ہفتہ، 30 اپریل، 2022

بہلول نے جنید بغدادی آداب سکھائے

 بہلول نے حضرت جنيد بغدادی سےپوچھا شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟ 

کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، الحمدللہ کہنا، اول و آخر ہاتھ دھونا۔ 


بہلول نے کہا، لوگوں کے مرشد ہو اور کھانے کے آداب نہیں جانتے اپنے دامن کو جھاڑا اور وہا ں سے اٹھ کر آگے چل دیئے۔ 

شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا، سرکار وہ دیوانہ ہے لیکن شیخ صاحب پھر وہاں پہنچے پھر سلام کیا۔ 


بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ہو؟ کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ہوں گے۔ 


جی الحمدللہ، متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بےموقعہ، بے محل اور بےحساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔ بہلول نے کہا کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے، بہلول نے پھر دامن جھاڑا اورتھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔


شیخ صاحب پھر وہاں جا پہنچے سلام کیا۔ 

بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وہی سوال کیا کون ہو؟ 

شیخ صاحب نے کہا، جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے اچھا سونے کے آداب ہی بتا دیں؟ 

کہا نماز عشاء کے بعد، ذکر و تسبیح، سورہ اور وہ سارے آداب بتا دیئے جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں۔ بہلول نے کہا آپ یہ بھی نہیں جانتے، اٹھ کر آگے چلنا ہی چاہتے تھے کہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیا اور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ہے۔ 


بہلول نے کہا جو آداب آپ بتا رہے ہيں وہ فرع ہیں اور اصل کچھ اور ہے، اصل یہ ہے کہ جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام، لقمہ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ہی لائےگا نور و ہدایت نہیں، شیخ صاحب نے کہا جزاک اللہ۔ 


بہلول نے کہا کلام میں اصل یہ ہے کہ جو بولو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے بولو اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیھودہ بول بولو گے تو وہ وبال جان بن جائے گا۔ 


سونے میں اصل یہ ہے کہ دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لیکر یا حسد و کینہ لیکر تو نہیں سو رہے، دنیا کی محبت، مال کی فکر میں تو نہیں سو رہے،کسی کا حق گردن پر لیکر تو نہيں سو رہے...!

دربار نبوی میں نعرہ بازی سے اظہار لا تعلقی

 


دربارِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں "چور چور" کے نعرے ہوں یا "جیئے بھٹو" کے یا "وزیراعظم زندہ باد" ہم ان سب سے برأت کرتے ہیں 

نہ جانے ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہمیں اپنی سیاسی وابستگیاں ذیادہ عزیز ہو گئی ہیں اور ادبِ مصطفیٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی پاس نہیں۔ کیا یہ سب حکمران نعوذباللہ میرے نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذیادہ معزز ہو گئے ہیں 

کیا ان کا بیانیہ میرے سرکارِ دوعالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات سے ذیادہ بڑا ہو گیا ہے 

ایک تو رمضان المبارک کا آخری عشرہ اوپر سے شہرِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس سے بڑھ کر مسجد النبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہمارے پاکستانیوں کو کوئی ادب لحاظ ہی نہیں 

اس واحدہٗ لاشریک کی قسم جس کے قبضۂِ قدرت میں میری جان ہے کسی کی بھی عزت و توقیر میرے سرکارِ مدینہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر نہیں 

اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے آمین

اولاد کے نام کھلا خط!

 اولاد کے نام کھلا خط!

جویریہ صدیق

تاریخ اشاعت     30-04-2022

اولاد کے نام کھلا خط!
 اولاد کے نام کھلا خط
مجھے بچے بہت اچھے لگتے ہیں‘ یہ جنت کے پھول ہیں جو زمین پر آ گئے ہیں۔ پیارے پیارے‘ بھولے بھالے‘ اپنی شرارتوں سے سب کا دل موہ لینے والے۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے لیکن میرے خمیر میں ممتا ہے‘ میں بچپن ہی سے چھوٹے بچوں کو بہت پیار کیا کرتی تھی۔ بہت سارے بچوں کو‘ جو میرے رشتہ داروں‘ محلے داروں اور ملازمین وغیرہ کے تھے‘ میں نے ماں بن کر پالا ہے۔ جب میں سکول سے واپس آتی تو سب بچوں کو جمع کر لیتی‘ کسی کو کھانا کھلاتی‘ کسی کو لوری سناتی اور کسی کے ساتھ خود کھیلنے بیٹھ جاتی۔ سب کہتے تھے کہ جویریہ! تم خود ابھی بچی ہو‘ کیسے ان سب شرراتی بچوں کو سنبھال لیتی ہو؟ میں کہتی تھی: پتا نہیں‘ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے کہ میں ان سے پیار کرتی ہوں‘ یہ مجھ سے پیار کرتے ہیں‘ بس مجھے بچے اچھے لگتے ہیں۔ میری سالگرہ کا کیک ہمیشہ میرے بہن‘ بھائیوں اور دوستوں کے بچے کاٹتے ہیں۔ مجھے اب بھی بچے بہت پسند ہیں۔ ان کے کام کرنا‘ ان کے لیے تحائف لینا مجھے اچھا لگتا ہے۔ میری بیشتر سہیلیاں اپنے بچے میرے پاس چھوڑ جاتی ہیں اور وہ میرے ساتھ خوش رہتے ہیں۔ ان بچوں کو اگر والدین سے ڈانٹ پڑ جائے تو وہ اپنے گھر سے وڈیو کالز کر کے مجھے شکایتیں بھی لگاتے ہیں اور میں پیار سے انہیں سمجھاتی ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کو پیار‘ محبت کے ساتھ دینی اور اخلاقی تعلیم دی جائے۔ میں ان کو سمجھاتی ہوں کہ والدین کا کہنا مانیں‘ اپنا دل نماز‘ قرآن اور پڑھائی میں لگائیں‘ والدین سے کچھ نہ چھپائیں‘ کوئی بری چیز انٹرنیٹ پر نہ دیکھیں اور نہ ہی اپنے سے بڑ ی عمر کے افراد سے دوستی کریں‘ آپ کی ایک غلطی والدین کے لیے عمر بھر کا طعنہ بن سکتی ہے۔ بچوں کو لاڈ کے ساتھ اچھائی‘ برائی سے آگاہ کیا جانا چاہئے۔ ان کو احترام دیا جائے۔گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتایا جائے کیونکہ باہر کی دنیا میں بہت سے خطرات ہیں اس لیے ان کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ سو میرا اولاد کے نام یہ کھلا خط تمام بچوں کے نام ہے اور والدین سے میری گزارش ہے کہ ان کو یہ خط ضرور پڑھائیں۔

پیارے بچو! جب آپ اس دنیا میں آنے والے تھے تو آپ کے والدین خوشی سے نہال تھے‘ آپ کے بابا ہر طرح کے پھل‘ سوغاتیں لاتے تھے تاکہ آپ کی صحت مند پیدائش ہو۔ انہوں نے آپ کیلئے اوور ٹائم کرنا شروع کردیا تاکہ جب آپ دنیا میں آئو تو آپ کو ہر طرح کی آسائش ملے۔ سارا دن دھوپ‘ گرمی میں کام کیا تاکہ زیادہ پیسے کمائے جاسکیں اور آپ کو کوئی تنگی نہ ہو۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ آپ کی ماما نے آپ کی وجہ سے کتنی تکلیفیں جھیلیں‘ وہ بخار میں بھی دوائی نہیں کھا پاتی تھیں‘ انہیں بار بار واش روم جانا پڑتا تھا۔ آپ کے بابا کام پر دھیان نہیں دے پاتے تھے‘ بار بار آپ کی ماما کو فون کرتے تھے کہ وہ ٹھیک ہیں یا نہیں۔ ماما پہلے جتنی خوبصورت نہیں رہیں‘ ان کو اپنے پسندیدہ کپڑے اور جوتے بھی نہیں پورے آ رہے تھے۔ اپنا جسم کٹواکر (آپریشن کے ذریعے) انہوں نے آپ کو پیدا کیا لیکن آپ کو ہاتھ میں لے کر ان کا سارا درد جاتا رہا۔ آپ کے بابا نے ہسپتال کا بھاری بل دیا اور سب کو مٹھائی کھلائی۔

شروع کے دنوں میں آپ اپنے والدین کو ساری رات سونے نہیں دیتے تھے‘ ایک آپ کا ڈائپر تبدیل کرتا اور دوسرا آپ کو گود میں لے کر لوری سناتا۔ دونوں نے آپ کا عقیقہ دھوم دھام سے کیا ‘آپ کے لیے پیارے پیارے کپڑے بنائے گئے‘ کیک کاٹا گیا‘ سب کی ضیافت کی گئی۔ آپ کے والدین صرف آپ کی خوشی کا سامان کرتے اور جب کبھی آپ بیمار ہوتے اور ہسپتال میں آپ کو ڈرپ لگتی تو دونوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔اگر آپ کو بخار ہوتا تو یہ دونوں ساری رات جاگ کر آپ کی تیمارداری کرتے۔ ہر طرح کے کھلونے‘ کپڑے اور کھانے آپ کے لیے لائے جاتے۔

جب آپ نے چلنا شروع کیا تو ان دونوں نے گھر سے وہ ساری چیزیں ہٹا دیں جن سے آپ کو چوٹ لگنے کا اندیشہ تھا۔ جب آپ نے ماما‘ بابا بولا تو یہ دونوں خوشی سے رو پڑے تھے اور سارے خاندان میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔ جب آپ سو رہے ہوتے تھے تو یہ دونوں اونچی آواز میں بولتے تک نہیں تھے‘ نہ ہی ٹی وی لگاتے کہ کہیں آپ کے آرام میں خلل نہ پڑ جائے۔ آپ کو سوتے ہوئے ڈر لگتا تھا سو یہ محض آپ کے لیے روشنی میں سوتے تھے۔ جس دن آپ نے پہلے دن سکول جانا تھا‘ اس سے پہلے ان دونوں نے آپ کے لیے خوب شاپنگ کی۔ آپ کے لیے نیا بستہ‘ نئے کپڑے‘ نئے جوتے لیے۔ نئی جیومٹری‘ نئے کلرز لیے، ٹفن اور واٹر بوٹل آپ کو لے کر دی اور سکول کی بھاری فیس بھی جمع کرائی۔ آپ اس دن خوب روئے تھے‘ والدین سے الگ نہیں ہوا جارہا تھا۔ یہ دونوں اس دن سارا وقت سکول کے باہر انتظار کرتے رہے کہ اگر آپ زیادہ روئے تو آپ کو واپس گھر لے جائیں۔ آپ کی فیس‘ دودھ اور ڈائپر کی وجہ سے آپ کے والدین اپنی ذات پر خرچہ نہیں کیا کرتے تھے۔ ایک مدت ہوئی یہ دونوں سینما نہیں گئے‘ اپنے لیے ڈھنگ سے شاپنگ نہیں کی کیونکہ انہیں آپ کے لاڈ جو پورے کرنا ہوتے ہیں۔

آپ سکول سے واپسی پر چھلی کی فرمائش کرتے تھے یا لچھے کی یا غباروں کی‘ آپ کو ہر چیز ملی۔ آپ بڑے ہوتے گئے‘ سکول ہو یا گھر‘ آپ کی ہر ضرورت‘ ہر فرمائش پوری کی گئی۔ گھر میں کمپیوٹر آگیا‘ دوسرے بچوں کے پاس فونز تھے تو آپ نے بھی فون کی فرمائش کردی۔ آپ کی امی نے اپنی ضرورتوں کے لیے ڈالی جانے والی کمیٹی سے آپ کو فون خرید کر دیا۔ہر عید‘ تہوار‘ فنکشن اور شادی وغیرہ پر آپ کے سارے ناز پورے کیے گئے۔ یہ سب کرتے ہوئے دونوں دل سے خوشی محسوس کرتے تھے کہ وہ آپ کو اپنی استطاعت کے مطابق ہر خوشی دے رہے ہیں۔ دونوں نے آپ کی ہر ممکن اخلاقی اور دینی تربیت بھی کی، مگر پھر ایک شخص‘ جو غیر تھا‘ نے آپ کو سوشل میڈیا پر ورغلانا شروع کر دیا۔ آپ سے پہلے دوستی کی اور پھر سہانے خواب دکھانا شروع کر دیے۔ اس نے آپ کو بھاگ کر شادی کرنے پر مجبور کیا۔ وہ گھر پر رشتہ لے کربھی آسکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ ایک دن اس کی باتوں میں‘ اس کے بہکاوے میں آ کر آپ اپنے گھر کی دہلیز پھلانگ گئی۔ اُن ماں باپ کو چھوڑ گئی جنہوں نے آپ کو پیدا کیا‘ آپ کی پرورش کی۔ پتا ہے کہ وہ کتنا روئے تھے؟ انہیں لگا کہ آپ کو اغوا کرلیا گیا ہے‘ وہ دیوانہ وار پولیس

اور تھانے کے چکر کاٹ رہے تھے۔ پھر آپ کی خبر دوسرے شہر سے موصول ہوئی۔ اب لوگ ان کامذاق اڑا رہے تھے‘ ان کی پرورش پر انگلی اٹھا رہے تھے۔ آپ کے والدین نے تو آپ کی پرورش حلال کے لقموں سے کی تھی مگر آپ نے ان کو پوری دنیا کے سامنے تماشا بنادیا۔ مجھے معلوم ہے کہ والدین تھوڑے سخت ہوتے ہیں‘ اتنی جلدی مانتے نہیں کہ پسند کی شادی کی جائے مگر آپ تھوڑا لاڈ‘ ضد اور ان کی خدمت کرتے تو وہ آپ کی یہ خواہش بھی پوری کردیتے۔ انہوں نے فون آپ کو اس لیے لے کر دیا تھا کہ آپ ان کے ساتھ رابطے میں رہیں‘ آپ کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے‘ اس لیے نہیں کہ آپ دوسرے شہروں کے لڑکوں کے ساتھ دوستیاںکریں اور پھر ایک دن گھر والوں کو روتا چھوڑ کر چپکے سے گھر چھوڑ جائیں۔

پیارے بچو! آپ نے کہا کہ آپ گھر سے کوئی قیمتی سامان نہیں لے کر گئے مگر صرف سونایا پیسے ہی قیمتی نہیں ہوتے‘ آپ اپنے والدین کی عزت‘ سکون‘ پیار اور ان کی اولاد کو ان سے چھین کر لے گئے ہیں۔ وہ آپ کے لیے رو رہے تھے‘ سڑکوں پر بھٹک رہے تھے کہ آپ کو کسی نے مار تو نہیں دیا اور آپ نے ان کے بنا ہی شادی کرلی۔ آپ کی شادی اور کیریئر ہی ان کا سب سے بڑا خواب تھا۔ ایک شخص‘ جس کو آپ سوشل میڈیا پر ملے‘ اتنا اہم کیسے ہو گیا کہ ماں باپ‘ سب پرائے ہوگئے‘ اپنا ہی گھر برا ہو گیا؟ ایسے نہیں کرتے! اپنی وقتی خوشی کے لیے ماں باپ کو روگ نہیں دیتے۔ ان کو معاشرے کے سامنے رسوا نہیں کرتے اب سب ان کو طعنے دیں گے اور وہ ساری زندگی لوگوں کے طنز کو جھیلتے رہیں گے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی آپ کو ریپ کرکے مار نہیں گیا‘ آپ زندہ مل گئے مگر اپنے والدین کو آپ نے اپنی اس حرکت سے زندہ درگور کر دیا ہے۔

جمعہ، 29 اپریل، 2022

وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے خلاف کیس کا فیصلہ سنا دیا، وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو 5 سال میں سود سے پاک نظام نافذ کرنے کا حکم 

وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے خلاف کیس کا فیصلہ سنا دیا، وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو 5 سال میں سود سے پاک نظام نافذ کرنے کا حکم
وفاقی شرعی عدالت پاکستان نے حکومت کو 5 سال میں سود سے پاک نظام نافذ کرنے کا حکم 

 وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے خلاف کیس کا فیصلہ سنا دیا، وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو 5 سال میں سود سے پاک نظام نافذ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ 31 دسمبر 2027ء تک ربا سے مکمل پاک نظام ملک میں نافذ کیا جائے۔
’’ملک سے ربا کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہو گا‘‘
وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے خاتمے کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا، وفاقی شرعی عدالت کے جسٹس ڈاکٹر سید انور نے فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ تمام علماء اور اٹارنی جنرل کو سنا، ربا کو پاکستان میں ختم ہونا چاہیے، پاکستان جیسی اسلامی ریاست کا معاشی نظام سود سے پاک ہونا چاہیے، ملک سے ربا کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہو گا، پاکستان میں پہلے سے کچھ جگہوں پر سود سے پاک نظامِ بینکاری موجود ہے، حکومت اندرونی و بیرونی قرضوں اور ٹرانزیکشنز کو سود سے پاک بنائے۔

’’دو دہائیوں بعد سود سے پاک نظام کیلئے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے‘‘

عدالت نے 318 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا ہے کہ آرٹیکل 38 ایف پر عمل درآمد ہوتا تو ربا کا خاتمہ دہائیوں پہلے ہو چکا ہوتا، اسٹیٹ بینک کے اسٹریٹجک پلان کے مطابق 30 فیصد بینکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی ہے، اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے لیے 5 سال کا وقت کافی ہے، توقع ہے کہ حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی، دو دہائیوں بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں ویسٹ پاکستان منی لانڈر ایکٹ، انٹرسٹ ایکٹ 1839ء اور سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو شریعت کے خلاف قرار دے دیا۔

وفاقی شرعی عدالت کا فیصلے میں کہنا ہے کہ سود سے پاک نظامِ بینکاری کا اطلاق ممکن ہے، اسلامک بینکنگ اور سود سے پاک بینکاری نظام دو مختلف چیزیں ہیں، ربا کا خاتمہ اسلامی نظام کی بنیاد ہے، کسی بھی طرح کی ٹرانزیکشن جس میں ربا شامل ہو وہ غلط ہے، ربا کا خاتمہ اور اس سے بچاؤ اسلام کے عین مطابق ہے۔

وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ قرض سمیت کسی بھی صورت میں لیا گیا سود ربا میں آتا ہے، حکومت کی جانب سے اندرونی یا بیرونی قرضوں پر سود دینا ربا میں آتا ہے، ربا کی مکمل ممانعت ہے، حکومت اندرونی و بیرونی قرضوں اور ٹرانزیکشنز کو سود سے پاک بنائے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت بین الاقوامی اداروں سے ٹرانزیکشن سود سے پاک بنائی جائے۔

فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت کا کہنا ہے کہ اس پر متفق ہیں کہ اسلامک بینکنگ مکمل طور پر مختلف ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے دیے گئے مؤقف سے متفق نہیں ہیں، ربا اسلام، قرآن و سنت کے تحت ممنوع ہے، بینکنگ میں شرح سود ربا ہے، اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اور استحصال کے خلاف ہے، ملک سے ربا کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہو گا۔

’’چین بھی سود سے پاک بینکاری کی طرف جا رہا ہے‘‘

وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے، بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے، بینکوں کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے، قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو اس پر لاگو انٹرسٹ ربا کہلائے گا، چین بھی اسلامی شرعی نظام کے مطابق سود سے پاک بینکاری کی طرف جا رہا ہے۔

اپنے فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے کہا ہے کہ حکومت بینکنگ سے متعلق انٹرسٹ کا لفظ ہر قانون سے نکالے، حکومت کے وہ تمام قوانین جن میں سود کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کو فوری خارج کیا جائے، وہ تمام قوانین جن میں سود کا لفظ استعمال ہوا ہے اسلامی شریعت کے منافی قرار دیے جاتے ہیں، یکم جون سے تمام وہ شقیں جن میں سود کا لفظ موجود ہے وہ کالعدم تصور ہوں گی۔

وفاقی شرعی عدالت کا فیصلے میں یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت فوری طور پر سودی نظام کے خاتمے کے اقدامات کرے، اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ سودی نظام کے خاتمے میں وقت لگے گا، سپریم کورٹ شریعت ایپلٹ بینچ نے 2001ء میں سودی نظام کے خاتمے کے حکم پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا، عدالت کو بتایا جائے کہ سودی نظام کے خاتمے کی قانون سازی کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ اسلامی بینکاری نظامِ استحصال کے خلاف اور رسک سے پاک ہے۔


Judgment on Riba ( Shariat Petition No.30-L of 1991 &

All other 81 connected matters relating to Riba/Interest)Date of Decision: 

28.04.2022

دربار رسول مسجد نبوی کا ادب

جمعہ کی مبارکباد کے حوالے سے اختلاف رائے

جمعہ کی مبارکباد کہنے کے حوالے سے اختلاف رائے


جمعہ کی مبارکباد کے حوالے سے دو مختلف تحریریں سوشل میڈیا پر اکثر پڑھنے کو ملتی ہیں۔

پہلی تحریر یہ ہے:

*جُمعہ مُبارک کہنے کی بِدعت* 

 *تحریر مولانا مفتی تقی عثمانی* 


 آج سے 50 سال بعد نئی نسل میں جُمعہ کی مُبارک دینا ایک لازمی قسم کا رواج بن چُکا ہو گا۔

اور مزید پچاس ساٹھ سال میں اِسے ایک سُنت یا فریضےکےطور جانا جاٸے گا۔

اُسوقت جو لوگوں کو بتائے گا کہ یومِ جُمعہ کی مُبارکباد دینا نہ تو سُنت ہے نہ فرض، بلکہ اُسے ایسا سمجھنا بِدعت ہے، کیونکہ ایسا کرنا قرآن و حدیث اور صحابہ سے ثابت نہیں ہے،

 تو لوگ اُس سے کہیں گے تُم عجیب باتیں کر رہے ہو، ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے اور اُنکے عُلماء بھی اُنکو منع نہیں کرتے تھے تو تُم اُن عُلماء سے زیادہ علم رکھتے ہو ؟ 

بلکہ تُم نئی بات کر رہے ہو،، 

وہ شخص اُس دور کا وہابی کہلائے گا اور بزرگوں کا گستاخ ٹھہرے گا حالانکہ حق پر ہو گا ہماری آنکھوں کے سامنے سوشل میڈیا کی اِیجاد کے بعد پروان چڑھنے والی اَن گنت ایسی بِدعات اور خُود ساختہ خرافات اور موضوعات کی حوصلہ شکنی کیجیے اور اپنے آپ کو اور آئندہ نسل کو بِدعات سے بچائیے

 اگر یومِ جُمعہ کی مُبارک دینا مستحسن کام ہوتا تو رَسُول اَللہ صَلّ اَللہ عَلیّہ وَآلہِ وَسَّلِم ضرور بہ ضرور اِسکا حُکم دیتے اور صحابہ کرام اُسے ضُرور اپناتے کیونکہ وہ دین کی سمجھ اور نیک عمل کی محبت میں یقیناً ہم سے آگے تھے۔


 *وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ.* 

اور ہماری ذمہ داری اِس سے زیادہ نہیں ہے کہ صاف صاف پیغام پہنچا دیں۔


دوسری تحریر یہ ہے جو جواب میں بھیجی جاتی ہے۔


 جمعہ کےدن کی مبارک باد دینا بالکل جائز ہے کیونکہ: 

پہلی بات تو یہ کہ شریعت نے اس سے منع نہیں کیا اور جس کام سے شریعت منع نہ کرے وہ بالکل جائز ہوتا ہے, 

جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے:👇 

*("اَلْحَلاَلُ مَااَحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَالْحَرَامُ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَمَاسَکَتَ عَنْہُ فَھُوَمِمَّاعَفَاعَنْہٗ")* 

یعنی حلال وہ ہے جسے اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی اختیار فرمائی (یعنی منع نہ فرمایا) وہ معاف ہے 

(یعنی اس کے کرنے پر کوئی گناہ نہیں)۔ 

*📕{جامع ترمذی ابواب اللباس باب ماجاءفی لبس الفراء ،سنن 

*🖋دوسری بات👇* 

 جمعہ کا دن ہمارے لیۓ مبارک اور اچھا ہے اور مبارک و اچھی بات کی مبارک باد دینا، اس کی اصل صحیح حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے چنانچہ: 

"معراج کی رات جب نبی پاک ﷺکا گزر آسمانوں سے ہوا تو انبیاءکرام علیٰ نبیناوعليهم الصلاة والسلام نے آپ ﷺ کو معراج پر مبارک باد پیش کی۔👇  

*{کمافی کتب الاحادیث مشھور}*

لہذاثابت ہوا کہ جمعہ کے دن کی مبارک باد دینا بالکل درست وجائز ہے. 

*واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وﷺ*

جمعہ کی مبارک باد کے حوالے سے کچھ باتیں جو سمجھنے اور یاد رکھنے کی ہیں:

بدعت کی تعریف اور اقسام:

جمعہ کی مبارکباد کو بدعت کہنے والوں کے نزدیک بدعت کچھ یوں ہے:
بدعت شرعی کی دو قسمیں ہیں ایک بدعتِ اعتقادی اور دوسری بدعتِ عملی، اعتقادی بدعت یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ ایسے عقائد ونظریات اختیار کرے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کے عقائد کے خلاف ہوں جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ، حاضر وناظر اورمختار کل ہیں، اسی طرح شیعہ خوارج معتزلہ قدریہ اور جبریہ وغیرہ گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ یہ سب اعتقادی بدعات ہیں اور یہ سب فرقے شرعی اصطلاح میں اہل بدعت ہیں، اصولِ حدیث کی کتابوں میں ان کے لیے یہی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، اور عملی بدعت یہ ہے کہ عقیدہ تو درست ہو اور ایسے اعمال اختیار کرے کہ جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین سے منقول نہیں ہیں جیسے مزاروں (قبروں) کو پختہ بنانا ان پر گنبد تعمیر کرنا اور قبروں پر چراغ روشن کرنا وغیرہ“۔ (محاضرہٴ علمیہ ص۳۱، جز نمبر۲)
جائز کہنے والوں کے حوالے سے بدعت کچھ ایسی ہے:

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: مَنْ اَحْدَثَ فِيْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ یعنی جس نے ہمارے اس دین میں ایسا طریقہ ایجاد کیا جس کا تعلّق دین سے نہیں ہےتو وہ مَرْدُود ہے۔(بخاری،ج2،ص211،حدیث:2697)
 ہر وہ نیا کام کہ جس کو عبادت سمجھا  جائے حالانکہ وہ شریعتِ مطہّرہ کے اُصولوں سے ٹکرا رہا  ہو یا کسی سنّت، حدیث کے مخالف ہو تو وہ کام مَرْدُود (یعنی قبول نہ ہونے والا) اور محض باطل ہے۔البتہ اس میں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ جو چیز شریعت کے دلائل سے ثابت ہو یا دینِ اسلام کے اُصولوں کے خلاف نہ ہو، تو وہ مَردُود نہیں اور نہ اس حدیث کے تحت داخل ہے، چنانچہ  علّامہ عبدُ الرَّؤوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1031ھ) اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: ”اما ما عضده عاضد منه بان شهد له من ادلة الشرع او قواعده فليس برد بل مقبول كبناء نحو ربط و مدارس وتصنيف علم وغيرها“ ترجمہ: جو چیز دین کے لئے  مددگار ہواورہوبھی کسی دینی قانون وضابطےکےتحت، وہ مَردُود نہیں ہے، بلکہ وہ مقبول ہے، جیسا کہ سرحدوں کی حفاظت کے لئے قلعے بنانا، مدارس قائم کرنا اور علم کی تصنیف کا کام کرنا وغیرہ وغیرہ۔(فیض القدیر ،ج 6،ص47،تحت الحدیث:8333)

بنیادی طور پر بدعت کی دو قسمیں ہیں : (1) بدعتِ حسنہ: ایسا نیا کام جو قراٰن و حدیث کے مخالف نہ ہو اور مسلمان اسے اچھا جانتے ہوں، تو وہ کام مَردُود اور باطِل نہیں ہوتا۔ مثلاً: اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے قلعے بنانا، مدارس قائم کرنا اور عِلمی کام کی تصنیف کرنا وغیرہ وغیرہ  (2)بدعتِ سَیِّئَہ: دین میں ایسا نیا کام کہ جو قراٰن و حدیث سے ٹکراتا ہو۔ مذکورہ بالا حدیثِ پاک میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ مثلاً:اُردو میں خُطْبہ دینا یا اُردو میں اذان دینا وغیرہ، جیسا کہ بدعت کی تقسیم کرتے ہوئے علّامہ بَدْرُ الدِّین عینی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 855ھ) فرماتے ہیں:ثم البدعۃ علی نوعین: ان کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی مستقبحۃ‘‘ ترجمہ: بدعت کی دو قسمیں ہیں: (1)اگر وہ شریعت میں کسی اچھے کام کے تحت ہو، تو بدعتِ حسنہ ہوگی۔ (2)اگر شریعت میں کسی قبیح امر (بُرے کام) کے تحت ہو، تو بدعتِ قَبیحہ یعنی سیئہ ہو گی۔ (عمدۃ القاری،ج 8،ص245، تحت الحدیث:2010) جبکہ علّامہ ابنِ حَجر عَسْقَلانیرحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 852ھ) فرماتے ہیں: ”قال الشافعی البدعۃ بدعتان محمودۃ ومذمومۃ فما وافق السنۃ فھو محمودۃ وما خالفھا فھو مذموم ترجمہ:امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:بدعت دو اقسام پرمشتمل ہے: (1)بدعتِ محمودہ یعنی حَسَنہ اور (2)بدعتِ مَذْمُومہ یعنی سَیِّئہ۔جو سنّت کے موافق ہو، وہ بدعتِ محمودہ (جس کی تعریف ہویعنی اچھی) اور جو سنّت کے خلاف ہو، وہ بدعتِ مَذْمومہ(جس کی مذمت کی جائے یعنی بُری) ہے۔(فتح الباری،ج14،ص216،تحت الحدیث:7277)

بدعت کی یہی دو قسمیں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےاس فرمان سے بھی ماخوذ ہیں: ’’مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَایَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ عَلَیْہِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَا یَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْءٌ“ ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا کام جاری  کیا اور اُس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کی طرح اَجْر ملے گا اورعمل کرنے والوں  کے اَجْر و ثواب میں بھی  کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ نکالااور اُس کے بعد اُس پرعمل کیا گیا تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کی مانند گناہ   ملے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہ کی جائے گی۔( مسلم،ص394،حدیث:2351)

بدعتِ سیّئہ کی ایک پہچان

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّممَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَۃً فِی دِیْنِھِمْ اِلَّا نَزَعَ اللہُ مِنْ سُنَّتِھِمْ مِثْلَھَا‘‘ ترجمہ:کوئی قوم کسی بدعت کو ایجاد کرے، تو اللہ پاک اس کی مثل سنت کو اٹھا دیتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ج1،ص56،حدیث:188) مُحدّثِ کبیر حضرت علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1014ھ) اس حدیثِ پاک میں مذکور لفظ ’’بدعت‘‘ کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’ای سیئۃ مزاحمۃ لسنۃ‘‘ ترجمہ: یعنی اس سے مراد بدعت سیئہ (بُری)ہے جو کسی سنّت کے مخالف ہو۔(مرقاۃ المفاتیح،ج1،ص433،تحت الحدیث:188)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ  علیہ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ”لَیسَ مِنہُ“ کی شَرْح میں فرماتے ہیں:  ”لَیسَ مِنہُ سے مراد قرآن و حدیث کے مخالف، یعنی جو کوئی دین میں ایسے عمل ایجاد کرے جو دین یعنی کتاب و سنّت کے مخالف ہوں جس سے سنّت اُٹھ جاتی ہو وہ ایجاد کرنے والا بھی مَرْدُود ایسے عمل بھی باطل جیسے اُردو میں خطبہ و نماز پڑھنا، فارسی میں اذان دینا وغیرہ۔ “(مراٰۃ المناجیح ،ج1،ص146)

بدعتِ حسنہ کی چند مثالیں

ایسا اچھا نیا کام جو شریعت سے ٹکراتا نہیں ہے، اس کی بہت ساری مثالیں ہیں، جن میں سے پانچ یہ ہیں: (1)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قراٰن  پاک کو ایک جگہ جمع کروایا اور اس کی تکمیل حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوئی (2) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت شروع کروائی (3) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں جمعہ کی اذانِ ثانی شروع ہوئی (4) قراٰنِ پاک میں نقطے اور اِعراب حجاج بن یوسف کے دور میں لگائے گئے۔ (5)مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کے لئے محراب ولید مَرْوانی کے دور میں سیّدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے ایجاد کی تھی۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے ایسے کام ہیں، جو نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دورِ مبارک میں نہیں تھے، بعد میں ایجاد ہوئے، تو یہ سارے کے سارے کام کیا مَرْدُود اور باطل ہیں؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔

سنت اور بدعت کے علاوہ شرعی احکامات میں ایک تیسرا حکم مباح بھی ہے۔ جائز کا لفظ عموما مباح کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ اگر جمعہ کی مبارکباد کو اس نظر سے دیکھا جا تو معاملہ عدم برداشت کی طرف نہیں جاتا۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مباحات میں تشدد جائز نہیں یعنی اختیار کرنے والے کو بزور قوت روکنا اور نہ کرنے والے کو بزور قوت منع کرنا، دونوں غلط ہیں۔ مباح کو لازم سمجھنا کسی وقت سنت کے ترک کا باعث بن سکتا ہے جو بدعت کے زمرہ میں آتا ہے۔ لہذا مباح امور میں بحث سے پرہیز بہتر ہے۔

مباح:

جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اسے لغت میں مباح کہتے ہیں، جیسا کہ کہا گیا ہے :

ولقد أبحنــا ما حميـت ولا مبيح لما حمينا

ترجمہ: یقیناً ہم نے اس کو حلال (مباح)کرلیا جس کی حفاظت کرنے کی تو نے کوشش کی اور جس کی ہم حفاظت کریں اس کو کوئی حلا ل نہیں کرسکتا۔

اصطلاح میں ہر اس خطاب کو مباح کہتے ہیں جس میں کام کرنے یا چھوڑنے کے درمیان اختیار ہو، لہٰذا نہ تو کام کرنے پر کوئی ثواب ہواور نہ چھوڑنے پر کوئی گناہ ہو، جیسا کہ کھانا، پینا، سونا،ٹھنڈک حاصل کرنے کےلیے نہانا۔

ایسا اس وقت تک ہوتا ہے جب تک اس میں نیت کو دخل نہ دیا جائے لیکن اگر مباح کام کرتے وقت نیکی کی نیت کرلی جائے تو اس کا اجر ضرور ملے گا۔


جمعہ کے دن کیے جانے والے مسنون و مستحب اعمال (سنت اور مستحب)

جمعہ کے دن درج ذیل امور مسنون ومستحب ہیں:

(۱)غسل کرنا۔(۲)مسواک کرنا۔(۳)خوشبو لگانا۔( ۴)عمدہ لباس پہننا۔( ۵)تیل لگانا۔ فا لمستحب فی یوم الجمعة لمن یحضر الجمعة ان یدہن ویمس طیبا ویلبس احسن ثیابہ ان کان عندہ ذالک ویغتسل ،لان الجمعة من اعظم شعائر الاسلام،فیستحب ان یکون المقیم لہا علی احسن وصف(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع: ۱ / ۴۰۶) ( ۶)نماز فجر میں امام کا سورہ سجدہ اور سورہ دہر کی تلاوت کرنا-(۷)نماز جمعہ کے لئے پیدل جانا-(۸)جمعہ کے لئے مسجد میں جلدی جانا-(۹)امام کے قریب بیٹھنا-(۱۰)جمعہ کے خطبے کو خاموشی کے ساتھ سننا-(۱۱)نماز جمعہ میں امام صاحب کا سورہ اعلی اور سورہ غاشیہ یاسورہ جمعہ اور سورہ منافقین کی تلاوت کرنا۔ عن ابن عباس انہ قال :"سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقرأ فی صلاة الجمعة فی الرکعة الاولی سورةالجمعة،وفی الثانیة :سورة المنافقین(بدائع الصنائع:۱ /۶۰۳/ ط زکریا دیوبند)۔( ۱۲)جمعہ کے دن درود پاک کثرت سے پڑھنا ۔اکثرو الصلاة علی یوم الجمعة فانہ مشہود یشہد ہ الملائکة الخ(مشکوة شریف:۱/ ۱۲۱) (۳۱)جمعہ کے دن دعا مانگناخاص کر دونوں خطبوں اور عصر سے مغرب کے درمیان واضح رہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان دعاصرف دل دل میں کی جائے ،زبان سے نہیں اور نہ ہی اس کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں ۔ فی الجمعة لساعة لا یوافقہا عبد مسلم یسأل اللہ تعالی فیہا خیرا الا اعطاہ ایاہ(مشکوة شریف:۱ /۱۱۹)التمسوا الساعة التی ترجی فی یوم الجمعة بعد العصر الی غیوبة الشمش(مشکوة شریف: ۱ / ۱۲۰) جہاں تک مسئلہ ہے کہ جمعہ کے دن کون سی سورت کی تلاوت کرنا افضل ہے ،تو جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کرناافضل ہے احادیث شریفہ میں اس کے بڑے فضائل مذکور ہیں؛چنانچہ نبئ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے روز سورہ کہف پڑھے وہ اگلے آٹھ دن تک ہر فتنہ سے محفوظ رہے گا،حتی کہ اگر دجال نکل آئے تو اس کے فتنے سے بھی محفوظ رہے گا۔من قرأ سورة الکہف یوم الجمعة فہو معصوم الی ثمانیة ایام من کل فتنة وان خرج الدجال عصم منہ(ابن کثیر عن الحافظ المقدسی/ ۸۰۳)

اللہ کریم امت مسلمہ کو اتفاق و اتحاد نصیب فرمائے اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم