پیر، 8 اگست، 2022

ایک ایک چپو تھام لو!

 . ایک ایک چپو تھام لو!   


           گھر میں کسی کو بخار ہو تو گھر کے افراد مناسب سی توجہ دیتے ہیں.. کسی نے ساتھ لیجا کر دوا لادی. یا تھوڑی دیر کے لیے پاس بیٹھ کر دلجوئی کردی. لیکن کاروبار، ملازمت سمیت معمول کے کام سب کے چلتے رہتے ہیں. لیکن خدا نخواستہ اگر کسی فرد کو کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہوجائے جیسے کوئی خطرناک حادثہ یا فالج وغیرہ تو سب لوگ سب کام چھوڑ چھاڑ کر پوری توجہ اورتمام وسائل مہیا کرکے اس مریض کی بہتری کی تگ ودو میں لگ جاتے ہیں. اور اس وقت تک معمولاتِ زندگی بحال نہیں ہوتے جب تک کہ مذکورہ شخص موت وحیات کی کشمکش سے نکل نہ جائے. 


          وطن عزیز کی معاشی حالت بالکل ایسی ہی ہے جیسے کسی جاں بلب مریض کی ہو. ایسے میں سب سے پہلے سرکار اور پھر اپوزیشن اور اس کے بعد ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے معمولات میں سے وقت نکال کر کچھ لمحات اس جاں بلب مریض کی بہتری کے لیے صرف کریں. جیسے کسی مریض کو خون چاہیے ہوتا ہے تو ہر کوئی بھاگ دوڑ کرکے خون کا بندوبست کرتا ہے، یا کسی مریض کو سٹنٹ یا امپلانٹ چاہیے تو اس کا بندوبست کیا جاتا ہے… بالکل ایسے ہی اس مریض کی ضرورت ہے ڈالرز.. 


    آپ کو اگر اس مریض سے محبت ہے تو یہ مت دیکھیں کہ ڈاکٹر آپ کی پسند کا ہے یا نہیں آپ دوا کا بندوبست کریں. کہیں ایسا نہ ہو کہ پسند کے ڈاکٹر کے انتظار میں مریض کی سانسیں اکھاڑنا شروع ہوجائیں. 


        ڈالر حاصل کرنے کے لیے سب سے فوری طریقہ آئی ٹی کا میدان ہے. جیسا کہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت نے گذشتہ سال سافٹویئر کی برآمدات سے ڈھائی سو ارب ڈالر زرمبادلہ حاصل کیا جبکہ ہم نے صرف دو ارب ڈالر . ہم اس سے پانچ گنا کم آبادی والا ملک ہیں تو ہمیں کم از کم چالیس ارب ڈالر کو کمانا چاہئیں. چالیس تو چھوڑیں جی اگر ہم صرف دس ارب ڈالر ہی مزید اس سیکٹر سے حاصل کرلیں تو ہمارے سروں سے خسارے کی لٹکتی تلوار ہٹ جائے گی. 


        کیا رکاوٹ ہے جناب . سینکڑوں تعلیمی ادارے ہزاروں بی سی ایس پیدا کررہے ہیں تو کیوں اس رفتار بہتری نہیں آرہی. سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے افراد کی قابلیت کا معیار وہ نہیں جو عالمی منڈی میں سافٹویئر برآمد کے لیے چاہیے اور پھر ہمارے لوگوں کا رویہ بھی انتہائی خام ہے. سہل پسندی غالب ہے وقت ضائع کرتے ہیں مگر اپنی صلاحیتوں کو بہتر نہیں کرتے. ہمارا خیال ہے کہ اچھے تعلیمی اداروں کے اساتذہ میں کم از کم ایک ایسا فرد ضرور ہونا چاہیے جو عملی طور پر اس میدان میں کام کرچکا ہو. اور طلبا کی ڈگری دینے سے پہلے ہی اس قدر تربیت کسری جائے کہ وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عالمی معیار کی برآمد کے قابل اپلیکیشنز بنانا شروع کردیں. 


   پھر ایک بہت بڑا در اس وقت ایمزون کا کھلا ہے. جس میں ذرا سی کوشش سے نہ صرف ہزاروں نوجوان برسرِ روزگار ہوسکتے ہیں بلکہ ملک کے لیے کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ کماسکتے ہیں. اس میں مگر ایک قباحت ہے کہ وطن عزیز میں ابھی اس معیار کی اس قدر وافر اشیاء نہیں بنایی جاتیں مجبوراً ہمیں چی. ی اشیاء کی فروخت کرنا پڑتی جس کے لیے زرمبادلہ پہلے چین بھیجنا پڑتا ہے. اور بعد میں ہماری کمائی شروع ہوتی ہے. 


      نوجوانوں کی ایک فوج کو سینکڑوں ہنر سکھلا کر وسط ایشیاء اور دیگر ممالک میں کام کے لیے بھیجا جاسکتا ہے. اس وقت بھی پاکستان کی کل برآمدات کے نصف کے قریب زرمبادلہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ہی آتا ہے. اگر ہم نوجوانوں کو تین چار ماہ کے ویلڈنگ یا تعمیرات کے شعبے کے دوسرے ہنر کے کورسز کروا کر ان کی سرٹیفیکشن کرکے باہر بھیجیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کو مزید بڑھایا نہ جاسکے . 


         گاڑیوں، ٹریکٹروں اور ان کے فاضل پرزہ جات سے بھارت سالانہ اسی ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کرتا ہے آبادی کے تناسب سے ہمیں سولہ ارب ڈالر کی برآمدات کرنا چاہئیں.. مگر ہماری برآمدات اس مد میں آدھے ارب ڈالر سے بھی کم ہیں. کس قدر بڑا میدان ہے. فارغ بیٹھے دوستوں سے گزارش ہے کہ اس میدان میں ہنر سیکھیں.. آئی ٹی سیکٹر کی طرح یہ بھی ایسا میدان ہے جس میں بہت کم سرمایہ کاری سے اپنا کام شروع کیا جاسکتا ہے. 


     دنیا بھر میں فروزن فوڈ کا ڈھائی سو ارب ڈالر کا سالانہ کاروبار ہوتا ہے. دس ارب ڈالر کا خشک پھلوں اور لگ بھگ اتنا ہی خشک سبزیوں کا. پھر ٹن پیک فوڈ کا حجم بھی قریب اتنا ہی ہے. زرعی ملک ہونے کے ناطے، تین سو ارب ڈالر سالانہ کے اس کاروبار میں ہم ایک فیصد بھی حصہ لیں تو تین ارب ڈالر بنتے ہیں. مصر صرف متحدہ ارب امارات کو دوسوٹن ماہانہ سرکے کا اچار فراہم کرتا ہے ہم کیوں نہیں کرسکتے. 


      پھر ہنڈی کرافٹس ہیں، کھلونے ہیں، پنکھے، جوسرز، ہئیر ڈرائیرز اور اس طرح کی ان گنت گھریلو اشیاء جس کے لیے بہت زیادہ ہنر اور بہت مہنگی مشینری درکار نہیں. ادویات اور ان کا خام مال ہے، کیمیائی مرکبات ہیں… اور نہ جانے کیا کیا کچھ. جب لگن اور عزم کے ساتھ تلاش میں نکلیں گے تو بقول شاعر 

         ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں… 


    دوستو اس بھنور میں پھنسی کشتی کا ایک ایک چپو تھام لو… آؤ مل کر زور لگاتے ہیں انشاءاللہ اسے نہ صرف اس بھنور سے نکال دیں گے بلکہ ہمیشہ کے لیے بہت محفوظ مقام پر لیجائیں گے… 


                   ( ابن فاضل )

#ابن_فاضل

#Ibn_e_fazil

زوال پذیر معاشرے کی علامات

 Worth Reading


ہر وہ ملک جس کے بادشاہ، حکمران، وزیر، مشیر ، بیوروکریٹس اور تاجر بڑے گھروں، بڑے دفتروں میں رہتے ہیں 

وہ ملک وہ معاشرہ زوال پذیر ہوگا‘‘-

میں خاموشی سے سنتا رہا،

انہوں نے فرمایا:

"پورا عالم اسلام بڑے گھروں کے خبط میں مبتلا ہے،

اس وقت دنیا کا سب سے بڑا محل برونائی کے سلطان کے پاس ہے ،

عرب میں سینکڑوں ہزاروں محلات ہیں اور ان محلات میں سونے اورچاندی کی دیواریں ہیں، اسلامی دنیا اس وقت قیمتی اور مہنگی گاڑیوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے‘‘-


"تم پاکستان کو دیکھو،

تم ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز، کور کمانڈر ہاؤسز، آئی جی ، ڈی آئی جی ہاؤسز، ڈی سی اوز ہاؤس اور سرکاری گیسٹ ہاؤسز کو دیکھو،

یہ سب کیا ہیں؟

یہ سب بڑے گھر ہیں،

پاکستان کے ایک ضلع میں18ویں گریڈ کے ایک سرکاری عہدیدار کا گھر 106کنال پر مشتمل ہے،

اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس کا رقبہ قائد اعظم یونیورسٹی کے مجموعی رقبے سے چار گنا ہے،

لاہور کا گورنر ہاؤس پنجاب یونیورسٹی سے بڑا ہے،

اور ایوان صدر کا سالانہ خرچ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے"

میں خاموشی سے سنتا رہا.

پھر بولے:

"تم لوگ اپنے حکمرانوں کے دفتر دیکھو،

ان کی شان و شوکت دیکھو،

ان کے اخراجات اور عملہ دیکھو،

کیا یہ سب فرعونیت نہیں؟

کیا اس سارے تام جھام کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ہم سے راضی رہے گا"؟؟

جبکہ اس کے برعکس تم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کا لائف سٹائل دیکھو ،

بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص ہے،

دنیا میں صرف 18 ممالک ایسے ہیں جو دولت میں بل گیٹس سے امیر ہیں،

باقی 192 ممالک اس سے کہیں غریب ہیں،

لیکن یہ شخص اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا ہے،

وہ اپنے برتن خود دھوتا ہے ،

وہ سال میں ایک دو مرتبہ ٹائی لگاتا ہے،

اور اس کا دفتر مائیکروسافٹ کے کلرکوں سے بڑا نہیں.

وارن بفٹ دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے.

اس کے پاس 50 برس پرانا اورچھوٹا گھر ہے،

اس کے پاس 1980ء کی گاڑی ہے،

اور وہ روز کوکا کولا کے ڈبے سٹورز پر سپلائی کرتا ہے.

برطانیہ کے وزیراعظم کے پاس

دو بیڈروم کا گھر ہے.

جرمنی کی چانسلر کو سرکاری طور پر ایک بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا ڈرائنگ روم ملا ہے.

اسرائیل کا وزیراعظم دنیا کے سب سے چھوٹے گھر میں رہ رہا ہے،

کبھی کبھار اس کی بجلی تک کٹ جاتی ہے.

بل کلنٹن کو لیونسکی کیس کے دوران کورٹ فیس ادا کرنے کے لئے دوستوں سے ادھار لینا پڑا تھا.

وائیٹ ہاؤس کے صرف دو کمرے صدر کے استعمال میں ہیں،

اوول آفس میں صرف چند کرسیوں کی گنجائش ہے.

جاپان کے وزیراعظم کو

شام چاربجے کے بعد سرکاری گاڑی کی سہولت حاصل نہیں.

چنانچہ تم دیکھ لو

چھوٹے گھروں والے یہ لوگ

ہم جیسے بڑے گھروں والے لوگوں پر حکمرانی کررہے ہیں....

یہ ممالک آگے بڑھ رہے ہیں

اور ہم دن رات پیچھے جا رہے ہیں"

(Copied)

لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر خریدنے کے لیے راہنمائی

 نیا یا پرانا کمپیوٹر کیسے خریدا جائے

نئےاچھے لیپ ٹاپ کی نشانیاں

=====================

1..ریم: کم از کم 8 جی بی یا زیادہ سے 16 جی بی

اگر ریم 8 جی بی ہو تو ایک سلاٹ میں ہونی چاہئے اور ایک سلاٹ خالی ہو اس میں 8 جی الگ سے خرید کر ڈالی جا سکتی ہے یعنی ریم بعد میں زیادہ کی جا سکتی ہے 


2..ہارڈ ڈسک یعنی میموری ssd ہونی چاہئے جبکہ hdd تین گنا slow ہوتی ہے اور بیٹری بھی زیادہ استعمال کرتی ہے اس لیے صرف ssd ہی کام کے لیے بہتر ہے 


3..جنریشن جتنی زیادہ اتنا ہی جدید یعنی 4th جنریشن سے 5th بہتر اور 5th سے 6th بہتر 

سب سے جدید اس وقت تک 11th جنریشن ہے 


4..پروسیسر کی 3 اقسام: 

core i3، i5 & i7.

جبکہ 

i7 is the best

 

5..اگر آپ نے 

گرافیکل کام کرنا ہے تو 

کم از کم 2gb گرافک کارڈ بھی ضروری ہے


6..بیٹری 🔋 lithium سیلز کی ہونی چاہئے

لیپ ٹاپ کی بیٹری جتنے mAh کی ہوتی ہے وہ بھی دیکھ لیں

یوزڈ used میں لیپ ٹاپ لیں تو تسلی کر لیں کہ کتنے mAh بیٹری بقایا ہے


      Second hand Laptops

       ...................................

1..لیپ ٹاپ لیتے ہوئے زیادہ تر دھوکہ ڈسپلے میں ہوتا ہے

یعنی اصل ڈسپلے نکال کر کوئی لوکل ڈالا ہوتا ہے، اس کو چیک کرنے کا طریقہ یہ ہے

 اگر آپ نے استعمال شدہ لیپ ٹاپ لینا ہے تو یہ معلومات آپ کے لیے ہے 

دکان دار پرانا لیپ ٹاپ بیچتے ہوئے ایسا وال پیپر لگاتے ہیں کہ لوگ ڈسپلے دیکھ کر ہی خوش جاتے ہیں اور وال پیپر بھی اس طرح کا ہوتا ہے کہ ڈیمج پکسلز پر نظر نہیں جاتی 

ڈسپلے چیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ لیپ ٹاپ کی brightness فل کر لیں اس کے بعد آپ نے نوٹ پیڈ اوپن کرکے اسے ساری سکرین پر پھیلا دینا ہے اس سے ساری سکرین سفید ہو جائے گی

اس طرح سکرین میں اگر کوئی پکسل ڈیمج ہے یا کسی جگہ سے سکرین پر دباؤ آیا ہوا ہے تو وہاں سے کالے نشان نظر آ جائیں گے


2..دوسرا آپ نے جو لیپ ٹاپ لینا ہے اسے انٹرنیٹ پر سرچ کر کے اس کی specification میں دیکھ لیں کہ مطلوبہ لیپ ٹاپ کو کونسا ڈسپلے لگا ہے lcd ہے یا led

اگر lcd ہو تو سکرین کو سائیڈو سے دیکھنے سے ڈسپلے ٹھیک نظر نہیں آتا یہ lcd کی نشانی ہے

اور led زیادہ بہتر ڈسپلے ہے


3..تیسرا اہم سوال ہے کہ کی بورڈ کےبٹنوں کا

کیا کوئی بٹن خراب تو نہیں

جو لیپ ٹاپ خریدنا ہو اس لیپ ٹاپ سے گوگل پر سرچ کریں

Keyboard tester


یہ 1 mb کا سوفٹویر ہے ڈاؤنلوڈ اور انسٹال کر کے اسے اوپن کریں

اور لیپ ٹاپ کے بٹنوں کو ایک ایک کر کے دباتے جائیں 

جو جو بٹن ٹھیک ہو گا وہ سکرین پر سبز رنگ میں بدلتا جائے گا


4..پروسیسر کو چیک کرنے کے لیے آپ نے گوگل میں سرچ کرنا ہے

CPU Z

اس چھوٹے سے سافٹویئر کو ڈاؤنلوڈ اور انسٹال کر کے اوپن کرنا ہے

اوپن کرنے کے بعد پہلے ہی آپشن میں CPU کی معلومات درج ہوں گی

اس CPU معلومات میں نام والے کالم کے سامنے درج نمبر آپ کو جنریشن کا بتائیں گے 

غور سے سمجھیں 

 مثلاً 

                    Inter core i3,

اس کے بعد اگر تین ہندسے اور لکھے ہوں تو پروسیسر فرسٹ جنریشن ہے

اگر چار ہندسے ہوں تو سیکنڈ یا اس سے اگلی جنریشنز ہیں


مثلاً

           Intel core i3.,,,, 803

یعنی i3 کے بعد تین ہندسے آئے تو مطلب فرسٹ جنریشن

           Intel core i3.,,,, 2304

اس مثال میں i3 کے بعد چار ہندسے آئے تو یہ دوسری جنریشن

اسی طرح

      Intel core i3.,,,, (3)405

      Inter core i3.,,,, (4)505

ان دو مثالوں میں بھی چار ہندسے ہیں لیکن پہلی مثال میں شروع کا ہندسہ 3 ہے تو تیسری جنریشن

دوسری مثال میں شروع کا ہندسہ 4 ہے تو چوتھی جنریشن


یاد رہے کہ پہلے ہندسے کو سمجھانے کے لیے گول بریکٹ لگائی ہے


                                   CPU. Z

اس سوفٹویر کی مدد سے آپ cache اور mother board کی معلومات بھی لے سکتے ہیں


اور یہی سوفٹویر آپ ram کی معلومات اور گرافک کارڈ کی معلومات بھی دے گا


اگر لیپ ٹاپ میں گرافک کارڈ نہیں ہوگا تو معلومات بھی نظر نہیں آئیں گی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5..ہارڈ ڈسک اور بیٹری 🔋 چیک کرنے کا طریقہ

استعمال شدہ لیپ ٹاپ خریدتے وقت ہارڈ ڈسک اور بیٹری چیک کرنے کا طریقہ

آپ نے گوگل پر سرچ کرنا ہے

hard disk sentinel

اس سوفٹویر کو ڈاؤنلوڈ اور انسٹال کر کے اوپن کریں

Health

اور 

Performance

کی پرسنٹیج ظاہر ہو جائیں گی

اگر ہارڈ ڈسک میں کوئی پرابلم ہو

تو health اور performance لیول 100 پرسنٹ نہیں ہوتا

نیچے نوٹ بھی لکھا ہوتا ہے ہارڈ ڈسک ٹھیک ہو تو بتا دیا جاتا ہے اگر پرابلم یعنی bad sector ہوں تو نوٹ میں لکھے ہوتے ہیں 

         Temperature option

اسی سوفٹویر کے ٹمپریچر آپشن میں آپ ہارڈ ڈسک کا درجہ حرارت معلوم کر سکتے ہیں 

             Smart option 

ہارڈ ڈسک کے باقی سارے ٹیسٹ

 سمارٹ آپشن میں دیکھ سکتے ہیں 

سمارٹ آپشن میں ٹیسٹ ویلیو 0 ہونی چاہئے 

اگر ہارڈ ڈسک مرمت شدہ ہو یعنی مکینک نے bad sector نکالے ہوں تو ویلیو 0 نہیں ہوتی

       Information option

اس آپشن میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کی ہارڈ کس قسم کی ہے 

ایس ایس ڈی ہے یا ایچ ڈی ڈی وغیرہ 


6.بیٹری 🔋 چیک کرنے کا طریقہ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سٹارٹ سٹارٹ مینو پر رائٹ کلک کر کے ونڈوز پاور شیل اوپن کریں 


اس میں آپ نے یہ لکھنا ہے 👇

powercfg/betteryreport/output 

آگے لکھنا ہے 

-c:\bettery.html-

یعنی یہ آپ نے پاتھ لکھنا ہے اس کے بعد enter کلک کرکے بیٹری رپورٹ محفوظ کر لیں 


سی ڈرائیو میں آپ کی بیٹری رپورٹ محفوظ ہے اسے اوپن کرکے بیٹری کی معلومات دیکھ لیں اس رپورٹ میں پتہ چل جاتا ہے کہ جب لیپ ٹاپ نیا بنا تھا تو بیٹری کتنی تھی

استعمال ہونے کے ابھی کتنی بیٹری بقایا بچی ہے.

والدین کا ادب اور اس کے ثمرات

 *والدین کے ادب کے ثمرات چند واقعات کی روشنی میں*


*واقعہ 1*

*بنی اسرائیل کا ایک یتیم بچہ ہر کام اپنی والدہ سے پوچھ کر ان کی مرضی کے مطابق کیا کرتا تھا۔ اس نے ایک خوبصورت گائے پالی اور ہر وقت اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھا۔ ایک مرتبہ ایک فرشتہ انسانی شکل میں اس بچے کے سامنے آیا اور گائے خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بچے نے قیمت پوچھی تو فرشتے نے بہت تھوڑی قیمت بتائی۔ جب بچے نے ماں کو اطلاع دی تو اس نے انکار کر دیا۔ فرشتہ ہر بار قیمت بڑھاتا رہا اور بچہ ہر بار اپنی اماں سے پوچھ کر جواب دیتا رہا۔ جب کئی مرتبہ ایسا ہوا تو بچے نے محسوس کیا کہ میری والدہ گائے بیچنے پر راضی نہیں ہیں لہٰذا اس نے فرشتے کو صاف انکار کر دیا کہ گائے کسی قیمت پر نہیں بیچی جاسکتی۔ فرشتے نے کہا کہ تم بڑے خوش بخت اور خوش نصیب ہو کہ ہر بات اپنی والدہ سے پوچھ کر کر تے ہو۔ عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ اس گائے کو خریدنے کے لئے آئیں گے تو تم اس گائے کی خوب بھاری قیمت لگانا۔*

*دوسری طرف بنی اسرائیل میں ایک آدمی کے قتل کا واقعہ پیش آیا اور انہیں جس گائے کی قربانی کا حکم ملا وہ اسی بچے کی گائے تھی۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے لوگ جب اس بچے سے گائے خریدنے کیلئے آئے تو اس بچے نے کہا کہ اس گائے کی قیمت اس کے وزن کے برابر سونا ادا کرنے کے برابر ہے۔بنی اسرائیل کے لوگوں نے اتنی بھاری قیمت ادا کر کے گائے خرید لی۔ تفسیر عزیزی اور تفسیر معالم العرفان فی دروس القرآن میں لکھا ہے کہ اس بچے کو یہ دولت والدین کے ادب اور ان کی اطاعت کی وجہ سے ملی۔ تفسیر طبری میں بھی اسی طرح کا واقعہ منقول ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت و ادب کا کچھ صلہ اس دنیا میں بھی دے دیا جاتا ہے۔*


*واقعہ 2*

*بنی اسرائیل کے تین آدمی اکٹھا سفر کر رہے تھے کہ اچانک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ تینوں نے بھاگ کر ایک قریبی پہاڑ کی غار میں پناہ لے لی۔ اسی دوران ایک چٹان اوپر سے گری جس سے غار کا منہ بند ہو گیا۔ غار کے اندر اندھیرا ہوگیا۔ سانس گھٹنے لگا حتیٰ کہ تینوں کو موت سامنے کھڑی نظر آرہی تھی۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ بارگاہ الہٰی میں اپنے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا جائے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا، اے پروردگار عالم !تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے، میں سارا دن بکریاں چراتا تھا اور شام کو گھر واپس آکر ان بکریوں کا دودھ اپنے والدین کو پلاتا تھا۔ ایک دن گھر واپس آنے میں تاخیر ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ والدین سو چکے ہیں۔ اے اللہ !میں دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لے کر انتظار کرتارہا کہ جب ان کی آنکھ کھلی تو دودھ پیش کروں گا۔ اسی حال میں میری ساری رات گزر گئی۔ رب کریم !اگر میرا یہ عمل آپ کی نظر میں مقبول ہے تو اس کی برکت سے چٹان کو دور فرما۔ چنانچہ چٹان اپنی جگہ سے سرک گئی اور غار کے منہ کا تیسرا حصہ کھل گیا۔ پھر دوسرے اور تیسرے نے دعا مانگی حتی کہ چٹان ہٹ گئی اور ان لوگوں کی جان میں جان آئی۔ (بخاری شریف: ج۱، ص 493)*


*واقعہ 3*

*ایک نوجوان اپنے والدین کا بڑا ادب کرتا تھا اور ہر وقت ان کی خدمت میں مشغول رہتا تھا۔ جب والدین کافی عمر رسیدہ ہو گئے تو اس کے بھائیوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ اپنی جائیداد کو والدین کی زندگی ہی میں تقسیم کر لیا جائے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ کھڑا ہو۔ اس نوجوان نے کہا کہ آپ جائیداد کو آپس میں تقسیم کر لیں اور اس کے بدلے مجھے اپنے والدین کی خدمت کا کام سپرد کردیں۔ دوسرے بھائیوں نے برضا و رغبت یہ کام اس بھائی کے سپر د کر دیا۔ یہ نوجوان سارا دن محنت مزدوری کرتا پھر گھر آکر بقیہ وقت اپنے والدین کی خدمت اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال میں گزارتا۔ وقت گذرتا رہا حتیٰ کہ اس کے والدین نے داعیء اجل کو لبیک کہا۔*

*ایک مرتبہ یہ نوجوان رات کو سو رہا تھا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا اسے کہہ رہا ہے، اے نوجوان !تم نے اپنے والدین کا ادب کیا، انکو راضی و خوش رکھا، اس کے بدلے تمہیں انعام دیا جائے گا۔ جائو فلاں چٹان کے نیچے ایک دینار پڑا ہے وہ اٹھا لو۔ اس میں تمہارے لئے برکت رکھ دی گئی ہے۔ یہ نوجوان صبح کے وقت بیدار ہوا تو اس نے چٹان کے نیچے جا کر دیکھا تو اسے ایک دینار پڑا ہوا مل گیا۔ اس نے دینار اٹھا لیا اور خوشی خوشی گھر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ایک مچھلی فروش کی دوکان کے قریب سے گزرتے ہوئے اسے خیال آیا کہ اس دینار کے بدلے میں ایک بڑی سے مچھلی خرید لی جائے تاکہ بیوی بچے آج اس کے کباب بنا کر کھائیں۔ چنانچہ اس نے دینار کے بدلے ایک بڑی مچھلی خرید لی۔ جب گھر واپس آیا تو اس کی بیوی نے مچھلی کو پکانے کیلئے کاٹنا شروع کیا۔ پیٹ چاک کیا تو اس میں سے ایک بہت قیمتی ہیرا نکلا۔ نوجوان اس ہیرے کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ جب بازار جا کر اس ہیرے کو بیچا تو اتنی قیمت ملی کہ اس کی ساری زندگی کا خرچہ پورا ہو گیا۔*


*واقعہ 4*

*ایک بزرگ رات دن عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کسی دوست سے ملاقات کرنی چاہئے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک نوجوان اپنی بکریوں کو چرا رہا ہے اور کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ یہ نوجوان اللہ کا دوست ہے تم اس سے ملاقات کر لو۔ وہ بزرگ بیدار ہوئے تو انہیں اس نوجوان سے ملاقات کی جستجو ہوئی۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ وہ نوجوان اپنی بکریوں کاریوڑ لےکر راستے سے گذر رہا ہے۔ وہ بزرگ اس نوجوان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ میں چند دن آپ کے گھر مہمان بن کر رہنا چاہتا ہوں۔ نوجوان نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور اس بزرگ کو اپنے گھر لے آیا۔ رات کے وقت دونوں آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اس بزرگ نے نوجوان سے اپنے خواب کا تذکرہ کیا اور پوچھا کہ تمہارا کونساعمل اللہ تعالیٰ کواتنا پسند آیا ہے کہ تمہیں اس پروردگار نے اپنے دوستوں میں شامل کر لیا ہے؟ یہ سن کر وہ نوجوان آبدیدہ ہو گیا۔ پھر اس نے قریب کا کمرہ کھول کر دکھایا کہ اس میں دو مسخ شدہ چہروں والے انسان بندھے ہوئے تھے۔ وہ بزرگ حیرت زدہ رہ گئے اور پوچھنے لگے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ نوجوان نے کہا کہ یہ میرے غافل اور گنہگار والدین ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی گستاخی کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو مسخ کر دیا۔ میں سارا دن بکریوں کا ریوڑ چراتا ہوں اور جب واپس گھر آتا ہوں تو پہلے والدین کو کھانا کھلاتا ہوں بعد میں خود کھاتا ہوں۔ گو انہوں نے اپنے جرم کی سزا دنیا ہی میں پالی مگر میرا فرض بنتا ہے کہ ان کی خدمت کروں۔ آخر میرے تو والدین ہیں۔ وہ بزرگ حیران ہوئے اور انہوں نے نوجوان کو سینے سے لگا کر کہا کہ ہم نے ساری ساری رات عبادت کی اور ساراسارا دن روزہ رکھا مگر اس مقام تک نہ پہنچ سکے جس مقام پر آپ کو والدین کے ادب اور ان کی خدمت کی وجہ سے پہنچنا نصیب ہوا۔ (حقوق والدین)*


*واقعہ 5*

*حضرت اویس قرنیؓ جلیل القدر تابعین میں سے تھے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کا زمانہ تو پایا مگر دیدارِ جمال نبویﷺ سے مشرف نہ ہوسکے۔ ہر وقت اپنی والدہ کی خدمت میں مشغول رہتے تھے۔ ایک مرتبہ والدہ سے اجازت طلب کی کہ مدینہ منورہ حاضر ہو کر شرف صحبت حاصل کر سکوں۔ والدہ نے کہا کہ بیٹا جائو مگر جلدی واپس آجانا۔ حضرت اویس قرنی مدینہ منورہ حاضر ہوئے مگر نبی علیہ السلام کسی غزوہ کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ والدہ کے حکم کی وجہ سے انتظار میں زیادہ نہ رک سکے اور واپس گھر چلے آئے۔ جب نبی کریمﷺ واپس تشریف لائے اور آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ قبیلہ قرن کا ایک نوجوان آپ کے دیدار کے لئے حاضر ہوا تھا مگر والدہ کے حکم کی وجہ سے واپس چلا گیا تو نبی علیہ السلام نے اپنا جبہ مبارک حضرت عمرؓ و حضرت علی ؓ کو دیا اور فرمایا کہ میری طرف سے یہ ہدیہ اویس قرنی کو پہنچا دینا اور اسے کہنا کہ یہ جبہ پہن کر میری گناہ گار امت کے لئے مغفرت کی دعا کرے۔ تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ وصالِ نبویﷺ کے بعدحضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے وہ جبہ اویس قرنیؓ کو پہنچا دیا۔*


*واقعہ 6*

*حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒ کے ایک بھائی نہایت عبادت گزار تھے اور رات دن عبادت میں مشغول رہتے تھے جبکہ آپ کا بیشتر وقت والدین کی خدمت و اطاعت میں گزرتا تھا۔ ایک رات جب آپ کے بھائی ذکرو عبادت میں مشغول تھے تو ایک ندا سنی کہ کسی کہنے والے نے کہا ’’ ہم نے تمہارے بھائی کی مغفرت کی اور اس کی برکت سے تمہیں بھی بخش دیا ‘‘ یہ بھائی بڑے حیران ہوئے کہ ذکرو و عبادت میں تو میں ہر وقت مشغول رہتا ہوں مگر مجھے ابوالحسن کے طفیل بخش دیا گیا۔ ندا آئی کہ ہمیں تیری عبادت کی حاجت نہیں بلکہ محتاج ماں کی خدمت کرنے والے کی اطاعت ہمیں مطلوب ہے۔ (تذکرۃ الاولیاء)*

پانچ لاکھ کا نچوڑ صرف پانچ

 امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ کو پانچ لاکھ احادیث یاد تھی ، ایک دن انہوں نے اپنے بیٹے حماد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹے میں آپکو پانچ لاکھ احادیث کا نچوڑ صرف پانچ احادیث میں بیان کررہا ہوں ۔۔ 


1۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہو۔


2۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ لا یعنی فضول چیزوں کو ترک کر دے۔


3۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہ کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔


4. نبی کریم ﷺ نے فرمایا حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی اور دونوں کے درمیان شبہ کی چیز ہے جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سو جو شخص شبہات سے بچا اس نے دین محفوظ کر لیا اور جو شخص شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ جائے گا جیسا کہ چرواہا اپنا ریوڑ کسی کھیت کی باڑ کے پاس لے جائےگا تو عنقریب ایسا ہو گا کہ اس کا ریوڑ کھیت میں بھی چرنے لگے گا۔ بلاشبہ ہر بادشاہ نے باڑلگا دی ہے اور اللہ کی باڑ حرام کردہ اشیا ہیں


5۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے


یہ پانچ احادیث سنانے کے بعد فرماتے ہیں بیٹا ان پانچ احادیث کو آئینے کی طرح رکھنا اور اپنے اعمال کا ان پانچ احادیث پر محاسبہ کرتے رہنا۔ یہ پانچ احادیث ان پانچ لاکھ احادیث کا نچوڑ ہیں جو مجھے یاد ہیں ۔


از مجموعہ امام وصایا امام اعظم رحمۃ اللہ ص: ۶۴