پیر، 30 مئی، 2022

بوڑھوں کو خوب پانی پلائیں

 بوڑھوں کو خوب پانی پلائیں۔

By Arnaldo (Liechtenstein, physician)

میں جب بھی میڈیسن  کے چوتھے سال میں طلباء کو کلینیکل میڈیسن سکھاتا ہوں تو میں مندرجہ ذیل سوال پوچھتا ھوں: بوڑھوں میں ذہنی الجھن کی وجوہات کیا ہیں؟

کسی کا جواب ہوتا ہے:

سر میں ٹیومر۔

میں نے جواب دیا: نہیں۔

دوسرے تجویز کرتے ہیں: الزائمر کی ابتدائی علامات۔

میں نے پھر جواب دیا: نہیں۔

ان کے جوابات کو مسترد کرنے کے بعد جب وہ خاموش ہوجاتے ہیں۔ تو جب میں انہیں تین عام وجوہات کی فہرست دیتا ہوں تو ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔

1- بے قابو ذیابیطس۔

2- پیشاب کا انفیکشن۔

3- پانی کی کمی۔

یہ وجوہات بظاھر لطیفے کی طرح لگتی ہیں۔

لیکن ایسا نہیں ہے۔

عام طور پر 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو پیاس لگنا بند ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ مائعات پینا بند کردیتے ہیں۔ اور اگر کوئی ارد گرد موجود فرد انہیں کچھ  پانی وغیرہ پینے کی یاد نہ دلائے تو وہ تیزی سے ڈی ہائیڈریٹ ہو نے لگتے ہیں۔ ان کےجسم میں پانی کی کمی شدید ہو جاتی ہے اور اس سے پورے جسم پر اثر پڑتا ہے۔

جو اچانک ذہنی الجھن،

بلڈ پریشر میں کمی،

دل کی دھڑکن میں اضافہ،

انجائنا (سینے میں درد)،

کومہ اور یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتا ہے۔

پانی وغیرہ پینا بھولنے کی یہ عادت 60 سال کی عمر میں شروع ہوتی ہے۔

ہمارے جسم میں پانی کی مقدار %50 فی صد سے زیادہ ہونا چاہئے۔

جب کہ60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے  بدن میں پانی کا ذخیرہ کم  ہوتا ہے۔ یہ قدرتی  طور پر عمر بڑھنے کے عمل کا ایک حصہ ہے۔

لیکن! اس میں مزید پیچیدگیاں بھی ہیں۔ یعنی اگرچہ وہ پانی کی کمی سے دوچار ہوتے ہیں پر  انہیں پانی پینے کی طلب نہیں ہوتی، کیوں کہ ان کے جسم کے اندرونی توازن کے طریقہ کار زیادہ بہتر طور پر کام نہیں کررہے ہوتے ہیں۔

نتیجہ

 60سال سے زیادہ عمر کے لوگ آسانی سے پانی کی کمی کاشکار ہو جاتے ہیں

کیونکہ نہ صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس پانی کی فراہمی بہت کم ہےبلکہ  وہ جسم میں پانی کی کمی کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔

اس کے باوجود اگرچہ 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد صحت مند نظر آسکتے ہیں۔

لیکن رد عمل اور کیمیائی افعال کی کارکردگی ان کے پورے جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

اس لئےاگر آپ کی عمر سال 60سے زیادہ ہے تو آپ:

1۔ مائعات پینے کی عادت ڈالیں۔ مائع میں پانی، جوس، چائے، ناریل کا پانی، دودھ، سوپ، اور پانی سے بھرپور پھل، جیسے تربوز، آڑو اور انناس شامل ہیں۔ اورنج اور ٹینجرین بھی کام کرتے ہیں۔

 یہ اہم بات  یاد رکھیں کہ، ہر 2 دو گھنٹے کے بعد، آپ کو کچھ مائع  لازمی پینا چاہئے۔

2- کنبہ کے افراد کے لئے انتباہ! 60 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو مستقل طور پر پانی وغیرہ پیش کریں اور اسی وقت ان کی صحت کا مشاہدہ بھی کریں۔

اگر آپ کو یہ محسوس ہو کہ وہ  ایک دن سے دوسرے دن تک  پانی اور جوس وغیرہ  پینے سے انکار کر رہے ہیں اور وہ چڑچڑے ہو رہے ہیں یا ان میں سانس کا مسئلہ ہوتا ہے یا توجہ کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں تو، یہ ان کے جسم میں پانی کی کمی کے قریب قریب آنے والی علامات ہیں۔

ان معلومات کو صدقہ جاریہ سمجھ کر یہ معلومات دوسروں کو بھیجیں۔

 آپ کے دوستوں اور کنبہ والوں کو اسےجاننے کی ضرورت ہے۔ سب سے شئیر کریں گے تو اس طرح وہ  60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو صحت مند اور خوش باش رہنے میں مدد کر سکیں گے۔


ملتمس دعا🤲:

جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا

Forwarded as received

اتوار، 22 مئی، 2022

امید کی کرن

 قابل اعتماد

امید کی کرن


پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیق سلطان قابوس یونیورسٹی، مسقط میں کنٹرول سسٹمز کےایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔


جاپان کی “چِی با یونیورسٹی۔ ٹوکیو” سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد پاکستان و بیرون پاکستان کئی بین الاقوامی اداروں میں تعلیم و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔


جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ تقویٰ و خلوص کا پیکر۔ پرمحبت شخصیت


الیکٹریکل انجینئرنگ (کنٹرول سسٹمز) کے طب، بیالوجی، میکینکس، کیمیکل انڈسٹری، ٹیلی کام، اسپیس ٹیکنالوجی، ایگریکلچر وغیرہ میں اطلاق پر ایک سو چار (104) ریسرچ پیپرز اور کتب کے مصنف ہیں.

(آپ انکا علمی کام گوگل کر کے دیکھ سکتے ہیں۔) 

بشکریہ: وسیم گل


مندرجہ بالا تعارف جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے محض ایک ہیرے کا ہے، بارہ سو سے زائد مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی حضرات باقاعدہ جماعت کے کارکن ہیں، اسکے علاوہ سینکڑوں ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، وکلاء، کسان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز باقاعدہ ان شعبوں میں قائم جماعت کی ذیلی تنظیموں کا حصہ ہیں۔


پلڈاٹ جیسے معتبر ادارے نے اپنے سروے میں مختلف پارلیمانی ادوار میں قانون سازی اور حاضری کے اعتبار سے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو بہترین قرار دیا۔ 


کراچی کے مئرز عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کی کارکردگی کی انکے بدترین مخالفین بھی تعریف کرتے رہے۔


سراج الحق جب صوبائی وزیر خزانہ تھے تو انکی کارکردگی کے عوض وفاق نے صوبے کو ڈیڑھ کروڑ روپے کے انعام سے نوازا اور عالمی مالیاتی اداروں تک نے انکی کارکردگی کی تعریف کی۔


سابق وزیر بلدیات پختونخواہ عنائت اللہ خان کو انکی اتحادی جماعت کے سربراہ نے بھی تبدیلی کی چابی قرار دیا۔


جماعت اسلامی کے ذیلی خدمت خلق کے اداروں "الخدمت فاؤنڈیشن"، "غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ"، "ریڈ فاؤنڈیشن" اور "حرا فاؤنڈیشن" کا شمار ملک کے معتبر ترین غیر سرکاری اداروں میں ہوتا ہے۔


جماعت اسلامی کا تیار کردہ دینی لٹریچر اسلامی نظام ہائے زندگی کے ہر ہر شعبہ کے بارے رہنمائی فراہم کرتا ہے، نیز کیمیونزم و سوشلزم ہو یا سیکولر ازم و سرمایہ دارانہ نظام، ان سب کا علمی و عملی مقابلہ ہر ہر میدان میں جماعت نے کیا ہے۔


فرقہ واریت، لسانیت اور اقربا پروری سے پاک جماعتی قیادت کے کردار کی تعریف تو سپریم کورٹ بھی کرنے پر مجبور ہوئی کہ "باسٹھ تریسٹھ پر عمل ہوا تو اسمبلی میں سوائے سراج الحق کے کوئی نہیں بچے گا".


جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جماعت ہے جہاں ایک عام غریب کارکن بھی انتہائی شفاف پارٹی الیکشن کے ذریعے پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے اور اندرونی جمہوریت کے لحاظ سے کوئی دوسری سیاسی جماعت ایسی مثال نہیں رکھتی۔


مختلف ادوار میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد جماعت کے پلیٹ فارم سے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کا حصہ بنے لیکن انکا دامن ہر قسم کی اخلاقی و مالی کرپشن سے پاک رہا۔


مندرجہ بالا خوبیوں کی بناء پر ہی ہم کہتے ہیں کہ "حل صرف جماعت اسلامی ہے." جماعت اسلامی کا ساتھ دینے پر آپکو اسی طرح پچھتانا نہیں پڑے گا جیسے ترکی کے عوام طیب اردوگان کا ساتھ دے کر نہیں پچھتائے اور اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر چکے ہیں۔

نماز قضا سے کیسے بچیں

 *سلسلہ نصیحةُ القرآن*

مرتب:-✍️

*محمد حسن*

فاضل:-وفاق المدارس العربیہ پاکستان

---------------------------------------


🌹 سورہ مریم آیت 59۔


*نماز کبھی بھی قضا نہ کریں خصوصاً نماز فجر کی ادائیگی کا خاص خیال رکھیں*۔

ہر ممکن کوشش کریں کہ کبھی بھی نماز فجر قضا نہ ھو. 


🍀 سورہ مریم آیت 59 میں اللہ تعالی کا اِرشاد ہے. 


*فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِـمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا*۔

✍️ ترجمہ:-

پھر ان کے بعد(بعضے) ایسے بُرے لوگ پیدا ھوئے جنہوں نے نماز کو برباد کیا

(یعنی اس کی ادائیگی میں کوتاہی کی) 

اور(نفسانی ناجائز) خواہشوں کی پیروی کی

(جو فرض اطاعت سے غافل کرنے والی تھی)

سو یہ لوگ عنقریب (آخرت میں) خرابی دیکھیں گے۔


🌷حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ عنہ نے اپنے سب حکومتی اہلکار کو یہ ھدایت نامہ لکھ کر بھیجا تھا کہ میرے نزدیک تمہارے سب کاموں میں سب سے زیادہ اہم نماز ہے تو *جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے وہ دوسرے تمام احکامِ دین کو بھی ضائع کرے گا۔*

(📚موطّا امام مالک)


🌷حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز کے آداب اور تعدیلِ ارکان میں کوتاہی کرتا ہے تو اس سے دریافت کیا کہ تم کب سے یہ نماز پڑھتے ہو۔ اس نے کہا کہ چالیس سال سے، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی اور اگر تم اسی طرح کی نمازیں پڑھتے ہوئے مر گئے تو یاد رکھو کہ فطرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف مرو گے۔

(📚تفسیر معارف القرآن)


*غور کرنے کی بات ہے* کہ صحابی رسول ﷺ نماز ٹھیک طرح نہ پڑھنے پر کتنی ناراضگی کا اظہار فرما رہیں ہیں پھر جو شخص بالکل بھی نماز نہ پڑھے تو اس کا کیا حال ھو گا؟


اس آیت میں جو *وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ* کے الفاظ ہیں یعنی نماز ضائع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے۔

*شہوات* سے مراد دنیا کی وہ لذتیں ہیں جو انسان کو اللہ کی یاد اور نماز سے غافل کریں خواہ وہ کوئی بھی چیز ھو۔

پھر اللہ تعالی نے فرمایا *فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا* یعنی یہ لوگ عنقریب (آخرت میں) خرابی دیکھیں گے۔

*لفظ غیّ* عربی زبان میں ہر برائی اور شر کو غیّ کو کہتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ *غیّ* جہنم کے ایک غار کا نام ہے جس میں سارے جہنم سے زیادہ، طرح طرح کے عذاب جمع ہیں۔

(📚تفسیر قرطبی)


🌷حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ *غیّ* جہنم کے ایک غار کا نام ہے جس سے باقی جہنم بھی پناہ مانگتی ہے۔

 (📚تفسیر قرطبی)


*لہذا نماز فجر کبھی بھی قضا نہ کریں،بغیر شرعی ضرورت کے رات دیر تک کبھی بھی نہ جاگیں کہ نماز فجر ہی قضا ہو*۔

اپنے ربّ کی رضا کا خیال رکھتے ہوئے ابھی سے ہر ممکن کوشش اور عزم کریں کہ مجھے نماز فجر کبھی بھی قضا نہیں کرنی۔


*🌻 نماز فجر جیسے اھم فریضہ کی ادائیگی کے اھتمام کے لئیے درج ذیل 5 تدابیر پر عمل لَازم ھے👇*


1️⃣ آپ سب سے پہلے ہر روز کسی بھی وقت خصوصا رات کو پکا ارادہ و عزم کریں کہ جو بھی ہو مجھے نماز قضا نہیں کرنی اپنے اس خالق و مالک کو کیسے ناراض کروں جو رات کو نیند اور سانس لینا جیسی نعمت عطاء فرماتا ہے لاکھوں لوگ نیند کے لئیے ترستے ہیں لیکن یہ نعمت حاصل نہیں ھوتی پھر میں اپنے رب کے بارے میں اتنا بے حس اور بے وفا ہوں آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۰

میں گھڑی کی اواز سن لوں تو کیا یہ ٹک ٹک کی اواز آ رہی ھوتی ہے ؟؟ 

*نہیں!*

بلکہ کَٹ کَٹ کی اواز آ رہی ہے زندگی کا ایک ایک لمحہ کَٹ کر میں خود موت اور قبر کی طرف جانے والا ہوں پھر اتنی غفلت کیسے؟ آخر میں کس گناہ میں مبتلا ہوں کہ فرض عبادت کی توفیق بھی نہیں مل رہی۔


2️⃣ پھر رات دیر سے نہ سوئیں بلکہ جلدی سو جائیں بعض شہروں کے لوگ رات بہت دیر سے سوتے ہیں یہ بہت بری اور خلاف سنت عادت ہے آپکو گھر میں جلدی سونے کا ماحول بنانا چاہیے یا کم از کم خود ہی جلدی سونے کی عادت ڈالیں سونے سے پہلے مسنون اذکار پڑھ کر اللہ تعالی سے دعا مانگا کریں کہ اے اللہ میں رجوع کرنا چاہتا ہوں مجھے اپنا بنا لیں شیطان کے حوالہ نہ کر۔


3️⃣ گناہ کبیرہ سے مکمل اجتناب کریں *خصوصا رات دیر تک موبائل ہرگز استعمال نہ کریں* بدنظری یعنی فلم ڈرامہ گانے دیکھنے سے مکمل اجتناب کریں کیونکہ یہ عبادت کی مٹھاس حلاوت ختم کرنے اور توفیق نہ ملنے میں زہر کی طرح اثر کرتی ھے۔دوسری بات یہ کہ نیند موت کا بھائی جیسا یے لہذا اپنی مصروفیات کا اختتام گُناہ کے کام پر نہ کریں، کیا معلوم اِسی رات کو اچانک موت آ جائے۔


4️⃣ پھر موبائل الارم ⏰ پر لگا لیں آپنے گھر والوں کو بھی کہہ دیں کہ مجھے ضرور نماز کے لئیے جگائیں آپکے جو دیندار دوست Friends ھو اسے کہہ دیں کہ آپ مجھے نماز فجر کے لئیے موبائل پر کال کیا کریں *غرض سب ذرائع استعمال کریں*۔


5️⃣ اور اخری بات یہ کہ نماز قضاء کرنے کی سزا یاد دلائیں کہ جھنم میں کیسی سزا بھگتنا پڑے گی؟؟ ہر وقت یہی آخرت والا سوچ رکھا کریں۔


*نماز فجر ادا کرنے کے بعد مجھے بھی اپنی خصوصی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں*۔

میری ذات اور الله کی باتیں۔ حصہ اول

 (PART one )

میری ذات اور اللہ کی باتیں ♥️


ناشکری چاہے وہ زبانی ہو یا عملی ..تباہ کر دیتی ہے .. زبانی ناشکری مطلب میں زبان سے ایسے الفاظ ادا کروں جس میں اللہ سے شکوے ہی بھرے ہوں یہ نھیں ملا وہ نہیں ملا ایسے ہوجاتا تو کتنا اچھا ہوتا میں اس کی جگہ ہوتی تو کیا زندگی ہوتی ..میرے تو مسٸلے ختم نہیں ہوتے ایک کے بعد دوسرا آجاتا .. عجیب زندگی ہے کوٸ مزہ ہی نہیں ہے .. کاش میرے پاس یہ ہوتا اور میں اس طرح کی زندگی گزار رہی ہوتی وغیرہ وغیرہ اور اس طرح کے سینکڑوں فقرے جو روزمرہ زندگی میں بولتے ہوۓ تھوڑی سی بھی شرم نہیں آتی.. کوٸ پوچھے کیا حال ہے تو آگے سے آہ نکلتی اور ساتھ یہ فقرا بس شکر ہے اللہ کا .. نہیں یہ کیسا شکر ہے جس کا ساتھ نہ لہجہ دے رہا ہے اور نہ ہی دل .. بس جی ہو ہی رہا ہے گزارا .. زندگی کاٹ رہے ہیں اور کیا .. اپنی روز کی زندگی میں ایسے ہزار فقرے بولتے ایک دفعہ اللہ یاد نہیں آتے نہ یہ یاد رہتا کہ کسی ایک بول پر بھی پکڑ ہوجاتی کبھی کبھی .. 

یہ ہیں زبانی نا شکریاں اور حد سے بڑھنے والی باتیں ..

ہمیشہ اپنے سے اونچا ہی دیکھتے آۓ کبھی ان لوگوں کے گھر پر نظر ڈالی ہی نہیں جو ہر حال میں ایک پیاری مطمٸن مسکراہٹ اور satisfied heart کے ساتھ دلی رضامندی سے کہتے ہیں احسان ہیں اللہ کے ہم پر ..

لیکن نہیں مجھے تو بس یہ یاد ہے کیا کیا نہیں ملا اور کیا کیا ہونا چاہیے تھا .. یا یہ پتا ہے کہ اللہ نے یہ دعا نہیں قبول کی اور یہ والی بھی نہیں میں نے اتنی دفعہ مانگی تھی کیا میں مصلحتیں جانتی ہوں ؟ کیا اب میں اللہ کو جج کروں گی اس کے act کو جج کروں گی؟ دعا مانگنا ضروری ہے اس کا حکم ہے اسے دعا مانگنا پسند ہے اور ماگنی بھی چاہیے قبول بھی وہی کرے گا .. کیا کبھی قبول ہوٸ دعاٶں پر دو شکرانے کے نفل پڑھے ہوں ؟وہ یاد ہی کب رہتی ہیں ..

  کیا یہ فقرے ہمیں زیب دیتے ہیں ؟ مایوسی حسرتوں اور شکوے بھرے فقرے..

میری نام نہاد عقل اس قابل ہے ؟کیا کبھی اس کی دی گٸ نعمتوں کا شمار کیا ؟ 

یہ سانس جو ہم چوبیس گھنٹے لے رہے ہیں Oxygen مفت میں اندر لے جارہے ہیں اگر اسی کا حساب لگانے لگو تو اس کا بھی شکر نہ کر سکو باقی نعمتیں تو الگ ہیں ..لیکن نہیں مجھے اس بات سے کیا غرض کیا ملا ہے مجھے تو بس ان چیزوں کو حسرتوں سے دیکھنا ہیں جو لا حاصل ہیں .. حاصل ہوٸ چیز بھی چاہے بے قدری کے جرم میں لا حاصل بن جاۓ ..

ایک طرف یہ حالات ہیں جو میں بناۓ کھڑی ہوں اور دوسری طرف نبیﷺ کی زںدگی مبارک اور صحابہ کا طرزِ عمل ..

اف مزید کہنے کو کیا رہ جاتا ہے اگر ابھی بھی سمجھ نہ آۓ تو .. 

یا اللہ ایک طرزِ عمل اپنانا چاہتی ہوں تیری رحمتیں تیری عطاٸیں ان پر غور کرنا شروع کرنا چاہتی ہوں .. اپنے ارد گرد تیری دی ہوٸ ہر نعمت کو دیکھ کر ایک پیاری مسکراہٹ اور پیارے دل کے ساتھ یہ کہوں گی *الحَمْدُ ِلله رب العلمین*

بس قیامت کے روز ناشکروں میں سے نہ اٹھانا مجھے آمین


نصیحت میرے لیے 

یاد دہانی سب کے لیے✨

دعا کا قبول نہ ہونا بھی خیر سے خالی نہیں

 💐🪷🤲🪷💐۔

*دعا کا قبول نہ ہونا بھی خیر ہے*

💐🪷🤲🪷💐


👂🩹ایک بچے کے کان میں زخم ہے، وقت سے پہلے ماں کو معلوم ہو گیا کہ اگر سرجری نہیں کروائی گئی تو وہ سماعت سے محروم ہو سکتا ہے۔ دماغ پر اثر پڑ سکتا ہے۔ 

🩸💉 *بچہ چھوٹا ہے، تکلیف نہیں سہہ سکتا لیکن ماں اس کی ساری تکلیف کو بلائے طاق رکھ کر اس کی سرجری کرواتی ہے۔ بچہ تکلیف سے رات رات بھر روتا ہے، تڑپتا ہے پیر پٹختا ہے، ماں کو اس کی تکلیف سے بے چینی ہے لیکن اس کے دل کو یہ اطمینان ہے کہ اب بچہ قوت سماعت سے محروم نہیں ہو گا۔ اس کے دماغ پر اثر نہیں پڑے گا۔* 

👨🏻‍🎓وہ ایک بہت بڑی معذروی اور بیماری سے محفوظ رہا۔سرجری کامیاب رہی تھی۔ وہ صحت مند زندگی گزارے گا۔


    🪷🤲🪷

🩹💉 *وقت اور حالات بھی ہماری سرجری ہی کرتے ہیں۔ ہماری زندگیوں کی رسولیاں نکالتے ہیں، لیکن ہم روتے ہیں، تڑپتے ہیں،اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہاتھ پیر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن یہ ہونے دیں۔ ہم بچوں کی طرح ناسمجھ ہی ہیں نا؟رونے میں مضائقہ نہیں، لیکن ہاتھ پیر چھوڑ دینا سرجری کو اتنا کامیاب نہیں ہونے دے گا جتنا اسے ہونا چاہیے۔* 

🩺ہم بیمار ہوتے ہیں یا ہونے والے ہوتے ہیں تو ہمارا علاج شروع کر دیا جاتا ہے۔ کبھی وقت سے پہلے، کبھی عین وقت پر۔


🌊 *تو مشکل، مصیبت یا تکلیف جب آئے وہ کسی نہ کسی شفاء، آسانی ورنہ کسی بڑے طوفان کی روک تھام کے لیے آتی ہے۔*

🌸🤲🌸

🎎 *ایک لڑکی کی شادی اسی پرنس چارمنگ سے ہو گئی جس سے وہ چاہتی تھی۔کچھ ہی عرصے بعد طلاق ہو گئی اور اسے اندازہ ہوا کہ پرنس چارمنگ میں ایک چیز کی بڑی شدت سے کمی تھی اور وہ تھی بیوی کی عزت کرنے کی۔ وہ اعلیٰ ظرفی اور اخلاق سے عاری تھا۔ بیوی کو ذلیل کرتا تھا۔*


🥲لڑکی کا کہنا ہے کہ اگر اس کی اس لڑکے سے شادی نہ ہوتی تو وہ روگ لے لیتی۔وہ دعاؤں میں بھی یہی کہتی تھی کہ وہ مر جائے گی۔۔۔۔

 اگر ۔۔۔۔۔ وہ نہ ملا۔۔۔

وہ نہ ملا۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔

 بس وہ۔۔۔۔۔!

🌺🤲🌺

🧐ہم دیوار کے اس طرف دیکھتے ہیں، دوسری طرف دیکھ ہی نہیں سکتے۔دیوار کے ایک طرف دیکھ کر اسے ہی کل کائنات سمجھنے والوں کے سامنے جب دیوار کا دوسرا حصہ آتا ہے تو انہیں پوری بات سمجھ میں آتی ہے۔

☔ *آپ کی جو دعائیں قبول نہیں ہوئیں، انہیں آدھی کہانی سمجھ لیں، پوری کہانی آپ کے سامنے آئی تو آپ دعا سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔* 


💐جو دعائیں قبول نہیں ہوتیں وہ بہتر اجر رکھتی ہیں اس لیے آپ کو کہانی کا دوسرا رخ نہیں دکھایا جاتا۔یہ دعائیں زندگی میں وہ آسانیاں لاتی ہیں جن کے لیے ہم سرے سے دعا ہی نہیں کرتے۔ 


🌼🤲🌼

🤲 *جو دعائیں قبول نہیں ہو رہیں (بقول آپ کے)، وہ زندگی میں بہت سی آسانیاں لا رہی ہیں، وہ بہت سے مصائب ٹال رہی ہیں، وہ بہت سی مشکلوں کو دور کر رہی ہیں۔ہم عقل والے نہیں بن سکتے کیونکہ عقل کُل کسی کسی کو نصیب ہے۔ پھر ہمیں کیا بن جانا چاہیے؟* 


*✓ مان لینے والا……*


🌱_اطمینان رکھیں …صبر کریں …

🤲دعا کریں اور اللہ پر یقین رکھیں۔_

✍🏻۔

🪶 *سمیراحمید*🪷


🌸💐🤲💐🌸

مجرمانہ خاموشی

 مجرمانہ خاموشی...


کیا آپ کے پاس یہ تحریر پڑھنے کیلے پانچ منٹ ہے ؟؟

یقین کریں یہ مکمل تحریر آپ کو جنجھوڑ کے رکھ دے گی۔۔۔


وہ شخص مفتی صاحب کے کمرے میں داخل ہوا سلام کیا اور مفتی صاحب کے سامنے بیٹھہ گیا، 

مفتی صاحب میرے دو بچے ہیں بیوی ھے اور میں ہوں،

 یہ مختصر سا کنبہ ہے میرا، کرائے کے گھر میں رہتا ہوں، حالات بہت خراب ہیں بہت تنگدستی ھے منہگائی نے کمر توڑ دی ھے ..

آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں کسی طور بھی گھر کا خرچہ پورا نہیں ھوتا رہنمائی فرمائیے کیا کروں؟۔


مفتی صاحب نے روایتی لائن دوھرائی، عیاشیاں ختم کرو اخراجات پر کنٹرول کرو تقویٰ اختیار کرو اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لئیے جدوجہد کرو معاملات بہتر ھوجائیں گے انشاءاللہ۔

مفتی صاحب یہاں جائز خواہشات دم توڑ چکی ہیں آپ عیاشی کی بات کر رہے ہیں، اخراجات صرف اتنے ہیں کے روح سے سانس کا رشتہ قائم رہے،

 میرے گھر میں بھوک ناچ رہی ھے آپ کہہ رہے ہیں کہ میں تقویٰ اختیار کروں، 

تقویٰ اختیار کرنے کے لئیے پلے کچھہ ھونا ضروری ھوتا ھے . میرے پاس ہیں تو دنیا بھر کی نعمتیں مگر میں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے انتہائی سادہ زندگی بسر کروں، 

میرے پاس تو تقویٰ اختیار کرنے کے لئیے بھی کچھہ نہیں ہے۔ 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہہ کا قول ہے

  مفلسی کفر تک لے جاتی ھے۔ بھوکے آدمی کا کوئی مذہب ہی نہیں ھوتا اور آپ مجھے تقوئے کا درس دے رہے ہیں.

صبح منہ اندھیرئے گھر سے نکلتا ہوں اور رات اندھیرئے میں ہی گھر لوٹتا ہوں، 

سارے دن کی مشقت اس قابل نہیں چھوڑتی کہ کوئی اور کام کر سکوں اور نہ ہی وقت بچتا ھے کسی دوسرے کام کے لئیے، 

معاشرے میں بیروزگاری اتنی پھیل چکی ھے کہ مالک سے تنخواہ بڑھانے کے لئیے کہتا ہوں تو وہ کہتا ھے زیادہ نخرئے نہ دکھاو تم سے بھی کم تنخواہ میں لوگ کام کرنے کے لئیے تیار ہیں۔


 

(حدیث کا مفہوم ہے کہ) کوئی تمہیں دعوت دے تو تم ضرور جاو، مگر میں تو اس سعادت سے بھی محروم رہتا ہوں کہ کہیں شادی بیاہ میں جاوں تو عزت کا بھرم رکھنے کے لئیے کچھہ نہ کچھہ تو دینا پڑتا ہے جبکہ میرے پاس دینے کے لئیے صرف دعائیں ہوتی ہیں جو کے آج کے دور میں عزت بچانے کے لئیے ناکافی ہیں۔ 


مشقت اور مالی پریشانیوں کے باعث ہر وقت ڈپریشن میں رہتا ہوں جس کی وجہ سے شوگر کا مرض ھوگیا ھے جسکا علاج کم از کم دو ہزار روپے مہینہ نگل جاتا ھے۔


عید کے عید اپنے بیوی کے اور بچوں کے کپڑے بناتا ہوں کے ہر ماہ یا ہر دو تین ماہ بعد کپڑے خریدنا میری جیسی آمدنی والے کے لئیے عیاشی کے مترادف ھے، 

 

مفتی صاحب اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کے میرے ان اخراجات میں اصراف کہاں ھے؟ 

عیاشی کہاں ھے؟ کہاں کا تقویٰ کیسی قناعت؟ 

ان سارے اخراجات میں ناجائز کیا ھے؟ 

مفتی صاحب، میری تنخواہ دس ہزار ھے اور یہ جو میں نے آپکو انتہائی جائز اخراجات گنوائے ہیں سالانہ اور ماہوار ملا کر اوسطاَ بیس ہزار روپے مہینہ بنتا ھے جبکہ میری آمدنی دس ہزار روپے مہینہ ھے یعنی ہر ماہ دس ہزار روپے کا فرق، بتائیے یہ فرق کیسے مٹایا جائے؟،

 آپ نائب رسول ہیں امت کی ذمہ داری ہے آپ پر، میں آپ سے سوال کرتا ہوں کے ان حالات میں کیا حکم ھے اسلام کا میرے لئیے؟ اور ان حالات میں بہ حیثیت مذہبی رہنما کیا زمہ داری بنتی ھے آپکی؟۔

میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اسلامی حدود کب اور کس معاشرے پر نافظ ھوتی ہیں؟


آپ جیسے سارے مذہبی اکابرین پاکستان کے مختلف شہروں میں ہر سال لاکھوں لوگوں کا اجتماع کرتے ہیں جس میں آپ بعد از مرگ کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو بہت تفصیل سے بتاتے ہیں قبر کے عذاب کے بارے میں بتانے ہیں جہنم سے ڈراتے ہیں،

 مگر یہ جو بائیس کروڑ میں سے سولہ کروڑ لوگ زندگی میں جہنم جھیل رہے ہیں انہیں آپ انکے جائز حقوق کے بارے میں آگہی کیوں نہیں دیتے؟ اسلام نے شہری کے لئیے کیا حقوق وضع کیئے ہیں یہ آپ لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے؟ لوگ آپ کے منہ سے نکلی بات کو اہمیت دیتے ہیں اسے اپنے ایمان کا حصہ بناتے ہیں، 

میرا ایمان ہے کہ ظالم ہمیشہ بزدل ہوتا ہے سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کی مثال سب کے سامنے ہے کے عوام کی بغاوت کے خوف سے کیسے ان ریاستوں کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو اربوں ڈالر کے پیکج دئیے ہیں، مجھے پورا یقین ہے کے علماء برادری کا دیا ہوا فتویٰ اور الٹی میٹم ہی کافی ہونگے ان بزدل حکمرانوں کے لئیے۔

کیا آپکی زمہ داری نہیں بنتی کے آپ حکومت وقت سے مطالبہ کریں کے اسلام کے مطابق کم از کم تنخواہ دس گرام سونے کے برابر ھونی چاہیے،

 چلیں دس گرام نہیں تو پانچ گرام سونے کے مساوی تنخواہ کا مطالبہ کردیں۔ کیا آپکی زمہ داری نہیں بنتی کہ آپ فتویٰ دیں کے پاکستان جیسے معاشرے میں حدود نافظ العمل نہیں ہیں۔

میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں مفتی صاحب یہ پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں میں سے سولہ کروڑ لوگوں کا مسلہ ہے اس پر اپکی یہ مجرمانہ خاموشی آپ کی ذات پر اور آپ کے منصب پر سوالیہ نشان ھے، 


یہ سب کہنے کے بعد وہ شخص خاموش ھوگیا اور مفتی صاحب کی طرف دیکھنے لگا، 

مفتی صاحب بولے تمہاری ہر بات ٹھیک ھے لیکن اب تم مجھہ سے کیا چاہتے ھو؟ 

میں آپ سے فتویٰ چاہتا ہوں کہ ایسے معاشرے میں حدود نافظ نہیں ھوتیں۔ یا تو گورنمنٹ پہلے عام آدمی کو اسلام کے مطابق تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ کرے پھر اگر وہ روزی کمانے کا کوئی ناجائز زریعہ استعمال کرتا ھے تو اسے سزا کا مرتکب ٹھرائے۔ 

اگر گورنمنٹ ایسا نہیں کرتی تو عام آدمی اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے آزاد ہے کہ وہ جو بھی زریعہ چاہے استعمال کرے،

 مفتی صاحب بولے میں ایسا نہیں کرسکتا اسطرح تو معاشرے میں انتشار پھیل جائے گا سارا نظام دھرم بھرم ھوجائے گا انارکی پھیل جائے گی۔

وہ شخص بولا مفتی صاحب سولہ کروڑ لوگوں کی زندگی تو اس وقت بھی انتشار کا شکار ہے، 

انکی زندگی میں انارکی تو اس وقت بھی پھیلی ہوئی ہے، آپ کے فتوے سے تو صرف دس پرسنٹ لوگوں کی زندگی میں انتشار پھیلے گا اور یہ وہ ہی دس پرسنٹ لوگ ہیں جو نوے پرسنٹ کا حق مار رہے ہیں تو اگر آپ کے فتوے سے دس پرسنٹ کی زندگی میں انارکی پھیلتی ہے تو اسکا فائدہ تو نوے پرسنٹ لوگوں کو ملے گا یہ تو گھاٹے کا سودا نہیں ہے، 

اور ویسے بھی آپکا کام نفع نقصان دیکھنا نہیں، آپکا کام حق اور صحیح کی حمایت کرنا ہے کیا آپکو نہیں لگتا کے آپ کے اور آپ جیسے تمام علماء اور مفتی حضرات کی خاموشی کا فائدہ لٹیروں کو مل رہا ہے؟۔

عام آدمی تو مسلسل تنزلی کا شکار ہورہا ہے وہ نہ دین کا رہا نہ دنیا کا، کبھی غور کیا آپ نے کہ ایک عام پاکستانی کی زندگی کا مقصد ہی صرف دو وقت کی روٹی کا حصول بن چکا ہے،

 زندگی جیسی قیمتی چیز کو لوگ موت کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، سوچیں اس ماں کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہوگی جو اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو موت کی نیند سلانے پر مجبور ہورہی ہے، 

عزت دار گھر کی لڑکیاں عصمت فروشی پر مجبور ہوگئی ہیں، جن ننھے ننھے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہییں ان ہاتھوں میں گاڑی کی ونڈ اسکرین صاف کرنے والا وائپر ہے، آپکا سینہ اس وقت غم سے کیوں نہیں پھٹتا جب سخت سرد رات میں دس سال کا معصوم بچہ ابلے ہوئے انڈے بیچ رہا ہوتا ہے؟ 

یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں موبائل فون کی سم فری اور روٹی سات روپے کی ہے، کیا یہ انتشار نہیں ہے؟

 کیا یہ انارکی نہیں ہے؟ کیا یہ سب ننگے حقائق آپکا دل دھلانے کے لئیے کافی نہیں ہیں؟۔

 کیا ب بروزحشر آپ اللہ تعالی سے بھی یہ ہی کہیں گے کہ میں نے حق بات اسلئیے نہیں کہی کہ دس پرسنٹ لٹیروں کا نظام زندگی دھرم بھرم ہوجاتا انکی عیاشیاں ختم ہوجاتیں، دے سکیں گے آپ اللہ کے حضور یہ دلیل؟

لوگوں کے جائز حقوق کے لئیے فتویٰ کیوں نہیں دیا جاسکتا ؟۔

مفتی صاحب بت بنے اسکی باتیں سنتے رہے۔۔۔

 اس اثناء میں وہ شخص جانے کے لئیے کھڑا ہوگیا اور بولا میرے ہر سوال کا جواب آپکی مجرمانہ خاموشی میں پنہاں ہے۔

 بس اب آپ سے اور آپکی علماء برادری سے آخری بات یہ ہی کہوں گا کہ اب بھی اگر آپ لوگوں نے سولہ کروڑ عوام کے اس مسلے پر مسجد کے منبر سے آواز حق بلند نہ کی تو ثابت ہوجائے گا کے آپ اور آپکی پوری علماء برادری بھی سولہ کروڑ عوام کی تباہی میں برابر کے شریک ہیں۔۔

 آپ بھی ان ہی دس پرسنٹ لٹیروں میں شامل ہیں، آپکو اور آپکی علماء برادری کو بھی سولہ کروڑ عوام کے اس اہم اور بنیادی مسلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے پر برابر کا حصہ مل رہا ہے۔

یاد رکھئیے گا میری بات ۔۔۔۔۔جس دن بھی عوام کے اندر پکا ہوا یہ لاوا پھٹا اس روز ان دس پرسنٹ مراعات یافتہ لوگوں کے ساتھہ ساتھہ عوام آپکی بھی پگڑیاں نہیں، سر اچھالے گی۔ ۔۔۔

اس سے پہلے کہ مفتی صاحب مزید کچھہ کہتے وہ شخص کمرے سے جاچکا تھا۔۔۔

کامیابی کے دس اصول

 کامیابی کےدس اصول۔۔۔

کامیابی ہمیشہ انہی کو ملتی ہے جو اپنے ارادوں اور عزم پر یقین کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں۔۔۔ جومسلسل محنت اور جدوجہدکرتے ہیں۔۔۔کامیابی ایک دن اور اچانک حاصل ہونے والی چیز نہیں ہے۔۔۔ اس کے پیچھے سالوں کی محنت، جدوجہد، پختہ یقین،اورطویل سفر شامل ہوتا ہے ۔۔۔کامیاب ہونا ہے تو اپنے لئے اصول وضع کرنے ہوں گے۔۔۔ اپنے آپ کو سمجھ کر پلاننگ کرنی ہوگی۔۔۔

1۔ ہمیشہ مثبت اور بڑی سوچ رکھیں

آپ زندگی میں جو کچھ بھی حاصل کرتے ہیں اس کا براہ راست تعلق آپ کی سوچ سے ہوتا ہے، اپنے خیالات اور سوچ کو بڑا کر یں اچھا سوچیں، منفی خیالات اور ہار جانے کے ڈر کو ذہن سے نکال کر پھینک دیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اچھا سو چو تو اچھا ہوگا بُرا سوچو گے تو برا ہی ہوگا۔۔۔

2۔ اعتدال کے ساتھ چلیں

زندگی میں اعتدال کا ہونا بہت لازم اور ضروری ہے، ایک غلط یا جذباتی قدم آپ کی محنت پر پانی پھیر سکتا ہے، ہر کام سوچ سمجھ کر کریں اور اصولوں کے مطابق کریں، زندگی میں پختہ ارادے اور اعتدال ہر مقصد میں آپ کو کامیاب کر سکتا ہے۔۔۔

3۔اپنی ناکامی کو تسلیم کریں

زندگی میں کوئی بھی انسان پہلی دفعہ ہی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو جاتا، ہر کامیاب انسان کے پیچھے کئی ناکامیاں، غلطیاں اور کہانیاں ہوتی ہیں، اپنی ناکامی کو تسلیم کریں اور اس پر پچھتا کر وقت ضائع کرنےسے بہتر ہے کہ اس بات کا اندازہ لگائیں کہ غلطی کہاں ہوئی اور دوسری بار کون ساعمل نہیں دہرانا۔۔۔

4۔آج کا کام آج ہی کریں

وقت کی قدر کریں ، آج کا کام کل پر ڈالنے کے بجائے اسے آج ہی انجام دیں اور کاہلی سے بچیں، اپ ٹو ڈیٹ رہیں اور کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، کسی کام کو چھوٹا نہ سمجھیں، ہر کام کو اہم سمجھ کر توجہ کے ساتھ انجام دیں۔۔۔

5۔اپنے خیالات کو منفرد رکھیں

کسی کامیاب انسان کو دیکھ کر اس کی طرح ہی خود کو نہ ڈھال لیں، ہر کامیاب شخصیت کے معاملات حالات اور کہانی الگ ہوتی ہےاپنے مقاصد اور منزل مقصود تک پہنچنے کا جائزہ لیں ا ور ایک جامع منصوبہ بندی بنا کر آہستہ آہستہ آگے بڑ ھیں اللہ نے ہر انسان میں مختلف صلاحیتیں اور قابلیت رکھی ہے اور ہر انسان کریٹیو ہوتا ہے بس ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے اپنی کریٹیویٹی کو عملی جامہ پہنائے۔۔۔

6۔مثبت رویہ اپنائیں

مثبت رویہ زندگی میں آپ کو وہ سب کچھ حاصل کرنے میں مدد کرے گا جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، مثبت انداز اور تحمل مزاجی سے کام لیں، ہر چھوٹے بڑے فرد سے ایک جیسا رویہ رکھیںہر کسی کو خود پر ترجیح دیں اپنے دوست احباب اور قریبی لوگوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنائیں اور ان کو صحیح راستہ اور صحیح مشورہ دیں۔۔۔

7۔دوسروں کو نیچا نہ دکھائیں۔۔۔

ہمیشہ دوسروں کی عزت و قدر کریں کسی سے اختلاف بھی ہوجائے تو اس کی عزت نفس مجروح نہ کریں اختلاف ہوجانا ایک امر ہے لیکن اختلاف میں حد سے تجاوز کرنا انسان کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے مخالف اگر آپ کے خلاف پروپگنڈہ کرے سازش کرے تو آپ اس کے مدمقابل نہ آئیں بلکہ اپنے مثبت عمل سے ثابت کریں کہ آپ اس جیسے نہیں۔۔۔

8۔رازادری کو اپنا اصول بنائیں

کسی بھی پلاننگ کا راز کسی کو مت بتائیں آنے والے وقت کے لئے کی جانے والی سوچ اور ارادے سے کسی کو بھی باخبر نہ کریں کسی پر اتنا اعتماد اور بھروسہ مت کریں کہ اسے اپنے ہر راز سے آگاہ کر دیں کیوں کہ اکثر قریبی لوگوں سے اختلاف پر وہی لوگ نقصان کا باعث بنتے ہیں جو آپ کے رازدار ہوتے ہیں۔۔۔

9۔خود پر یقین رکھیں

خود پر یقین رکھیں، ناکامی کے خوف سے جان چھڑائیں اور یہ ذہن میں ہمیشہ رکھیں کہ آپ سب کر سکتے ہیں، آپ سب کچھ کر سکتے ہیں آپ ہر میدان کے فاتح بن سکتے ہیں آپ جو چاہیں وہ ہوسکتا ہے خود اعتمادی اور خود پر یقین ہونا کامیابی حاصل کرنے کے لیے لازمی ہے۔۔۔

10۔ سیکھتے رہیں اور آ گے بڑھتے جائیں

خود کو آزمائیں اور نئے تجربات کریں، یاد رکھیں زندگی کا سب سے بڑا رسک زندگی میں کوئی رسک نہ لینا ہے، تبدیلی سے گھبرائیں نہیں بلکہ اسے خوش آمدید کہیں، خود کو ہمیشہ متحرک اور مثبت رکھیں اور آگے بڑھتے جائیں، خود کو ہر وقت سیکھنے کے مراحل میں رکھیں کبھی خود کو مکمل نہ سمجھیں کبھی اپنے علم کو حرفِ آخر سمجھ کر بریک نہ لگائیں بلکہ مزید سیکھتے جائیںجو سیکھا ہوا ہے اس پر زیادہ سے زیادہ ورک کریں تاکہ مزید بہتری آئے اور زیادہ فوائد حاصل ہوں۔۔۔

یاد رکھیں۔۔۔

زندگی ایک بار ملی ہے ۔۔۔ اور ہر گزرتا دن آپ کی عمر سے ایک دن کم کر رہا ہے۔۔۔ جو گزر گیا اس سے سابق حاصل کریںجو آرہا ہے اس کا سامنا کریں۔۔۔ ماضی کو یاد کر کے مایوس ہونے کے بجائے اپنے کل کے لئے پلاننگ کریں۔۔۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے والے کبھی مستقبل میں ناکام نہیں ہوتے۔۔۔

#motivation

#counselling.

Noor-ul-Quran Foundation..plateform

سی ایس ایس میں بے ایمانی

 سی ایس ایس میں بے ایمانی

ہمارے ہاں جیسے انتخابات میں کوئی اپنی شکست نہیں مانتا اور ہار کا الزام دھاندلی پر دھر دیتا ہے، اسی طرح سی ایس ایس میں ناکام ہونے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ جی صرف بیورو کریٹس کے بچے سلیکٹ ہوتے ہیں. ان کے گھر والے، دوست، پڑوسی سب یہ مان لیتے ہیں اور چونکہ کامیاب ہونے والے 200 ہوتے ہیں تو ناکام ہونے والے 20000، ان کا بیانیہ اتنا پھیل جاتا ہے کہ سب کو یقین آجاتا ہے.

اس عذر لنگ میں اس بات پر غور ہی نہیں کیا جاتا کہ ان سے اصل ہاتھ ہوتا کیا ہے.

ہم میں سے بیشتر لوگوں کو انگریزی بھی پنجابی، اردو، سندھی وغیرہ میں پڑھائی گئی ہوتی ہے. انگریزی کی اچھی فہم، بول چال اور تحریر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. اس کمی کو پورا کرنے کیلئے بہت زیادہ زور لگانے کی ضرورت ہوتی ہے. اب مقابلہ ان نوجوانوں سے ہوتا ہے جن میں انگریزی کی قابلیت پہلے سے ہوتی ہے. ان میں کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے گھروں کے بچے ہی زیادہ ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ بیورو کریٹ نہ صرف اچھے پڑھے لکھے ہوتے ہیں بلکہ انہیں ان سب چیزوں کا بھی اچھی طرح پتہ ہوتا ہے جو آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہیں.

پیسے والے، زمینوں والے بھی انتظام کرلیتے ہیں. وہ اپنے بچوں کو ان سکولوں میں پڑھاتے ہیں جہاں بس انگریزی بولی جاتی ہے. دیسی زبانیں ممنوع ہوتی ہیں. 

اب عملاً یہ ہوتا ہے کہ 100 میٹر کی ریس میں کچھ مقابلہ کرنے والے سٹارٹنگ پوائنٹ سے 10 میٹر، 20 یا 30 میٹر آگے کھڑے ہوتے ہیں. یہ وہی انگلش میڈیم تعلیم والے، پڑھے لکھے گھروں کے اور مناسب رہنمائی رکھنے والے ہوتے ہیں. اسی فرق سے مقابلہ فئیر کیسے رہ سکتا ہے.

بھارت میں کوئی لائق نوجوان صرف انگریزی کی وجہ سے مار نہیں کھاتا. وہاں انڈین ایڈمنسٹریشن سروس IAS کا امتحان اردو، پنجابی سمیت ان 22 تسلیم شدہ زبانوں میں دیا جاسکتا ہے Assamese, Bengali, Gujarati, Hindi, Kannada, Kashmiri, Konkani, Malayalam, Manipuri, Marathi, Nepali, Oriya, Punjabi, Sanskrit, Sindhi, Tamil, Telugu, Urdu, Bodo, Santhali, Maithili and Dogri (آسام کے گورنر نے سرائیکی بھی ان زبانوں میں شامل کرنے کیلئے مرکز کو خط لکھ دیا ہے) 

 فائنل انٹرویو بھی انہی زبانوں میں دیا جاسکتا ہے.

اردو میں امتحان دینے والے بھی وہاں پوزیشنیں لیتے رہے ہیں.

ہمارے ہاں اس اصل مسئلے کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں.

ہمارے ہاں لائق ترین نوجوان بھی صرف رواں انگریزی لکھ یا بول نہ سکنے کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں. اسی وجہ سے صرف انگریزی اور انٹر ویو کی تیاری کرانے والی اکیڈمیز کم از کم ایک لاکھ روپے فیس وصول کررہی ہیں.بڑے شہر آکر رہائش اور دوسرے اخراجات الگ. 

اصل ضرورت ان امتحانات کیلئے انگریزی کی لازمی حیثیت ختم کرنا ہے. بھارت کے اس فیصلے سے وہاں کی IAS کا معیار قطعی کم نہیں ہوا.

جہاں تک بیورو کریٹس کے بچوں کو کسی فائدے کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ ہزار میں سے کسی ایک امیدوار کو اتفاق سے کچھ فیور مل جائے. مثلاً میری ایک عزیزہ ایک مشہور پروفیسر کی بیٹی ہیں. ایک انٹرویو میں ماہر مضمون نے نام پڑھ کر پوچھا آپ ان پروفیسر صاحب کی کیا لگتی ہیں؟ ان کے بتانے پر شاید انہوں نے ہمدردانہ نمبر ہی دئیے ہوں گے. ایسے کسی بیوروکریٹ کا بیٹا انٹرویو میں جائے اور اتفاق سے ان کا کوئی سابق کولیگ بھی پینل میں ہوتو اس کا بھی معمولی فائدہ ہوسکتا ہے لیکن بعض صورتوں میں بھاری نقصان بھی ہوتا ہے. بیورو کریٹس کے ضروری نہیں کہ آپس میں اچھے تعلقات ہی رہے ہوں. 

کوئی پینتیس سال پہلے کی بات ہے. سی ایس ایس کا نتیجہ آیا تو کامیاب ہونے والوں میں بیس پچیس ایسے تھے جن کے نام سے پہلے ڈاکٹر بھی تھا. اس پر اخبارات میں شور مچ گیا کہ ڈاکٹروں کی اتنی ضرورت ہے، اتنا ان پر خرچ آتا ہے اور وہ ڈاکٹری چھوڑ رہے ہیں. اب کسی قانون کے ذریعے تو ڈاکٹروں کے سی ایس ایس کے امتحان میں شرکت پر پابندی لگائی نہیں جاسکتی تھی. بس یہ ہوا کہ نتائج میں نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنا بند کردیا گیا.

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ سیکریٹریٹ یا کسی اور دفتر جاتے ہیں تو گیٹ کیپر، چپڑاسی سے لیکر کلرک اور سیکشن افسر ان سے جو برتاؤ کرتے ہیں، اسی سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں. ڈاکٹر، انجنئیر اچھے طالب علم رہے ہوتے ہیں. سخت محنت اور مقابلے کے بعد بنے ہوتے ہیں. موٹی موٹی کتابیں رٹنے کا تجربہ ہوتا ہے. سی ایس ایس کا امتحان ان کیلئے کچھ مشکل نہیں ہوتا.

اسی سال کامیاب ہونے والوں میں ضلع شکار پور سندھ کی ڈاکٹر ثنا رام چند بھی کہتی ہیں کہ وہ سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال اور مریضوں کی حالت دیکھ کر دل شکستہ ہوگئیں اور اس نتیجے پر پہنچیں کہ بیوروکریسی ایسا پلیٹ فارم دیتی ہے جہاں آپ کچھ نہ کچھ تبدیلی لاسکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں میں نے اپنے موبائل سے تمام سوشل میڈیا ایپس ڈیلیٹ کردیں، سماجی رابطے منقطع کردیے اور آٹھ مہینہ دل و جان سے سی ایس ایس کی تیاری کی، بالاخر کامیاب ہوگئی. کووڈ وارڈ کی ڈیوٹی کے ساتھ انٹرویو کی تیاری کی۔ 

لیلیٰ ملک شیر، شیریں ملک شیر، سسی ملک شیر، ماروی ملک شیر ،ضحیٰ ملک شیر پانچ بہنیں ہیں جو باری باری سی ایس ایس کیلئے منتخب ہوئیں. بڑی بہن کو زیادہ محنت کرنا پڑی ہوگی، اس کے بعد تو سب کو گھر سے ہی کوچنگ ملتی رہی. وہ ہری پور ہزارہ کے ملک محمد رفیق اعوان کی بیٹیاں ہیں جو واپڈا سے ایس ڈی او ریٹائر ہوئے ہیں.ظاہر ہے سب انجینئر سے ملازمت شروع کی ہوگی. انہیں بیورو کریٹ تو نہیں کہا جاسکتا. ان کی صرف بیٹیاں ہیں. ان کی معیاری تعلیم کیلئے انہوں نے راولپنڈی میں رہائش اختیار کی. کانونٹ میں پڑھایا. بیٹیوں کی غیر نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرکے ان میں اعتماد بڑھایا. اب یہ بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ قابل فخر ہیں.

چترال کے ایک دور افتادہ علاقے سے تعلق رکھنے والی شازیہ اسحاق پولیس سروس کیلئے منتخب ہوئی ہیں. وہ ایک ریٹائرڈ صوبیدار کی بیٹی ہیں. اس وقت ایک مڈل سکول کی ہیڈ مسٹریس ہیں.  

 ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی سونیا شمروز خیبر پختونخوا کی پہلی خاتون ڈی پی او بنی ہیں۔ انہیں کسی اکیڈمی بھی نہیں جانا پڑا. ان کے شوہر سی ایس ایس آفسیر ہیں. انھوں نے ہی شادی کے بعد سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کرائی. 

زوہیب قریشی لاڑکانہ کے موٹر مکینک عبداللطیف قریشی کے بیٹے ہیں. عبداللطیف قریشی کو شوق تھا کہ بیٹا افسر بنے. اپنی استطاعت سے بڑھ کر مہنگے ادارے میں تعلیم دلائی. ان کا انتقال ہوگیا تو سارا خاندان زوہیب کی پشت پر آگیا. مشکلات کے باوجود زوہیب مرحوم والد اور خاندان کی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے.

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی رابیل کینیڈی پاکستان فارن سروس کی پہلی خاتون افسر بنی ہیں.وہ ایک سرکاری محکمے کے ڈرائیور جان کینیڈی کی بیٹی ہیں. انہوں نے سکول میں پڑھاتے ہوئے شام کے اوقات میں تعلیم مکمل کی اور پھر سی ایس ایس کی تیاری بھی. انہیں ایک مخلص استاد کی رہنمائی میسر آگئی تھی.

پروفیسر ڈاکٹر صائمہ ارم کہتی ہیں، میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ سی ایس ایس میں حتمی کامیابی کے لیے دو چار مہینے کا رٹا یا کسی اکیڈمی میں ڈھیروں پیسہ دے کر ٹیوشن پڑھ لینا کافی نہیں ہوتا. اس کے لیے ایک خاص طرح کا مائنڈ سیٹ ضروری ہے. جن امیدواروں کی سکولنگ اچھی ہے، انگریزی زبان پر اچھی دسترس ہے، گھر میں علمی ماحول ہے. سیاسی شعور اور سوجھ بوجھ ہے، نصابی معلومات سے ہٹ کر بھی دنیا کے بارے جاننے کا شوق رکھتے ہیں، ایسے لوگ کچھ اضافی وقت اور توجہ دے کر، ذرا منظم طریقے سے محنت کر لیں تو بہت اچھے نتائج مل سکتے ہیں.

میں پھر یہ کہوں گا کہ ذہانت، علم اور وسیع معلومات رکھنے والا کوئی نوجوان مرد یا خاتون صرف انگریزی میں ایک خاص معیار نہ ہونے کی وجہ سے اس سروس میں آنے سے کیوں محروم رہے. مدرسوں کے فاضلین کیلئے کیوں دروازہ بند رکھا جائے. ایسے علم والے بھی سروس میں موجود ہوں تو یہ تو نہ ہو جیسا پچھلے دنوں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے اکنامسٹ کو سیکریٹری اوقاف و مذہبی امور بناکر کیا گیا.

اردو میں امتحان شروع کریں، آپ کو صرف انگریزی دان نہیں، بہت لائق افسر ملیں گے.

ویسے اب امیر طبقے میں سی ایس ایس میں آنے کا رجحان کم ہوگیا ہے.

اب وہ خود مشقت کرنے کی بجائے کسی سی ایس ایس خاتون سے شادی کرلینے، کسی جاگیردار کے داماد بن کر مشترکہ اثر رسوخ سے بیوی کا نام ایم این ایز، ایم پی ایز کی فہرست میں شامل کرالینے، ایل ایل بی کرکے کچھ عرصہ بار کی سیاست، کسی اہم چیمبر سے تعلق یا دامادی کے ذریعے تین چار سال جج بن کر چیف سیکریٹری سے زیادہ ریٹائرمنٹ کے فوائد لینے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں. جاگیردار اور بیوروکریٹ دونوں ایک دوسرے سے مرعوب ہوتے ہیں. باہمی رشتے داریاں سی ایس ایس سے بہت زیادہ منافع بخش ہوتی ہیں. بیوروکریٹس میں بیٹوں کو کوئی انڈسٹری لگواکر اپنے تعلقات سے پھلنے پھولنے کا بھی رجحان ہے. وہ بعض اوقات نقد رشوت لینے کی بجائے بچوں کو بڑے صنعتی، تجارتی اداروں، ملٹی نیشنلز، بنکوں کے ایگزیکٹوز بنوا لیتے ہیں. اور سب سے زیادہ تنخواہیں ایسے ہی اداروں میں ہیں.



** اسے زیادہ سے زیادہ شئیر کریں.

*CSSinUrdu* تحریک چلائیں

جمعہ، 20 مئی، 2022

پوری دنیا کی معیشت بحران کا شکار کیوں ہے؟

 پاکستانی روپیہ ہی نہیں پوری دنیا کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں گر رہی ہیں کیونکہ امریکہ نے شرح سود بڑھا دیا ہے۔ برطانیہ کینیڈا آسٹریلیا انڈیا سب ملکوں کی کرنسی گری ہے اور مسلسل گررہی ہیں.

اگلے چند دنوں میں پوری دنیا میں 2008/2009 والی معاشی صورتحال ہوگی. مہنگائی، روزگار کی کمی، خوراک کی قلت، بارشیں کم یا پھر سیلاب اور طوفان. شدید گرمی اور شدید سردی.

اس زمین کی ایسی تیسی ہم زمین زاد خود کررہے ہیں.


ورلڈ بینک نے اسی لئے بیالیس بلین ڈالر مختص کئے ہیں کہ انتہائی غریب ممالک اور دھکا اسٹارٹ ملکوں کی معاش کو ٹیک لگ سکے.

ایسے میں نا عمران خان سنبھال سکتا تھا نا شھباز شریف سنبھال سکتا ہے.

ہم نے اپنے آپ کو خود سنبھالنا ہے.

آج سے شروع کریں اور اگلے دو سال تک عیاشی ختم کریں اور صرف ضرورت کی چیزیں خریدیں.

مہنگا اور امپورڈ فون نہ خریدیں نہ ہم ایلون مسک ہیں اور نہ ہی جنت مرزا کہ ہمارا کام دھندہ ہی موبائل سے ہے. 

بچوں کے ولایتی ڈائپرز بند کریں اور مقامی بنے ہوئے ڈائپرز استعمال کریں.

اندرون شہر موٹر سائیکل استعمال کریں ہمارا پیٹرول ہمارا نہیں ہے بلکہ باہر سے آتا ہے.

ائیر کنڈیشن 26 سے اوپر نہ جانے دیں.

ایک سال ماریہ بی، ثناء سفینہ، شنائر اور گل احمد وغیرہ کے کپڑے نہ خریدنے سے ہمارے تن کو کوئی فرق نہیں پڑے گا. 

کھانے پینے اوڑنے پہننے اور رہنے میں ہر ولایتی شے کا استعمال ترک کردیں اور مقامی اشیاء استعمال کریں.

بچت کا قومی مزاج بنانا ہوگا.


وزرا اور ممبران اسمبلی کا مفت پیٹرول، بجلی، سفر رہائش اور علاج نہ عمران خان نے ختم کیا نہ یہ حکومت ختم کرے گی.

اربوں پتی صنعتکاروں اور رئیل اسٹیٹ ٹائیکونز کو ٹیکس سبسڈی نہ عمران خان نے ختم کیا نہ یہ حکومت ختم کرے گی.

جی او آر کالونیوں، باتھ آئی لینڈ اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں بیوروکریسی اور ججز کے اللے تللے نہ عمران خان نے ختم کئے نہ یہ حکومت کرے گی.

ڈیفنس کا non-combat بجٹ کم کرنے کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا.

اگر حکومت کیطرف سے شہروں کے بیچوں بیچ جیم خانہ، گالف کلبز اور اشرافیہ کے چونچلے بازی کے لئے قائم سینکڑوں کلبز کو نیلام کردیا جائے، وزراء اور ممبران اسمبلی کی مراعات 75 فیصد کم کردی جائیں، جائیداد کی وراثت اور تحائف والی منتقلی پر بھی ٹیکس لگایا جائے، درآمدات آدھی کردی جائیں.

تو ملک معاشی ایمرجنسی سے بچ سکتا ہے. 

اور

ہم سب انفرادی حیثیت میں وہ کام کرلیں جن سے اجتماعی طور پر ہمارے معاشی بحران کو حل کرنے میں کوئی مدد مل سکے تو یہ ملک کی اس سے بڑی خدمت ہوگی جو ہم چودہ اگست کو جھنڈے لگانے ، باجے بجانے اور تیئیس مارچ کی پریڈ دیکھنے کو سمجھتے ہیں.

ذاتی گناہ و کوتاہیاں معافی تلافی اور توبہ سے حل کردی جاتی ہیں.

اجتماعی خرابیوں کا علاج پھر بھوک، خوف، طوفان اور جنگوں سے ہی ہوتا ہے.

آیے سب مل کے عھد کریں اور حکومت پر زور دیں کے وہ میشاق جموریت کی طرز پر میشاق معیشت بھی بناے اور یہ اقدامات فوراً کرے

1 ایک بل پاس کرے جس میں صرف وہ سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لینے کی اھل ہو نگی جو اپنا معاشی منشور دیں گی

2 فوری طور پر لگژری اور غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کریں 

3 ملک میں پٹرول کی قلت ختم کرنے کے لیے پٹرول پمپ ایک دن کے لیے بند کیے جایں ماسوائے جی ٹی روڈ کے

4 تمام مارکیٹ رات 8 بجے سختی سے بند کروا دی جائیں اور بعد میں جرنیٹر چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اس سے پٹرول اور بجلی کی بچت ہوگی

5 اسٹںٹ بنک فوراً کمرشل بینکوں کو آڈر کرے کے گھریلو صارفین کے لیے سولر انرجی لگانے کے لیے آسان شرائط پر قرضے دے اس سے بھی زرمبادلہ بچے گا اور لوڈ شیڈنگ ختمِ ہو گی

6 تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے درآمدی انڈسٹری کو مراعات دی جائیں اور ملک کی فضاء اسی کی جاے کے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال ہو اور وہ ملک میں انویسٹ کریں 

7 تمام غیر ضروری سبسڈی ختم کر دی جاے

8 تمام سرکاری ملازمین کی وہ سہولتیں واپس کی جایں جو سے خزانہ پر بوجھ ھیں

9 ایم این اے ،ایم پی اے وزراء کی تنخواہوں میں فورآ کمی کی جائے 

10 ٹیکنوکریٹ اور بیوروکریٹ کی تمام مراعات ختم کرنی ھوگی 

اس کے علاؤہ بھی ملک عظیم کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے اب ھر حکومت کو سیاسی طور پر نہیں بلکہ پاکستانی بن کر سوچنا چاہیے ورنہ سری لنکا کی مشال سب کے سامنے ہیں

برآے مہربانی اس کو آگے فارورڈ ضرور کریں تا کہ حکومت تک پہنچ جالے

*منقول* ایک اللہ والے نے میسیج بھیجا جس کا کسی سیاست سے کوئ لینا دینا نہیں پلیز اس میسیج کو ہر گروپ میں اور سوشل میڈیا پر فاروڈ کریں جزاک اللہ

ترکی میں بچوں کی تربیت کہسے کی جا رہی ہے

 ترکی میں طویل جبریہ سیکولر نظام تھوپے جانے کے بعد نفسیات شناسی اور معاملہ فہمی کے ساتھ نئی نسل کی تربیت کی جارہی ہے۔

 جب بچہ سات سال کا ہوجاتا ہے تو اسے نماز کی ترغیب دلانے کے لیے مقابلہ منعقد ہوتا ہے کہ جو بچہ فجر کی نماز چالیس دن تک با جماعت پڑھے گا، اسے ایک خوبصورت اور قیمتی بائیسکل دی جائے گی۔ 

بچے جوق درجوق فجر کی نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جب انہیں انعام ملتا ہے تو پورے شہر میں جلوس نکالتے ہیں۔ چالیس دن تک وہ نمازی بننا سیکھ رہے تھے، اکتالیسویں دن سے وہ نماز کے داعی بن چکے ہوتے ہیں۔

جب گرمی کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو ترکی کے طول و عرض میں مساجد میں “حفظ القرآن سمر کیمپ‘‘لگائے جاتے ہیں۔ 

کچھ تو مسجد کی بہترین سہولتیں، کچھ پڑھنے پڑھانے والوں کا رویہ، کچھ انعامات اور حوصلہ افزائی سے پیدا ہونے والا جذبہ۔۔۔ عجیب و غریب ماحول ہوتا ہے۔

 بچے لگن سے قرآن کریم یاد کررہے ہوتے ہیں، والدین اور اساتذہ خوشی سے نہال ہورہے ہوتے ہیں اور چھٹیوں میں ہر سال بچوں کو قرآن کریم کا اتنا منتخب نصاب یاد ہوجاتا ہے جوعمر بھر کے لئے ان کے واسطے رحمت و برکت کا ذریعہ ہوتا ہے۔

 اس طرح جو بچہ پورا قرآن کریم حفظ کرلے اسے عمرے پر بھیجا جاتا ہے، جس کی ویڈیو آج کل گردش کررہی ہے۔

ترکی میں بچوں کو خطاطی اور تزئین کا فن سکھانے کے ادارے جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک مخصوص نام اور نشان ہوتا ہے جو دور سے پہچانا جاتا ہے۔ 


اسکاؤٹس کی تربیت اور اولمپیاڈ کا انعقاد بہت شاندار اور مثالی ہوتا ہے۔ بلدیہ کے پارکوں میں نہایت خوبصورت آسٹروٹرف بچھے ہوئے چھوٹے چھوٹے فٹبال گراؤنڈ ہوتے ہیں۔ ان میں وردی اور جوتے پہن کر کھیلنا ضروری ہے۔ اس کی گھنٹے کے اعتبار سے فیس بھی ہوتی ہے اور گراؤنڈ کے ساتھ پانی اور جوس کی مشینیں بھی رکھی ہوتی ہیں۔

ایک مرتبہ ترکی میں بچوں کا دن منایا گیا۔ اس میں بچوں کو مستقبل کی قیادت سنبھالنے کی تربیت دینے کے لئے بڑے بڑے حکومتی عہدیداروں نے اپنی نشست کچھ وقت کے لئے بچوں کے سپرد کی۔ خود صدر ترکی نے ایک بچے کو اپنی نشست پیش کی۔ 


خوبصورت اورمعنی خیز واقعہ!!!


آخر میں غبارے بانٹنے والے کا واقعہ سناکر بات ختم کرنا چاہوں گا۔


استنبول کے ’’قریۃ الصالحین‘‘ فاتح کے علاقے اسماعیل آغامیں ہم کھڑے تھے۔مسجد کے دروازے پر ایک شخص غباروں بھرا تھیلا لئے کھڑا تھا۔ یہ غبارے پھولے ڈنڈے کی شکل میں لمبے لمبے تھے۔ جو بچہ گزرتا یہ اسے جھٹ سے تلوار یا تاج بناکر پکڑا دیتا۔


 ہم نے پوچھا: ’’یہ کیا ماجرا ہے؟ ‘‘ معلوم ہوا یہ ایک اچھے خاصے عہدے پر فائز سرکاری افسر ہے۔ فارغ وقت میں غبارے بھر کر لے آتا ہےاور بچوں میں یہ دو چیزیں (تلوار یا تاج) مفت تقسیم کرتا ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ جب سے ہم نے تلوار چھوڑی ہے،عزت کا تاج ہمارے سر سے اُتر گیا ہے۔ 


بتائیں!!! ہمارے سرکاری آفیسر کیا کرتے ہیں اپنے نسلوں کے لئے!!!


 نئی نسل کی تربیتاس طرح کی اختراعی جدتوں سے ہوتی ہے یا پھر مغرب میں کامیابی سے اخلاق باختگی پھیلانے والے پرفریب ٹوٹکوں سے۔ کوئی سمجھ کر بھی نہ سمجھے، ہمیں تو سمجھاتے رہنا۔


ترکی زمان و مکان، موسم و مزاج کے اعتبار سے مغرب کے دہانے پر واقع ہے، مگر وہ مغرب کی تقلید کے بجائے زمانے میں پنپنے کے آزاد رویئے دنیا میں متعارف کروارہا ہے۔ وہاں بچوں کی صحت و تعلیم پر بھرپور توجہ کے ساتھ انہیں مقصد زندگی کی تفہیم اور آفاقی انسانی آداب سے متصف کرنے کے لئےعجیب و غریب مثالی رویئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ایسی اخلاقی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے، جو معاصر دنیا میں ایک مثال بنتی جارہی ھیں۔


 *صدقہ جاریہ کے طور پر سوچنے اورعمل کرنے کےارادے سے پھیلاتے جاٸیں۔*

لڑکیاں متوجہ ہوں

 *🧕🏻لڑکیاں متوجہ ہوں🧕🏻*


لباس خریدتے ہوئے ایسا کپڑا لیں جس میں سے اپ کا جسم نظر نہ آئے.


سلواتے ہوئے گلا چھوٹا رکھوائیں کہ جھک کر کوئ چیز پکڑیں یا گھر کی؟--

صفائ کرتے بے پردگی نہ ہو.


لباس تھوڑا کھلا سلوائیں کہ انسان انسان محسوس ہوں .نہ کہ جانوروں کی کھال سا چپکا ہوا.


گھر سے باہر نکلتے ہوئے اگر اپ برقع نہیں پہنتی تو احتیاط ایک چادر ضرور رکھا کریں کہ بارش ہونے پر لباس سے جسم نظر نہ آئے .یا پسینے کی وجہ سے بھیگ جانے پر جسم نمایاں ہو تو چادر لپیٹ لیں.


گرمیوں میں لان کے سادے لباس کے نیچے شمیز ضرور پہنیں… .


راستے میں چلتے ہوئے دوپٹہ کھسک گیا ہے تو اسے پورا اتار کر درست مت کریں .بلکہ سلیقہ سے کچھ حصہ سینے پر رہنے دیں اور باقی آرام سے درست کر لیں.


اپنے جسم کی صفائ کا خاص خیال رکھیں. جسم کے جن حصوں کی صفائ کا خاص حکم ہے انہیں صاف کیا جائے 

تاکہ گلیوں بازاروں میں گزرتے ہوئے سب کے سامنے خارش کی ضرورت محسوس نہ ہو.


اسلام سر کے بال چھپانے کے ساتھ ساتھ جسم چھپانے کے لیے, بھی کہتا ہے .

سر پر رضائ لپیٹنے کے ساتھ ٹائیٹس پہن کر عجیب سا بد نماجانور مت بنیں.


اپ اپنے گھر والوں کے زمہ دار ہیں .ہر آدمی سے اس کی رعایہ کے بارے سوال کیا جائے گا. مرد حضرات اپنی عزت کا خیال رکھا کرے آپ کے ساتھ اپ کی بیوی بیٹی ماڈرن لباس پہن کر چل رہی ہو تو جتنے مرد و خواتین اسے دیکھ کر فتنے میں مبتلا ہونگے اس کا گناہ اپ پر ہے اور آپ خود ہی ذمہ دار ہونگے.


🇵🇰🌼شعور پاکستان 🌼🇵🇰

کیا ہے اس آیت میں کہ لوگ رو رہے ۔۔۔۔؟؟ 

 ⬛⬛⬛

کیا ہے اس آیت میں کہ لوگ رو رہے ۔۔۔۔؟؟ 

 پہلے وڈیو دیکھیں پھر تحریر پڑھیں ۔۔۔۔ 

وَ غَلَّقَتِ الۡاَبۡوَابَ وَ قَالَتۡ ھَیۡتَ لَکَ ؕ

 اور اس نے تمام دروازے خوب بندکر دیے اور بولی: جلدی آؤ!


قاری کا اتنے خوبصورت انداز میں اس بات کو دہرانا سات مختلف لہجوں میں ۔۔۔ 

" وَ قَالَتۡ ھَیۡتَ لَکَ ؕ " دل پہ ایک عجیب سا اثر ڈالتا۔۔ بندہ خود کو اس جگہ کھڑا ہوا محسوس کرنے لگتا۔۔۔ جیسے سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ۔۔۔ 


اُس جگہ جہاں ایک عورت، یوسف علیہ السلام کو بہکانے کے لیے کمرے میں لے آئی اور پیچھے سے دروازہ بند کیا اور کبیرہ گناہ کی دعوت دینے لگی ۔۔۔ 


آ جاؤ جلدی سے۔۔۔

لو آجاؤ۔۔۔۔ 

آ بھی جاؤ ۔۔۔۔ 

بس آ جاؤ ۔۔۔ 

جلدی آ جاؤ ۔۔۔۔ 

ھَیۡتَ لَکَ ۔۔۔۔


پتا ہے لوگ اس دعوت پہ کیوں رو رہے ۔۔۔؟؟ 

شرم کا جنازہ نکل گیا اس لیے ۔۔۔ ایک عورت کے لیے ایسا کہنا آسان بالکل بھی نہیں ہوتا ۔۔۔ لیکن یہ نفس ہے جو بہت بڑے بڑے گناہ آسان کر دیتا۔۔۔۔ شیطان سے بڑی چیز ہے یہ نفس ۔۔۔!! اتنی بڑی چیز کہ حیا کو اتروا کے ننگا کروا دیتا ۔۔۔ شیطان تو صرف دکھاتا ہے یا سُجھاتا ہے، کرواتا نفس ہی ہے۔۔۔!! 

اور اس لیے بھی رو رہے کہ آزمائش ہے دونوں پر ۔۔۔۔ صرف یوسف علیہ السلام پر نہیں عورت پر بھی ۔۔۔!! اور عورت کے اس آزمائش میں پھسل جانے پر ۔۔۔۔!! 


دیکھنے کو تو وہاں بظاہر وہ دو ہی تھے ۔۔۔۔ دروازہ بند تھا ۔۔۔ عورت خود اپنے آپ کو پیش کر رہی تھی ۔۔۔ 


لیکن پتا ہے مرد کیسا تھا ۔۔۔؟؟

اللہ کا چُنا ہوا ۔۔۔!!

اِنَّهٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُخۡلَصِیۡنَ۔۔۔۔ 

سب کچھ پیش کیے جانے کے باوجود کہنے لگا ۔۔۔۔ 

" مَعَاذَ اللّٰهِ " اللہ تعالیٰ کی پناہ !


اور پتا ہے لوگ اُس پناہ کے مانگے جانے پہ کیوں رو رہے ۔۔۔؟؟ 

کہ وہ مرد ہوتے ہوئے اُس بڑے بھاری عاجز کر دینے والے وقت میں اللہ تعالیٰ سے وفا کر گئے، اپنے رب کی محبت، احسانات کو نہیں بُھولے۔۔۔۔ ایمان نہیں ڈگمگایا ان کا ۔۔۔ لوگ ان کے اخلاص پہ عش عش کرتے رہ گئے ۔۔۔۔ یوسف علیہ السلام کی فرمانبرداری اور وفاداری نے رُلا دیا سب کو ۔۔۔۔ ❤️


وہاں صرف وہ دو نہیں تھے، بلکہ اُس چُنے ہوئے مرد نے جس کی پناہ لی تھی #وہ_بھی_تھا_وہاں ۔۔۔ یوسف علیہ السلام کا رب ۔۔۔!! 

 وہ وہی تھا جس نے سب کچھ دیکھا کیونکہ وہ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ۠ ہے۔۔۔! 

وہ وہی تھا جس نے سب کچھ صاف صاف سُنا کیونکہ وہ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۚ ہے ۔۔۔!! 

اور وہاں موجود تیسرا وہی تھا جو آج بھی موجود ہے ۔۔۔!!

اور اُس تیسرے کو اپنے محبوب بندے کا پناہ مانگنا پسند آ گیا #اور_اس_نے_پناہ_دے_دی ۔۔۔ ❤️ 


اور یہ اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک کیوں پہنچایا ۔۔۔؟؟ 

کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف مردوں کو ہی نہیں بلکہ ہر ہر بندے کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ چاہتے کہ میرے بندے مُجھ سے مخلص ہوں۔۔۔۔۔ ❤️

فنا ہونے والی اس دنیا کی حقیقت اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں، خدارا اس حقیر دنیا کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی عیش و عشرت کا سودا نا کریں۔

شہوت جتنی زیادہ ہوگی گناہ سے بچنے پر اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔


اب پھر وڈیو دیکھیں ۔۔۔۔

دوسروں کی ذلت پہ  ہنسنا* مشتاق احمد یوسفی۔  

 Worth reading article by a comic writer Mushtaq Ahmad Yousafi

*دوسروں کی ذلت پہ

 ہنسنا*

مشتاق احمد یوسفی۔  

میں آفس میں آتے ہی ایک کپ چائے ضرور پیتا ہوں۔

 اُس روز ابھی میں نے پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کہ اطلاع ملی: کوئی صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا: بھجوا دیجئے۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور شلوار قمیض پہنے‘ گریبان کے بٹن کھولے‘ گلے میں کافی سارا

ٹیلکم پائوڈر لگائے‘ ہاتھوں میں مختلف قسم کی مُندریاں اور کانوں میں رِنگ پہنے ہوئے ایک نیم کالے صاحب اندر داخل ہوئے۔ سلام لیا اور سامنے بیٹھ گئے۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا‘ وہ نہایت اطمینان سے بولے... ''میں بھی ایک مراثی ہوں‘‘۔ میں بوکھلا گیا... ''کک... کیا مطلب.؟؟؟‘‘

وہ تھوڑا قریب ہوئے اور بولے ''مولا خوش رکھے... میں کافی دنوں سے آپ سے ملنا چاہ رہا تھا... سنا ہے آپ بھی میری طرح... میرا مطلب ہے‘ آپ بھی لوگوں کو ہنساتے ہیں؟‘‘

میں نے جلدی سے کہا ''ہاں... لیکن میں مراثی نہیں ہوں...!!!‘‘

''اچھی بات ہے‘‘ وہ اطمینان سے بولے ''میں نے بھی کبھی کسی کو

اپنی حقیقت نہیں بتائی...!!!‘‘

میرا خون کھول اٹھا ''عجیب آدمی ہو تم... تمہیں لگتا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ یہ دیکھو میرا شناختی کارڈ... ہم یوسفزٸ ہیں!!!‘‘ وہ کارڈ دیکھتے ہی چہکا...!!! ''مولا خوش رکھے... وہی بات نکلی ناں...!!!‘‘

میرا دل چاہا کہ اچھل کر اُس کی گردن دبوچ لوں‘

لیکن کم بخت کا ڈیل ڈول اچھا تھا اس لیے میں نے خود کو قابو میں رکھا اور آنے کا مقصد پوچھا۔

اُس نے محتاط نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا‘ پھر ٹیبل پر آگے کو جھک کر بولا ''مجھے نوکری چاہیے‘‘۔

میں پہلے چونکا‘ پھر غصے سے بھڑک اٹھا ''یہ کوئی کمرشل تھیٹر کا دفتر نہیں ہے‘تم نے کیسے سوچ لیا کہ

یہاں مراثی بھرتی کیے جاتے ہیں؟‘‘

وہ کچھ دیر مجھے گھورتا رہا‘ پھر اپنی مندری گھماتے ہوئے بولا ''یہاں نہ سہی‘ کسی دوسرے دفتر میں ہی کام دلوا دیں‘‘۔


میں کوئی سخت جواب دینے ہی والا تھا کہ اچانک میرے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آیا اور میں مسکرا اٹھا‘ آفس بوائے سے اُس کے لیے بھی چائے

لانے کے لیے کہا اور خود اُٹھ کر اُس کے ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ اُس کی آنکھوں میں الجھن سی اُتر آئی۔

میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ''سنو! تمہیں بہت اچھی نوکری مل سکتی ہے‘ اگر تم مجھے ہنسا کے دکھا دو‘‘۔


 


وہ ہونقوں کی طرح میرا منہ دیکھنے لگا۔ میں نے اُس کی حالت کا

مزا اٹھاتے ہوئے اُسے زور سے ہلایا ''ہیلو! ہوش کرو... بتاؤ‘ یہ چیلنج قبول ہے؟‘‘۔

اُس نے کچھ دیر پھر مندری گھمائی اور نفی میں سر ہلا دیا۔

میں حیران رہ گیا‘ وہ مراثی ہونے کے باوجود مجھ جیسے اچھے خاصے معزز انسان سے ہار مان رہا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اُس نے عجیب سا جواب دیا ''میں نے

لوگوں کو ہنسانا چھوڑ دیا ہے‘‘۔


میں اچھل پڑا ''یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟ ‘‘

اُس نے لمبا سانس لیا اور بیزاری سے بولا ''لوگ اب ہنسنا چھوڑ چکے ہیں‘‘۔

میں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا ''یہ تمہاری غلط فہمی ہے... دنیا آج بھی ہنستی ہے‘ مزاحیہ تحریریں پڑھتی ہے‘ مزاحیہ ڈرامے دیکھتی ہے‘

جگتیں پسند کرتی ہے...‘‘۔


اُس نے اپنی مندری نکال کر دوسری انگلی میں پہنی اور اپنی بڑھی ہوئی شیو پر خارش کرتے ہوئے بولا ''دنیا ہنستی نہیں‘ دوسروں کی ذلت پر خوش ہوتی ہے‘‘۔

میں نے پھر قہقہہ لگایا ''وہ کیسے بھئی؟‘‘۔

اُس نے قمیص کی سائیڈ والی جیب سے سستے والے سگریٹ کی مسلی ہوئی ڈبی

نکالی اور میری طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا‘ میں نے ایش ٹرے اُس کے سامنے رکھ دی۔ اُس نے شکریہ کہا اور سگریٹ سلگا کر گہرا کش لیا۔


میں اُس کے جواب کا منتظر تھا‘ تھوڑی دیر خاموشی رہی‘ پھر اُس کی آواز آئی ''آپ کا منہ فلسطین کے لومڑ جیسا ہے...‘‘۔

مجھے گویا ایک کرنٹ سا لگا اور میں

کرسی سے پھسل گیا۔ میری رگ رگ میں طوفان بھر گیا۔ وہ میرے دفتر میں بیٹھ کر مجھے ہی لومڑ کہہ رہا تھا‘ بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی... میرا چہرہ سرخ ہو گیا‘ اس سے پہلے کہ میں اُس پر چائے کا گرم گرم کپ انڈیل دیتا‘ وہ جلدی سے بولا ''آپ کا ایک جگری دوست شہزاد ہے ناں؟‘‘ میں

پوری قوت سے چلایا ''ہاں ہے...پھر؟؟؟‘‘۔ وہ فوراً بولا ''اُس کی شکل بینکاک کے جمعدار جیسی ہے‘‘۔

میں نے بوکھلا کر اُس کا یہ جملہ سنا ... کچھ دیر غور کیا اور پھر... بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی... میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔


تین چار منٹ تک آفس میں میرے قہقہے گونجتے رہے‘ بڑی

مشکل سے میں نے خود پر قابو پایا اور دانت نکالتے ہوئے کہا ''شرم کرو... وہ میرا دوست ہے‘‘۔

میری بات سنتے ہی مراثی نے پوری سنجیدگی سے کہا ''ایسی ہنسی آپ کو اپنے اوپر لگنے والی جگت پر کیوں نہیں آئی؟‘‘۔

میں یکدم چونک اٹھا‘ ساری بات میری سمجھ میں آ گئی تھی...!!!

ہمارے معاشرے میں واقعی وہ چیز زیادہ ہنسی کا باعث بنتی ہے جس میں کسی دوسرے کی ذلت کا سامان ہو‘ یہی وجہ ہے کہ سٹیج ڈراموں اور عام زندگی میں جب ہم کسی دوسرے کو ذلیل ہوتے دیکھتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ فریش ہو جاتے ہیں۔

کوئی بندہ چلتے ہوئے گر جائے‘

کسی کی گاڑی خراب ہو جائے‘

کسی کے پیچھے کتا دوڑ لگا دے‘

کسی کی بس نکل جائے اور وہ آوازیں لگاتا رہ جائے تو ہماری ہنسی نہیں رکتی‘


*یہی عمل اگر ہمارے ساتھ ہو اور دوسرے ہنسیں تو ہم غصے سے بھر جاتے ہیں۔*


گویا ہنسنے کے لیے کسی کا ذلیل ہونا لازمی امر قرار پا چکا ہے۔

یہی رویہ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں در آیا ہے

ہمیں اپنے سُکھ سے اتنی راحت نہیں ملتی جتنے کسی کے دُکھ ہمیں سکون دیتے ہیں۔

یہاں جو انسان اچھی نوکری پر ہے وہ بڑی طمانیت سے مسکراتے ہوئے بے روزگار کو اٹھتے بیٹھتے اپنی کامیابیوں اور اُس کی ناکامیوں کی وجوہات بتاتا ہے چاہے بےروزگار اُس سے سو گنا زیادہ صلاحیتوں کا مالک ہی کیوں نہ ہو

ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو کسی بھوکے کو دیکھتے ہی اپنے لیے کھانا منگوا لیتی ہے۔

ہم اپنی فیملی کے ساتھ گاڑی میں اے سی آن کر کے جا رہے ہوں تو ہمیں سڑک پر اپنے بیوی بچوں کا بوجھ اٹھائے سائیکل پر جاتا ہوا غریب آدمی بہت لطف دیتا ہے‘

ہمارے سامنے کسی کمزور کو مار پڑ رہی ہو تو ہم بڑی

دلچسپی سے اُسے دیکھتے ہوئے مسکرانے لگتے ہیں‘

ہم اپنی کامیابیوں کو اپنا حق سمجھ کر انجوائے کرتے ہیں اور ناکام انسانوں کو محنت کرنے کے مشورے دیتے ہیں‘

جس کے پاس اپنا گھر ہے وہ کرائے کے گھر میں رہنے والے کی بے بسی کا مزا لیتے ہوئے اٹھتے بیٹھتے اُسے یہی نصیحت کرتا ہے کہ

کچھ اپنا گھر بنانے کا بھی سوچو‘ حالانکہ جو انسان کرائے پر رہتا ہو اُس سے زیادہ اپنا گھر بنانے کی خواہش بھلا کون کر سکتا ہے؟؟؟


*کبھی غور کیجئے گا*


کسی کی گاڑی یا موٹر سائیکل نہر میں جا گرے تو نکالنے والے کم اور انجوائے کرنے والے زیادہ جمع ہو جاتے ہیں۔

لیکن

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اذیت میں ہم ہوتے ہیں اور مسکرانے کے لیے پورا زمانہ ...!!!


ہم میں سے ہر شخص کی مجبوریاں اور ذلتیں دوسروں کو ہنسانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں‘ ہم سب بیک وقت تماشا بھی ہیں ‘ تماشا گر بھی اور تماشائی بھی...!!!

میں فلسطین ہوں

 میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

یہ میری قوم کے حکمراں بھی سنیں

میری اجڑی ہوئی داستاں بھی سنیں

جو مجھے ملک تک مانتے ہی نہیں

ساری دنیا کے وہ رہنما بھی سنیں

صرف لاشیں ہی لاشیں میری گود میں

کوئی پوچھے میں کیوں اتنا غمگین ہوں

میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

آئے تھے ایک دن میرے گھر آئے تھے

دشمنوں کو بھی تنہا نظر آئے تھے

اونٹ پر اپنا خادم بٹھائے ہوئے

میری اس سرزمین پر عمر (رضی اللہ عنہ) آئے تھے

جس کی پرواز ہے آسمانوں تلک

زخمی زخمی میں وہ شاہین ہوں

میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

میرے دامن میں ایمان پلتا رہا

ریت پر رب کا فرمان پلتا رہا

میرے بچے لڑے آخری سانس تک

اور سینوں میں قرآن پلتا رہا

زرے زرے میں اللہ اکبر لئے

خوش نصیبی ہے میں صاحبِ دین ہوں

میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

نہ ہی روئیں گے اور نہ ہی مسکائیں گے

صرف نغمے شہادت کے ہی گائیں گے

اپنا بیت المقدس بچانے کو تو

میرے بچے ابابیل بن جائیں گے

جو ستم ڈھا رہے ابرہا کی طرح

ان کی خاطر میں سامانِ توہین ہوں

میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

دہی اور لسی کے فوائد

 *دہی اور لسی کے فوائد............!!*

.اس بات پرڈاکٹر، حکماء سب متفق ہیں کہ دہی میں پائے جانے والا کیلشیم، پروٹین ، رائیوفلیون، وٹامن بی، فولک ایسڈ انسانی صحت کیلئے بہت کارآمد ہے۔

.

ایک اندازے کے مطابق دودھ کی مقدار میں اگر دہی استعمال کیا جائے تو اس میں کیلشیم کی مقدار دودھ کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ دودھ سے بیس فیصد زیادہ پروٹین کا حامل ہے۔ دہی بنتا تو دودھ سے ہی ہے اور دودھ میں پائے جانے والے کیلشیم کو ہضم کرنا آسان نہیں لیکن اگر دودھ کی بجائے دہی استعمال کیا جائے تو یہ کیلشیم بہت جلدی ہضم ہو جاتا ہے

.

ماہرین نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ دل کی تکالیف کی سب سے بڑی وجہ کولیسٹرول ہے جسے دہی کم کرتا ہے۔ اگر روزانہ دو پیالے دہی کھایا جائے تو حیران کن رفتار سے کولیسٹرول میں کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ انسانی جسم میں رَواں دَواں خون میں ہونے والے انفیکشن کے تدارک کیلئے اس سے بہتر کوئی دوسری غذا نہیں۔سودہی کو اینٹی بائیوٹک کا ذخیرہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ آنتوں میں پائے جانے والے انتہائی خطرناک بیکٹریا کو یہ گردوں اورمثانے میں جانے سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے۔ مدافعتی نظام کو بہترکرنے میں اسکا کوئی ثانی نہیں۔۔جو لوگ تین ماہ تک روزانہ دو سے تین پیالے دہی استعمال کرتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام بہت تیزی سے بہتر ہوتا ہے۔

.

*گرمی کے موسم میں لسی کے طبی فوائد*

گرمی کے موسم میں جب موسم کے اثرات براہ راست انسان کی صحت کو متاثر کر سکتے ہیں ایسے میں کھانے پینے میں کی جانے والی احتیاط انسان کو صحت کے بڑے مسائل سے محفوظ رکھ سکتی ہے ۔اور ایسے میں لسی کا استعمال صحت کو جو فوائد دیتا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہو سکتے ہیں

.

*ہاضمے کے لیۓ مفید*

لسی کو بنانے کے لیۓ دہی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جو کہ ہاضمے کے لیۓ بہت مفید ہوتا ہے ۔ دہی کے اندر ایسے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں ۔ جو آنتوں کے لیۓ بہت فائدہ مند ہوتےہیں ۔ اس وجہ سے کھانے کے ساتھ اس کا استعمال بہت فائدہ مند ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ لسی پرو بائوٹک کا ایک بہترین درجہ ہے جو کہ معدے میں ایسے بیکٹیریا کو پیدا ہونے سے روکتے ہیں جو کہ ہاضمے کے لیۓ خطرناک ہوتے ہیں ۔

.

*لسی وزن کم کرنے میں مددگار*

لسی کا شمار ایسی غذاؤں میں ہوتا ہے جو کہ غذائیت سے بھر پور ہونے کے ساتھ ساتھ کم کیلوری کی حامل ہوتی ہے اس وجہ سے اس کا استعمال ان لوگوں کے لیۓ بہت بہتر ہوتا ہے جو کہ بڑھتے ہوۓ وزن سے پریشان رہتے ہیں ۔پیٹ کی چربی جو موٹاپے کا باعث ہوتی ہے اور معدے کےگرد جمع ہو جاتی ہے اس کو پگھلانا ایک مشکل کام ہوتا ہے لسی ایسی چربی کو پگھلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے

.

*قوت مدافعت کو مضبوط کرتی ہے*

لسی وٹامن ڈی اور لیکٹک ایسڈ سے بھر پور ہوتی ہے جس وجہ سے گرمی کے سبب ہونے والی بیماریوں سے لڑنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اور جسم کو اندرونی طور پر مضبوط کر کے بیماریوں کے خلاف لڑنے کی طاقت فراہم کرتی ہے

.

*ہڈیوں کو مضبوط کرتی ہے*

لسی کی تیاری میں دودھ اور دہی کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ کیلشیم سے بھر پور غذا ہیں جس کی انسانی جسم کو ہر عمر میں ضرورت ہوتی ہے ۔ کیلشیم جسم کی ہڈیوں کو مضبوطی فراہم کرتی ہے اسکے علاوہ اس کا استعمال دانتوں اور بالوں کی صحت کے لیۓ بھی بہت ضروری ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے لسی کا استعمال ہڈیوں کو طاقت فراہم کرتا ہے

.

*بلڈ پریشر کو کم کرتی ہے*

لسی کے اندر پوٹاشیم اور رائبو فلائیون موجود ہوتا ہے جو جسم میں سے زہریلے مادوں کا اخراج کرتا ہے جسم کے اندر سے فاضل مادوں کے اخراج سے ہائی بلڈ پریشر کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے اور جسم کو طاقت ملتی ہے

.

 *لسی عمر کے بڑھتے اثرات کو کم کرے*

لسی لیکٹک ایسڈ سے بھر پور ہوتا ہے جس کا استعمال کاسمیٹکس انڈسٹری میں کیا جاتا ہے ۔ اس کے استعمال سے ایک جانب تو جلد کو قدرتی طور پر نمی اور تازگی ملتی ہے دوسری جانب زہریلے مادوں کے اخراج کے سبب جسم کا میٹا بولزم تیز ہوتا ہے اور بڑھتی عمر کے اثرات جسم پر کم سے کم پڑتے ہیں..اس کے علاوہ یہ جھریوں کا خاتمہ کرتا ہے اور جلد کو وہ نمی فراہم کرتا ہے جو کہ جھریوں کے بننے کے عمل کو سست کرتی ہے

.

*جسم کو ٹھنڈک فراہم کرے*

عام طور پر لو لگنے کا بنیادی سبب جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی ہوتی ہے ۔ لسی پینے سے اس کمی پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ جسم کو ٹھنڈک اور تازگی فراہم کر کے گرمی کے اثرات کو ختم کرتا ہے....لسی میں الیکٹرلائٹ موجود ہوتے ہیں جو کہ جسم میں سے پانی کے اخراج کو روکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ جسم کے بڑھتے درجہ حرارت کو روکتا ہے جس سے گرمی کے اثرات میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ لو لگنےکے خطرے سے بچانے والا یہ ایک بہترین مشروب ہے

.

*گرمی کے موسم میں لسی کے استعمال کا طریقہ*

لسی کا استعمال ویسے تو خالی پیٹ بھی کیا جا سکتا ہے مگر اس کا استعمال خالی پیٹ کرنے کےبجاۓ کھانے کے ساتھ کیا جاۓ تو یہ زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ تاہم اس کے اندر بہت زیادہ نمک یا چینی کا استعمال ہائی بلڈ پریشر یا ذیابطیس کے مریضوں کے لیۓ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ لسی کے اوپر بہت ساری بالائی یا مکھن ڈال کر پینا بھی اس کے فوائد کو کم کرنے کا باعث بن سکتا ہے

.

*لسی بنانے کا طریقہ*

دہی کھلے برتن میں ڈالیے اور بازار سے عام ملنی والی پلاسٹک کی مادانی سے اسے پھینٹیے یہاں تک کہ پتلی مشروب بن جاءے پھر پانی اور برف ڈالیے اور حسب ذائقہ نمک ڈالیے

.

مادانی نہیں ہے تو بھی ٹینشن کی بات نہیں، خالی بوتل لیں اس میں دہی ڈالیں تھوڑا پانی ڈالیں مگر بوتل فل نہ بھریں پھر بوتل کا ڈھکن بند کرکے خوب ہلائیں...پھر کھلے برتن میں پانی ڈال کر خوب پتلا کریں اور خوب مکس کریں اور برف ڈالیں نمک حسب ذائقہ ڈالیں

.

بوتل نہیں تو بھی ٹینشن کی بات نہیں، پلاسٹک کی تھیلی میں دہی اور تھوڑا پانی ڈالیں، کَس کر پکڑیں یا دھاگے سے باندھیں اور خوب ہلائیں پھر پانی شامل کرکے خوب مکس کریں اور برف ڈال کر پیئیں اپنے اہل خانہ بچوں دوستوں کو پلائیں

(کاپی پیسٹ...منقول)

جامن کا پیڑ از کرشن چندر

 "جامن کا پیڑ " ۔۔ کرشن چندر کى لازوال تحرپر 🤢🤢🤢🤢🤢🤢


رات کو بڑے زور کا جھّکڑ چلا سکریٹریٹ کے لان میں جامن کا ایک درخت گرپڑا۔ 


صُبح مالی نے دیکھا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی دبا پڑا ہے۔

مالی دوڑا دوڑا چپراسی کے پاس گیا۔

 

چپراسی دوڑا دوڑا کلرک کے پاس گیا۔

کلرک دوڑا دوڑا سُپرانٹنڈنٹ کے پاس گیا۔ 

سپرنٹنڈنٹ دوڑا دوڑا لان میں آیا۔


منِٹوں مپں درخت کے نیچے دبےآدمی کے گِرد مُجمع اِکٹھا ہو گیا۔


" بے چارا جامن کا درخت کتنا پھل دارتھا " ایک کلرک بولا۔


" اُس کی جامن کتِنی رسیلی ہوتی تھیں" دوسرا کلرک بولا۔


" میں پھلوں کے موسم میں جھولی بھر‌کے لے جاتا تھا میرے بچے جامن کِتنی خوشی سے کھاتے تھے"

تیسرا کلرک تقریباً آبدیدہ ہوکر بولا۔


"مگر یہ آدمی؟"

مالی نے دبےہوئے آدمی کی طرف اِشارہ کیا۔


" ہاں، یہ آدمی"

سپرنٹنڈنٹ سوچ میں پڑ گیا۔

" پتہ نہیں زندہ ہے کہ مر گیا"


" مر گیا ہوگا اِتنا بھاری تنا جِس کی پیٹھ پر گرے وہ بچ کیسے سکتا ہے" دوسرا چپراسی بولا۔


" نہیں میں زندہ ہوں "

دبےہوئے آدمی نے بہ مشکل کراہتے ہوئے کہا.


" زندہ ہے "

ایک کلرک حیرت سے بولا۔

" درخت ہٹاکر اِس کو نکال لیناچاہیے" مالی نے مشورہ دیا۔


" مشکل معلوم ہوتا ہے"

ایک کاہل اور موٹا چپراسی بولا۔

" درخت کا تنا بھاری اور وزنی ہے"


" کیا مشکل ہے؟" مالی بولا۔ 

" اگر سپرنٹنڈنٹ صاحب حکم دے تو ابھی پندرہ بیس مالی، چپراسی اور کلرک زور لگا کر آدمی کو نکال سکتے ہیں"


" مالی ٹھیک کہتا ہے"

بہت سےکلرک ایک ساتھ بول پڑے۔ " لگاؤ زور ہم تّیار ہیں"


بہت سے لوگ درخت کو کاٹنے پر تیار ہو گئے۔

" ٹھہرو " سپرنٹنڈنٹ بولا

" میں انڈر سکریٹری سے مشورہ کر لوں"


سپرنٹنڈنٹ انڈر سکریٹری کے پاس گیا۔ 

انڈر سکریٹری ڈپٹی سکریٹری کے پاس گیا۔ 

ڈپٹی سکریٹری جوائنٹ سکریٹری کے پاس۔ 

جوائنٹ سکریٹری چیف سکریٹری کے پاس۔


چیف سکریٹری نے جوائنٹ سکریٹری سے کُچھ کہا۔ 

جوائنٹ سکریٹری نے ڈپٹی سکریٹری سے کُچھ کہا۔ 

ڈپٹی سکریٹری نےانڈر سکریٹری سے کُچھ کہا۔ 


ایک فائل بن گئی۔ فائل چلنے لگی۔ 

فائل چلتی رہی۔ اِسی میں آدھا دِن گزر گیا۔


دوپہر کو کھانے په آدمی کے گرد بہت بھیڑ ہو گئی لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ کچھ من چلے کلرکوں نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہا۔


وہ حکومت کے فیصلے کا اِِنتظار کئے بغیر درخت کو خود سے ہٹانے کا تہیہ کر رہے تھے کہ اِتنےمیں سپرنٹنڈنٹ فائل لئے بھاگا بھاگا آیا:

" ہم لوگ خُود درخت کو یہاں سے ہٹا نہیں سکتے۔ ہم لوگ محکمہ تجارت سے متعلق ہیں اور یہ درخت کا معاملہ ہے جو محکمہءِ زراعت کی تحویل میں ہے اِس لپے فائل کو 'ارجنٹ' مارک کرکے محکمہءِ زراعت بھیج رہا ہوں 

وہاں سے جواب آتے ہی اس کو ہٹوا دیا جائے‌گا "


دوسرے دن محکمہ زراعتِ کا جواب آیا:

"درخت ہٹانے کی ذِمّہ داری محکمہءِ تجارت پر عائد ہوتی ہے"


جواب پڑھ‌کر محکمہءِ تجارت کو غصہ آ گیا اور فوراً لکِھا:

" درختوں کو ہٹانے یا نہ ہٹانے کی ذمّہِ داری محکمہءِ زراعت پر عائد ہوتی ہے محکمہءِ تجارت کا اِس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے"


دوسرے دن بھی فائل چلتی رہی شام کو جواب آ یا:

" ہم اِس معاملےکو ہارٹی کلچرل کے سپرد کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک پھل دار درخت کا معاملہ ہے اور ایگریکلچرل صرف اناج اور کھیتی باڑی کے معاملوں میں هى فیصلہ کرنے کامجاز ہے "


رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کو دال بھات کِھلایا لان کے چاروں طرف پولیس کا پہرا تھا کہ کہیں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لےکر درخت کو خود سےہٹوانے کی کوشش نہ کریں "


مگر ایک پولیس کانسٹبل کو رحم

آ گیا اور اُس نے مالی کودبے ہوئے آدمی کو کھانا کِھلانے کی اجازت دے دی۔


مالی نے دبے ہوئے آدمی سے کہا:

" تُمہاری فائل چل رہی ہے اُمید ہے کہ کل تک فیصلہ ہو جائے‌گا"


دبا ہوا آدمی کچھ نہ بولا۔ مالی نے درخت کے تنے کو غور سے دیکھ‌ کر بولا :

" حیرت گزری کہ تنا تمہارے کولہے پر گِرا اگر کمر پر گرتا تو ریڑھ کی ہڈی تو ٹوٹ جاتی "


دبا ہوا آدمی پھر بھی کچھ نہ بولا۔

مالی پھر بولا :

" تمہارا یہاں کوئی وارِث ہو تو مُجھے اُس کا اتہ پتہ بتاؤ میں اُس کو خبر دینے کی کوشش کروں‌گا "


" میں لاوارث ہوں "

دبے ہوئےآدمی نے بڑی مشکل سے کہا۔

مالی افسوس ظاہر کرتا وہاں سے ہٹ گیا۔


تیسرے دِن ہارٹی کلچرل سے جواب

آ گیا بڑا کڑا اورطنز آمیز. 

ہارٹی کلچرل کا سکریٹری بڑا ادبی مزاج کا معلوم ہوتا تھا۔


اُس نےلکھا:

" حیرت ہے اِس وقت جب درخت اُگاؤ اِسکیم بڑے پیمانے پر چل رہی ہے ہمارے مُلک میں ایسے سرکاری افسر موجود ہیں جو درخت کاٹنے کا مشورہ دیتے ہیں وہ بھی ایک پھل دار درخت کو !

اور پِھر جامن کے درخت کو جِس کا پھل عوام بڑی رغبت سےکھاتے ہیں ! 

ہمارا محکمہ کِسی حالت میں بهى اِس پھل دار درخت کو کاٹنے کی اجازت نہیں دےسکتا "


" اب کیا کیا جائے؟ " ایک منچلا بولا۔

" اگر درخت کاٹا نہیں جا سکتا تو اِس آدمى کو بیچ سے دھڑ کے مُقام سے کاٹا جائے تو آدھا آدمی اِدھر سے نکل آئے‌گا اور آدھا آدمی اُدھر سےباہر آ جائے‌گا اور درخت وہیں کا وہیں رہے‌گا "


 " مگر اِس طرح سے تو میں مر جاؤں‌گا " دبے ہوئے آدمی نے احتجاج کیا۔

" یہ ٹھیک کہتا ہے " ایک کلرک بولا۔


آدمی کو کاٹنے والی تجویز پیش کرنے والے نے پُرزور احتجاج کیا: 

" آپ جانتے نہیں آج کل پلاسٹک سرجری کے ذریعے دھڑ کے مقام پر اِس آدمی کو پھر سےجوڑا جا سکتا ہے "


فائل کو میڈیکل ڈپارٹمنٹ بھیج دیا جِس نے فوراً ایکشن لیا اور جِس دن فائل ملی اُسی دِن محکمے کا سب سے قابِل پلاسٹک سرجن تحقیقات کےلئے بھیج دیا "


سرجن نے دبے ہوئے آدمی کو اچھی طرح ٹٹول‌کر صحت دیکھ‌ کر خون کا دباؤ سانس کی آمد و رفت دل اور پھیپھڑوں کی جانچ‌کر کے رپورٹ بھیجی "


" اِس آدمی کا پلاسٹک سرجری کا آپریشن هو سکتا ہے اور کامیاب بھی ہو جائے‌گا مگر آدمی مر جائے‌گا "

 چنانچه تجویز رد کر دی گئی۔


رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کے مُنھ میں کھچڑی کے لُقمے ڈالتے ہوئے اُس کوبتایا :

" اب معاملہ اوپر چلا گیا ہے سُنا ہے سکریٹریٹ کے سارے سکریٹریوں کی میٹنگ ہوگی جِس میں تمہارے کیس کو رکھا جائے‌گا امید ہے کام ٹھیک ہو جائے‌گا "


دبا ہوا آدمی آہ بھر‌ کر بولا:

" ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو‌گے لیکن خاک ہو جائیں‌گے ہم تُم کو خبر ہونے تک "


مالی نے اچهنبے سے مُنھ میں اُنگلی دبائی اور حیرت سے بولا:

" کیا تم شاعرہو؟"

دبے ہوئے آدمی نے آہستہ سے سر ہلا دیا۔


دوسرے دن مالی نے چپراسی کو 

چپراسی نے کلرک کو،

کلرک نےہیڈکلرک کو۔ 

تھوڑے ہی عرصه میں سکریٹریٹ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ دبا ہوا آدمی شاعر بهى ہے۔


بس پھر کیا تھا۔ 

لوگ جوق درجوق شاعر کو دیکھنے آنے لگے اِس کی خبر شہر میں پھیل گئی اور شام تک محلے محلے سے شاعر جمع ہونا شروع ہو گئے۔


سکریٹریٹ کا لان بھانت بھانت کے شاعروں سے بھر گیا 

سکریٹریٹ کے کلرک اورانڈر سکریٹری تک جِن کو ادب اور شاعری سے لگاؤ تھا رک گئے۔


کُچھ شاعر دبے ہوئےآدمی کو اپنی غزلیں اور نظمیں سنانے لگے کئی کلرک اُس سے اپنی غزلوں پر اِصلاح لینےکے لئے مصر ہونے لگے۔


جب یہ پتہ چلا کہ دبا ہوا آدمی شاعر ہے تو سکریٹریٹ کی سب

کمیٹی نےفیصلہ کیا کہ چونکہ دبا ہوا آدمی ایک شاعر بهى ہے لہذا اِس فائل کا تعلق نہ ایگریکلچرل سے ہے، نہ ہارٹی کلچرل سے بلکہ صرف اور صرف کلچرل ڈپارٹمنٹ سے ہے۔


کلچرل ڈپارٹمنٹ سے اِستدعا کی گئی کہ جلد سے جلد اِس معاملے کا فیصلہ کرکےبدنصیب شاعر کو اِس شجرِسایہ دار سے رہائی دلائی جائے۔


فائل کلچرل ڈپارٹمنٹ کے مُختلف شعبوں سے گزرتی ہوئی ادبی اکادمی کے سکریٹری کے پاس جا پہنچی۔ 

سکریٹری اُسى وقت اپنی گاڑی میں سکریٹریٹ جا پہنچا اور دبے آدمی سے پوچها:


 " تم شاعر هو ؟"

" جی ہاں "


" کیا تخلص ہے ؟"

" عبث "


" عبث " سکریٹری زور سے چیخا۔

" کیا تم وہی ہو جس کا مجموعہءِ کلام " عبث کے پھُول "حال ہی میں شائع ہوا ہے؟"


دبے ہوئے شاعر نے اثبات میں سر ہلایا۔

" کیا تم ہماری اکادمی کے ممبر هو؟"

" نہیں"


" حیرت ہے" سکریٹری زورسےچیخا۔ اِتنا بڑا شاعر ’عبث کے پُھول‘ کا مُصنّف اور ہماری اکادمی کا ممبرنہیں ! 

اف ، اف کیسی غلطی ہو گئی ہم سے ! اتِنا بڑا شاعر اور کیسے گوشہءِ گُمنامی میں دبا پڑا ہے"


" گوشہءِ گُمنامی میں نہیں بلکہ ایک درخت کے نیچے دبا ہوا …براہِ کرم مُجھے اِس درخت کے نیچے سے نکالیے "


" ابھی بندوبست کرتا ہوں " سکریٹرى بولا اور فوراً جا کر اپنے محکمہ میں رپورٹ کی۔


دوسرے دِن سکریٹری بھاگا بھاگا شاعر کے پاس آیا اور بولا :

" مبارک ہو مٹھائی کھلاؤ ہماری سرکاری اکادمی نے تُم کو اپنی مرکزی کمیٹی کا ممبر چُن لیا ہے یہ لو پروانہءِ اِنتخاب"


" مگر مُجھے اِس درخت کے نیچے سے تونکالو "


دبے ہوئے آدمی نے کراہ کر کہا۔ 

اُس کی سانس بڑی مشکل سے چل رہی تھی اُس کی آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ شدید تشّنج اور کرب میں مبتلا ہے۔


"یہ ہم نہیں کر سکتے"

سکریٹری نے کہا۔ جو ہم کر سکتے تھے وہ ہم نے کر دیا ہے بلکہ ہم تو یہاں تک کر سکتےہیں کہ اگر تُم مر جاؤ تو تمہاری بیوی کو وظیفہ دلا سکتے ہیں اگر تم درخواست دو تو"


" میں ابھی زندہ ہوں" 

شاعر رُک رُک کر بولا.


" مُصیبت یہ ہے" 

سرکاری اکادمی کا سکریٹری ہاتھ ملتے ہوئے بولا:

" ہمارا محکمہ صرف کلچر سے متعلق ہے ہم نے فاریسٹ کو‘ ارجنٹ ‘ لکھا ہے"


شام کو مالی نے آکر دبے ہوئے آدمی کو بتایا کہ کل فاریسٹ کے آدمی آ کر درخت کو کاٹ دیں‌گے اور تُمہاری جان بچ جائے‌گی"


مالی بہت خوش تھا کہ گو دبے ہوئے آدمی کی صحت جواب دے رہی تھی مگر وہ کِسی نہ کِسی طرح اپنی زِندگی کے لئے لڑ رہا ہے۔ کل تک…صبح تک…کِسی نہ کِسی طرح اُس کو زندہ رہنا ہے۔


دوسرے دِن 

فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے آدمى کُلہاڑی لے کر پہنچے تو اُن کو درخت کاٹنے سے روک دیا گیا۔ معلوم ہوا کہ محکمہءِ خارجہ سے حُکم آیا کہ اِس درخت کو نہ کاٹا جائے،

وجہ یہ تھی کہ اِس درخت کو دس سال پہلے حکومتِ پیٹونیا کے وزیرِاعظم نےسکریٹریٹ کے لان میں لگایا تھا اب یہ درخت اگر کاٹا گیا تو اِس امر کا شدیداندیشہ تھا کہ حکومتِ پیٹونیا سے ہمارے تعلقات ہمیشہ کے لئے بگڑ جائیں‌گے۔


" مگر ایک آدمی کی جان کا سوال ہے"

ایک کلرک غصے سے چِلّایا۔


" دوسری طرف دو حکومتوں کے تعلقات کا سوال ہے"

دُوسرے کلرک نے پہلے کلرک کو سمجھایا۔


" اور یہ بھی توسمجھو کہ حکومت پیٹونیا ہماری حکومت کو کِتنی امداد دیتی ہے۔ کیا ہم اُن کی دوستی کی خاطر ایک آدمی کی زندگی کو بھی قُربان نہیں کر سکتے؟


" شاعر کو مر جانا چاہیے۔ بلاشبہ"

انڈر سکریٹری نے سپرنٹنڈنٹ کو بتایا:

" آج صبح وزیراعظم باہر کے دورے سے واپس آ گئے ہیں۔ آج چار بجے محکمہءِ خارجہ اِس درخت کی فائل اُن کے سامنےپیش کرے‌گا جو وہ فیصلہ دیں‌گے وہی سب کو مُنظور ہوگا "


شام پانچ بجے خود سپرنٹنڈنٹ شاعر کی فائل لےکر اُس کے پاس آیا: " سنتےہو"


آتے ہی خوشی سے فائل ہلاتے ہوئے چلایا:

" وزیراعظم نے درخت کو کاٹنے کا حکم دے دیا ہے اور اِس واقعہ کی ساری بین الاقوامی ذمہ داری اپنے سر په لےلی ہے۔ کل وہ درخت کاٹ دیا جائے‌گا اور تُم اِس مصیبت سے چُھٹکارا حاصل کر لو‌گے "


"سنتے ہو؟ آج تمہاری فائل مکمل ہوگئی" سپرنٹنڈنٹ نے شاعر کے بازو کو ہلاکر کہا۔ مگر

.

.

.

.


شاعر کا ہاتھ سرد تھا آنکھوں کی پتلیاں بے جان اور چیونٹیوں کی ایک لمبی قطار اُس کے منھ میں جا رہی تھی۔ 

اُس کی زندگی کی فائل بھی مکمل ہو چکی تھی۔۔