جمعرات، 16 اگست، 2018

آداب طریقت

آداب طریقت . . .ہر صاحب نسبت توجہ سے مکمل پڑھے شیئر کرے اور ان آداب پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے
  ادب اور محبت دونوں لازم و ملزوم ہیں جسقدر دل میں محبت پیدا ہو گی اسی قدر ادب میں اضافہ ہو گا اور جنتا زیادہ ادب اختیار کیا جائے گا محبت میں اضافہ ہو گا محبت ایک ایسا جزبہ ہے جسکا نتیجہ ادب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے. . بقول شاعر محبت سکھاتی ہے جینے کاڈھب. محبت کا پہلا قرینہ ادب 
محبت میں اضافے کے کچھ ایسے زرائع ہیں جو اختیار کیے جائیں تو محبت میں شدت پیدا ہوتی ہے اس میں سب سے اہم زریعہ تصور شیخ ہے جسقدر تصور شیخ میں شدت پیدا ہوتی جائے گی محبت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور ذکر الہی اور اذکار بااجازت شیخ میں اضافہ ہوتا جائے گا تصور شیخ میں اسقدر پختگی ہوتی جائے گی. جب ایک سالک پر کیفیات کا نزول ہوتا ہے تو وہ خود کو دریائے محبت میں غوطہ زن پاتا ہے اور اس محبت کا محور ذات مرشد کو سمجھتا ہے لیکن جیسے ہی وہ ان کیفیات سے باہر آتا ہے دنیاوی معاملات اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اسکی توجہ کم ہونے لگتی ہے. . کیفیات کا ہر وقت قائم رہنا ممکن نہیں ہوتا اسلیے سالک کو چاہیے کے راہِ طریقت میں کسب کو بھی اختیار کرے 
آداب طریقت و آداب مرشد کسی کتاب میں میں درج الفاظ پر مبنی شرائط پر عمل پیرا ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ تو وہ کیفیات باطنی ہیں جو اس راہ پر چلنے والے پر گاہے بگاہے طاری ہوتی رہتی ہیں اور ان لمحات میں جو آداب کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں انھی کو حالت ہوش میں اپنے کسب سے جاری رکھنے کا نام ادب ہے. . . صوفیائے کرام نے سالکین کی رہنمائی کیلیے آداب کے سلسلہ میں بہت کچھ تحریر فرمایا ہے مرشدِ کامل مظہر خداوندی ہوتا ہے. تو چاہیے کے ادب بھی ویسے ہی کیا جائے اصل ادب تو یہ ہے کہ طالب اپنے شیخ کے فرمان پر اسکی تعلیمات پر مکمل عمل کرے اور اپنے ظاہر و باطن کو اپنے مرشد کے سراپا میں ڈھالے ا
نکی پسند کو اپنی پسند بنائے اور جن چیزوں کو وہ ناپسند کریں انکو ترک کر دے 
گناہوں کو ترک کر دے اور اعمال صالح اور ذکر خداوندی اختیار کرے 
جب اپنے مرشد کی بارگاہ میں حاضری کا ارادہ ہو تو خوب صاف ستھرا لباس پہنے سر ڈھانپ کر عاجزی اور ادب سے بارگاہ مرشد میں حاضر ہو دروازے پر آہستگی سے دستک دے اور موّدب کھڑا رہے انتظار کرے یہاں تک کے استانہ سے کسی کا جواب موصول ہو. . اس بات کا خیال رکھے کے شیخ سے ملاقات کا وقت ایسا منتخب کرے کے جسمیں انکی مصروفیات میں کوئی خلل واقع نہ ہو اور اگر ہو سکے تو اپنے شیخ کی خدمت میں کوئی نہ کوئی تحفہ حسبِ توفیق ضرور لیکر جائے. ادب سے دست بوسی کرے اور جب تک مرشد اپنی نشست پر تشریف فرما نہ جائیں. ادب سے سر جھکا کر کھڑا رہے پھر شیخ کے حضور دوزانو سرجھکا کر بیٹھے. . اور انکے ارشادات کو کان لگاکر خوب شوق اور توجہ کیساتھ سنے اور اگر کوئی بات کرنا ہو تو نہائت دھیمے اور نرم لہجہ میں کرے. . شیخ کی غیر موجودگی میں انکی نشست پر مت بیٹھے. شیخ سے اونچی جگہ پر مت بیٹھے. جب شیخ کے ساتھ چلے تو ادب سے پیچھے چلے اپنے قدم شیخ کے قدم سے آگے نہ بڑھائے. اپنے مرشد کے سائیہ کا بھی ادب کرے اور اپنے قدم چلتے ہوئے مرشد کے سائیہ پر بھی نہ آنے دے. . اپنے مرشد کی طرف کبھی پیٹھ نہ کرے جب اجازت لیکر جانے لگے تو الٹے قدم واپس ہو.  
اگر مرشد کسی بات پر اظھار ناراضگی فرمائیں تو جن وجوہات کی بناء پر شیخ ناراض یوئے اسکا فوراً تدارک کرے اپنے مرشد کی دائرہ شریعت کے اندر کسی بات پر اعتراض نہ کرے. اور اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے تو اسے اپنی کم عقلی جانے.  
جب مرشد کوئی نصیحت فرمائیں تو اسمیں اپنی طرف سے کوئی تاویل نہ کرے من وعن قبول کر لے
کیونکہ مرید کی لغت میں کیوں کب اور کیسے کےالفاظ نہیں ہونے چاہیں.  
اپنے مرشد کے مخالفین سے قطعاً دوستی نہ رکھے.  
جن لوگوں کو شیخ پسند فرماتے ہیں ان لوگوں کا بھی ادب کرے اپنے مرشد کے زیر استعمال اشیاء کا بھی ادب کرے. اپنے جان و مال کو اپنے مرشد کی ملکیت جانے اور انکے حکم کی تعمیل کو اولین ترجیع دے
اگرچہ مرید نے سالہا سال اپنے مرشد کی خدمت گزاری کی ہو مگر دل میں کبھی خیال نہ لائے کہ میں اپنے مرشد کی خدمت کا حق ادا کر چکا ہوں
اپنے مرشد کے حضور دنیاوی معاملات پیش نہ کرے. اور روحانی معاملات کو بھی احسن طریقہ سے بیان کرے. اپنے کسی پیر بھائی سے حسد نہ کرے. اور اسکی روحانی ترقی پہ خوشی کا اظھار کرے. اپنے پیر بھائیوں کا بھی اپنے مرشد جیسا ہی احترام کرے خصوصاً خلفاء کا بہت زیادہ احترام کرے.  
اپنے مرشد سے صرف انکی محبت کی خواہش رکھے 
مراتب کے حصول کی خواہش کو دل میں جگہ نہ دے اور جب کبھی مرشد خوش ہو کر اپنی رضا و خوشی سے. اجازت و خلافت عطا فرما دیں تو اسے دل و جان سے قبول کرے اور اجازت و خلافت کو خدمت خلق سمجھے اور ہمیشہ خادم بنکر رہے کبھی کرامت طلب نہ کرے
محبت مرشد میں خود کو فناء کر دے اپنی صفات کو شیخ کی صفات سے بدل ڈالے اپنی ہر رضا کو رضائے مرشد میں گم کر دے ظاہری و باطنی طور پر اپنے مرشد کی مکمل صورت بن جائے. . اور اس شعر کا مصداق بن جائے 
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی 
تاکس نہ گویدبعد ازیں من دیگرم تو دیگری
اللہ کریم سے دعا ہے کہ صدقہ نبی اکرمؑ کا ہمسبکو اپنے مرشد کامل کی مکمل اتباع اور ادب و احترام اور سچی محبت نصیب فرمائے آمین ثم آمین. کیونکہ نگاہِ مرشد کامل سے عشقِ مصطفیؑ حاصل
خدا کا قُرب دیتی ہے محبت پیر خانے کی.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں