اتوار، 25 فروری، 2018

اجتماع کے حوالے سے سیکورٹی پلان

لاہورپولیس نے رائیونڈاجتماع کا سکیورٹی پلان جاری کردیا۔ 

سکیورٹی پلان کے مطابق دوایس پیز، چارڈی ایس پیز، نوایچ ایس اوزاورایک ہزارسے زائدپولیس اہلکارفرائض سرانجام دینگے۔ ڈی آئی جی آپریشنزڈاکٹرحیدراشرف۔

رائیونڈاجتماع پرافسران و اہلکاردوشفٹوں(دن اوررات) میں فرائض سرانجام دینگے۔ ڈاکٹرحیدراشرف۔ 

رائیونڈاجتماع چوبیس فروری سے چھبیس فروری تک جاری رہے گا۔ ڈی آئی جی آپریشنزلاہور۔ 

اجتماع میں آنے والے ہرشخص کی بائیومیٹرک نظام کے تحت اینٹری ہوگی۔ ڈاکٹرحیدراشرف۔ 

اجتماع کے پنڈال کی اطراف آنے اورجانے والے راستوں پر پی آریواورڈولفنزسکواڈکے جوانوں کوموئثرگشت کی ہدایت کی گئی ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنزلاہور۔ 

رائیونڈ اجتماع میں ہرآنے والے شخص کی جسمانی تلاشی جبکہ بائیومیٹرک نظام کے مطابق شناختی کارڈکے اندراج کے بعد اینٹری کی جائے۔ ڈاکٹرحیدراشرف۔ 

ڈیوٹی پرمعمورپولیس اہلکاراپنے اردگرد مشکوک سرگرمی پرکڑی نظررکھیں۔ ڈی آئی جی آپریشنزلاہور۔

ہفتہ، 24 فروری، 2018

بینک فراڈ کا نیا طریقہ، احتیاط کریں

بینک فراڈ
------
ہمارے ہاں چند ماہ سے ایک نیا کام شروع ہوا ہے۔ کسی موبائل نمبر سے کال آتی ہے اور وہ شخص خود کو حبیب بینک کا نمائندہ ظاہر کرتا ہے اور بینک کے اکاؤنٹ کی تفصیلات پوچھتا ہے۔ چونکہ ہمارے سیلری اکاؤنٹ حبیب بینک میں ہیں اس لئے لوگ اعتبار کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی ہچکچاِئے تو اسے بظاہر بینک کے ٹول فری نمبر سے کال آتی ہے اور بندہ اعتبار کر کے اکاؤنٹ کی تفصیل بتا بیٹھتا ہے۔ چند منٹوں میں ہی اکاؤنٹ خالی ہو جاتاہے۔
:
ہمارے ایک دوست کو ایسی کال آئی ۔ اس جعلی نمائندے نے کہا کہ وہ بینک کی طرف سے بول رہا ہے اور بینک میں ہیکنگ کی واردات کی وجہ سے وہ اکاؤنٹس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ جن کی تصدیق نہیں ہو پائے گی ان کا اکاؤنٹ بند کر دیا جائے گا۔ہمارے دوست سمجھ دار تھے انہوں نے تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔ کال کے دوران ہی ان کے موبائل پر بینک کے ٹول فری نمبر سے کال آ گئی اور اُن صاحب نے اس کا حوالہ دیکر بھی پوچھا لیکن ہمارے دوست نے پھر بھی تفصیلات نہیں بتائیں۔ فون رکھنے پر کچھ ہی دیر میں بینک کے ٹول فری نمبر سے کال آئی اور بینک کی طرف سے کہا گیا کہ وہ کالز کے اژدہام کی وجہ سے ٹول فری نمبر مصروف نہیں رکھ سکتے اس لئے موبائل پہ موجود ان کے نمائندے کو اکاؤنٹ کی تصدیق کر دی جائے۔ اللہ کو کوئی بہتری منظور تھی انہوں نے موبائل پہ کسی بھی حال میں کوئی بھی معلومات شئیر کرنے سے انکار کر دیا۔ جب بینک کی مقامی شاخ سے رجوع کیا تو بینک والوں نے بتایا کہ دوتین اور حضرات اپنی معلومات فون پہ شئیر کرا کے پیسوں کا نقصان کروا چکے ہیں۔
:
ہمارے ایک دوسرے دوست جو لٹ گئے ان کو کال اس وقت آئی جب وہ گاڑی میں کہیں جا رہے تھے۔ موبائل فون والے شخص نے اپنا تعارف آئی ایس آئی کے نمائندے کے طور پر کرایا اور یہ بتا کر ان کا تراہ نکال دیا کہ ان کے نام سے سات لاکھ روپے کا ایک موبائل فون اکاؤنٹ سوات کے علاقے میں پکڑا گیا ہے۔ کچھ حالات کی سنجیدگی کا احساس دلایا کچھ ڈرایا تو ہمارے دوست نے گاڑی سائیڈ پہ لگا کر اپنا آئی ڈی نمبر، والدہ کا نام، بینک اکاؤنٹ نمبر، آن لائن اکاؤنٹ کا آئی ڈی اور پاسورڈ وغیرہ سب کچھ بتا دیا۔ ابھی فون بند ہی کیا تھا کہ پیسوں کے کسی اور اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کا ایس ایم ایس آ گیا۔
:
اتفاق سے ہمارے یہ دوست اپنے تعلقات کی بنیاد پر ایف آئی اے تک پہنچ گئے۔ ایف آئی اے نے اُس نامعلوم شخص کے موبائل نمبر کو ٹریس کیا تو پتہ چلا کہ راولپنڈی میں ایک ریٹائرڈ میجر صاحب یہ سارا ریکٹ چلا رہے ہیں۔ ایف آئی اے والوں نے بتایا کہ کوئی بہتر تہتر لاکھ اسی طرح مختصر عرصے میں لوٹے جا چکے ہیں۔ ہمارے دوست کو نہ پیسے ملے اور نہ ہی وہ فراڈ یا پکڑا گیا۔ ان کے اکاؤنٹ سے پیسے کسی موبائل نمبر پہ بھی بھیجے گئے تھے۔ سم کے ایڈریس کا پتہ کیا تو اس پہ گلی نمبرفلاں ، پتوکی، سیالکوٹ لکھا ہوا تھا۔ ظاہر ہے ایسے ایڈریس پہ کون پہنچ سکتا تھا۔
:
بینک کا ٹول فری نمبر چیک کیا جس سے کال آئی تھی تو پتہ چلا کہ ماسکنگ کے ذریعے بینک کے ٹول فری نمبر کا جھانسہ دیا گیا ہے۔ مثلاً حبیب بینک کا ٹول فری نمبر ہے
  111111425 
 لیکن فون پہ کال پہ نمبر ظاہر ہو رہا ہو گا
+111111425
اسی سے پتہ چل جاتا ہے کہ نمبر کی ماسکنگ کی گئی ہے۔ اصل نمبر کوئی اور ہے۔
:
 ہمارےدو تین اور دوست لاکھوں روپے گنوا بیٹھے۔ ایک بیچارہ سیکورٹی گارڈ جو سابق فوجی بھی ہے دو لاکھ روپے سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
:
ہماری تمام جاننے والوں سے درخواست ہے کہ فون پہ چاہے صدرِ پاکستان ہی آپ سے آپ کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیل کیوں نہ پوچھے، اسے کچھ مت بتائیں۔ صاف انکار کر دیں۔ اس لئے بھی احتیاط کریں کہ اپنا پاسورڈ بتانے کی وجہ سے آپ کے اکاؤنٹ سے پیسے نکل گئے تو اس کا ذمہ کوئی نہیں لے گا۔ اس کی انشورنس بھی نہیں ہوتی۔ سمجھیں نقصان ہو گیا تو ہو گیا۔
کوئی مسئلہ ہو تو بینک کی برانچ سے رجوع کریں۔

جمعرات، 22 فروری، 2018

غوری سلطنت سے نریندر مودی تک

*=(تاریخِ حکمرانِ ھندوستان)=*

*غوری سلطنت سے نریندر مودی تک*

👈 *غوری سلطنت*

1 = 1193 محمد غوری
2 = 1206 قطب الدین ایبک
3 = 1210 آرام شاہ
4 = 1211 التتمش
5 = 1236 ركن الدين فیروز شاہ
6 = 1236 رضیہ سلطان
7 = 1240 معیزالدین بہرام شاہ
8 = 1242 الہ دين مسعود شاہ
9 = 1246 ناصرالدين محمود
10 = 1266 غیاث الدین بلبن
11 = 1286 رنگ كھشرو
12 = 1287 مذدن كےكباد
13 = 1290 شمس الدین كےمرس
*غوری سلطنت اختتام*
(دور حکومت -97 سال تقریبا)

👈 *خلجي سلطنت*

1 = 1290 جلال الدین فیروز خلجی
2 = 1292 الہ دین خلجی
4 = 1316 شھاب الدین عمر شاہ
5 = 1316 قطب الدین مبارک شاہ
6 = 1320 ناصر الدین خسرو شاہ
*خلجی سلطنت اختتام*
(دور حکومت -30 سال تقریبا)

👈 *تغلق سلطنت*

1 = 1320 غیاث الدین تغلق (اول)
2 = 1325 محمد بن تغلق (دوم)
3 = 1351 فیروز شاہ تغلق
4 = 1388 غیاث الدین تغلق (دوم)
5 = 1389 ابوبکر شاہ
6 = 1389 محمد تغلق (سوم)
7 = 1394 الیگزینڈر شاہ (اول)
8 = 1394 ناصر الدین شاہ (دوم)
9 = 1395 نصرت شاہ
10 = 1399 ناصرالدين محمدشاہ (دوم)
11 = 1413 دولت شاه
*تغلق سلطنت اختتام*
(دور حکومت -94 سال تقریبا)

👈 *سعید سلطنت*

1 = 1414 كھجر خان
2 = 1421 معیزالدین مبارک شاہ (دوم)
3 = 1434 محمد شاہ(چہارم)
4 = 1445 الہ دين عالم شاہ
*سعید سلطنت اختتام*
(دور حکومت -37 سال تقریبا)

👈 *لودھی سلطنت*

1 = 1451 بهلول لودھی
2 = 1489 الیگزینڈر لودھی (دوم)
3 = 1517 ابراہیم لودھی
*لودھی سلطنت اختتام*
(دور حکومت -75 سال تقریبا)

👈 *مغلیہ سلطنت*

1 = 1526 ظہیرالدين بابر
2 = 1530 ہمایوں
*مغلیہ سلطنت اختتام*

👈 *سوري سلطنت*

1 = 1539 شیر شاہ سوری
2 = 1545 اسلام شاہ سوری
3 = 1552 محمود شاہ سوری
4 = 1553 ابراہیم سوری
5 = 1554 پرویز شاہ سوری
6 = 1554 مبارک خان سوری
7 = 1555 الیگزینڈر سوری
*سوری سلطنت اختتام*
(دور حکومت -16 سال تقریبا)

👈 *مغلیہ سلطنت دوبارہ*

1 = 1555 همايوں(دوبارہ گدی نشین)
2 = 1556 جلال الدين اکبر
3 = 1605 جہانگیر سلیم
4 = 1628 شاہ جہاں
5 = 1659 اورنگزیب
6 = 1707 شاہ عالم (اول) 
7 = 1712 بهادر شاہ
8 = 1713 پھاروكھشير
9 = 1719 ريپھد راجت
10 = 1719 ريپھد دولا
11 = 1719 نےكشييار
12 = 1719 محمود شاہ
13 = 1748 احمد شاہ
14 = 1754 عالمگیر
15 = 1759 شاہ عالم
16 = 1806 اکبر شاہ
17 = 1837 بہادر شاہ ظفر
*مغلیہ سلطنت اختتام*
(دور حکومت -315 سال تقریبا)

👈 *برطانوی راج*

1 = 1858 لارڈ كینگ
2 = 1862 لارڈ جیمز بروس یلگن
3 = 1864 لارڈ جهن لورےنش
4 = 1869 لارڈ رچارڈ میو
5 = 1872 لارڈ نورتھبك
6 = 1876 لارڈ ایڈورڈ لٹےن
7 = 1880 لارڈ جيورج ریپن
8 = 1884 لارڈ ڈفرین
9 = 1888 لارڈ هنني لےسڈون
10 = 1894 لارڈ وکٹر بروس یلگن
11 = 1899 لارڈ جيورج كرجھن
12 = 1905 لارڈ گلبرٹ منٹو
13 = 1910 لارڈ چارلس هارڈج
14 = 1916 لارڈ فریڈرک سےلمسپھورڈ
15 = 1921 لارڈ ركس ايجےك رڈيگ
16 = 1926 لارڈ ایڈورڈ ارون
17 = 1931 لارڈ پھرمےن وےلگدن
18 = 1936 لارڈ اےلےكجد لنلتھگو
19 = 1943 لارڈ اركبالڈ وےوےل
20 = 1947 لارڈ ماؤنٹ بیٹن

*برطانوی سامراج اختتام*

*🇮🇳بھارت، وزرائے اعظم🇮🇳*

1 = 1947 جواہر لال نہرو
2 = 1964 گلزاری لال نندا
3 = 1964 لال بهادر شاستری
4 = 1966 گلزاری لال نندا
5 = 1966 اندرا گاندھی
6 = 1977 مرارجی ڈیسائی
7 = 1979 چرن سنگھ
8 = 1980 اندرا گاندھی
9 = 1984 راجیو گاندھی
10 = 1989 وشوناتھ پرتاپسه
11 = 1990 چندرشیکھر
12 = 1991 پيوينرسه راؤ
13 = 1992 اٹل بہاری واجپائی
14 = 1996 ےچڈيدےوگوڑا
15 = 1997 ايل كےگجرال
16 = 1998 اٹل بہاری واجپائی
17 = 2004 منموھن سنگھ 
18 = 2014 نریندر مودی
(جاری ھے)

*764 سالوں تک مسلم بادشاھت ہونے کے باوجود بھی ہندو، ھندوستان میں باقی ہیں. مسلمان حکمرانوں نے کبھی بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا*

اور ،،،،،،،،،

*ھندوں کو اب تک 100 سال بھی نہیں ہوئے اور یہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں*
ضروری گزارش!! اساتذہ اس معلومات کو طلباءاوراساتذہ میں عام کریں۔
جزاک اللّہ خیراً کثیرا

تبع حمیری کا سفر حجاز

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ ہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔
پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ ہی علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔
یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔
وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس مین ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟سنئیے اور عظمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھئے:
”کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اما بعد: اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔“
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضور نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔
سبحان اللہ!) میں صدقے یارسول اللہ!ﷺ
بحوالہ کُتب: (میزان الادیان)(کتاب المُستظرف)(حجتہ اللہ علے العالمین)(تاریخ ابن عساکر)

اس تحریر کو شیئر کریں آپکا ایک سینکڈ لگے گا اور لوگوں کے علم میں اضافہ ہوگا 
جزاکماللہ خیر فی الدارین...
 اللہ کریم ھمیں آپکو اور ھماری آنے والی نسلوں کو مدینہ منورہ کی ھمیشہ ھمیشہ کی باقدر باادب زندگی نصیب فرماویں آمین ثم آمین یاکریم رب العالمین بحرمت سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم

نکاح اور جنازہ

Nikaah & janaaza...*
نکاح اور جنازہ
شادی اور جنازہ میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ایک نظم میں خوبصورتی کا ساتھ منظر کشی کی گئی ہے ۔
فرق صرف اتنا سا تھا

teri ​doli​ uthi,
meri ​mayyat​ uthi,
تیری ڈولی اٹھی
میری میت اٹھی

phool ​tujh​ par bhi barse,
phool ​mujh​ par bhi barse,
​farq sirf itna sa tha....​

پھول تجھ پہ برسے،
پھول مجھ پر بھی برسے
فرق صرف اتنا سا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

tu ​saj​ gayi,
mujhe ​sajaya​ gaya..
تو سج گئی!
مجھے سجایا گیا

​tu​ bhi ghar ko chali,
​main​ bi ghar ko chala,
​farq sirf itna sa tha....​
تو بھی گھر کو چلی
میں بھی گھر کو چلا
فرق صرف اتنا سا تھا

tu ​uth​ ke gayi,
mujhe ​uthaya​ gaya...
تو اٹھ کے گئی
مجھے اٹھایا گیا

​mehfil​ wahan bhi thi,
​log​ yahan bhi the,
​farq sirf itna sa tha....​
محفل وہاں بھی تھی
لوگ یہاں بھی تھے
فرق صرف اتنا ہے

unka ​hasna​ wahan,
inka ​rona​ yahan...
ان کو ہنسنا وہاں
ان کو رونا یہاں

​qazi​ udhar bhi tha,
​moulvi​ idhar bhi tha,
قاضی ادھر بھی تھا
مولوی ادھر بھی تھا۔

do bol ​tere​ padhe,
do bol ​mere​ padhe,
tera ​nikaah​ padha,
mera ​janaaza​ padha,
​farq sirf itna sa tha...​
دو بول تیرے پڑھے
دو بول میرے پڑھے
تیرا نکاح پڑھا
میرا جنازہ پڑھا
فرق صرف اتنا سا تھا۔

tujhe ​apnaya​ gaya,
mujhe ​dafnaaya​ gaya...
Mout ki Fikar
Na karta tha"
تجھے اپنایا گیا
مجھے دفنایا گیا
موت کی فکر نہ کرتا تھا۔۔۔۔

Gunah ko Gunah
Na smajhta tha"
گناہ کو گناہ نہ سمجھتا تھا

DiL chahta tha k
Padhun Namaz"
دل چاہتا تھا کہ پڑھوں نماز

par Masjid tak
Jism na le jata tha"
پر مسجد تک، جسم نہ لے جاتا تھا۔

Duniya ki Ronaq
me Magan tha"
دنیا کی رونق میں مگن تھا۔

Waqt Dosti me
Barbad krta tha"

 وقت دوستی میں برباد کرتا تھا۔

Phir 1 Din achank
Andhera chaya"
پر ایک دن اچانک اندھیرا چھا گیا

Aankh khuli to Khud
ko Qabar me paya"
آنکھ کھلی تو خود کو قبر میں پایا

Phir ALLHA ne pucha
k kya le kr aaya"
پھر اللہ نے پوچھا، کہ کیا لے کر آیا۔

Ghar jana chaha
lekin ja na paya"
گھر جانا چاہا لیکن جا نہ پایا۔

Qabar ki Tanhai
ne bohat daraya"

قبر کی تنہائی نے بہت ڈرایا ۔

Aawaz di Apno ko
to koi na aaya"
آواز دی اپنوں کو تو کوئی نہ آیا

Waqt hai sambhal ja?
وقت ہے سنبھل جا؟

Quran ka ek ruku rozana parhne se saal may 3 Quran mukammal ho jate hain

قرآن کا ایک رکوع روزانا پڑھنے سے سال میں تین قرآن مکمل ہو جاتے ہیں

Jb aap is msg ko 4wrd karne lagen ge to Shaitaan aap ko rokega ?
جب آپ اس پیغام کو آگے بھیجنے لگیں گے تو شیطان آپ کو روکے گا ۔

????????
Let's C what will U do.. Don't think of a second just copy n paste 2 all ur contacts!!
 یہ سوالیہ نشان ہے

 دیکھتے ہیں، آپ کیا کرتے ہیں ۔
ایک سیکنڈ نہ سوچیں۔ صرف کاپی اور پیسٹ کر کے اپنے تمام نمبرز کو بھیج دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

===========================

ہفتہ، 17 فروری، 2018

عاصمہ جہانگیر کی انسپائریشن جناب زینب بنت علی

زینب (بنت علی {کرم اللہ وجہہ الکریم }رضی اللہ عنھا) ہی وہ واحد کردار ہے جس کے سر پر اسلام کھڑا ہے-عاصمہ جہانگیر 

میں سوات میں پوسٹ تھا امن ہو چکا تھا مجھے حکم ملا کہ مینگورہ سے ایک وکیل خاتون ہیں جو بہت بدتمیز اور بد لحظ ہے اسے لیکر آنا ہے..... میں نے سوچا اللہ خیر کرے یہ کون ہے؟ میں مینگورہ ریسٹ ہاوس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ بدتمیز عورت عاصمہ جہانگیر ہے مجھے حکم تھا اس سے زیادہ باتیں نہیں کرنی... تقریباً دس کلومیٹر تو گاڑی میں سناٹا چھایا رہا پھر عاصمہ جہانگیر کی آواز آئی... تسی بولدے شولدے کوئی نہیں؟ میں نے گردن موڑ کر کہا نہیں میڈم ایسا نہیں ہے آپ عورت ہیں اس لئے آپ سے زیادہ بات کرنا مناسب نہیں سمجھا.... لو جی میں نے بم کو لت مار دی.. میرا نام پوچھا.... ؟تو بولی تمہارا نام بہت منفرد ہے... غیر عورت سے بات معیوب نہیں ہوتا چولیں مارنا معیوب ہوتا ہے... باتوں باتوں میں نے پوچھا میڈم سنا ہے آپ اسلام کو نہیں مانتی؟ گویا ہوئیں میں ملاں کے اسلام کو نہیں مانتی میرا نام کیا ہے؟ میں نے نام بتایا پھر بولیں میں گیارہ سالہ عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا دوسرا میں احدیث کی بھی حافظ ہوں... تمہارے کسی بھی مولوی کو سنگسار کرنے اور قتل و غارت کے علاوہ حدیث یاد نہیں مجھے وہ احدیث بھی یاد ہیں جن سے مولوی صاحب اپنا ایمان مشکوک ہو جاتا ہے.... میں نے پوچھا آپ کو اسلامی تاریخ میں کون سا کردار پسند ہے تو بغیر کسی ہیلو حجت بلند آواز میں گویا ہوئیں جناب زینب بنت علی سلام اللہ علیہا..... میں نے کہا یہ تو شیعہ سوچ کی آئینہ داری ہے... کہنے لگیں ہوا کرے مگر یہی سچ ہے کہ زینب ہی وہ واحد کردار ہے جس کے سر پر اسلام کھڑا ہے

سید میثاق علی جعفری کا بیان 

(ویسے جعفری صاحب! زینب بنت علی رضی اللہ عنھا کو پسندیدہ شخصیت قرار دینے کو شیعہ سوچ کی آنینہ داری قرار دینا خارجیت کی ذہنت تو ہوسکتی ہے کسی سنّی مسلمان کی نہیں۔)

جمعہ، 16 فروری، 2018

لکھنؤ کا درزی

"ایک دلچسپ واقعہ"
.
.
لکھنؤ بازار میں ایک غریب درزی کی دکان تھی جو ہر جنازے میں شرکت کے لئے دکان بند کر دیا کرتا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ
"اِس طرح روز روز جنازے پر جانے سے آپ کے کاروبار کا حرج ہوتا ہوگا۔۔؟؟" 
کہنے لگا کہ
"علماء سے سنا ہے کہ جب کوئی شخص کسی مسلمان کے جنازے پر جاتا ھے تو کل کو اِس کے جنازے پر بھی لوگوں کا ہجوم ہوگا۔ میں غریب ہوں، نہ زیادہ لوگ مجھے جانتے ہیں تو میرے جنازے پر کون آئے گا- اس لیے ایک تو مسلمان کا حق سمجھ کر پڑھتا ہوں اور دوسرا یہ کہ شاید کل کو مجھے بھی کوئی کاندھا دینے والا مل جائے...!"
.
"اللہ پاک کی شان دیکھیں کہ 1902ء میں مولانا عبدالحئ لکھنوی صاحب کا انتقال ہوا۔ ریڈیو پر بتلایا گیا، اخبارات میں جنازے کی خبر دی گئی، جنازے کے وقت لاکھوں کا مجمع تھا، پھر بھی بہت سے لوگ اُن کا جنازہ پڑھنے سے محروم رہ گئے۔ جب جنازہ گاہ میں ان کی نمازِ جنازہ ختم ہوئی تو اسی وقت جنازہ گاہ میں ایک دوسرا جنازہ داخل ہوا۔ اور اعلان ہوا کہ
"ایک اور عاجز مسلمان کا بھی جنازہ پڑھ کر جائیں...!" 
.
دوستو...! یہ دوسرا جنازہ اس درزی کا تھا۔ مولانا کے جنازے کے سب لوگ بڑے بڑے اللہ والے، علمائے کرام سب نے اس درزی کا جنازہ پڑھا اور پہلے جنازے سے جو لوگ رہ گئے تھے وہ بھی اس میں شامل ہو گئے۔ اس غریب درزی کا جنازہ تو مولانا کے جنازہ سے بھی بڑھ کر نکلا، اللہ پاک نے اس درزی کی بات پوری کر کے اس کی لاج رکھی۔ 
کسی نے سچ کہا ہے کہ
"آج تم کسی کا خیال کرو گے تو کل کو لوگ تمہارا خیال کریں گے..."
.
اگر آپ نیکی کے اِس پیغام کو پھیلا کر اللہ پاک کو راضی کرنا چاہیں تو اِسے ضرور شیئر کریں-
.
جزاک اللہ خیر

استاد کا ادب اور اس کے ثمرات

آج ظہر کے بعد سٹوڈنٹس نے مجبور کیا کہ سر آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں ،
پانچ گیندیں کھیل کر میں نے دو رن بنائے ،اور چھٹی گیند پر کلین بولڈ ہوا ،

اور ضائع ہونے کی وجہ سے سٹوڈنٹس نے میرے آوٹ ہونے پر خوب شور مچا کر بھر پور خوشی کا اظہار کیا ،

ابھی تھوڑی دیر پہلے مغرب کے بعد دوران کلاس انہیں جمع کرکے میں نے پوچھا ،آپ میں سے کون کون چاہتا تھا کہ سر اسکی گیند پر آوٹ ہوں ؟ جو جو بھی باولر تھے تقریبا' سب ہی نے ہاتھ کھڑے کردیئے

مجھے بے اختیار ہنسی آگئی

میں نے پوچھا ، میں کرکٹر کیسا ہوں ؟ سب نے کہا ، بہت برے

میں نے پوچھا ،میں ٹیچر کیسا ہوں ،جواب ملا سر بہت اچھے

مجھے ایک بار پھر ہنسی آئی ،

آپ لوگ جانتے ہیں ، یہ صرف آپ نہیں کہتے ؟ میں اپنی تعریف نہیں کر رہا ،دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے چار ہزار سٹوڈنٹس جن میں بہت سے میرے نظریاتی مخالف بھی ہیں یہ گواہی دیتے ہیں کہ میں ایک اچھا ٹیچر ہوں ،جبکہ میں آپ کو راز کی بات بتاؤں ، میں جتنا اچھا ٹیچر ہوں شاید اتنا اچھا سٹوڈنٹ نہیں تھا ،مجھے ہمیشہ سبق یاد کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ،اور بات سمجھنے میں وقت لگا ،لیکن کیا آپ بتاسکتے ہیں اسکے باوجود آج دنیا بھر میں سب مجھے اچھا ٹیچر کیوں مانتے ہیں ؟

سب نے کہا سر آپ بتائیں کیوں ؟

میرا جواب تھا ،ادب

مجھے اچھی طرح یاد ہے ،ایک باراپنے ایک ٹیچر کے ہاں میں کسی دعوت کی تیاری میں ان کی مدد کر رہا تھا ،فریزر سے برف نکالی ،اس برف کو توڑنے کیلئے کمرے میں کوئی شے نہیں تھی ،استاد کسی کام کیلئے کمرے سے نکلے تو وہ سخت برف میں نے مکا مار کر توڑ دی ، اور استاد جی کے آنے سے پہلے پہلے جلدی جلدی اس ٹوٹی ہوئی برف کو دیوار پر بھی ایک بار مار دیا ،

استاد جی کمرے میں آئے اور دیکھا کہ میں نے برف دیوار پر مار کر توڑی ہے تو انہوں نے مجھے ڈانٹا ،کہ سکندر تمہیں عقل کب آئیگی ، یوں برف توڑی جاتی ہے ، میں ان کی ڈانٹ خاموشی سے سنتا رہا ، بعد میں انہوں نے میری اس بیوقوفی کا ذکر کئی جگہ کیا ،اور ہمیشہ میں بیوقوفوں کی طرح سر ہلا کر ان کی ڈانٹ سنتا رہتا ،انہیں آج بھی نہیں معلوم کہ برف میں نے مکا مار کر توڑی تھی

اور یہ بات میں نے انہیں اسلئے نہیں بتائی کہ وہ ایک ہاتھ سے معذور تھے ، ان کی غیر موجودگی میں میں نے اپنی جوانی کے جوش میں برف مکا مار کر توڑ تو دی تھی لیکن جب اچانک ان کی معذوری کا خیال آیا تو سوچا کہ میرے اس طاقت کے مظاہرے سے انہیں اپنی کمی کا احساس نہ ہو ،صرف اس خیال کی وجہ سے میں نے برف دیوار پر مارنے کی احمقانہ حرکت کی اور لمبے عرصے تک ان کی ڈانٹ سنتا رہا ،

اور ایک آپ لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر ہدایات دے رہے تھے کہ سر کو یار کر مار ، سر آوٹ ہوجائیںگے

جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا ،کبھی کبھی جان بوجھ کر ہارنے سے زندگی میں جیت کے رستے کھلتے ہیں ، ہم طاقت میں اپنے ٹیچرز اور والدین سے بے شک بڑھ جاتے ہیں لیکن اگر آپ زندگی میں سب سے جیتنا چاہتے ہیں تو اپنے ٹیچرز اور والدین سے جیتنے کی کوشش نہ کریں ، آپ کبھی نہیں ہارینگے

عاصمہ جہانگیر کے جنازے پر جنم لینے والے سوالات

جماعت اسلامی کے بانی مودودی کے بیٹے حیدر فاروق مودودی نے آج لاہور میں ایک ایسی خاتون کا جنازہ پڑھایا جو خود کو لادین و لامذہب کہتی تھی، اس خاتون کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرا شوہر قادیانی ہے اور مجھے اس کے قادیانی ہونے پر کوئی مسئلہ نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے کفر کو جانتے ہوئے بھی اس کے ساتھ رہتی رہی۔ ( روزنامہ جنگ لاہور، 26 جون 1986 ) 
اس قادیانی شوہر سے اس خاتون کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، ان میں سے ایک بیٹی کا شوہر کرسچن مذہب سے تعلق رکھتا ہے 
( روزنامہ امت کراچی، 13 فروری 2018 )

( یاد رہے کہ اس خاتون کی دونوں بیٹیوں کا نکاح بھی حیدر فاروق مودودی نے پڑھایا تھا )

جس خاتون کا جنازہ مودودی صاحب کے بیٹے حیدر فاروق مودودی نے پڑھایا اس کا پیدائشی نام عاصمہ جیلانی تھا، جو اپنی شادی کے بعد خود کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے کہلوانے لگ گئی، اس خاتون بارے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ” خواتین محاذِ عمل اسلام آباد کے ایک جلسے میں اس عاصمہ جیلانی نے شریعت بل کے خلاف تقریر کرتے ہوئے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غیر محتاط زبان استعمال کی۔ اس پر ایک مقامی وکیل نے احتجاج کیا اور کہا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔جس پر دونوں کے درمیان تلخی ہوگئی۔ (جسارت ،کراچی18مئی 1984)
عاصمہ جیلانی کی اس بے باکی کے بعد ملک پاکستان میں شدید غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی جس کے بعد یہ معاملہ اعلیٰ حکام تک پہنچا اور اس کے بعد آئین پاکستان میں 295C کا اضافہ کرکے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے/ والی کی سزا سزائے موت مقرر کردی گئی، لیکن اس وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والی اس خاتون کو سزا سے بچا لیا گیا، یہ خاتون جب سے 295C قانون بنا ہے اس کے خلاف زبان درازی کرتی رہی ہے اور اس قانون کو ختم کرنے کا ہر فارم پر مطالبہ کرتی رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خاتون کے جنازے میں آج ایک ایسی حرکت کی گئی ہے جو سراسر شعائر اسلام کی توہین ہے، عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں جہاں مَردوں کی صفیں بنائی گئیں تھی وہیں ان صفوں میں کندھے سے کندھا ملائے بہت سی خواتین نماز جنازہ ادا کرتی دکھائی دے رہیں تھیں، جس کی امامت مودودی صاحب کے بیٹے کررہے تھے۔

علمائے کرام سے پوچھنا یہ تھا کہ ایک ایسی خاتون جو خود کو لامذہب و لادین کہتی رہی اس کے جنازہ کی امامت کروانے والے پر کیا حکم لگے گا؟

یہ بھی بتادیں کہ جو شخص اس کے لادین ہونے کو جانتے ہوئے بھی اس کے جنازے میں شریک ہوا اس پر شریعت کا کیا حکم لاگو ہوگا؟

کیا اسلامی تاریخ میں کوئی ایسا حکم ملتا ہے جس میں مرد و زن کو ایک ہی صف میں کھڑے کندھے سے کندھا ملائے نماز یا نمازِ جنازہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہو؟ اگر ایسا کوئی حکم نہیں تو شریعت کا یوں مذاق اڑانے والوں پرکیا حکم لاگو ہوگا؟
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس جنازے میں شعائر اسلام کی توہین کی گئی ہے تو براہ کرم متفقہ فتویٰ جاری کرکے اس کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کروائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص اس طرح پوری دنیا کے سامنے شعائر اسلام کی توہین سے باز رہے

#نوٹ پوچھے گئے سوالات صرف علمائے کرام و مفتیان عظام سے ہیں

یہ ان دنوں کا ذکر ہے

Kya khoob waqt tha 😂 

یہ ان دنوں کا ذکر ھے جب:

٭ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا، اور اگر بتاتا تو باپ اْسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا ۔

٭یہ وہ دور تھا جب ’’اکیڈمی‘‘کا کوئی تصّور نہ تھا اور ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ھوتے تھے۔

٭بڑے بھائیوں کےکپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔

٭لڑائی کے موقع پر کوئی ھتھیار نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ھوتا ’’ میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا۔‘‘یہ سنتے ھی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ھوجاتا تھا۔

٭اْس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتےتھے۔بغیرطلب عبادتیں کرنا ھر گھرکا معمول تھا۔

٭کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ھمسائے حسرت بھری نظروں سے اْس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ’’مہمانوں‘‘ کو ھمارے گھر بھی لے کرآئیں۔ جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے، فینائل کی گولیوں کی خوشبو سے لبریز بستر نکالے جاتے ۔ خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے ۔ مہمان کے لیے دھلا ھوا تولیہ لٹکایا جاتااورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا رکھی جاتی تھی۔

٭جس دن مہمان نے رخصت ھونا ھوتا تھا، سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اداسی کے آنسو ھوتے تھے۔ مہمان جاتے ھوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ھوئے نوٹ واپس کرنے میں لگ جاتا ، تاھم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ھی جاتا۔

٭شادی بیاھوں میں سارا محلہ شریک ھوتا تھا۔ شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا علیحدہ سے رکھا جاتا تھا جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا۔ جس گھر میں شادی ھوتی تھی اْن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے۔ محلے کی جس لڑکی کی شادی ھوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔

٭کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی، کبھی کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، سب کا رونا ھنسنا سانجھا تھا، سب کے دْکھ ایک جیسے تھے ۔

٭نہ کوئی غریب تھا نہ کوئی امیر ، سب خوشحال تھے۔ کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ھوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وھیں جاکر ڈرامے دیکھتے تھے۔

٭دوکاندار کے پاس کھوٹا سکہ چلا دینا ھی سب سے بڑا فراڈ سمجھا جاتا۔

…کاش پھر وہ دن لوٹ آئیں"

کراماتی گدھا

ھماری بےبسی یا بےحسی 

ایک شخص بازار میں صدا لگا رہا تھا... گدھا لے لو... گدھا لے لو...

گدھا انتہائی کمزور اور لاغر قسم کا تھا...

اتفاق سے اس وقت وہاں سے بادشاہ وقت کا اپنے وزیر کے ساتھ گزر ہوا...

بادشاہ اپنے وزیر کے ساتھ اُس شخص کے پاس آیا اور پوچھا گدھا کتنے کا بیچ رہے ہو.. ؟؟

اس شخص نے کہا عالی جاہ! پچاس (50000) ہزار کا...

بادشاہ حیران ہوتے ہوئے پوچھا اتنا مہنگا گدھا...؟؟ ایسی کیا خاصیت ہے اس میں...؟؟

وہ شخص کہنے لگا حضور جو اس پر بیٹھتا ہے اسے مکہ اور مدینہ دکھائی دینے لگتا ہے...

بادشاہ کو یقین نہ آیا اور کہنے لگا اگر تمہاری بات سچ ہوئی تو ہم ایک لاکھ کا خرید لیں گے... لیکن اگر جھوٹ ہوئی تو تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا...

ساتھ ہی وزیر کو کہا کے اس پر بیٹھو اور بتاؤ کیا دکھتا ہے...؟؟

وزیر بیٹھنے لگا تو گدھے والے نے کہا... جناب مکہ مدینہ کسی گنہگار انسان کو دکھائی نہیں دیتا...

وزیر: ہم گنہگار نہیں، ہٹو سامنے سے اور گدھے پر بیٹھ گیا...لیکن اس کو کچھ دکھائی نہ دیا...
اب سوچنے لگا کے اگر سچ کہہ دیا تو بہت بدنامی ہوگی...

اچانک چلایا... سبحان اللہ، ما شاء اللہ، الحمدللہ... کیا نظارہ ہے مکہ اور مدینہ کا...

بادشاہ نے اپنے وزیر سے تجسس میں کہا جلدی ہٹو... ہمیں بھی دیکھنے دو اور خود گدھے پر بیٹھ گیا... دکھائی تو اسے بھی کچھ نہ دیا لیکن سلطانی جمہور کی شان کو مدنظر رکھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لے آیا اور کہنے لگا...
“ واہ میرے مولا واہ، واہ سبحان تیری قدرت، کیا کراماتی گدھا ہے”
کیا مقدس جانور ہے، میرا وزیر مجھ جتنا نیک نہیں تھا اسے صرف مکہ مدینہ دکھائی دیا مجھے تو ساتھ ساتھ جنت بھی دکھائی دے رہی ہے...

بادشاہ کے اترتے ہی عوام ٹوٹ پڑی... کوئی گدھے کو چھونے کی کوشش کرنے لگا، کوئی چومنے کی، کوئی اس کے بال کاٹ کر تبرک کے طور پر رکهنے لگا وغیرہ وغیرہ...

یہی حال کچھ ہمارے سماج میں سوشیل میڈیا کا ہے... جس نے دینی اصطلاحات اور دین کے نام پر فریب دینے کا بیڑا اٹھا رکها ہے اور سادہ لوح عوام بھی اندھے کانے بن کر پیچھے چل پڑتے ہیں... جہاں سطحی دین کو اصل دین کے طور پیش کیا جا تا ہے، چونکہ اصل دین پر عمل کریں تو جان و مال کی قربانی دینی پڑتی ہے... اسلئیے عوام بھی اس سطحی دین کی پذیرائی کرتے نہیں تھکتی۔۔!

ذرا سوچیئے 
سوچنا جرم نہیں

پاکستان پوسٹ آفس شناختی کارڈ جاری کرے گا

نادرا اور پاکستان پوسٹ آفس کے درمیان معائدہ 

نادرا نے دہی علاقوں میں 200 ڈاخانوں میں شناختی کارڈ بنانے کی سہولت فراہم کر دی: ترجمان نادرا 

ملک بھر سے مختلف 200 ڈاخانوں کا انتخاب کیا گیا ہے: ترجمان نادرا

اس سہولت کو بتدریج تمام ڈاخانوں تک بڑھایا جائے گا: ترجمان نادرا 

اس معائدے کے تحط ملک بھرمیں جون 2017 میں مشاہدے کی بنیاد پر 10 کا ونٹرز کا قیام کیا گیاتھا: ترجمان نادرا

اس معاہدے کی کامیابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکو توسیع اور وسیع کیا گیا ہے: ترجمان نادرا 

عوام کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے اب مزید 200 کاونٹرز کو پوسٹ آفس میں قائم کیا جائے گے:ترجمان نادرا

نادرا اور پاکستان پوسٹ کا ان سینٹرز کو دہی اور پسماندہ علاقوں میں کھولنے کا اقدام کا بنیادی مقصد تمام لوگوں کے رجسٹریشن کو سہل بنانا ہے: 

ایسے تمام کاونٹرز پہلی مرتبہ کارڈ بنانے کے علاوہ ہر قسم کی پراسسنگ کرینگے: 

یہ ایک انقلابی قدم ہے جو لوگوں کی سہولت اور آسان رسائی کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ترجمان نادرا,rana nadeem anjum dist n feroze

PUNJAB UNIVERSITY MA/MSC ADMISSION 2018

#PU Admission Forms and Fee for the M.A. / M.Sc. Part-I and Part-II, Annual Examination 2018

Note:-
1.The examination of M.A./M.Sc. Part-I Annual Examination 2018 will be commenced from Second week of July 2018 In-Sha-Allah.
2.The examination of M.A./M.Sc. Part-II Annual Examination 2018 will be commenced from Third week of June 2018 In-Sha-Allah.
3.The candidates eligible to appear in both parts will submit their Admission Forms and Fee separately as per above schedule.
4.Candidates having compartment in Part-I examination are eligible to appear in Part-II examination. Such candidates will submit their Admission Forms and Fee for Part-II separately.
5.No Admission Form will be received after the due date.
M.A. Subjects List for Private Candidates
Following subjects can be taken by Private candidates for taking M.A. Exam:

1. Economics
2. English
3. Urdu
4. Political Science
5. History
6. Arabic
7. Islamic Studies
8. Punjabi
9. Persian
10. Philosophy
11. French
12. M.A. Kashmiryat
13. Mathematics (M.Sc. Subject) [for Candidates passing bachelor exam with double MATH (A & B)]

Election 2018 Constituencies NA

After the delimitation 2018 new serial number of constituencies in Punjab will be

NA - (55 to 61) Rawalpindi
NA - (62-63) Attock
NA - (64-65) Chakwal
NA - (66-67) Jehlum
NA - (68 to 72) Sargodha
NA - (73-74) Khushab
NA - (75-76) Mianwali
NA - (77-78) Bhakar
NA - (79-84) Gujranwala
NA - (85) Hafizabad
NA - (86-87) Mandi Bahawaldin
NA - (88 to 91) Gujrat
NA - (92 to 96) Sialkot
NA - (97-98) Narowal
NA - (99 to 112) Lahore
NA - (113 to 116) Sheikhupura
NA - (117-118) Nankana
NA - (119 to 122) Kasur
NA - (123 to 132) Faisalabad
NA - (133-134) Chiniot
NA - (135 to 137) Jhang
NA - (138 to 140) Toba Tek Singh
NA - (141 to 143) Sahiwal
NA - (144 to 147) Okara
NA - (148-149) Pakpatan
NA - (150 to 155) Multan
NA - (156-157) Lodharan
Na - (158 to 161) Khanewal
NA - (162 to 165) Vehari
NA - (166 to 169) Dera Ghazi Khan
NA - (170 to 172) Rajanpur
NA - (173 to 178) Muzaffargarh
NA - (179-180) Layyah
NA - (181 to 185) Bahawalpur
NA - (186 to 189) Bahawalnagar
NA - (190 to 195) Rahim Yar Khan

معاشرتی فلسفے

اس وقت دنیا میں تین قسم کے نظریات/ فلسفہ پاۓ جاتے ھیں جن پر اک معاشرہ تشکیل پا تا ہے

1- کسی بھی معا شرے کے مجموعی وسائل صرف اک چھوٹے سے طبقہ کے پاس ھوں (سرمایادار یا جاگیردار) اور معاشرہ مختلف طبقات میں بٹا ہوا ھو جہاں اک طرف تو امارت ھو اور دوسری طرف غربت کا آپنی عروج پر ھو، یہ سرمایادارانہ اور جاگیردارانہ معاشرے کا نظریہ ہے.دولت کا ارتکاز صرف سرمایادار اور جاگیردار کی طرف ھو اور باقی طبقات صرف اک طبقہ(سرمایادار یا جاگیردار) کے لیے کام کریں اور ان کی دولت میں اضافہ کرتے رہیں. دولت کی تقسیم سرمایا کی بنیاد پر ہے ، دولتمند ہونے کے لیے دوسروں کا استحصال لازمی ہے اور سود اس نظام کی رہڑھ کی ہڈی ہے.   
2- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ معاشرے کے تمام وسائل حکومت کے پاس ھوں اور حکومت کی ذمہ داری ھو کہ وہ آپنی ریاست کے ھر شہری کو مکان، صحت، نوکری، تعلیم اور ضروریات زندگی مہیا کرے ، ھر بندے سے اتنا کام لے جتنی اس کی استعداد ہے اور اس کو اتنا دیا جاۓ جتنی اس کی ضرورت ہے ، اس نظریہ میں طبقات کا خاتمہ ہے ، اس نظریہ کے مطابق امیر اور غریب کا کوئی فرق ختم ہے معاشرے میں صرف اک ہی کلاس ہے اور یہ اشتراکی نظریہ ہے.
3- تیسرا نظریہ اسلام کا ہے جو طبقات کا انکار کرتا ہے ہاں درجات اس میں موجود ھیں ، ھر بندہ آپنی صلاحیت کے اور محنت سے امیر ھو سکتا ہے لیکن سرمایا کی بنیاد پر نہیں، معاشرے کے وسائل پر سب کا حق برابر ہے، صحت، تعلیم، اور تمام بنیادی ضروریات معاشرے کے تمام افراد کے لیے برابر ھیں. ارتکاز دولت یعنی دولت کا اک طبقہ میں جمع ہونا جرم ہے . دولت کی گردش کسی بھی معاشرے میں اس طرح ھو گی جس طرح خوں جسم میں گردش کرتا ہے اس لیے معاشرے کی ترقی مجموعی ھو گی نہ کہ طبقاتی بنیادوں پر، سود کی قطعی طور پر ممانعت ہے.
اس مقصد کے لیے یہ تینوں نظریات /فلسفہ اپنے اپنے معاشی، سیاسی اور معاشرتی اصول دیتے ھیں جن کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے. ھر فلسفہ اور نظریہ کی جموریت مختلف ہے، بدقسمتی ہمارا معاشرہ جاگیردارانہ اور سرمایادارانہ اصولوں کی بنیاد پر قائم ہے.
اس وقت اسلام کا نظریہ/فلسفہ پر مبںی دنیا میں کوئی بھی معاشرہ قائم نہیں ہے اور مسلمان تعداد کے حوالے سے دنیا میں دوسری بڑی آبادی ہے

منگل، 13 فروری، 2018

سلطان محمود غزنوی کے انصاف کا واقعہ

ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽﺟﺐ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﭘﺮﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﻇﻠﻢ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﻈﺮﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺁﺅ۔ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : ﺳﻠﻄﺎﻥ، ﮨﻤﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ , ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮﻧﮑﻼ۔ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻡ ﺳﺮﺍ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﻨﺎﺋﯽﺩﯼ : ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ! ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍ ﭘﻨﮯﻣﺼﺎﺣﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺶ ﻭ ﻋﺸﺮﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﺭﮨﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﻋﻘﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﯾﮧ ﻇﻠﻢ ﺗﻮﮌﺍ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ” : ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ” : ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻓﺮﯾﺎﺩﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﯾﺎ ﮬﻮﮞ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﯿﺎ ﻇﻠﻢ ﮬﻮﺍ ﮬﮯﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ?“” ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺹ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﺮ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺗﺸﺪّﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ “” ﺍِﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﮬﮯ “”? ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺏ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﮬﻮ۔ “” ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺁ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ ” ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﻥ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﺁﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭ۔ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮬﻮﮞ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻣﺖ ﮐﺮﻭ۔ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﭼﺮﺍﻍ ﺑﺠﮭﺎ ﺩﻭ۔ﭘﮭﺮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺗﻦ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﭼﺮﺍﻍ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ” : ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻟﮯ ﺁﺅ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺨﺖﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮬﮯ۔ “” ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺠﮫ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ “”? ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﻟﮯ ﺁﺅ !” ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﺟﺴﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺭﻏﺒﺖ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞﮐﻮ ﺑﺠﮭﺎﻧﺎ، ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﭨﯽ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﺎﻣﺎﺟﺮﺍ ﮬﮯ؟ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ “: ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﻨﯽ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤّﺖ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮬﮯ۔ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﺪﺭﺍﻧﮧ ﺷﻔﻘﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺋﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ۔ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺪۂ ﺷُﮑﺮ ﺑﺠﺎﻻﯾﺎ۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﮨﻮﺍ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﻧﮩﯿﮟﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻧا ہی ﭙﺎﻧﯽ ﭘﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔

پیر، 12 فروری، 2018

چار علوم

حضرت حاتم اصم  فرما تے ہیں،
"میں نے چار علم اختیار کیے اور دنیا کے تمام عالموں سے چھٹکارا پا لیا۔۔۔!!"

کسی نے پوچھا، "وہ چار علم کون کون سے ہیں۔۔۔؟"

آپ  نے جواب دیا۔۔۔۔!!

۔ پہلا یہ کہ میں نے سمجھ لیا کہ جو رزق میری قسمت میں لکھا ہے وہ نہ تو زیادہ ہو سکتا ہے، نہ کم۔ اس لیے زیادہ کی طلب سے بے فکر ہو گیا۔

۔ دوسرا یہ کہ اللہ کا جو حق مجھ پر ہے وہ میرے سوا کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں اُسکی ادائیگی میں مشغول ہو گیا۔

۔ تیسرا یہ کہ ایک چیز مجھے ڈھونڈ رہی ہے اور وہ ہے میری موت۔ میں اُس سے بھاگ تو سکتا نہیں، لہٰذا اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔

۔ چوتھا یہ کہ میرا اللہ مجھ سے باخبر رہتا ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے شرم رکھی اور بُرے کاموں سے ہاتھ اٹھا لیا۔

یہ چار علم زندگی کے لیے اصول اور ایسی مشعلِ راہ ہیں کہ جس نے انھیں اپنا لیا زندگی اس کے لیے اتنی آسان اورمطمئن ہو جائے گی کہ دنیا میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا.

ایکسپائری ٹائم

میں کھڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا اور میرا دوست پہلی نشست پر تھا‘ درمیان کی سیٹ خالی تھی‘ میں نے ائیر ہوسٹس سے پوچھا ”کیا ہم دونوں اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں“ فضائی میزبان نے مسکرا کر جواب دیا ”سر یہ سیٹ بک ہے‘ آپ ٹیک آف کے بعد مسافر سے سیٹ ایڈجسٹ کر لیجئے گا“ ہم مسافر کا انتظار کرنے لگے‘ جہاز کے دروازے بند ہونے سے چند لمحے قبل وہ مسافر آگیا‘ وہ ایک لحیم شحیم بزرگ تھا‘ وہ شکل سے بیمار بھی دکھائی دے رہا تھا‘

میں نے اسے پیش کش کی آپ کھڑکی والی سیٹ لے لیں‘ ہم دوست اکٹھے بیٹھنا چاہتے ہیں مگر اس نے سر ہلا کر میری پیش کش مسترد کر دی اور وہ دھپ کر کے درمیان میں بیٹھ گیا‘ وہ دونوں سائیڈز سے باہر نکل رہا تھا‘ میں اس کی وجہ سے جہاز کی دیوار کے ساتھ پریس ہو گیاجبکہ میرا دوست سیٹ سے آدھا باہر لٹک گیا‘ موٹے آدمی کے جسم سے ناگوار بو بھی آ رہی تھی‘ وہ پورا منہ کھول کر سانس لے رہا تھا اور سانس کی آمدورفت سے ماحول میں بو پھیل رہی تھی‘ ہماری گفتگو بند ہو گئی‘ میں نے جیب سے تسبیح نکالی اور ورد کرنے لگا جبکہ میرا دوست موبائل فون کھول کر بیٹھ گیا‘ وہ میری زندگی کی مشکل ترین فلائیٹ تھی‘ میں نے وہ سفراذیت میں گزارا‘ ہم جب لاہور اترے تو میں نے اپنی ہڈیاں پسلیاں گنیں اور اطمینان کا سانس لیا‘ ہم ائیر پورٹ سے باہر آ گئے‘ میں نے اپنے دوست سے پوچھا ”سفر کیسا تھا“ وہ ہنس کر بولا ”زبردست‘ میں نے موبائل فون پر کتابیں ڈاؤن لوڈ کر رکھی ہیں‘ میں سفر کے دوران کتاب پڑھتا رہا“ میں نے پوچھا”کیا تم موٹے آدمی کی وجہ سے ڈسٹرب نہیں ہوئے“ وہ ہنس کر بولا ”شروع کے دو منٹ ہوا تھا لیکن پھر میں نے ایڈجسٹ کر لیا‘ میں نے اپنی کہنی اور پسلیاں اس کے پیٹ میں پھنسائیں اور چپ چاپ کتاب پڑھتا رہا“ میں نے پوچھا ”اور کیا تم اس کی بدبو سے بھی بیزار نہیں ہوئے“ وہ ہنس کر بولا ”شروع میں ہوا تھا لیکن میں جب کتاب میں گم ہو گیا تو بوآنا بند ہو گئی“ میں نے حیرت سے اس

کی طرف دیکھا اور پھر کہا ”لیکن میں پورے سفر کے دوران تنگ ہوتا رہا‘ میری سانس تک الجھتی رہی‘ میں اللہ سے دعا کرتا رہا یا اللہ یہ سفر کب ختم ہوگا“ وہ ہنسا اور بولا ”میں بھی ایسی صورتحال میں پریشان ہوا کرتا تھا لیکن پھر میں نے اپنی پریشانی کا حل تلاش کر لیا‘ میں اب ایڈجسٹ کر لیتا ہوں“ میں رک گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا‘ وہ بولا ”ہم اس موٹے کے صرف 35 منٹ کے ساتھی تھے‘ وہ آیا‘ بیٹھا‘ جہاز اڑا‘ جہاز اترا اور ہم الگ الگ ہو گئے‘ وہ کون تھا‘ وہ کہاں سے آیا تھا اور وہ کہاں چلا گیا‘

ہم نہیں جانتے‘ تم اگر ان 35 منٹوں کو ایڈجسٹ کر لیتے تو تم تکلیف میں نہ آتے“ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا ”ہماری ہر تکلیف کا ایک ایکسپائری ٹائم ہوتا ہے‘ ہم اگر اس ٹائم کا اندازہ کر لیں تو پھر ہماری تکلیف کم ہو جاتی ہے مثلاً وہ موٹا جب ہمارے درمیان بیٹھا تو میں نے فوراً ٹائم کیلکولیٹ کیا‘مجھے اندازہ ہوا یہ صرف 35 منٹ کی تکلیف ہے چنانچہ میں نے موٹے کے موٹاپے پر توجہ کی بجائے کتاب پڑھنا شروع کر دی‘ میری تکلیف چند منٹوں میں ختم ہو گئی‘ تم بھی تکلیف کے دورانئے کا اندازہ کر لیا کرو‘ تمہاری مشکل بھی آسان ہو جائے گی“۔

میں نے اس سے پوچھا ”تم نے یہ آرٹ کس سے سیکھا تھا“ وہ ہنس کر بولا ”میں نے یہ فن اپنے والد سے سیکھا تھا‘ میرے بچپن میں ہمارے ہمسائے میں ایک پھڈے باز شخص آ گیاتھا‘ ہم لوگ گلی میں کرکٹ کھیلتے تھے اور وہ ہماری وکٹیں اکھاڑ دیتا تھا‘ ہمارے گیند چھین لیتا تھا‘ وہ گلی میں نکل کر ہمارا کھیل بھی بند کرا دیتا تھا‘ میں بہت دل گرفتہ ہوتا تھا‘ میں نے ایک دن اپنے والد سے اس کی شکایت کی‘ میرے والد نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا‘ بیٹا یہ شخص کرائے دار ہے‘ یہ آیا ہے اور یہ چلا جائے گا‘

ہمیں اس سے لڑنے اور الجھنے کے بجائے اس کے جانے کا انتظار کرنا چاہیے‘ میں نے والد سے پوچھا‘ کیا میں احتجاج بھی نہ کروں‘ وہ بولے ہاں تم ضرور کرو لیکن اس کا تمہیں نقصان ہوگا‘یہ شخص تو اپنے وقت پر جائے گالیکن تم احتجاج کی وجہ سے بدمزاج ہو چکے ہو گے‘ تم اس کے بعد لائف کو انجوائے نہیں کر سکو گے چنانچہ میرا مشورہ ہے تم اپنی لائف پر فوکس کرو‘ تم اپنی خوشیوں پر دھیان دو‘ یہ اور اس جیسے لوگ آتے اور جاتے رہیں گے‘ یہ آج ہیں اور کل نہیں ہوں گے‘

تمہیں اپنا مزاج خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں بچہ تھا میں نے اپنے والد کی بات سے اتفاق نہ کیا لیکن ہمارا ہمسایہ واقعی دو ماہ بعد چلا گیا اور یوں ہم پرانی سپرٹ کے ساتھ گلی میں کھیلنے لگے‘ ہم دو ہفتوں میں اس چڑچڑے کھوسٹ کو بھول بھی گئے۔ میرے والد مجھے بچپن میں اپنے چچا کی بات بھی سنایا کرتے تھے‘ ہمارے دادا فوت ہوئے تو میرے والد کو وراثت میں ایک مکان ملا‘ مکان پر میرے والد کے چچا نے قبضہ کر لیا‘ میرے والد نے چچا کے ساتھ لڑنے کی بجائے ملکیت کا مقدمہ کیا اور وہ آہستہ آہستہ مقدمہ لڑتے رہے‘

پانچ سال بعد میرے والد کے حق میں فیصلہ ہو گیا لیکن چچا نے مکان خالی نہ کیا‘ میرے والد نے قبضے کے حصول کیلئے درخواست دی اور وہ آہستہ آہستہ اس درخواست کا پیچھا کرتے رہے‘ اگلے دو برسوں میں والد کے چچا کا انتقال ہو گیا‘ والد کو مکان مل گیا‘ میرے والد کا کہنا تھا‘ چچا نے جب ہمارے مکان پر قبضہ کیا تو مجھے بہت غصہ آیا لیکن پھر میں نے سوچا‘ میں اگر ان کے ساتھ لڑتا ہوں تو میں زخمی ہو جاؤں گااور یوں یہ مکان پیچھے چلا جائے گا اور دشمنی آگے آ جائے گی‘ ہم تھانوں اور کچہریوں میں بھی جائیں گے‘

ہمارا وقت اور پیسہ بھی برباد ہو گا اور ہمیں مکان بھی نہیں ملے گا‘ چچا بوڑھے شخص ہیں‘ یہ کتنی دیر زندہ رہ لیں گے چنانچہ میں نے مقدمہ کیا اور آہستہ آہستہ مقدمہ چلاتا رہا یہاں تک کہ چچا طبعی زندگی گزار کرفوت ہو گئے‘ مجھے اپنا مکان بھی مل گیا اور میرے صبر کا صلہ بھی۔ میرے چچا نے جب مکان پر قبضہ کیا تھا تو وہ فقط ایک مکان تھا‘ آٹھ برسوں میں ہماری گلی کمرشلائزڈ ہو گئی‘ مکان کی قیمت میں بیس گنا اضافہ ہو گیا یوں مجھے مکان بھی مل گیا اور مالیت میں بھی بیس گنا اضافہ ہو گیا‘

میں اس دوران اطمینان سے اپنے دفتر بھی جاتا رہا‘ میں نے اپنے بچے بھی پال لئے اور میں زندگی کی خوشیوں سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا‘ میرے والد مجھے یہ واقعہ سنانے کے بعد اکثر کہا کرتے تھے آپ جب بھی تکلیف میں آئیں آپ اس تکلیف کا دورانیہ کیلکولیٹ کریں اور اپنی توجہ کسی تعمیری کام پر لگا دیں‘ آپ کو وہ تکلیف تکلیف نہیں لگے گی‘ میں نے اپنے والد کی بات پلے باندھ لی چنانچہ میں تکلیف کا دورانیہ نکالتا ہوں اور اپنی توجہ کسی تعمیری کام پر مبذول کر لیتا ہوں“ وہ خاموش ہو گیا۔

یہ نقطہ میرے لئے نیا بھی تھا اور انوکھا بھی‘ میں نے اس سے پوچھا ”کیا یہ تمہاری روٹین ہے“ وہ قہقہہ لگا کر بولا ”ہاں مجھے جب بھی کوئی تکلیف دیتا ہے میں دل ہی دل میں کہتا ہوں یہ آج کا ایشو ہے‘ یہ کل نہیں ہوگا‘ میں اس کی وجہ سے اپنا آج اور کل کیوں برباد کروں اور میری تکلیف ختم ہو جاتی ہے“ میں نے پوچھا ”مثلاً“ وہ بولا ”مثلاً وہ موٹا شخص صرف 35 منٹ کی تکلیف تھا‘ ہم نے صرف 35 منٹ گزارنے تھے اور اس تکلیف نے ہماری زندگی سے نکل جانا تھا‘ مثلاً کوئی شخص میرے ساتھ دھوکہ کرتا ہے‘

میں اس شخص اور دھوکے دونوں پر قہقہہ لگاتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں‘ یقین کرو وہ دھوکہ اور وہ شخص دونوں چند دن بعد میرے لئے بھولی ہوئی داستان بن چکے ہوتے ہیں‘ مجھے کیریئر میں بے شمار مشکل باس اور خوفناک کولیگز ملے‘ میں ہر مشکل باس کو دیکھ کر کہتا تھا‘ یہ آیا ہے اور یہ چلا جائے گا‘ مجھے اپنی زندگی برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں خوفناک کولیگ پر بھی ہمیشہ سوچتا رہا‘ یہ مختصر سفر کا مختصر ترین مسافر ہے‘ یہ اپنی منزل پر اترجائے گا یا پھر میں اپنے سٹاپ پرچلا جاؤں گا‘

مجھے اس سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے‘ آپ یقین کرو میرے مشکل باس بھی چلے گئے اور خوفناک کولیگز بھی اور یوں میرا سفر جاری رہا‘ میری زندگی مزے سے گزری اور مزے سے گزر رہی ہے“ وہ رکا‘ ہنسا اور بولا ”آپ بھی یہ حقیقت پلے باندھ لو‘ زندگی 35 منٹ کی فلائیٹ ہے‘ آپ ساتھی مسافر کی وجہ سے اپنا سفر خراب نہ کرو‘ آپ تکلیف کا دورانیہ دیکھو اور اپنی توجہ کسی دوسری جانب مبذول کر لو‘ آپ کی زندگی بھی اچھی گزرے گی“ میں نے ہاں میں سر ہلایا‘

وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور میں اپنے دفتر چلا گیا لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں جب بھی کسی مسئلے‘ کسی تکلیف کا شکار ہوتا ہوں‘ میں دل ہی دل میں دوہراتا ہوں یہ 35 منٹ کی فلائیٹ ہے‘ یہ ختم ہو جائے گی اور میں جلد اس تکلیف کو بھول جاؤں گا‘مجھے کل یہ یاد بھی نہیں رہے گامیں کبھی ایک ایسے مسافر کے ساتھ بیٹھا تھا جس کی وجہ سے میرا سانس بند ہو گیا تھا اور جس نے مجھے پوسٹر کی طرح دیوار کے ساتھ چپکا دیا تھا‘ زندگی کا سفر انتہائی مختصر ہے‘

ہم اگر اس مختصر سفر کو شکایت دفتر بنالیں گے تو یہ مختصر سفر مشکل ہو جائے گا‘ ہم اپنی منزل سے ہزاروں میل پیچھے اترجائیں گے چنانچہ جانے دیں‘ تکلیف دینے والوں کو بھی اور اپنے آپ کو بھی‘ صرف سفر پر توجہ دیں اور یقین کریں ہماری مشکل‘ ہماری تکلیف ختم ہو جائے گی۔

جب انگریز چلا پنجابی سیکھنے!

ایک انگریز کو پنجابی سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ کسی نے اسے بتایا کہ 36 چک کے قدیم بزرگ پنجابی کی تعلیم دیتے ہیں۔
ایک دن انگریز نے بس پر سوار ہو کر 36 چک کی راہ لی۔ بس نے اسے جس جگہ اتارا 36 چک وہاں سے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر تھا۔ انگریز بس سے اتر کر 36 چک کی طرف چل پڑا۔
تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس نے ایک کسان کو فصل کاٹ کر اس کے گٹھے بناتے دیکھا۔
انگریز نے پوچھا: oh man تم یہ کیا کرتا؟
کسان نے جواب دیا: گورا صاب! ہم فصل وٹتا۔
انگریز بولا: oh man تم crop کرنا کو what بولتا۔
انگریز آگے چل دیا۔ آگے ایک شخص وان وٹ رہا تھا۔
انگریز نے پوچھا: oh man تم یہ کیا کرتا؟
اس آدمی نے جواب دیا: گورا صاب! ہم وان وٹتا۔
انگریز بولا: oh man تم twist کرنا کو what بولتا۔
انگریز اس شخص کو چھوڑ کر آگے چلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک دکاندار اداس بیٹھا ہے۔
انگریز نے پوچھا: oh man تم اداس کیوں بیٹھا؟
دکاندار بولا: گورا صاب! سویر دا کج وی نئیں وٹیا۔
انگریز بولا: oh man تم earning کو what بولتا۔
انگریز اسے چھوڑ کر کچھ اور آگے چلا تو ایک شخص کو دیکھا جو پریشانی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
انگریز نے پوچھا: oh man کیا ہوا؟
وہ شخص بولا: گورا صاب اج بڑا وٹ ہے۔
انگریز بولا: oh man تم humidity کو what بولتا۔
انگریز اسے چھوڑ کر آگے چلا۔ سامنے چودھری کا بیٹا کلف لگے کپڑے پہنے چلا آ رہا تھا۔ انگریز اس سے گلے ملنے کے لئے آگے بڑھا۔
وہ لڑکا بولا: گورا صاب! ذرا آرام نال، کپڑیاں نوں وٹ ناں پا دینا۔
انگریز بولا: oh man تم wrinkles کو what بولتا۔
کچھ آگے جا کر انگریز کو ایک شخص پریشانی کے عالم میں لوٹا پکڑے کھیتوں کی طرف بھاگتا ہوا نظر آیا۔
انگریز نے کہا: oh man ذرا بات تو سنو۔
وہ شخص بولا: گورا صاب واپس آ کر سنتا ہوں، بڑے زور کا وٹ پیا ہے۔
انگریز بولا: oh man تم loose motion کو what بولتا۔
تھوڑا آگے جانے پر انگریز کو ایک بزرگ حقہ پکڑے سامنے سے آتا دکھائی دیا۔
قریب آنے پر انگریز نے پوچھا: oh man یہ 36 چک کتنی دور ہے؟
وہ بولا: وٹو وٹ ٹری جاؤ، زیادہ دور نئیں ہے۔
انگریز بولا: oh man تم path کو what بولتا۔
آگے چلا تو کیا دیکھا کہ دو آدمی آپس میں بری طرح لڑ رہے ہیں۔
گورا لڑائی چھڑانے کے لئے آگے بڑھا تو ان میں سے ایک بولا: گورا صاب تسی وچ نہ آؤ میں اج ایدھے سارے وٹ کڈ دیاں گا۔
انگریز بولا oh man تم immorality کو what بولتا۔
انگریز نے لڑائی بند کرانے کی غرض سے دوسرے آدمی کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ بولا: او جان دیو بادشاؤ، مینوں تے آپ ایدھے تے بڑا وٹ اے۔
انگریز بولا: oh man تم mercilessness کو what بولتا۔
قریب ایک آدمی کھڑا لڑائی دیکھ رہا تھا۔
وہ بولا: گورا صاب! تسی اینوں لڑن دیو ایدھے نال پنگا لتا تے تہانوں وی وٹ کے چپیڑ کڈ مارے گا۔
انگریز بولا: oh man تم fighting کو what بولتا۔
لاچار انگریز آگے چل دیا۔ تھوڑی دور گیا تو کیا دیکھا کہ ایک شخص گم سم بیٹھا ہے۔
انگریز نے پوچھا: یہ آدمی کس سوچ میں ڈوبا ہے؟
جواب ملا: گورا صاب! یہ بڑا میسنا ہے، یہ دڑ وٹ کے بیٹھا ہے۔
انگریز بولا: oh man تم silent کو what بولتا۔
بالآخر انگریز نے یہ کہتے ہوئے واپسی کی راہ لی:
what a comprehensive language, I cant learn it

جمعرات، 8 فروری، 2018

زینب الرٹ

زینب الرٹ…صحافی جاوید چوہدری کی شہباز شریف کو دبنگ پیشکش

ٹیکساس کے شہر آرلنگٹن میں ایک نو سال کی بچی رہتی تھی‘ بچی کا نام امبر تھا‘ یہ 21 جنوری 1996ء کو گلی میں سائیکل چلا رہی تھی‘ والدہ ٹیلی فون سننے کے لیے اندر گئی‘ آٹھ منٹ بعد واپس آئی تو امبر اغواء ہو چکی تھی‘ ماں باپ‘ لوکل کمیونٹی اور پولیس چار دن بچی کو تلاش کرتی رہی‘ پانچویں روز لاش نالے سے ملی‘ بچی کو زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کیا گیا تھا‘ کیس کی تفتیش مائیک سائمنڈ نے کی‘ مائیک سائمنڈنے لاش دیکھی تو وہ پورا ہفتہ سو نہ سکا‘ بچی کو وحشیانہ انداز سے قتل کیا گیا تھا۔
مائیک سائمنڈ کا خیال تھا پولیس اگر پہلے دن اغواء کار تک پہنچ جاتی تو بچی کی جان بچ جاتی‘ اس نے سوچا کوئی ایسا سسٹم ہونا چاہیے جس کے ذریعے مغوی بچے کی تفصیلات چند منٹوں میں پورے شہر تک پہنچ جائیں‘ لوگ الرٹ ہو جائیں‘ یہ مشکوک لوگوں پر نظر رکھیں اور یوں پولیس مجرم تک بروقت پہنچ جائے‘ یہ دو ہفتے سوچتا رہا یہاں تک کہ اس نے ایک الرٹ سسٹم بنا لیا‘ مائیک سائمنڈ نے یہ سسٹم آرلنگٹن پولیس کو دیا‘ پولیس نے میئر کے ساتھ مل کر یہ سسٹم پورے شہر میں لگا دیا۔
یہ سسٹم آرلنگٹن کے بعد پوری ٹیکساس ریاست میں نافذ ہوا اور یہ 2001ء میں چار امریکی ریاستوں میں استعمال ہونے لگا‘ یہ سسٹم اس قدر کامیاب‘ سستا اور جامع تھا کہ امریکی صدر جارج بش نے 2002ء میں اسے پورے امریکا میں نافذ کر دیا‘ یہ سسٹم 2005ء میں دنیا کے 30 ملکوں تک پہنچ گیا‘ یہ اس وقت یورپ‘ مشرق بعید اور لاطینی امریکا سمیت دنیا کے ہر جدید ملک میں چل رہا ہے‘ یہ سسٹم جس ملک میں موجود ہے وہاں بچوں کے اغواء کی وارداتیں بھی کم ہیں اور اغواء کے بعد ریکوری کی تعداد بھی زیادہ ہے۔
یہ سسٹم آرلنگٹن کی بچی امبر کی مناسبت سے امبر الرٹ کہلاتا ہے‘ امبر الرٹ کے تین حصے ہیں‘ پولیس‘ میڈیا اور سوشل میڈیا‘ امریکا میں جب کوئی بچہ اغواء ہوتا ہے تو پولیس آتی ہے‘ بچے کی تصاویر‘ اغواء کا طریقہ‘ مقام اور اغواء کار کے بارے میں تفصیلات جمع کرتی ہے‘ معلومات کا پیکیج بناتی ہے اور یہ پیکیج شہر کے سارے میڈیا کو بھجوا دیتی ہے‘ میڈیا یہ خبر‘ بچے کا حلیہ اور اغواء کارکی تمام نشانیاں چند سیکنڈ میں نشر کر دیتا ہے‘ یہ اطلاعات تمام ریڈیوز‘ ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات تک پہنچ جاتی ہیں‘ یہ ادارے تمام معلومات کو نشر اور شایع کرنے کے پابند ہوتے ہیں‘ یہ اطلاعات اس کے بعد تمام موبائل کمپنیوں کو پہنچا دی جاتی ہیں۔موبائل فون کمپنیاں چند سیکنڈ میں شہر کے تمام موبائل فونز کو الرٹ جاری کر دیتی ہیں یوں مغوی بچے اور اغواء کار کے حلیے سمیت تمام اطلاعات شہر کے تمام موبائل فونز پر پہنچ جاتی ہیں‘ موبائل فون کمپنیاں بھی یہ الرٹ مفت جاری کرتی ہیں‘ یہ کمپنیاں شام کے وقت پولیس کے ساتھ ڈیٹا بھی شیئر کرتی ہیں‘ امبر الرٹ فیس بک‘ گوگل‘ یوٹیوب‘ ٹویٹر اور بنگ پر بھی جاری ہوتی ہیں‘ یہ سوشل میڈیا کمپنیاں بھی امبر الرٹ جاری کرنے کی پابند ہیں۔یورپ کے بارہ ملکوں میں یہ الرٹ شہر کے بل بورڈز ‘ ائیرپورٹس‘ بس اسٹیشنز اور ریلوے اسٹیشنز کی اسکرینوں اور موٹرویز کی انٹری اور ایگزٹ پر بھی ڈس پلے ہو جاتے ہیں‘ موٹروے کا عملہ بھی گاڑیوں پر نظر رکھنا شروع کر دیتا ہے اور بس‘ ٹرین اور ائیر پورٹ کا اسٹاف بھی مسافر بچوں کو غور سے دیکھتا رہتا ہے ‘ امریکا اور یورپ میں بچوں کو اسکول میں اپنی حفاظت کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔
اساتذہ انھیں گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتاتے ہیں اور والدین کو بھی بچوں کی تربیت کے بارے میں باقاعدہ ٹپس دی جاتی ہیں‘ ماؤں کو بتایا جاتا ہے یہ اپنے بچوں کا باقاعدگی سے جسمانی معائنہ کریں‘ یہ ان کے رویئے یا جسم میں کوئی غیر معمولی تبدیلی دیکھیں تو یہ فوراً پولیس کو اطلاع دیں۔اساتذہ کو بھی پابند کیا جاتا ہے یہ اگر کسی بچے میں چھ نشانیاں دیکھیں‘ بچہ خاموش اور سہما ہوا دکھائی دے‘ یہ جسم میں درد کی شکایت کرے‘ یہ بڑوں سے ڈر رہا ہو‘ یہ نظریں نیچی کر کے بات کرے‘ یہ چھٹی کے وقت سہم جاتا ہو یا پھر یہ اپنے والدین اور رشتے داروں کے ساتھ کمفرٹیبل محسوس نہ کرتا ہو تو اساتذہ پولیس کو اطلاع دیں‘ پولیس شروع میں نفسیات دان کو اسکول بھجواتی ہے اور اگر ماہر نفسیات تصدیق کر دے تو پولیس ملزم سے تفتیش شروع کر دیتی ہے۔قصور کی بچی زینب کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ سات سال کی زینب 4 جنوری 2018ء کو قرآن مجید پڑھنے کے لیے اپنی خالہ کے گھر گئی اور یہ راستے سے غائب ہو گئی‘ بچی کے والدین عمرے کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے‘ رشتے داروں نے بچی کی تلاش شروع کر دی۔رشتے داروں نے بازار کے سی سی ٹی وی کیمروں سے فوٹیج نکال کر بھی پولیس کے حوالے کر دی لیکن پولیس بچی تک نہ پہنچ سکی‘ 9جنوری کوبچی کی لاش شہباز خان روڈ سے کچرے کے ڈھیر سے ملی‘ بچی کو خوفناک طریقے سے درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ سوشل میڈیا پر ’’جسٹس فار زینب‘‘ کے نام سے کمپیئن شروع ہوئی اور پورے قصور شہر میں آگ لگ گئی۔
ہجوم نے ڈی پی او آفس پر حملہ کر دیا، پولیس نے فائر کھول دیا‘ دو لوگ ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے‘ ہنگامے آج بھی جاری ہیں‘ احتجاج کا دائرہ لاہور اور کراچی تک پھیل چکا ہے‘ یہ قصور میں اس نوعیت کا بارہواں واقعہ ہے‘ گزشتہ ایک سال کے دوران بارہ بچیاں درندگی کا نشانہ بن چکی ہے‘ 11بچیاں درندگی کے بعد قتل کر دی گئیں‘ صرف ایک بچی کائنات کی جان بچ گئی لیکن یہ بھی ذہنی طور پر معذور ہو چکی ہے‘ ہم اگر زینب قتل کے بعد عوام اور حکومت کے رویوں کا جائزہ لیں تو ہمیں دونوں غلط نظر آئیں گے‘ اگر تھانوں پر حملے‘ اسپتال پر پتھراؤ‘ ٹائر جلانے اور گاڑیاں توڑنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو پھر آپ بے شک تمام تھانوں کو آگ لگا دیں۔آپ ساری گاڑیاں اور سارے اسپتال توڑ دیں‘ اسی طرح اگر پولیس فائرنگ‘ ڈی پی او کے تبادلے‘ وزیراعلیٰ کے نوٹس اور چیف جسٹس کے سوموٹو سے بھی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو آپ بے شک تبادلوں اور نوٹسز کا انبار لگا دیں لیکن یہ مسئلہ نوٹسز سے حل ہو گا اور نہ ہی گھیراؤ جلاؤ سے‘ آپ کو آج یا کل بالآخر اس درندگی کے تدارک کے لیے سسٹم بنانا پڑے گا اور آج کی تاریخ میں اس سسٹم کا نام ’’امبر الرٹ‘‘ ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو یہاں مزید دو ایشوز بھی سمجھنا ہوں گے‘ پہلا ایشو پنجاب کا آئی ٹی بورڈ ہے‘ بورڈ کے چیئرمین آج کے آئین سٹائن ڈاکٹر عمر سیف ہیں‘ ڈاکٹر عمر سیف نے ویب سائیٹس اور موبائل ایپس پر اربوں روپے ضائع کر دیئے‘ وزیراعلیٰ صاحب کسی دن ان ایپس اور ویب سائیٹس کو کھول کر دیکھ لیں‘ یہ صرف یہ دیکھ لیں ان ویب سائیٹس پر روزانہ کتنے لوگ وزٹ کرتے ہیں اور کتنے لوگوں نے آج تک پنجاب آئی ٹی بورڈ کی تخلیق کردہ ایپس ڈاﺅن لوڈ کی ہیں‘یہ چند لمحوں میں اپنے آئی ٹی بورڈ کی کارکردگی جان لیں گے‘ پنجاب کی حالت یہ ہے تھانوں میں ایف آئی آرز کمپیوٹرائزڈ ہو چکی ہیں لیکن سسٹم قصور میں بارہ بچیوں کے ساتھ درندگی کے بعد بھی الرٹ جاری نہیں کرتا‘ آئی جی اور چیف منسٹر دونوں ان واقعات سے ناواقف رہتے ہیں‘یہ کس کا قصور ہے‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وزیراعلیٰ فوری طور پر آئی ٹی بورڈ کا احتساب کریں اور یہ ایف آئی آر سسٹم میں وارننگ کا آپشن لگوائیں‘ صوبے میں جس جگہ ایک قسم کی چھ وارداتیں ہو جائیں یہ سسٹم اسی وقت وزیراعلیٰ اور آئی جی کو اطلاع کر دے یوں حکومت پکچر میں آ جائے گی‘دوسرا آپ زینب اور اغواءکار کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھئے‘ فوٹیج میں ملزم پہچانا نہیں جا رہا‘ کیوں؟ کیونکہ کیمروں کی ”ریزولوشن“ کم تھی‘ وزیراعلیٰ پنجاب کیمروں کا معیار طے کریں اور پھر پورے صوبے میں سرکاری اور پرائیویٹ کوئی شخص اس ”ریزولوشن“ سے کم کیمرے نہ لگا سکے اور جو لگائے اسے بھاری جرمانہ کیا جائے‘ میری وفاقی حکومت سے بھی درخواست ہے یہ فوری طور پر امبر الرٹ کی طرز پر زینب الرٹ بنائے اوریہ میڈیا‘ سوشل میڈیا اور موبائل فونز کمپنیوں کو پابند بنائے یہ آدھ گھنٹے کے اندر اندر یہ الرٹ نشر‘ شائع اور براڈ کاسٹ کریں گی‘حکومت اگر یہ الرٹ سسٹم نہیں بنا سکتی تو میں حکومت کو یہ سسٹم مفت فراہم کر سکتا ہوں‘ میری ایک چھوٹی سی آئی ٹی کمپنی ہے‘ یہ کمپنی یورپ اور امریکا کی مختلف کمپنیوں کو ایپس‘ ویب پیجز اور ویب سائیٹس بنا کر دیتی ہے‘ ہم حکومت کو یہ الرٹ سسٹم مفت بنا دیں گے‘ حکومت یہ الرٹ سسٹم ڈی پی اوز کو دے دے ‘ یہ لوگ یہ سسٹم اپنے سرکاری موبائل فونز میں لگائیں اور یہ لوکل میڈیا‘ نیشنل میڈیا‘ سوشل میڈیا اور موبائل فون کمپنیوں کو اس کے ساتھ لنک کردیں‘ مجھے یقین ہے مستقبل میں زینب جیسی بچیاں درندگی سے محفوظ ہو جائیں گی‘ میری حکومت سے یہ درخواست بھی ہے یہ تعلیمی اداروں بالخصوص پرائیویٹ سکولوں کو پابند کریں یہ کم از کم ایک ماہر نفسیات ضرور رکھیں‘یہ ماہر نفسیات بچوں کا باقاعدگی سے معائنہ کرتے رہیں‘ سکول اساتذہ کو بھی پابند کریں یہ بچوں کو اپنی حفاظت کے بارے میں گاہے بگاہے بتاتے رہا کریں‘ بھارت میں زینب جیسے ایشو پر کہانی ٹو کے نام سے بڑی شاندار فلم بنی تھی‘ پرائیویٹ سکول بچوں کو یہ فلم بھی دکھا سکتے ہیں‘ یہ بھی مدد گار ثابت ہوگی۔زینب ایک الرٹ تھی‘ ہم اگر اس الرٹ سے اپنا سسٹم امپروو کر لیتے ہیں تو زینب کی جان ملک کی ہزاروں بچیوں کو زندگی دے جائے گی اور ہم نے اگر اس الرٹ کو بھی اگنور کر دیا تو پھر ہم اسی طرح اپنی بچیوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے اور اپنا غصہ تھانوں‘ ہسپتالوں اور گاڑیوں پر نکالتے رہیں گے۔

نماز کے طبی اثرات

نماز کے طبی اثرات 

*فجر* :

   نماز فجر کے وقت سوتے رہنے سے معاشرتی ہم آہنگی پر اثر پڑتا ہے، کیونکہ اجسام کائنات کی نیلگی طاقت سے محروم ہو جاتے ہیں-
رزق میں کمی اور بےبرکتی آجاتی ہے۔
چہرا بے رونق ہو جاتا ہے۔
لہذا مسلسل فجر قضا پڑھنے والا شخص بھی انہی لوگوں میں شامل ہے۔

*ظہر*:

   وہ لوگ جو مسلسل نماز ظہر چھوڑتے ہیں وہ بد مزاجی اور بدہضمی سے دوچار ہوتے ہیں. 
اس وقت کائنات زرد ہو جاتی ہے اور معدہ اور نظامِ انہظام پر اثر انداز ہوتی ہے-
روزی تنگ کر دی جاتی ہے۔

*عصر*:

   اکثر نماز عصر چھوڑنے والوں کی تخلیقی صلاحیتیں کم ہو جاتی ہیں، اور عصر کے وقت سونے والوں کا زہن کند ہو جاتا ہے اور اولاد بھی کند زہن پیدا ہوتی ہے-
کائنات اپنا رنگ بدل کر نارنجی ہوجاتی ہے اور یہ پورے نظامِ تولید پر اثر انداز ہوتی ہے-

*مغرب*:

   مغرب کے وقت سورج کی شعاعیں سرخ ہو جاتی ہیں-
جنات اور ابلیس کی طاقت عروج پر ہوتی ہے-
سب کام چھوڑ کر پہلے مغرب کی نماز ادا کرنی چاہیئے-
اس وقت سونے والوں کی کم اولاد ہوتی ہے یا ہوتی ہی نہیں اور اگر ہو جاے تو نافرمان ہوتی ہے۔

*عشاء*:

   نماز عشاء چھوڑنے والے ہمیشہ پریشان رہتے ہیں-
کائنات نیلگی ہو کر سیاہ ہو جاتی ہے اور ہمارے دِماغ اور نظامِ اعصاب پر اثر کرتی ہے- 
نیند میں بے سکونی اور برے خواب آتے ہیں، جلد بڑھاپا آجاتا ہے۔

*نوٹ :*

   بے نمازی کی نہ دنیا ہے نہ ہی آخرت، کیونکہ یہ ہماری شیطان کے ساتھ گہری دوستی اور ہمارے گناہ ہی ہیں جو ہمیں اللّٰہ تعالٰی کے سامنے سجدہ نہیں کرنے دیتے۔

   بیوقوف ہے وہ مسلمان جس کو پتہ بھی ہے کہ پہلا سوال نماز کا ہونا ہے پھر بھی وہ نماز قائم نہیں کرتا۔

   *جب جنت والے جہنم والوں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کون سا عمل یہاں (جہنم میں) لے آیا تو وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔*
(القرآن)

پوسٹ دوسرے لوگوں سے شیر کرکے آپ بھی نیکی کے کام میں شامل ہو جائیں
#جزاک_اللہ_خیرا_کثیرا

کتا نکالے بغیر کنویں کی پاکی کی خواہش

‏آج منگل

‏28 ربیع الثانی

‏4 ماگھ

16 جنوری

‏معاشرہ اسلام کو اپنائے بغیر سکون چاہتا ہے یعنی برائ کے زرائع چھوڑے بغیر برائ کا خاتمہ چاہتا ہے ۔۔۔۔۔کنواں کا پانی پاک چاہتا ہے لیکن کنواں سے فرنگی کتا بھی نہیں نکالنا چاہتا ایسے تو ممکن نہیں ۔۔۔۔کہ شر سے دوستی رہے اور حق بھی آپکو مل جاے خیر اور شر ایک دوسرے کی ضد ہیں شر کو کہو فاخرج یعنی نکل جا تبھی خیر آے گی ۔۔۔۔۔۔شر کے ساتھ اتفاق اتحاد کر کر کبھی معاشرہ سکون میں نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ بدامنی اور بے سکونی کے کوڑے برستے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام اپنائیے اسلام والوں کو اپنائیے ۔۔۔۔۔۔۔کفر کو چھوڑیے کفر والوں کو چھوڑیے ۔۔۔۔۔۔۔حق سے یاری لگائیے حق والوں سے یاری لگائیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔باطل کو مردود سمجھیے اور دفع دور کیجیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر دیکھیے گا پاک محمد کریم صلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ کیسے ہماری غم خواری کرتے ہیں۔۔۔۔۔

بدھ، 7 فروری، 2018

گروپ ایڈمن... ہوشیار

گروپ ایڈمینس قیامت کے دِن جوابدہی کےلئے تیار رہیں........... -
       ★لمحـــــــۂ فکــریہ

      آج کل شوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جہاں ہمارے لئے بہت ساری سہولیات مہیا کردی ہیں وہیں بے شماردنیوی و اُخروی نقصانات بھی ہمارا مقدر بن گئے ہیں. 
شوشل میڈیا میں بکثرت استعمال ہونے والے What's aap اور facebook نے تو تہلکہ مچارکھاہے.  
شروع شروع میں تو انکے استعمال کرنے والے ان کے استعمال سے مکمل طور پرآشناناتھے لیکن جوں جوں استعمال بڑھتاگیالوگ ان کے رموزواوقاف سے مکمل طور پر واقف ہوتے گئے.پھر لوگوں اپنی عقل و فہم کی بنیاد پر Group's تشکیل دینا شروع کئے.  اب المیہ یہ ہے کہ ہر یوزراپنے چند دوستوں کو لےکر اپنے ذوق کے مطابق مختلف گروپس تشکیل دے رہاہے.  اور پھر اِن گروپس میں کیا ہوتاہے،کیسے ہوتا یہ ہر شوشل میڈیاپر سرگرم عمل شخص بخوبی جانتاہے. 
میں اپنے اس مختصر سے مضمون میں جِس بات کی طرف اشارہ کرناچاہتاہوں وہ یہ کہ وہاٹس اپ، فیس بُک کا استعمال کرنا، ان پر گروپس بنانا کوئی گناہ کا کام نہیں ہے.  {اِلاّ یہ کہ جب ان کا استعمال شرعی احکام کی پامالی، فرائض سے دوری اور دین بیزاری کا سبب بننے لگے تو پھر ان کا استعمال صرف گناہ ہی نہیں بلکہ حرام تک  ہوجاتاہے. } لیکن جیسے ہی آپ کسی گروپ کے ایڈمین بنتے ہیں آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے.  آپ admin بننے کے ساتھ ساتھ اپنےگروپ اور ممبران کے متعلق اخرت میں جواب دہی کے بھی ذمہ دارہوجاتے ہیں.
آج کل یہ بیماری بری طرف عام ہوتی جارہی ہے  نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سنو! تم میں سے ہر شخص مسئول اور ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا،امیر لوگوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا ، اور مرد اپنے اہل خانہ پر حاکم ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ،اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار اور مسئول ہے اس سے ان کےبارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ یاد رکھو! تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا 

اس حدیث شریف میں صراحت کے ساتھ یہ بات موجود ہے کہ ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اسکے ماتحتوں کے متعلق کل قیامت کے دِن سوال کیا جائے. 
محترم قارئین! اب ہم غور کریں کہ facebook  یا what'sapp  اپ پر گروپ تشکیل دینے کے بعد ہم پر کتنی بڑی ذمہ داری عائدہوجاتی ہے.  جب آپ کوئی گروپ تشکیل دیتے ہیں تو اس گروپ میں آپکی حیثیت ذمہ دار(Admin) کی ہوتی ہے اور گروپ کا ہر ممبر آپ کا ماتحت ہوتاہے. گروپ creat کرتے ہی حدیث شریف کی رو سے "مسئول" (جس سے سوال کیاجائے【amdin】) بن جاتے ہیں اور گروپ کے تمام ممبران کی آخرت کے بننے یا بگڑنے کے ذمہ دار بھی.  اور پھر انہی ممبران کی آخرت کے بننے یا بگڑنے سے متعلق کل قیامت میں آپ سے سوال ہونا ہے. کہ آپکی ماتحتی میں آجانے کے بعد آپ نے انکی آخرت کی کتنی فکر کی؟؟؟
اس لئے اگرآپ کسی گروپ کے ایڈمین /ذمہ دار ہیں تواب آپکی حیثیت صرف ایڈمین کی ہی نہیں بلکہ مسئول اور امیر کی بھی ہوجاتی ہے.اور آپ ایک مکمل کارواں کےرہبر بن جاتے ہیں.اب کارواں کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے چاہے جِس سمت موڑدیں بھلائی کی طرف یا پھر بُرائی کی طرف. اور اگر آپ بھلائی کی طرف اپنے قافلے کو نہیں لے کر چلتے تو  اس کےلئے تیار رہیں کہ کل قیامت کے دِن آپ سے اس بارے میں بھی سوال ہوناہے.  ورنہ اس سے پہلے کہ آپ قیامت کے دِن مسئول(admin) کی حیثیت سے سوال کیا جائے  اور آپ سے آپ کے گروپ کے ممبران کے بارے میں سوال ہو اگرآپ اسکی اہلیت نہیں رکھتے کہ آپ ہرممبر کی آخرت سنوارنے کی فکر کرسکیں اور آخرت کی جوابدہی سے بھی بچنا چاہتے ہیں  تو جتنی جلدی ہوسکے اپنے گروپس close کیجیئے. 
خود کی بھی آخرت برباد ہونے سے بچائیے اور دوسروں کی بھی.
ورنہ کل قیامت کے دِن یہی گروپ ممبرس، ان کا قیمتی سرمایہ،وقت، صلاحیتیں جو آپکی کی وجہ(گروپ بنانے) سے ضائع ہورہی ہیں  آپ کےلئے خسارے کا سامان  بن سکتے ہیں ..ـــــــــــــــــــــــــــــــ 

وما توفیقِ اِلاّ بِاللہ

منگل، 6 فروری، 2018

باپ سلامت رہنا چاہیے!!

باپ سلامت رہنا چاھئیے !! 
(والد سے متعلق میں نے کوئی دوسری اتنی خوبصورت تحریر پہلے کبھی نہیں پڑھی)
آج صبح فیس بک میں ایک پوسٹ پر دوست نے ٹیگ کیا ہوا تھا ، جہاں ماں کی محبت کا ذکر تھا وہیں دوسری جانب سوال تھا کہ باپ کی محبت کیا ہوتی ہے ؟ 
چونکہ میں والد صاحب سے زیادہ قریب رہا ہوں اسلئے میرے لئے یہ سوال بہت معنی رکھتا ہے . 
جہاں تک بات ماں کی محبت کی ہے تو اس بابت تو تب سے لکھا جارہا ہے جب سے حضرت انسان نے لکھنا سیکھا تھا پر باپ ایک ایسی ذات ہے جس بابت شاید باپ نے بھی کبھی کھل کر نہیں لکھا اور بھلا لکھ بھی کیسے سکتا ہے کہ باپ کی محبت کا ہر رنگ نرالا اور مختلف ہے . ماں کی محبت تو بچے کی پیدائش سے اسکی آخری عمر تک ایک سی ہی رہتی ہے یعنی اپنے بچے کی ہر برائی کو پس پردہ ڈال کر اسے چاہتے رہنا . 
بچپن میں بچہ اگر مٹی کھائے تو اس پر پردہ ڈالتی ہے اور باپ سے بچاتی ہے ، نوجوانی میں بچے کی پڑھائی کا نتیجہ آئے تو اس رپورٹ کارڈ کو باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے ، جوانی میں بچے کا دیر سے گھر آنا باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے ٹھیک اسی طرح جیسے جیسے بچہ بڑا اور اسکے " جرائم " بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے ماں اپنے پردے کا دامن پھیلاتی چلی جاتی ہے ، اسکے برعکس "باپ" ایک ایسی ہستی ہے جو اپنی اولاد کو بے پناہ چاہنے کے باوجود اس پر صرف اسلئے ہاتھ اٹھاتا ہے کہ کہیں بچہ خود کو بڑے نقصان میں مبتلا نہ کر بیٹھے ، اسکی پڑھائی پر سختی برتتا ہے کہ کہیں اس کا بچہ کم علم ہونے کے باعث کسی دوسرے کا محتاج نہ بن کر رہ جاۓ ، بچے کا رات دیر سے گھر آنا اسلئے کھٹکتا ہے کہ کہیں کسی بری لت میں مبتلا ہوکر بچہ اپنی صحت اور مستقبل نہ خراب کر بیٹھے . 
یعنی بچے کی پیدائش سے لیکر قبر تک باپ کی زندگی کا محور اس کا بچہ اور اسکا مستقبل ہی رہتا ہے . جہاں ماں کی محبت اسکی آنکھوں سے اور عمل سے ہر وقت عیاں ہوتی ہے وہیں باپ کی محبت کا خزانہ سات پردوں میں چھپا رہتا ہے . غصہ ، پابندیاں ، ڈانٹ ، مار ، سختی یہ سب وہ پردے ہیں جن میں باپ اپنی محبتوں کو چھپا کر رکھتا ہے کہ بھلے اسکی اولاد اسے غلط سمجھے پر وہ یہ سب پردے قائم رکھتا ہے کہ اسکی اولاد انہی پردوں کی بدولت کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتی ہے . 
میرے ابو جی غصہ کے انتہائی سخت ہے ہم بھائیوں پر بہت سختیاں کی ، اور شاید نوجوانی میں ہمیں ہمارا باپ دنیا کا سب سے برا اور ظالم باپ لگتا تھا کہ جو نا ہی دوستوں کے ساتھ رات گئے تک بیٹھنے دیتا ہے اور نہ ہی جیب خرچ اتنی زیادہ دیتا ہے کہ ہم فضول عیاشیاں کرسکیں ، مار باقی بھائیوں نے تو اتنی نہیں کھائی پر اپنی عجیب حرکات پر میں نے بہت مار کھائی ہے . 
پر آج جب اپنے بچپن کے دوستوں کو نشے یا دیگر خرافات میں مبتلا دیکھتا ہوں تو الله کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے والد صاحب نے ہم پر سختیاں برتیں جسکی بدولت آج کسی بھی طرح کے نشے سے خود کو بچائے رکھا ہے . اور آج اس مقام پر کھڑے ہیں کہ اپنے والدین کا سر فخر سے بلند رکھ سکیں .
*پر کیا آپکو معلوم ہے کہ باپ سانسیں لیتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں ، جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا اور والد کا اختیار گھٹتا جاتا ہے ویسے ویسے ہی باپ " مرنا " شروع ہوجاتا ہے* . جب بچہ طاقتور جوان ہونے لگتا ہے تو باپ کا ہاتھ بعض اوقات اس خوف سے بھی اٹھنے سے رک جاتا ہے کہ کہیں بیٹے نے بھی پلٹ کر جواب دے دیا تو اس قیامت کو میں کیسے سہوں گا ؟ 
*جب بچے اپنے فیصلے خود لینے لگیں اور فیصلے لینے کے بعد باپ کو آگاہ کر کے " حجت " پوری کی جانے لگے تو بوڑھا شخص تو زندہ رہتا ہے پر اسکے اندر کا " باپ " مرنا شروع ہوجاتا ہے* . 
باپ اس وقت تک زندہ ہے جب تک اس اولاد پر اسکا حق قائم ہے جس اولاد سے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر اسے تھپڑ بھی مارا ، اولاد کے آنسو بھلے کلیجہ چیر رہے ہوں پر پھر بھی اسلئے ڈانٹا کہ کہیں نا سمجھ اولاد خود کو بڑی تکلیف میں مبتلا نہ کر بیٹھے . ماں کی محبت تو یہ ہے کہ پیاس لگی (پیار آیا) تو پانی پی لیا پر باپ کی محبت یہ ہے کہ پیاس لگی تو خود کو اور اتنا زیادہ تھکایا کہ پیاس لگتے لگتے اپنی موت آپ مر گئی . 
چونکہ والد صاحب کا ہماری زندگی پر ہمیشہ اختیار رہا ہے لہذا عمر کے اس حصّے میں بھی کوشش ہوتی ہے کہ ابو کو کبھی احساس نہ ہو کہ اب ہم "بڑے" ہوگئے ہیں یا انکی اہمیت گھٹ چکی ہے لہذا پیسے ہونے کے باوجود اپنے ہر کام کے لئے ابو جی سے پیسے مانگنا اچھا لگتا ہے ، رات اگر کسی پروگرام سے واپسی پر دیر ہوجانے کا خدشہ ہو تو آدھا گھنٹے ابو جی کی پہلے منتیں کرنی پڑتی ہیں کہ پلیز جانیں دیں جلدی واپس آجاؤں گا ، روڈ کراس کرتے ہوئے ابو جی آج بھی ہمارا ہاتھ پکڑ کر رکھتے ہیں اور ہم بھائی دل ہی دل میں ہنستے ہوئے اور آس پاس کھڑے لوگوں کی نظروں کو نظرانداز کرتے ہوئے ابو کا ہاتھ پکڑ کر روڈ کراس کرتے ہیں . باپ کی محبت اولاد سے ماسوائے اسکے اور کچھ
نہیں مانگتی کہ " باپ " کو زندہ رکھا جاۓ ،پھر چاہے وہ چارپائی پر پڑا کوئی بہت ہی بیمار اور کمزور انسان ہی کیوں نہ ہو ، اگر اسکے اندر کا " باپ " زندہ ہے تو یقین جانیئے اسے زندگی میں اور کسی شے کی خواہش اور ضرورت نہیں ہے ، اگر آپ کے والد صاحب سلامت ہیں تو خدارا اسکے اندر کا " باپ " زندہ رکھئیے یہ اس "بوڑھے شخص" کا آپ پر حق بھی ہے اور آپکا فرض بھی ہے !!
آپ کا مخلص دوست
ڈاکٹرمحمدارشد
)اقتسابات میری تحاریرسے(

پیر، 5 فروری، 2018

واللہ خیر الرازقین

🌿🍂🌿  ﷽  🌿🍂🌿🍂
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
         ︽︽︽︽︽︽︽︽︽︽︽︽︽
      📚✧​ آج کی خوبصورت بات ✧​📚
         ︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾

✍ ایک شخص کسی کے ہاں ملازم تھا۔ وہ سارا دن کام کرتا اور شام کو اپنے گھر لوٹ آتا جہاں اس کی بیوی بچوں کے علاوہ اس کی ماں بھی اس کی منتظر ہوتی تھی۔

ایک دن وہ کام پر نہ گیا تو اس کے مالک نے سوچا کہ مجھے اس کی تنخواہ میں کچھ اضافہ کر دینا چاہیئے تاکہ وہ اور دلجمعی سے کام کرے اور آئندہ غائب نہ ہو. اگلے دن مالک نے اس کی مقررہ تنخواہ سے کچھ زیادہ پیسے اسے دیئے جو اس نے خاموشی سے رکھ لئے اور کچھ نہ کہا۔
کچھ دنوں بعد وہ دوبارہ غیر حاضر ہوا تو اس کے مالک نے غصے میں آ کر اس کی تنخواہ میں کیا گیا اضافہ ختم کر دیا۔ اور اس کو پہلے والی تنخواہ ہی دی، مالک کی توقع کے خلاف اس نے اب بھی خاموشی اختیار کی اور کچھ نہ کہا،
اس پر مالک نے کہا؛ "جب میں نے اضافہ کیا تو تم خاموش رہے اور اب جب کمی کی تو پھر بھی خاموش ہو کیوں؟"
ملازم نے جواب دیا؛
جناب ! جب میں پہلے دن غیر حاضر تھا تو اس کی وجہ بچے کی پیدائش تھی اور آپ کی طرف سے تنخواہ میں اضافے کو میں نے وہ رزق خیال کیا جو وہ اپنے ساتھ لے کر آیا،
جب میں دوسری مرتبہ غیر حاضر تھا تو اس کی وجہ میری ماں کی وفات تھی اور آپ کی طرف سے تنخواہ میں کمی کو میں نے وہ رزق خیال کیا جو وہ اپنے ساتھ واپس لے گئی۔
بھلا میں اس رزق کے خاطر کیوں پریشان ہوں جس کا ذمہ خود اللہ نے اٹھایا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ !!!

☚ خــوش رہیں، خــوشیاں بانٹیں ۔ ۔ ۔🌱

 ۔                 🌱 صَبَّاحُ الْخَیْرِ 🌱
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖