس کی طرف ہم جا رہے ہیں وہ کس قدر عظیم ہے،

🔹 آپ پر غم کرنے والوں کی تین اقسام ہوں گی: 

*(1)۔* جو لوگ آپ کو سرسری طور پر جانتے ہیں وہ کہیں گے ہائے مسکین! اللہ اس پر رحم کرے۔

*(2)۔* آپ کے دوست چند گھڑیاں یا چند دن غم کریں گے پھر وہ اپنی باتوں اور ہنسی مذاق کی طرف لوٹ جائیں گے۔

*(3)۔* آپ کے گھر کے افراد کا غم گہرا ہوگا، وہ کچھ ہفتے، کچھ مہینے یا ایک سال تک غم کریں گے اور اس کے بعد وہ آپ کو یاداشتوں کی ٹوکری میں ڈال دیں گے،

🔹 لوگوں کے درمیان آپ کی کہانی کا اختتام ہو جائے گا اور آپ کی حقیقی کہانی شروع ہو جائے گی اور وہ آخرت ہے۔

• آپ سے زائل ہوجائے گا آپ کا:

*(1)۔* حسن،

*(2)۔* مال،

*(3)۔* صحت،

*(4)۔* اولاد،

*(5)۔* آپ اپنے مکانوں اور محلات سے دور ہو جائیں گے،

*(6)۔* شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے جدا ہو جائے گی،

• آپ کے ساتھ صرف آپ کا عمل باقی رہ جائے گا۔


🔹 *یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی قبر اور آخرت کے لیے ابھی سے کیا تیاری کی ہے؟*

🔹 یہ وہ حقیقت ہے جو غور و فکر کی محتاج ہے اس لیے آپ اس کی طرف توجہ کریں:

*(1)۔* فرائض،

*(2)۔* نوافل،

*(3)۔* پوشیدہ صدقہ،

*(4)۔* نیک اعمال، 

*(5)۔* تہجد کی نماز،

*(6)۔* اور اچھے اخلاق کی طرف،

• شاید کہ نجات ہو جائے!

🔹 مرنے والے کو اگر دنیا میں واپس لوٹایا جائے تو وہ صدقہ کرنے کو ترجیح دے گا جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: *رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ ...*(المنافقون:1) اے میرے رب ! تو نے مجھے قریب مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا۔

• وہ یہ نہیں کہے گا کہ میں نماز ادا کر لوں یا میں روزہ رکھ لوں یا میں حج اور عمرہ کرلوں۔

• علماء کہتے ہیں کہ میت صرف صدقے کا ذکر اس لیے کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی موت کے بعد اس کے عظیم اثرات دیکھتی ہے لہذا زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات کریں۔

🔹 اور بہترین چیز جس کا آپ ابھی صدقہ کر سکتے ہیں وہ آپ کے وقت میں سے دس سیکنڈ ہیں۔ آپ خیر خواہی اور اخلاص کی نیت کے ساتھ اس تحریر کو دوسروں تک پہنچائیں کیونکہ اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے۔ 

🔹 اگر آپ اس تحریر کے ذریعے لوگوں کو یاد دہانی کروانے کی کوشش کریں گے تو قیامت کے دن اسے اپنے ترازو میں پائیں گے:

*وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ* (الذاريات:55) اور نصیحت کیجیے، کیونکہ یقینا نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔

ایک خوش قسمت صحابی کا متاثر کن واقعہ

 ایک خوش قسمت صحابی کا متاثر کن واقعہ 


مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے ۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا ۔ غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا ۔ تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا" بیچ دے گا۔


مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا۔ اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لیا۔ تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی.


مکہ سے ابو حذیفہ مدینہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کا قصہ معلوم ہوا۔ لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جو قبول کرلیا گیا۔ یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کا نام ثبیتہ بنت یعار تھا انکی بیوی بن کر انکے ہمراہ تھی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ پہنچ گیا۔

 

ابو حذیفہ مکہ آکر اپنے پرانے دوست عثمان ابن عفان سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہوا پایا اور انکے رویے میں سرد مہری محسوس کی۔ انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان یہ سرد مہری کیوں!!۔ تو عثمان بن عفان نے جواب دیا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تو اب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے۔ ابو حذیفہ نے کہا تو پھر مجھے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو جسے تم قبول کرچکے ہو۔


 چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور وہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ گھر آکر انہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔


حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چونکہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہو اس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا لہذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو۔ غلام نے کہا آقا میرا اب اس دنیا میں آپ دونوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا۔ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ غلام نے قران پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت سا قران یاد کرلیا۔ اور وہ جب قران پڑھتے تو بہت خوبصورت لہجے میں پڑھتے۔


ہجرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور انکا یہ لے پالک بیٹا بھی تھا۔ مدینہ پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کا وقت آیا تو اس غلام کی خوبصورت تلاوت اور سب سے زیادہ قران حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چن لیا گیا۔ اور انکی امامت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے تھے ۔


مدینہ کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرواتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔ آج دیکھو کتنی عزت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہوا ہے.


اللہ پاک نے انہیں خوش گلو اسقدر بنایا تھا کہ جب آیاتِ قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر ایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیر ٹھٹک کر سننے لگتے۔ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی۔ آپ ﷺ نے توقف کیوجہ پوچھی تو بولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا، اسکے سننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت ﷺ خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔ دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں۔ آپ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا : اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا ۔


کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ خوش قسمت صحابی کون تھے؟ انکا نام حضرت سالم رضی اللہ عنہ تھا۔ جو سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔ اللہ کی کروڑ ہا رحمتیں ہوں ان پر ۔


📒السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)

سید جلالی 🌹

اصل امتحان

 حضرت ابراہیم ؑ کا اصل امتحان

یاسر پیر زادہ

10 جولائی ، 2022




کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لیے لے جاتے اور عین وقت پر خدا انہیں نہ روکتا ؟ کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابرہیمؑ خدا کا حکم نہ مانتے اور اپنے بیٹے کی قربانی کی نیت ہی نہ کرتے ؟ کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابراہیمؑ بیٹے کو قربانی کی نیت سے تو لے جاتے مگر پھر اُن کا ارادہ تبدیل ہوجاتا اور وہ راستے میں سے ہی واپس لوٹ آتے؟ آج دنیا کے دو ارب مسلمان عیدالاضحی منا رہے ہیں ، یہ عید اُس قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے جب خدا نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی سب سے عزیز شے اُس کی راہ میں قربان کردیں۔ اسلامی روایت، یہودیت اور مسیحیت سے ذرا مختلف ہے ، اسلام میں جس بیٹے کا ذکر ہے وہ حضرت اسماعیل ؑ ہیں جب کہ یہودیوں اور مسیحیوں کے مطابق وہ حضرت اسحاق ؑ تھے تاہم اصل واقعہ پر تینوں ادیان کا اتفاق ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو خدا نے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا تھا اور وہ بیٹے کو قربان کرنے کی نیت سے لے کرگئے تھے مگر جب انہوں نے بیٹے کی گردن پر چھری رکھی تو عین وقت پر خدا نے بیٹے کی جگہ ایک مینڈھا بھیج دیا اور یوں آپ ؑ کی قربانی بھی قبول ہو گئی اور بیٹے کی جان بھی بچ گئی ۔


سورن کرکگارڈ انیسویں صدی کا ایک مغربی فلسفی تھا، اُس نے اپنے قلمی نام سے Fear and Trembling کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی، اِس کتاب میں اُس نے حضرت ابراہیمؑ کے واقعے کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیسے حضرت ابراہیم ؑ ایمان کے اُس اعلی ٰ ترین درجے پر فائز تھے جہاں حکم ربی کو تمام آفاقی اصولوں اور اخلاقیات کے پیمانوں سے افضل سمجھ کر انہوں نے بیٹے کی قربانی کا فیصلہ کیا جو رہتی دنیا تک امر ہوگیا۔ کرکگارڈ کے مطابق حضرت ابراہیم ؑکا ایمان کامل تھا اور اُس کی پختگی کا یہ عالم تھا کہ جب خدا نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر صحرا میں جا بسیں تو انہوں نے اِس حکم کی تعمیل کی کیونکہ انہیں علم تھا کہ خدا کے ہر حکم میں کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔کرکگارڈ کہتا ہے کہ قربانی والے واقعے میں ہم صرف انجام پر غور کرتے ہیں جب حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے چھری ہاتھ میں تھام لی او خدا نے عین وقت پر مینڈھا بھیج کر بیٹے کی جان بچا لی جبکہ حضرت ابراہیم ؑ کی عظمت اِس بات میں بھی پوشیدہ ہے کہ انہوں نے تین دن اُس پہاڑ تک سفر کیا جہاں خدا نے انہیں قربانی کا حکم دیا تھااور اِس دوران خود کو اِس بات پر آمادہ رکھاکہ دنیا کے اخلاقی قوانین ، چاہے آفاقی ہی کیوں نہ ہوں، حکم ربی سے برتر نہیں ہوسکتے کیونکہ انسان خدا کی حکمت کو نہیں جان سکتا ۔ اِس ضمن میں کرکگارڈنے Teleological suspension of the ethical کی اصطلاح استعمال کی جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ کسی بھی بات کو اُس کے مقصد کی بنیاد پر ثابت کیا جائے نہ کہ اُس کی توجیہہ تلاش کی جائے۔ حضرت ابراہیم ؑ یہ جانتے تھے کہ دنیاوی اخلاقی قوانین کے تحت بیٹے کی قربانی درست فعل نہیں اور اگر ایک مرتبہ انہوں نے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی تو پھر یہ عمل واپس نہیں ہو سکے گا لیکن اِس کے باوجود انہوں نے دنیاوی اخلاقی قوانین کو معطل کرکے اپنا فیصلہ اِس ایمان کی بنیاد پر کیا کہ خدا کی حکمت اِن دنیاوی قوانین سے ماورا ہے اور خدا کے کسی حکم کا ’مقصدغیر اخلاقی‘ نہیں ہوسکتا لہذا انہوں نے دنیاوی اخلاقی قوانین بالائے طاق رکھ کر خدا کے حکم کو فوقیت دی ۔یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے سمجھنا بے حد ضروری ہے ورنہ ہم کبھی یہ نہیں جان پائیں گے کہ کیوں حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے کے لئے آمادہ ہوگئے ، یہ ایمان کا وہ درجہ ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ جیسا پیغمبر ہی پہنچ سکتا تھا کوئی دوسرا انسان نہیں ۔ اصل میں یہ حضرت ابراہیم ؑ کا ایمان تھا جس کی قوت کی بنا پر انہیں یقین تھا کہ خدا اُن کے بیٹے کو مرنے نہیں دے گا ، اگر اُن کا ایمان کمزور ہوتا تو وہ بیٹے کی قربانی کاارادہ ہی نہ کرتے۔ لیکن یہاں ایک باریک نکتہ مزید بیان کرنا ضروری ہے کہ اگر حضرت ابراہیمؑ کا ایمان تھا کہ خدا اُن کے بیٹے کو بچا لے گا تو پھر یہ کسی قسم کا امتحان نہ ہوتابلکہ چھری پھیرنے کی رسمی کارروائی ہوتی جبکہ خدا کوتو حضرتابراہیم ؑ کا امتحان لینا مقصود تھا۔سو یہاں’یقین‘ اور ’ایمان‘ کا فرق سمجھنے کی ضرورت ہے ، ایمان میں اِس بات کی گنجائش موجود ہے کہ کوئی شخص غلط بھی ہوسکتا ہے مگر یقین کرنے کا مطلب ہے کسی چیز کے بارے میں حتمی رائے رکھنا ۔سو حضرت ابراہیم ؑ کو کامل یقین نہیں تھا کہ اُن کا بیٹا بچ جائے گا مگر وہ اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ حکم ربی کبھی حکمت سے خالی نہیں ہوسکتا ،ایمان اور یقین کی یہ کشمکش ہی حضرت ابراہیم ؑکا امتحان تھی اور خدا کا یہ برگزیدہ پیغمبر اُس امتحان میں سرخرو ہوا۔


کانٹ کا نقطہ نظر کرکگارڈ سے مختلف ہے ۔ کانٹ ایسی اخلاقی اقدار کا قائل ہے جو آفاقی ہیں اور کسی بھی حالت میں اُن میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ۔ہم عام انسانوں کے لیے اِس آفاقی اخلاقی ماڈل پر عمل کرنا ضروری ہےکیونکہ پیغمبروں کے برعکس عام انسانوں پر نہ تو وحی نازل ہوتی ہے اور نہ وہ براہِ راست خدا سے ہم کلام ہو سکتے ہیں ۔چند برس پہلے مصطفیٰ اکول نامی ایک ترک لکھاری کا مضمون نظر سے گزرا جس میں اُس نے یہی بات کہی کہ عام انسان چونکہ خطا کا پتلا ہے اِس لیے ہمیں خدا کی منشاکو سمجھنے میں محتاط رہنا چاہیے اور مذہبی احکام کی بجا آوری میں آفاقی و اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، یہ بات خاص طور پر ہم جیسے فانی اور خطا کار انسانوں کے لیےضروری ہے جن پر مذہبی احکام براہِ راست منکشف نہیں ہوتےجیسا کہ انبیاء کرام پر ہوتےتھے لہٰذاہمیں اپنی زندگیوں میں فکری استدلال سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

کنوینس الاؤنس کا فیصلہ اور محکمہ تعلیم

 *کنوینس الاؤنس کا فیصلہ* 

یاد رکھیں باقی ہر محکمہ کے افسران ہر نوٹیفیکیشن کو ماتحت ملازمین کے مفاد کو ذہن میں رکھ کر پڑھتے ہیں۔


لیکن عام پریکٹس یہی ھے کہ 

محکمہ تعلیم سکولز پنجاب کے 99 فیصد افسران ٹیچرز دشمنی کو ذہن میں رکھ کر ہر نوٹیفیکیشن کو پڑھتے ہیں جس سے ٹیچرز کی حق تلفی ھوتی ھے اور غیر ضروری مقدمہ بازی کو فروغ ملتا ھے


آپ نے اکثر دیکھا ھو گا کسی ایک ٹیچر کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ ا جائے تو فوراً 36 اضلاع میں ہر ٹیچر پر اس فیصلے کا اطلاق کر دیا جاتا ھے

لیکن اگر ایک ہزار سے زائد ٹیچرز کو عدالتی کوئی بینیفٹ دے دے تو ضلعی تعلیمی افسران کی زبان پر ایک ہی جملہ ھوتا ھے کہ ہمارے نام کوئی لیٹر جاری نہیں ھوا... 


کل سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا کہ گرمیوں سردیوں کی چھٹیوں کا کنوینس الاؤنس نہ کاٹا جائے

خیبر پختون خواہ کے علاوہ کوئی وفاقی یونٹ عمل نہیں کرے گا

لیکن بالفرض

ایک کے سوا سارے وفاقی یونٹس کنوینس الاؤنس دے رھے ھوتے اور کسی ایک یونٹ بارے سپریم کورٹ فیصلہ کرتی کہ گرمیوں سردیوں کی چھٹیوں کا کنوینس الاؤنس نہ دیا جائے

تو اگلے دن تمام وفاقی یونٹس نے کنوینس الاؤنس کاٹ لینا تھا

اور جواز یہ رکھنا تھا کہ جناب سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر ھوتا ھے


سپریم کورٹ آئینی عدالت ھے جب کسی پوائنٹ آف لا پر فیصلہ دے تو وہ پورے ملک کے لیے قانون بن جاتا ھے

افسوس کی 

بات ھے کہ یہ بات /رول /قاعدہ /ضابطہ

وفاقی یونٹس صرف سرکاری ملازمین کی حق تلفی کے لیے استعمال کرتے ھیں

جہاں سرکاری ملازمین کے فائدہ کی بات ھو تو کہتے ھیں اپنے صوبے اور ضلع واسطے نیا فیصلہ لیں

عبدالخالق خان پنیاں

بچوں کے بگڑنے کے ذمہ دار

 *بچوں کے بگڑنے کے ذمہ دار* *ہم خود* 


*ایک بڑی تعداد ہے ایسے لوگوں کی جو کہتے ہیں ہمارا بچہ دوستوں میں رہ کر بگڑ گیا ہے ، باہر کے ماحول نے اسے بگاڑ دیا یے ، بچہ جھوٹ بولے تو دوستوں نے سکھایا ، بدتمیزی کرے تو دوستوں نے سکھایا ، بچہ گالی دے تو دوستوں نے سکھایا ہے ، یقین جانیں یہ سوچ ہی غلط یے ۔۔۔ !!!*


*درحقیقت بچے کے بگڑنے کی وجہ والدین کے اپنے فرائض کی عدم ادائگی ہے ، شروع سے ہی بچے کی تربیت کو اہم فریضہ سمجھا جاتا ، بچے کی پرورش کو اولین ترجیح دی جاتی تو یہ بچہ دوستوں میں جا کر کبھی خراب نہیں ہوتا بلکہ دوستوں کی اصلاح کا سبب بنتا ۔۔۔!!!*


*بچہ پیدا ہوتے ہی دوستوں میں نہیں جا بیٹھتا ، پیدا ہوتے ہی اسکے دوست اسے لینے نہیں آجاتے ، پیدا ہوتے ہی آوارہ گردی شروع نہین کرتا ، پیدا ہوتے ہی سگریٹ نہیں پکڑتا ، کم و بیش شروع کے دس سال تک بچہ مکمل والدین کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے اور یہی وہ دورانیہ ہے جہاں اکثر و بیشتر والدین عدم توجہ کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔۔۔!!!*


*بچہ جب پیدا ہوتا یے اسکا دل و دماغ بلکل کورا کاغذ ہوتا ہے کہ جو دیکھے گا سنے گا وہ اس پر چھپتا چلا جائے گا، اب ہم نے اس کاغذ پر کچھ نہیں لکھا زمانہ لکھتا چلا گیا ، اگر ہم بچپن میں ہی اپنی تربیت اس کاغذ پر اتار دیتے تو زمانے کو براییاں اتارنے کے واسطے جگہ ہی نہ ملتی ۔۔۔!!!*


*جب ماں اور باپ نے اپنی تربیت شروع میں ہی بچے کے اندر اتار دی تو یہ بچہ خراب لوگوں سے مل کر خود کبھی خراب نہیں ہوگا بلکہ خراب لوگوں کے لیے اصلاح کا سبب بنے گا ۔۔۔!!!*


*ہمارے معاشرے میں تربیت کے نام پر رسمی جملے دہرائے جاتے ہیں ، بیٹا جھوٹ نہیں بولنا بری عادت ہے ، بدتمیزی کرنا بری عادت ہے اور یہ رسمی جملے کبھی بچے کے اندر نہیں اترتے بلکہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ ، غور و فکر کے ساتھ اور دلچسپی سے کی جانے والی تربیت کو بچہ اپنے اندر اتارتا ہے ، ہم معاشرہ دیکھ لیں ہر والدین بچے کو رٹے رٹائے جملے سکھاتے ہیں لیکن فائدہ کوئی نہیں ، اور اسکی وجہ یہی کہ تربیت واسطے فکرمند نہیں ، دلچسپی نہیں ، ہاں سیکھ جائے گا ، سمجھ جائے گا ، ابھی چھوٹا ہے ، اور اسی سوچ نے بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے ۔۔۔!!!*


*ڈرامے اور فلمیں دیکھتے ہوۓ مائیں بچوں کو دودھ پلا رہی ہیں ، ایک ہاتھ میں بچے کا فیڈر ہے تو دوسرے ہاتھ میں موبائل ہے ، ذرا سا بچہ رونے لگ جائے تو ٹی وی کھول کر دے دیں گے ، موبائل ہاتھ میں دے دیں گے ، اسے کارٹون لگا دیں گے ، کوئی موسیقی سن کر بچہ ہاتھ پیر ہلانے لگ جائے تو سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے ، اب وہ ماں اپنے بچے کی اعلی پرورش کیسے کرسکتی ہے کہ اسکی خود کی زندگی ڈرامے ، فلمیں ، موسیقی ، شاپنگ ، گھومنا گھمانا ، موبائل فیس بک تک محدود ہو ۔۔۔!!!*


*ایک نظر باپ کی ذمہ داریوں پر ڈالیں تو بس وہی رسمی معاملات کہ بچے کے خرچے پورے ہو رہے ہیں ، ضرورتیات و خواہشات پوری ہو رہی ہیں ، پورا دن کام میں مصروف ، گھر آئے کھانا کھایا ، بچے کو ایک راؤنڈ لگوا کر پھر دوستوں میں مصروف اور پھر گھر آکر موبائل میں مصروف ، اسی طرح دن پھر ہفتے اور پھر سال گذر جاتے ہیں لہذا اس بچے کی تربیت کا جو سب سے اہم دورانیہ تھا وہ والدین نے اپنی ہی مصروفیات ، اپنی ہی مستیوں میں ضایع کر دیا بعد میں سر پکڑ بیٹھے کے اولاد نا فرمان ہے ، اولاد بدتمیز ہے ، دوستوں نے بگاڑ دیا ، ماحول نے خراب کردیا ، ارے بھئی ماحول کے ساتھ تو وہ بعد میں جڑا یے ، دوست تو اسکے بعد میں بنے ہیں ، اتنے سالوں سے تو وہ آپ ہی کے پاس تھا ۔۔۔!!!*


*ماں اور باپ دونوں کو مل کر ذمہ داری کے ساتھ بچے کی تربیت کرنی ہوگی ، اپنے آپ کو لگانا ہے ، اپنے آپ کو کھپانا ہے ، اولاد کی تربیت کے واسطے ماں کی گود سب سے پہلی اور اہم درسگاہ ہے کہ ماں اسے سینے سے لگائے اپنی تربیت بچے میں منتقل کرے ، اسے اللہ کی پہچان کروائے ، اسے رسول اللہﷺ کی پہچان کروائے ، اسے دنیا میں آنے کا مقصد سمجھائے ، اسے روز مرہ معاملات کی دعائیں سکھائے ، سچ سے محبت ، سچ میں عزت ، سچ پر فضیلت ، اسکے دل میں اتارے ، جھوٹ سے نفرت ، جھوٹ میں شرمندگی ، جھوٹ پر گناہ کا یقین اسکے دل میں اتارے ، گالی ، غیبت ، چغلی اور بری باتوں سے نفرت اسکے دل میں اتارے ، رشتہ داروں سے محبت اور حسن سلوک اسکے دل میں اتارے ، جب ماں کے اندر دین ہوگا ، ماں کے اخلاق اچھے ہونگے تو یہاں نسلوں کی نسلیں پروان چڑھیں گی۔۔۔!!!*


*اسی طرح باپ ہے کہ روزانہ بچے کے ساتھ بیٹھ کر کچھ وقت گزارے ، روز مرہ کے معاملات کا پوچھے ، صحیح غلط کی پہچان کروائے ، بڑوں کا ادب ، بڑوں کی عزت سمجھائے ، غریبوں سے محبت ، ضرورت مند کی مدد کا جذبہ اور شوق اسکے اندر پیدا کریں ، اسکے سامنے یہ ٹیلیوژن موبائل ڈرامے فلمیں وغیرہ کا استعمال بلکل نہ ہو ، اسکے سامنے لڑائی جھگڑے گالم گلوچ شور شرابہ بلکل نہ ہو ، بچے کے سامنے سب سے آپ جناب سے بات کریں ، بچہ ذرا بڑا ہوجائے تو اسے نماز پر اپنے ساتھ لیکر جائیں ، اسے لوگوں سے ملنا جلنا سکھائیں ، اچھے کام پر اسکی حوصلہ افزائی ہو ، فارغ اوقات میں پاس بٹھا کر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے واقعات سنائیں ۔۔۔!!!*


*ایسے ماحول سے نکل کر آپ کا شہزادہ جب باہر کی دنیا میں اتا ہے تو کبھی باہر کے لوگوں سے خراب ہوکر نہیں آئے گا بلکہ انکے لئے اصلاح کا سبب بنے گا ، انکے لئے خیر کا سبب بنے گا ، جہاں جائے گا اپنی اچھائی چھوڑ آئے گا ، جہاں جائے گا والدین کا نام چھوڑ کر آئے گا ۔۔۔!!!*


*اور یہ شہزادہ دنیا میں تو والدین کے لئے سربلندی کا باعث بنتا ہی ہے لیکن اپنے اچھے اعمال و کردار کی بدولت والدین کے فوت ہونے کے بعد قبر میں بھی انکے لئے راحت و سکون کا ذریعہ بنے گا*


🧕🧕🧕🧕🧕🧕🧕🧕🧕

 *🌷تربیت اولاد🌷 و علم کا خزینہ گروپس کی مشترکہ پیشکش*

●❯───────────❮●*

مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک کی تعلیم کی ترجیحات

 مسلم ملکوں میں صرف 498 یونیورسٹیاں ہیں جبکہ امریکہ میں 5758، ہمارے ہمسائے اور ’’دشمن‘‘ نمبر ایک بھارت میں امریکہ سے بھی زیادہ یعنی8500 یونیورسٹیاں ہیں۔دوسری طرف ڈیلی ٹائمز کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں285مذہبی جماعتیں اور پارٹیاں کام کررہی ہیں جن میں سے28سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہیں جبکہ124نے اپنا ٹارگٹ جہاد بنارکھا ہے۔


مسلم ممالک میں شرح خواندگی25سے28فیصد کے درمیان ہے اور بعض ملکوں میں تو محض دس فیصد تک ہے،ایسے ممالک کی تعداد25کے لگ بھگ ہے جبکہ ایک بھی مسلم ملک میں شرح خواندگی سوفیصد نہیں ہے.

ایک رپورٹ کے مطابق او آئی سی میں56 مسلم ممالک شامل ہیں اور ان میں بین الاقوامی سطح کی محض پانچ یونیورسٹیاں ہیں یعنی تیس لاکھ مسلمانوں کیلئے ایک یونیورسٹی۔جبکہ امریکہ میں 6ہزار ،جاپان میں نوسو پچاس چین میں نوسو اور بھارت میں8500نجی وسرکاری یونیورسٹیاں کام کررہی ہیں۔


ادھر پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے اور مسلمان سوا ارب ، یعنی ایک یہودی سو مسلمانوں کے برابر ہے، دوسرے لفظوں میں ایک یہودی سو مسلمانوں پر بھاری ہے، گزشتہ ایک صدی میں71یہودیوں کو تحقیق، سائنس اور ادب کے شعبے میں نمایاں خدمات کے عوض نوبل انعام مل چکا ہے جبکہ مسلم دنیا میں صرف تین افراد یہ انعام حاصل کرسکے ہیں۔


یہاں تک کہ ’’کنگ فیصل انٹر نیشنل فائونڈیشن سعودی عرب‘‘ جو ایک مسلم آرگنائزیشن ہے ،کی جانب سے دئیے جانے والے کنگ فیصل ایوارڈ کیلئے میڈیکل سائنس اور تحقیق وادب کے شعبے میںکوئی ایک امید وار بھی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔


کیا یہ بات نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغرکے مسلمانوں کیلئے باعث شرم نہیں کہ ڈیڑھ کروڑ یہودی ہرمیدان میں پیش پیش ہیں؟22عرب ممالک بھی ملکر اسرائیل کی ایک اینٹ تک نہیں اکھاڑ سکے نہ سائنس میں، نہ تحقیق وریسرچ میں نہ میڈیکل میں اور نہ ہی بے تیغ سپاہی کے طور پر ۔ اس کے برعکس سواارب سے زائد مسلمان اختلاف وانتشارکا شکار ہیں۔


میرا سوال ہے کہ کیا مغرب کی جدید سائنس وٹیکنالوجی کے بغیر مسجد الحرام میں30لاکھ افراد کے بیک وقت نمازیں پڑھنے کا عمل ممکن تھا؟ حرم شریف میں بجلی کا جدید نظام، آسمان کو چھوتی عمارتیں،کیا یہ سب سائنس کی وجہ سے عالم وجود میں نہیں آیا؟ یہ سب مغربی تعلیم اور عیسائی یا یہودی سائنس دانوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔


درجنوں منزلوں پر لاکھوں نمازیوں کو چند لمحوں میں لے جانے والی جو لفٹس ہیں وہ ’’مومنوں‘‘ کی ایجاد نہیں ، حرم میں بہترین قسم کا سائونڈ سسٹم ہے جس سے حرم شریف اور اس کے اطراف کی درجنوں بلڈنگوں میں واقع ہزاروں کمروں میں بھی امام کی آواز واضح سنائی دیتی ہے یہ سائونڈ سسٹم بھی مسلمانوں کی ایجاد نہیں ہے۔

عالمی سطح پر تعلیمی میدان میں مسلمانوں کا تناسب 6.3فیصد ہے اور اسی عالمی سطح پر مسلمان دوسری قوموں سے85سال پیچھے ہیں

اسد مفتی کے کالم مطبوعہ روزنامہ جنگ 25 جون 2022 سے اقتباس

دعا کرتے وقت 100 چیزیں کون سی مانگیں

*آج دعا کرتے وقت 100+ چیزیں مانگنی ہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ*

✨✨✨✨✨✨✨

🤲🏻🤲🏻🤲🏻

یا اللّٰه ، یارحمٰن، یا رحیم، یا کریم، یا فتاح، یا متکبر، یا مجیب، یا معید، یا واحد، یا احد، یا مالک، یا قدوس، یا جبار، یا غفار، یا رزاق، یا علیم، یا واسع، یا حلیم، یا رافع، یا معز، یا سمیع، یا بصیر، یا حکم، یا العدل، یا خبیر، یا غفور،یا شکور، یا العلی، یا الولی، یا حسیب، یا جلیل، یا قوی، یا ذوالجلال والاکرام،

 یارب العالمین....


اللّٰھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید

اللّٰھم بارک علٰی محمد و علی آل محمد کما بارکت علٰی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید ۔

🤲🏻🤲🏻🤲🏻

1. یا اللہ مجھے میری زبان پر کلمہء شہادت کے ساتھ موت عطا فرمانا، مجھے اس حال میں موت دینا میرے اللّٰہ کہ آپ مجھ سے پوری طرح راضی ہوں۔


2. یا اللہ مجھے انبیاء ،صدیقین،صالحین اور شہداء کا ساتھ نصیب کرنا۔


3. یا اللہ، میرے لیے میری قبر کو کشادہ کر اور اس کو نور سے منور کر دے، اسکو جنت کے باغوں میں سے بہترین باغ بنا دینا۔


4. یا اللہ میرا نامہ اعمال علیین میں محفوظ فرما


5. یا اللہ، میرے لیے قبر کے سوال کو آسان اور ہلکا کر دینا۔


 6. یا اللہ، مجھے عبادت کی حالت میں موت عطا فرما اور دوبارہ اسی حالت میں زندہ کرنا


7. یا اللہ مجھےجزا کے دن

 خوف، اضطراب اور دہشت سے محفوظ رکھ،

مجھے، میرے دل کو قیامت کے دن پر سکون اور مطمئن رکھنا


8. یا اللہ، میرے دائیں ہاتھ میں میرا نامہ اعمال دینا


9. یا اللہ، مجھے ان لوگوں میں شامل کر جو اپنی کتابیں/نامۂ اعمال دوسروں کو خوشی سے دکھائیں۔


10. یا اللہ مجھے میزان میں میری نیکیوں کے ساتھ کامیاب فرما


11. یا اللہ، مجھے روشنی کی رفتار سے پل صراط کو عبور کرنے کی توفیق عطا فرمانا۔


12. یا اللہ، براہِ کرم میری نیکیاں دوسروں کو نہ دینا۔


13. یا اللہ، مجھے جنت میں میرے گھر والوں اور تیرے دین/قرآن کی خاطر جڑنے والوں کے ساتھ اکٹھا کرنا۔


 14. یا اللہ، میرے عیبوں اور گناہوں کو قیامت کے دن دوسروں کے سامنے نہ ظاہر کرنا-


15. یا اللہ ان گناہوں کو معاف فرما جو مجھے یاد نہیں اور وہ گناہ جن کو میں نے گناہ سمجھا ہی نہیں

یہاں تک کہ گناہوں میں شمار بھی نہیں کرتے سب کو اپنی رحمت سے معاف فرا۔


16. یا اللہ مجھے قلب مطمئنہ عطا فرما


17. یا اللہ میرے دل کو بغض، حسد، نفرت، خود پسندی، دکھاوے اور حسد سے پاک کر دے


18. یا اللہ مجھے دوسروں کی خطاٸیں معاف کرنے کی توفیق عطا فرما اور دوسروں کو ایسا بنا کہ وہ میری خطائیں معاف کر دیں۔


19. اے اللہ مجھے بہترین اور اچھے اخلاق والا بنا، نرم کلامی عطا فرما، میری زبان کو جھوٹ، چغلی اور غیبت سے بچا

اور دوسروں کو تکلیف دینے سے۔


20. یا اللہ، مجھے نا پسندیدہ حالات میں ہر مشکل اور مصیبت میں صبر جمیل اور صبر عظیم عطا فرما


21. یا اللہ مجھے صحیح عقیدہ، بہترین حافظہ اور دلائل کے ساتھ دین کی سمجھ عطا فرما۔


22. یا اللہ، میرے والدین پر رحم فرما، ان کی مغفرت فرما، انہیں اچھی صحت عطا فرما اور مجھے ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیں۔


23. یا اللہ، میرے بہن بھائیوں اور ان کی شادیوں میں برکت عطا فرما۔ ہمیں اپنے ساتھ محبت سے باندھ دیں. شیطان کو ہمارا رشتہ نہ توڑنے دینا۔


 24. یا اللہ تمام مسلمانوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما


25. یا اللہ ہمیں صالح اولاد عطا فرما اور ہمارے لئےانہیں صدقہ جاریہ بنا 


26. یا اللہ، مجھے عربی سمجھنے، لکھنے اور بولنے میں مدد فرما

جنت کی زبان سیکھنے کا شوق پیدا فرما۔


28. یا اللہ، مجھےمیرے عیبوں کو دیکھنے ان کو دور کرنے اور دوسروں سے پردہ کرنے میں میری مدد فرما


30. یا اللہ ہمارے رزق کو حلال، بابرکت اور رزق کریم بنا۔


31. یا اللہ، میرے بارے میں دوسروں کو تذلیل کرنے، ظلم کرنے، مذاق اڑانے یا فائدہ اٹھانےوالا نہ بنا۔


32. یا اللہ، مجھے ہمت رکھنے اور صحیح فیصلے کرنے میں مدد دے


34. یا اللہ، عاجزی کے ساتھ میراث چھوڑنے میں میری مدد فرما


35. یا اللہ، امت مسلمہ اور اسکے زندہ اور مردہ کو معاف فرما، نیکی میں برکت دے، مسلمان مظلوموں کو فتح عطا فرما۔ ان کے دلوں کو ایمان سے بھر دے۔


36. یا اللہ، میرے اعمال کو قبول فرما۔


37. یا اللہ، میرے تمام گناہ معاف فرما۔

38. یا اللہ، اے ہمارے اللہ، یا رحمن، یا رحیم، یا کریم، یاحفیظ، یا غفار، یا قدیر، یا سمیع، یا علیم، یا ذوالجلال والاکرام

برحمتک نستغیث ہماری تمام دعاؤں پر اپنی کن سے قبولیت کی مہر لگا۔


39. یا اللہ، میں تیری طرف توبہ کرتی ہوں، سر تسلیم خم کرتی ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ میری دعائیں قبول فرمائیں۔


40. یا اللہ، میرے گناہوں کو معاف فرما، ایک مکمل بخشش جس کے بعد کسی گناہ کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔


41. یا اللہ، اپنے احکام کی میری خطاؤں اور حقوق العباد کی خلاف ورزیوں کو معاف فرما


42. یا اللہ، مجھے میری کوتاہیوں پر فتح عطا فرما


43. یا اللہ، نیکی کے کام میں میری اصلاح اور ترقی فرما۔


44. یا اللہ، میری دعاؤں، عبادات اور اعمال کو قبول فرما


45. یا اللہ، مجھے صرف تیری رضا کے لیے اچھے مقبول اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما۔


46. ​​یا اللہ، میری عبادت میں خشوع اور اخلاص حاصل کرنے میں میری مدد فرما

یا اللّٰه مجھے وقت پر نماز قائم کرنے اور نماز کا پابند بنا، نماز کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔


47. یا اللہ، مجھے تیرے قریب ہونے میں مدد کریں جیسا کہ میرا انجام قریب آرہا ہے۔


48. یا اللہ، مجھے آپ سے اور نبی (ﷺ)، سے دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرنےوالا بنا۔

دین کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے اور قرآن کو میرے دل کی بہار بنا۔


49. یا اللہ، میرے ایمان، توکل، یقین میں اضافہ فرما


50. یا اللہ میرے تقویٰ میں اضافہ فرما، مجھے اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما۔


51. یا اللہ، مجھے ان تمام آزمائشوں میں ثابت قدم رکھنا جن کا میں سامنا کرتی ہوں۔


52. یا اللہ مجھے اپنے فرمان سے نرم دل اور اطمینان عطا فرما، قلب سلیم عطا فرما


53. یا اللہ قرآن کو دونوں جہانوں میں میرا ساتھی بنا


54. یا اللہ مجھے آخری سانس تک صراط المستقیم کی طرف رہنمائی فرما اور شرک، کفر اور بدعت سے ہمیشہ اور ہر حال میں بچا۔


✨. یا اللہ مجھے صادقیںن،محسنین، متقین، مخلصین، مومنین،ذاکرین،حامدین، متصدقین،ساجدین،زاہدین، میں شامل فرما،السابقون الاولون میں شامل کر


56. یا اللہ میرے لیے نفع بخش علم میں اضافہ فرما


57. یا اللہ مجھے دل کی بیماریوں (حسد، غرور، تکبر،کینہ اور دکھاوے) سے بچا۔


58. یا اللہ مجھے اس دنیا اور آخرت میں خوشیاں عطا فرما، 

اداسی اور افسردگی سے میری حفاظت فرما


59. یا اللہ، میری زندگی کے سفر میں مجھے اپنی روح کا تزکیہ کرنے کی صلاحیت عطا فرما


60. یا اللہ، دنیا کی محبت کو میرے دل سے نکال دے۔


61. یا اللہ، مجھے اپنے گھر میں اپنی عبادت کے لیے بلا۔اور اسے مجھ سے قبول فرما۔


62. یا اللہ، مجھے اچھا انجام عطا فرما، مجھے تجھ سے ملنے کا شوق پیدا کر


63. اے اللہ میری قبر اور برزخ کو پرامن اور ٹھنڈا ٹھکانا بنا


64. یا اللہ! مجھے یوم القیامہ میں اپنے عرش کا سایہ عطا فرما

65. یا اللہ، مجھے میرے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال عطا فرما۔

 میرا میزان (پیمانہ) نیکیوں کے ساتھ بھاری بنائیں


66. یا اللہ مجھے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے حوض کوثر سے پینے کی توفیق عطا فرما۔


67. یا اللہ، صراط اور قنطرہ (جنت سے پہلے کے پل) کے گزرنے کو آسان فرما


68. یا اللہ، مجھے آخرت میں آپ کو دیکھنے کی آخری نعمت عطا فرما


69. یا اللہ،میرے اور میری/میرے شریک حیات کے درمیان محبت کی حفاظت فرما اور اسے بڑھا دے اور ہمیں برکت دے جب تک ہم زندہ ہیں۔


70. یا اللہ، ایک دوسرے کے ساتھ ہمارے رویے کو بہتر بنائیں

71. یا اللہ، میری/میرے شریک حیات کو اس کا بہترین اجر عطا فرما جو میرے اہل و عیال کے لیے ان کی کوشش ہے



72. اے اللہ، قرآن اور تیرے احکام کو ہمارے تمام معاملات میں ہمارا فیصلہ کرنے والا بنا


73. یا اللہ، ہمارے دین کے عمل کو ایک ساتھ مضبوط کر


74. یا اللہ، ہمیں جنت الفردوس کی ابدی خوشیوں میں داخل فرما


75. یا اللہ، ہمیں جسمانی اور جذباتی طاقت کے ساتھ اچھے والدین اور اپنے بچوں کے لیے ایک اچھی مثال بننے کی توفیق عطا فرما


76. یا اللہ ہمارے بچوں کوان کی زندگیوں میں ہماری غلطیوں کے اثر سے بچا



77. یا اللہ ہمیں نیک اولاد عطا فرما


78. یا اللہ، ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا

ان کو میرے اور میرے شوہر کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے


80. اے اللہ میرے گھر والوں کو شر، آفات، حسد اور شیاطین سے انسان اور جن سے محفوظ فرما


81. یا اللہ ہمارے بچوں کو کفر، حرام اور تباہی نقصان، بیماریوں سے محفوظ فرما،


82. یا اللہ ہمارے بچوں کو دین و دنیا اور آخرت میں کامیابی عطا فرما آخرہ۔ ہمیں یوم القیامہ تک صالح اولاد کا سلسلہ عطا فرما


83. یا اللہ ہمارے تمام نسب کو جنت الفردوس میں ملا دے۔


84. یا اللہ ہمارے بچوں کو اپنے دین، حفظ القرآن، داعی، ائمہ، علماء، فقہا اور شہداء کے کام کرنے والا بنا۔


85. یا اللہ، ان کو ہمارے لیے جنت کا سبب بنا اور جہنم کی آگ سے ڈھال بنا


86. یا اللہ مجھے اور میرے تمام اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچا اور بغیر حساب کے جنت الفردوس میں داخل فرما


87. یا اللہ، آپ الغفار ہیں ، میرے والدین کو معاف کردیں۔


88. یا اللہ، ان کو دنیا اور آخرت میں بڑے پیمانے پر اجر عطا فرما


89. یا اللہ ان کے درجات بلند فرما اور انہیں جنت الفردوس عطا فرما


90. یا اللہ مجھے بڑھاپے میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے 

91. یا اللہ میرے بہن بھائیوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی عطا فرما۔


92. یا اللہ میرے والدین، میری یوی/شوہر کے والدین، میری بہنوں اور بھائیوں، میرے بزرگوں اور پوری امت کے درجات بلند فرما۔


93. یا اللہ ان کو بیماریوں اور بڑھاپے کی مشکلات سے بچا


94. یا اللہ، میرے اہل و عیال اور امت کے جوانوں اور بوڑھوں کے گناہوں کو بخش دے


95. یا اللہ، انہیں برزخ میں پر سکون وقت عطا فرما جب تک کہ وہ تجھ سے نہ ملیں

96. یا اللہ ہمیں دجال، یاجوج 

ماجوج اور یوم آخرت اور فتنوں سے بچا۔


97. یا اللہ، میرے اہل خانہ اور دوستوں کو اولاد عطا فرما جو اولاد کے تحفے کے منتظر ہیں۔


98. یا اللہ، میرے دنیاوی ساتھیوں کے دلوں کو جوڑ دے جو آپ کے لیے کام کرتے ہیں اور ہمارے بھائی چارے کو مضبوط کرتے ہیں


99. یا اللہ، خاندانی/ ازدواجی مشکلات سے گزرنے والوں کے دلوں کو جوڑ دے


101. یا اللہ، میرے بھائیوں اور بہنوں کو جنگ کے علاقوں اورظلم و ستم، عصمت دری، ذبح اور ذلت سے محفوظ رکھیں 


102. یا اللہ ان کی تکالیف کو دور فرما اور ان کے درجات بلند فرما


103. یا اللہ ان (جدید دور کے، فتنوں، فرعونوں، ظالموں کو نیست و نابود فرما اور جو محروم، نا حق بوجھ تلے ڈوبے، مظلوم اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ان کو اپنی رحمت کے سائے میں لے کر تمام آفات سے نجات عطا فرما۔


104. یا اللہ، اس شخص پر رحم فرما جس نے یہ دعا لکھی اور اسے ان کے لیے اور ان کے اہل خانہ کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے آمین ۔


105. یا اللہ اس انسان پر رحم فرما جس نے ان دعاؤں کو آگے بڑھایا اور اسے اسکے لیے بھی صدقہ جاریہ کا ذریعہ بنا، ان کے لیے اور ان کے اہل خانہ کے لیے آمین


 106۔ یا سمیع الدعا ،

تو سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے! 

ہماری تمام جائز دعائیں ہمارے حق میں قبول فرما۔


آمین یا رب العالمین

🤲🏻🤲🏻🤲🏻

💦💦💦 ۔