جمعہ، 24 اگست، 2018

اب بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ

گوگل کا CEO بھارتی (سندر پیچائی)
مائیکروسافٹ کا CEO بھارتی (ستیا ناڈیلا)
اڈوب کا CEO بهارتی (شانتو نرائن)
کوگزنیٹ کا سی ای او ، فرانسيسكو ڈی سو زا
نوکیا کا سی ای او ، راجیو سوری
گلوبل فاونڈیز کا سی ای او، سنجے کمار 
ہرمین انٹرنیشنل کا سی او، دنیش پالی وال
نیٹ ایپ کا سی ای او ، جورج کورین
پیسی کولا کی سی ای او، اندرا نوئے 
ماسٹر کارڈ کا سی ای او، اجے بانگا 
ڈی بی ایس کا سی ای او، پائیش گپتا 
ریکٹ بینکیزئر کا سی ای او، راکیش کپور
سی ای او کسی بھی کمپنی کا سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے- 
اسکے علاوہ کئی ہندو لوگ نائب سی ای او اور ڈائریکٹر جنرل کے عہدوں پر فائز ہیں-
لیکن ہمارے 22 کروڑ کے ہجوم کو ان باتوں سے کیا دلچسپ
؟
جس کی فی کس قیمت پانچ دس یا بیس ہزار روپے یا صرف ایک قیمے والے نان ہوگی- 
وہ نا صرف آلو یا چاند پر اللہ اور محمد کا نام ڈهونڈے گی بلکہ اس پیغام کو دس لوگوں سے شیئر کرنے پر آپکو جنت کی نوید بھی سنا دے گی
میاں نواز شدیف کا دوسرا دور حکومت تھا ہمارے ملک کے اک بڑے بزنس مین کے بیٹے کو امریکہ میں معلوم ہوا کہ مائیکروسافٹ کے مالک بل گیٹس پینتیس ملین ڈالر کی لاگت سے کسی ایشیائی ملک میں مائیکروسافٹ یونیورسٹی ایڈوانس ٹیکنالوجی لیب بنانا چاہتے ہیں اور ان کا نظر انتخاب پاکستان ہے مگر امریکہ میں موجود بھارتی لابی اس پروگرام کو بھارت لے جا رہی ہے تو اس نوجوان نے وطن کی محبت میں متحرک ہونے کا فیصلہ کیا اور مائکروسافٹ کے ایشائی ٹیم کے لیڈر سے بات کی کہ یہ منصوبہ پاکستان کو ہی ملنا چاہییے اس پر ٹیم لیڈر نے کہا کہ پاکستان میں چونکہ نقل سازی عام ہے اور پائیریسی کے متعلق کوئی موثر قانون سازی بھی نہیں کی گئی لہذا اگر پاکستان تحریری ضمانت دے کہ پائیریسی کے حوالے سے قانون سازی کی جائے گی تو ہم یہ یونیورسٹی پروگرام پاکستان میں لانچ کر سکتے ہیں نوجوان خوشی خوشی اک مہینے کا ٹائم لے کر پاکستان چلا آیا کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں
مگر نوجوان جب پاکستان پہنچ کر حکومتی دروازوں پر پہنچا تو معلوم پڑا کہ اپنے وزیراعظم کے پاس ملاقات کا وقت نہیں ہے وزیروں کے پاس بھی فرصت نہیں تھی کہ اک غیر ملکی کو تحریری ضمانت دیتے پھریں بیوروکریسی کو تو ویسے ہی ملکی مفاد کے منصوبوں سے دلچسپی نہیں تھی انہیں تو بڑے صاحب کے باتھ روم کی تزین و آرائش اور لاہور والے گھر جیسا شاور ڈھونڈنے کی ٹینشن تھی 
خیر ہفتہ دس دن کی دوڑ دھوپ کے بعد یہ نوجوان وفاقی وزیر ہمایوں اختر سے ملنے میں کامیاب ہو گیا تمام معاملہ سن کر ہمایوں اختر نے کہا کہ وفاقی وزیر احسن اقبال سے ملو اس پروجیکٹ کی متعلقہ وزارت کا قلمدان احسن اقبال کے پاس ہیں مزید کچھ دن خوار ہونے کے بعد احسن اقبال سے ملاقات ممکن ہوئی نوجوان نے بصد ادب تمام معاملہ گوش گزار کیا جسے سن کر وزیر صاحب موصوف نے فرمایا اگر بل گیٹس مجھے خط لکھے تو پھر یہ گارنٹی دی جا سکتی ہے
اب بندہ پوچھے کہ دنیا کا امیر ترین بندہ اگر پاکستان جیسے غریب ملک کو مفت میں اک انتہائی اہم یونیورسٹی دینا چاہتا ہے درخواست کرنے کی پوزیشن میں آپ ہیں یا وہ
اس کو کیا پڑی ہے کہ وہ خط لکھ کر قانون سازی کے متعلق درخواستیں کرے یہ اس کا کام ہے یا آپ کا
مگر وزیر صاحب نے نخوت بھرے لہجے میں یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ ہمیں سکھانے کی بجائے وہ کرو جو کہا گیا ہے
بے عزتی کرانے کے باوجود نوجوان چین سے نہ بیٹھا کیونکہ وہ اس منصوبے کی اہمیت سے آگاہ تھا مزید کچھ دن خوار ہونے کے بعد اسے اک خط دیا گیا جس میں اک ڈرائیکٹر صاحب نے بل گیٹس کو حکم دیا ہوا تھا کہ جونہی یہ خط ملے تو فوراً حاضر ہو جائیں تاکہ آپ کی درخواست پر ہمدردانہ غور کیا جائے
اب نوجوان کی ہمت جواب دے گئی یہ خط آج بھی اس نوجوان کے پاس موجود ہے ذرا سوچیں اگر یہ خط بل گیٹس کو دے دیا جاتا تو وہ ہمارے متعلق کیا سوچتا
نوجوان تو تھک ہار کر بیٹھ گیا مگر انڈین لابی متواتر کوششوں میں لگی رہی اور جب انہیں معلوم پڑا کہ اب لوہا گرم ہے تو اپنے بھارتی وزیر اعظم سے بل گیٹس کو فون کروا دیا جس نے نہ صرف ہر قسم کی ضمانت دینے کا وعدہ کیا بلکہ بل گیٹس کو بھارت آ کر خود اس کا افتتاح کرنے کی دعوت بھی دے ڈالی پھر دو ماہ بعد بل گیٹس نے بھارت جا کر نہ صرف یہ پروگرام لانچ کیا بلکہ سافٹ وئیر کی تعلیم کے لئے سو ملین ڈالر سالانہ دینے کا بھی اعلان کیا
بھارتیوں کے دن پھرے صرف دس سال کے قلیل عرصے میں ساڑھے دس لاکھ بھارتی امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہےتھے بلکہ اکیلے بھارتی شہر بنگلورو کی سالانہ آئی ٹی ایکسپورٹ اسی ہزار کروڑ ہو گئی
امریکیوں کے بعد سب سے گوگل استعمال کرنے والے ہندوستانی آج مائیکروسوفٹ اور دیگر بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں سی ای او سمیت دوسرے کلیدی عہدوں پر براجمان ہیں اور ان کمپنیز کے لیے بھارتیوں کو جاب دینا مجبوری بن چکا یے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بھارتیوں کو جاب نہ دی تو اک سال میں بھارتی ماہرین ہم سے بھی بڑی آئی ٹی کمپنیز کھڑی کر دیں گے اب بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کی تجربہ کار ٹیم پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں تو یہ صرف آپ کی خوش فہمی ہی ہے

تمام اساتذہ اور افسران بالا کے نام

تمام اساتذہ اور افسران بالا کے نام 

آن لائن سروس بک ۔
آن لائن سکول مینجمنٹ ۔
آن لائن ڈاک ۔
آن لائن ریکارڈ 
۔آن لائن ریٹائرمنٹ اور پنشن کا نظام ۔

دور حاضر میں جس طرح ہر محکمہ ہر چیز میں تبدیلی آ رہی ہے اور ہر چیز آن لائن ہو رہی ہے ۔ملازمین کی سہولت کے لئے سروس بک اور آرڈرز وغیرہ سزا جزا کا نظام ہر قسم کا سکول کا ریکارڈ مکمل طور پر آن لائن کیا جائے ۔
یہ ایک مختصر ترین وقت میں ہم بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں۔اسکے فوائد بے شمار ہیں۔اس کے اخراجات بھی بہت کم ہیں۔جس طرح ہم گوگل یا فیس بک پر اپنی پروفائل بناتے ہیں بالکل اسی طرح ہر استاد کی ایک آن لائن پروفائل ہو۔جس میں اسکا مکمل ریکارڈ موجود ہو۔پورا سکول کا ریکارڈ یہاں تک کہ آرڈر بک چھٹی کی درخواست سبھی کچھ آن لائن ہو ۔اس سے روز کی ڈاک روز دفتر میں حاضری وغیرہ سبھی کچھ منٹ میں حل ہو سکتا ہے 
اسکے فائدے بے شمار ہیں۔

1۔ٹائم مینجمنٹ 
2۔ فیول کا کم استعمال 
3۔خواتین کے لئے وقت کا بچاؤ 
4۔ مرد کے لئے وقت کا بچاؤ 
5۔ ریٹائرمنٹ کے وقت اور وفات پر صرف ایک پیپر نکالو اور مکمل کیس تیار کروا لو ۔
6۔ طلبہ کے لئے وقت میں اضافہ ۔
7۔مکمل کنٹرول ۔
8 ۔ UPE سروے 
9۔ ایڈمشن ان اوآوٹ 
10۔ سینٹرل کنیکٹ سسٹم ۔
11۔ روزانہ کی اپ ڈیٹ 
12۔ کلرک مافیا سے چھٹی 
13۔ کرپشن کا خاتمہ 
14۔رئیل ٹائم ڈائریکٹ انفارمیشن 
15 ۔ ایزی رابطہ 

اور بے شمار فوائد ۔

یہ کام مشکل نہیں بہت آسان ہے میں ایک مینجمنٹ کا پروفیشنل ہوتے ہوئے اپنی خدمات اللّه کی رضا کے لئے مفت وقف کروں گا ۔اگر گورنمنٹ چاہی تو میں اور ایک IT اسپیشلسٹ کی ٹیم اور مینجمنٹ کی ٹیم مل کر اس پر کام کر سکتے ہیں جس طرح بینک کا پرانا نظام مینجمنٹ کے نوجوان بدل سکتے ہیں اسی طرح ہم بھی کر سکتے ہیں ۔مگر صرف تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے ۔ 

محکمہ تعلیم میں بے شمار انجنیئر سوفٹ ویئر انجنیئر IT اسپیشلسٹ مینجمنٹ پروفیشنل موجود ہیں صرف تین سے چار ماہ میں ایک بہترین نظام بن سکتا ہے ۔

اگر کوئی اس بات سے متفق ہے تو نا صرف شیر کرے بلکہ دوست احباب سے بات ببھی کرے ۔

مانیٹرنگ سیل KPK کی ڈائری سے

مانیٹرنگ سیل KPK کی ڈائری سے 

پنجاب میں PTI کی حکومت آنے کے بعد کچھ ٹیچرز حضرات میں بےچینی پائی جاتی ہے۔اس ضمن میں سوچا کہ چونکہ ہم KPK والے PTI کی حکومت اور تعلیمی پالیسیوں کا 5 سالہ تجربہ رکھتے ہیں
اسلئے سوچا کہ آپ لوگوں کو اپنے تجربات سے آگاہ کروں۔
جیسا کہ مانیٹرنگ والوں کا پنجاب میں ٹیچرز کے ساتھ ہتک آمیز رویہ روا رکھا جاتا ہے۔اس قسم کا کوئی نظام 5 برس تک ہم پر نہیں لاگو کیا گیا۔
مانیٹرنگ سیل کا رکن اساتذہ کے ساتھ کوئی سروکار نہیں رکھتا ہے اسکا کام سکول لگنے کے 30 منٹ بعد اور چھٹی ہونے سے 30 منٹ پہلے تک سکول میں آنا ہے۔
مگر 
اس نے سکول میں آ کر چوکیدار کو اپنی شناخت کروا کر سیدھا #پرنسپل کے دفتر جانا ہے۔راستے میں کوئی استاد گراؤنڈ میں دھوپ میں بیٹھا ہوا ہے یا بچوں کے ساتھ کسی قسم کی گیم میں مشغول ہے تو اسکا کوئی کام نہیں ہے کہ مداخلت کرے۔۔۔
پرنسپل کے پاس جا کر وہ انکو سلام پیش کرے گا اور اس کے بعد ان سے ٹیچرز حاضری رجسٹر طلب کرے گا۔جن اساتذہ کی CL لگی ہوئی ہے انکی درخواستیں طلب کرے گا اور اپنے موبائل میں انٹری کرے گا۔
اگر ضروری سمجھے تو کسی استاد کو دفتر میں بلوا کر اپنی تسلی کرے گا۔یا اگر استاد تدریس میں مصروف ہو تو نائب قاصد کے ہاتھوں استاد کا شناختی کارڈ طلب کر کے چیک کر سکتا ہے۔
مگر کلاس روم میں مداخلت نہیں کر سکتا ہے۔نہ ہی کسی استاد کے ساتھ بدتمیزی نہیں کر سکتا ہے۔اکا دکا ایسے واقعات رونما ہوۓ ہیں۔مگر کئی جگہوں پر استاد نے جگہ پر ہی ٹھکائی کر کے حساب برابر کر دیا ہے۔باقی پر اساتذہ نے احتجاج کر کے مانیٹرنگ ٹیم سے معافی طلب کروئی ہے۔

اسکے علاوہ پرنسپل سے PTC فنڈ رجسٹر اسٹاک رجسٹر اور طلبہ کا حاضری رجسٹر لے کر اپنے پاس انٹری کرتا ہے
آخر میں وہ پرنسپل کو موبائل فون دیتا ہے وہ سب چیزوں کی تسلی کرتا ہے کہ آیا جو ریکارڈ میں نے فراہم کیا ہے وہی مانیٹرنگ والے نے انٹر کیا ہے۔اگر اس نے غلط لکھا ہے تو اس کو درست کرنے کیلئے واپس کر دیتا ہے۔وہ تصحیح کر کے دوبارہ دیتا ہے اور پرنسپل موبائل فون پر دستخط کر کے اسکو واپس کر کے اللّه حافظ کہہ دیتا ہے۔

بائیو میٹرک مشین اپنی جگہ پر حاضری کا کام کرتی ہے۔جبکہ مانیٹرنگ کے نمائندے کی ڈیوٹی صرف ریکارڈ اور یہ چیک کرنا ہوتا ہے کہ آیا اساتذہ مشین کے ساتھ انگلی کر کے واپس تو نہیں چلے جاتے ہیں۔اور چھٹی کے وقت پھر آ کر حاضری لگا کر اپنے گھروں کو خیر خیریت سے واپس تو نہیں لوٹ گئے ہیں۔

اسکے علاوہ KPK بھر میں AEO کے معنی تک کوئی نہیں جانتا ہے اور نہ ہی LND کو کوئی جانتا ہے۔خدا لگتی بات ہے مجھے بھی نہیں پتہ کہ LND کس چیز کو کہتے ہیں۔

جماعت پنجم و ہشتم کے امتحانات سکول بھی لیتا ہے بورڈ بھی لیتا ہے جب کہ رزلٹ سکول کے امتحان کو ہی تصور کیا جاتا ہے۔اور بورڈ امتحان کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔

گرلز اسکول میں صرف خاتون مانیٹرنگ کر سکتی ہے جبکہ بوائز سکول میں میل مانیٹرنگ کر سکتا ہے۔
کچھ احباب کہیں گے کہ KPK کے اساتذہ بہت کرب سے گزرے ہیں تو انکو بتاتا چلوں کہ کوئی کرب سے نہیں گزرے حرام خوری ختم ہوئی ہے چند حضرات نے اپنی جگہ 8ہزار روپے پر لڑکے رکھے ہوئے تھے اور خود بزنس کرتے تھے۔جو مانیٹرنگ کی وجہ سے سکول میں آنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور چیخیں مار مار کر ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ظلم کی حد یہ تھی کہ اساتذہ نے سوزوکیاں کیری کراکری کی دکانیں لی ہوئی تھی کئی افراد 10 بجے آتے اور 12 بجے گھر کو لوٹ جاتے تھے
#محمد_صدیق_سواتی

میں نور الدین زنگی بنوں گا

میں نور الدین زنگی بنوں گا۔۔۔۔۔ 
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم ۔۔۔
کیا اس دور کی ماوں نے نور الدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں ۔ آج پھر امت مسلمہ کو ایک عدد نور الدین زنگی کی تلاش ہے ۔ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی ایک ایسی تحریر جسے میں نے ایف اے میں پڑھا تھا آج پھر اس کوپڑھنے اور شٸیر کرنے کی ضرورت محسوس ہوٸی ۔اگر آپ کو بھی اچھی لگے تو پڑھ کرشٸیر کریں ۔مسکان رومی ۔
 یہ چھٹی یا ساتویں جماعت کا کمرہ تھا اور میں کسی اور ٹیچر کی جگہ کلاس لینے چلا گیا۔ تھکن کے باوجود کامیابی کے موضوع پر طلبا کو لیکچر دیا اور پھر ہر ایک سے سوال کیا ہاں جی تم نے کیا بننا ہے ہاں جی آپ کیا بنو گے ہاں جی آپ کاکیا ارادہ ہے کیا منزل ہے ۔ سب طلبا کے ملتے جلتے جواب ۔ ڈاکٹر انجینیر پولیس فوجی بزنس مین ۔ لیکن ایسے لیکچر کے بعد یہ میرا روٹین کا سوال تھا اور بچوں کے روٹین کے جواب ۔جن کو سننا کانوں کو بھلا اور دل کو خوشگوار لگتا تھا ۔لیکن ایک جواب آج بھی دوبارہ سننے کو نا ملا کان تو اس کو سننے کے متلاشی تھے ہی مگر روح بھی بے چین تھی ۔ عینک لگاۓ بیٹھا خاموش گم سم بچہ جس کو میں نے بلند آواز سے پکار کر اس کی سوچوں کاتسلسل توڑا ۔ہیلو ارے میرے شہزادے آپ نے کیا بننا ہے۔ آپ بھی بتا دو ۔کیا آپ سر تبسم سے ناراض ہیں۔ 
بچہ آہستہ سے کھڑا ہوا اور کہا سر میں نور الدین زنگی بنوں گا ۔ میری حیرت کی انتہإ نا رہی اور کلاس کے دیگر بچے ہنسنے لگے ۔ اس کی آواز گویا میرا کلیجہ چیر گٸی ہو ۔ روح میں ارتعاش پیدا کر دیا ۔پھر پوچھا بیٹا آپ کیا بنو گے ۔ سر میں نور الدین زنگی بادشاہ بنوں گا ۔ ادھر اس کاجواب دینا تھا ادھر میری روح بے چین ہو گٸی جیسے اسی جذبے کی اسی آواز کی تلاش میں اس شعبہ تدریس کواپنایا ہو ۔ 
بیٹا آپ ڈاکٹر فوجی یا انجینیر کیوں نہیں بنو گے ۔ 
سر امی نے بتایا ہے کہ اگر میں نور الدین زنگی بنوں گا تو مجھے نبی پاک ﷺ کا۔دیدار ہو گا جو لوگ ڈنمارک میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کررہے ہیں ان کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بچے کی آواز بلند اور لہجے میں سختی آرہی تھی ۔اس کی باتیں سن کر۔میرا جسم پسینہ میں شرابور ہو گیا ادھر کلاس کے اختتام کی گھنٹی بجی اور میں روتا ہوا باہر آیا ۔
مجھے اس بات کااحساس ہے کہ آج ماوں نے نور الدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں اور اساتذہ نے نور الدین زنگی بنانا چھوڑ دیے ہیں ۔ میں اس دن سے آج تا دم تحریر اپنے طلبا میں پھر سے وہ نور الدین زنگی تلاش کر رہاہوں ۔۔کیا آپ جانتے ہیں وہ کون ہے اس ماں نے اپنے بیٹے کو کس نورالدین زنگی کا تعارف کروایا ہو گا یہ واقعہ پڑھیے اور اپنے بچوں میں سے ایک عدد نور الدین زنگی قوم کو دیجیے۔ایک رات سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللّه علیہ عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ بیٹھے۔
اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقا دوعالم ﷺ کو کون ستا رہا ہے .
آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آ رہا تھااور آج پھر چند لمحوں پہلے انھیں آیا جس میں سرکار دو عالم نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں.
اب سلطان کو قرار کہاں تھا انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا .اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ ٢٠-٢٥ دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کیئے یہ راستہ ١٦ دن میں طے کیا. مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے اور جانے کے تمام راستے بند کرواے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا.
اب لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے ، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپکو وہ چہرے نظر نہ آے اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں .جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسول کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں . تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیح میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ، جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں.
سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزار لگتے تھے. انکے گھر میں تھا ہی کیا ایک چٹائی اور دو چار ضرورت کی اشیاء.کہ یکدم سلطان کو چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا. آپ نے چٹائی ہٹا کے دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی.
آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا .وہ سرنگ میں داخل ہویے اور واپس اکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاک صلی اللہ علیھ والہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف جاتی ہے،
یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت تری ہوگئی .آپ نے دونوں زائرین سے پوچھا کے سچ بتاؤ کہ تم کون ہوں.
حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ یہودی ہیں اور اپنے قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کے گئے ہیں. سلطان یہ سن کر رونے لگے ، اسی وقت ان دونوں کی گردنیں اڑا دی گئیں.
سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ
💞"میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا"💞
اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کہ لیے خاتمہ کیا جاۓ سلطان نے معمار بلاۓ اور قبر اقدس کے چاروں طرف خندق کھودنے کا حکم دیا یہاں تک کے پانی نکل آے.سلطان کے حکم سے اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا گیا.💞
بعض کے نزدیک سلطان کو سرنگ میں داخل ہو کر قبر انور پر حاضر ہو کر قدمین شریفین کو چومنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔💞
تحریر لمبی ضرور ہے مگر آپ کو۔پسند آٸی توعشق آقا کےواسطے اسے شٸیر کیجیے گا ۔ اس تحریر کو کاپی کرتے ہوئے آگے بڑھائیے۔اچھی بات اگے پھیلانا بھی صدقہ ہے شکریہ.

🇵🇰چیف جسٹس سے اپیل🇵🇰

🇵🇰چیف جسٹس سے اپیل🇵🇰
پاکستان اج دنیا کا دوسرا سب سے ذیادہ porn فلمیں دیکھنے والا ملک بن گیا ہے
جب کے ہماری قوم کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے 
دنیا کفر اس قوم کو بدنام کرنے پے متحد ہو چکے ہے

یے ان کا 5 جنریشن وار کا ایک ہربہ ہے
اج ہم جس فوج اور ائ ایس ائ پر ناذ کرتے ہے وہ ان کا مستقبل برباد کرنا چاہتے ہے

Porn ویڈیوذ کے معاشرے پر اثرات
1:بےاولاد افراد کا بڑھ جانا 
2:دماغی کینسر
3:طلاق کا بڑھ جانا
4: مثبت سوچ کا ختم ہو جانا
اور کم عمری میں بالغ ہو جانا
ہم جب شوشل میڈیا کے زریعے 
ڈیم بنوا سکتے ہے 
لوڈ ٹیکس ختم کروا سکتے ہے
زینب کو انصاف دیلوا سکتے ہے 
شوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف دنیا کفرکی چلنے و الی مہم بند کروا سکتے ہے 
تو 
ہم تمام porn سائٹ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے بند کروا سکتے ہے

اج سے پہلے اس چیز کو سلطان صلاح دین ایوبی نے مکمل بند کیا تھا 
قران پاک میں ارشاد ہے جس کا مہفوم ہے 
ً تم جن کی مشاہبت اختیار کرو گے انہی کے ساتھ شمار کے جاو گے ً
کیا پتا اپ کا ایک فارورڈ اپ کو سلطان کا سپاہی بنا دے
ہمارا مقصد:
تمام porn سا ئٹ پر ہمیشہ کے لیے پابندی کرنا ہے.

مسلمانوں کی یونیورسٹیاں

مسلمانوں کی یونیورسٹیاں
یاسر پیرزادہ

اگر آپ کے پاس اس وقت کرنےکے لئے کوئی کام نہیں تو کاغذ قلم پکڑیں اور چند بڑے شعبوں کے ماہرین کی فہرستیں بنانے کی کوشش کریں، جیسے کہ پاکستان کے نمایاں ریاضی دان، فلسفی، مورخ، ماہر ارضیات، سائنس دان، ماہر فلکیات اور بین الاقوامی قانون دان وغیرہ۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ اِن میں سے کسی بھی شعبے میں آپ مشکل سے دس بیس نام ہی تلاش کر پائیں گے یا شاید اتنے بھی نہ ملیں۔ اس کے برعکس اگر آپ پاکستان کے ٹی وی دانشور وں، مذہبی مبلغین، دفاعی امور کے تجزیہ نگاروں اور شاعروں کی لسٹ بنانے بیٹھیں تو کئی صفحات کالے ہو جائیں مگر نام ختم نہیں ہوں گے، اسی طرح ڈاکٹرز اور انجینئرز بھی کافی مل جائیں گے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے کہ اس کاداخلہ میڈیکل کالج یا انجینئرنگ یونیورسٹی میں کروا دیا جاتا ہے۔ فی الحا ل ہم دوسری اور تیسری فہرست والے لوگوں کو اِن کے ان کے حال پر چھوڑتے ہیں اور اپنی پہلی فہرست پر واپس آتے ہیں جس کے لئے ہمیں دس ناموں سے زیادہ افراد نہیں مل سکے تھے اور اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟

یہ درست ہے کہ کسی بھی معاشرے میں فلسفی، مورخ، سائنس دان یا ریاضی دان تھوک کے حساب سے دستیاب نہیں ہوتے مگر مہذب ممالک میں ایسا قحط الرجال بھی نہیں ہوتا جیسا اپنے ملک میں ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز یا کسی محکمے کے لئے قابل اور نامور افراد کاپینل بنانے کا مسئلہ درپیش ہو تو ایک سے دوسرا نام ہی ذہن میں نہیں آتا۔ ترقی یافتہ ممالک کی بات چھوڑیں، اپنے ہم پلہ ممالک کے مقابلے میں بھی ہمارا حال کچھ بہتر نہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ بیس کروڑ آبادی کا یہ ملک ان کلیدی شعبوں میں اتنا تنگ دست کیوں ہے؟ اور صرف بیس کروڑ کی بات کیوں کی جائے، اس دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے حصے کے سائنس دان، فلسفی اور ماہر فلکیات کہاں ہیں؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جن شعبوں کی ہم بات کررہے ہیں ان کے ماہرین یونیورسٹیوں میں پروان چڑھتے ہیں مگر بد قسمتی سے پاکستان میں بالخصوص اور مسلم دنیا میں بالعموم یونیورسٹیاں اس قابل نہیں کہ اس قسم کے ماہرین پیدا کر سکیں، وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں یونیورسٹیوں کا رواج ہی نیا ہے، خاص طور سے عرب ممالک میں جہاں کی تین چوتھائی جامعات بیسویں صدی کے آخری پچیس برس میں قائم ہوئیں!ایسے میں ان جامعات سے سائنسی یا سماجی علوم کے بین ا لاقوامی سطح کے ماہرین کی امید رکھنا ایسے ہی جیسے کسی عورت کی شادی کے پہلے ماہ کے اختتام پر ہی جڑواں بچوں کی پیدائش کی امید کرنا۔

ہر سال جب بھی جامعات کی بین الاقوامی درجہ بندی کی فہرست جاری ہوتی ہے تو ہم اس بات کا ماتم کرتے ہیں کہ پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی اس فہرست میں شامل نہیں۔ شیوخ الجامعات (وی سی صاحبان ) ہر مرتبہ ایک نئی تاویل لے کر سامنے آتے ہیں جس کے ذریعے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ دراصل وہ بہت قابل ہیں، ان کی یونیورسٹی بہت اچھی ہے، محدود ذرائع کے باوجود وہ نیوٹن اور ابن رشد پیدا کر رہے ہیں مگر یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں نام بنانے کیلئے لا محددو فنڈز کی ضرورت ہے جو ان کے پاس نہیں۔ یہ دلیل اس وزیر تعلیم پر تو اثر کر جاتی ہے جو خود ایسی ہی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ کچھ جامعات جو اس رینکنگ میں شامل ہیں اتنے ہی بجٹ میں کام کررہی ہیں جتنے بجٹ میں ہماری یونیورسٹیاں چلتی ہیں۔ پاکستان کی کیا بات کریں، مسلم امہ کی جامعات (جن میں سے بیشتر کو فنڈز کی کوئی کمی نہیں ) کا یہ حال ہے کہ پہلی چار سو یونیورسٹیوں میں صرف دس مسلم ممالک کی ہیں، پہلی سو میں ایک بھی نہیں!بین الاقوامی درجہ بندی کے اس طریق کار پر او آئی سی ممالک کو بھی اعتراض رہا ہے کہ اس میں زیادہ وزن تحقیق کو دیا جاتا ہے جبکہ دیگر اہم باتوں کو جن میں مسلم ممالک کی یونیورسٹیاں بہتر ہیں، نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لطیفہ مگر یہ ہے کہ او آئی سی ممبر ملکوں نے جامعات کی درجہ بندی کا اپنا نظام وضع کرنے کی کوشش کی مگر آپس میں کسی بات پر اتفاق نہ ہو سکا۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے !

اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمان ممالک (او آئی سی کے ممبران ) کی یونیورسٹیاں اپنی قومی پیداوار کا آدھا فیصد تحقیق پر خرچ کرتی ہیں جبکہ دنیا کی اوسط پونے دو فیصد سے زیادہ ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح اڑھائی سے تین فیصد ہے۔ ملائشیا وہ واحد اسلامی ملک ہے جو تحقیق پر ایک فیصد خرچ کر رہا ہے، سعودی عرب 0.07%، کویت اور انڈونیشیا 0.10%جبکہ پاکستان، اردن اور مصر تقریبا 0.41% تحقیق پر خرچ کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں جرنلز میں شائع ہونے والے تحقیقی مضامین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ دیکھنے آیا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ان میں اعلی معیار کا مقالہ شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے،مسلم دنیا میں لکھے گئے مقالوں کی بین الاقوامی سطح پر حوالے کے طور پر ’’کوٹ ‘ ‘ کئے جانے کی شرح شرمناک حد تک کم ہے۔ معیار نہیں، مقدار ہماری جامعات کا پیمانہ ہے۔ پاکستان میں نئی پرانی یونیورسٹیاں یوں کھولی جا رہی ہیں جیسے دودھ دہی کی دکان کھولی جاتی ہے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو یونیورسٹی بنا کر اس کے معیار کا بیڑہ غرق کر دیا، وہ کالج جہاں داخلہ ملنا خوش بختی کی معراج سمجھا جاتا تھا اب یونیورسٹی بننے کے بعد آوازیں دے کر لوگوں کو بلاتا ہے اور ڈپلومے بانٹتا ہے۔ گورنمنٹ کالج، لاہور کو یونیورسٹی بنا کر اس کا مضحکہ خیز نام گورنمنٹ کالج یونیورسٹی رکھ دیا گیا، اس کے علاوہ معیار میں کیا تبدیلی آئی یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ صرف صوبہ سندھ میں ہم اتنی میڈیکل یونیورسٹیاں کھول چکے ہیں جتنی ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہیں ۔ کیا نام کے ساتھ یونیورسٹی لگانے سے خود بخود اعلی تعلیم اور تحقیق یقینی ہو جاتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو تمام سرکاری اسکولوں کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دے دینا چاہئے تاکہ تعلیم کا مسئلہ تو یک جنبش قلم حل ہو جائے۔

مسلمان ممالک بشمول پاکستان انجینئرز بھی پیدا کر رہے ہیں اور آئی ٹی ایکسپرٹ بھی، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی مل جاتے ہیں اور ڈاکٹر ز بھی، مگر اس کے باوجود دنیا کی ترقی میں عملاً ہمارا کردار نہ ہونے کے برابر ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مسلم ممالک کی جامعات سماجی علوم پر توجہ نہیں دیتیں، آج کل کی دنیا کے مسائل کافی پیچیدہ ہو چکے ہیں جنہیں حل کرنے کے لئے محض تکنیکی علوم کافی نہیں بلکہ فلسفہ، عمرانیا ت اور تاریخ کا علم ہونا بھی ضروری ہے جبکہ ہمارا حا ل یہ ہے کہ سوشل سائنس میں وہ داخلہ لیتا ہے جسے ’’منفعت بخش مضامین‘‘ میں داخلہ نہیں مل پاتا اور یوں ہم ایسے ایم اے اسلامیات، ایم اے تاریخ اور ایم اے سوشیالوجی پیدا کرتے ہیں جن کی زندگی کا واحد مقصد کسی کالج میں لیکچرر شپ لے کر باقی زندگی بیوی کی خدمت میں گزارنا ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں مسلمان ممالک کے حصے میں صرف تین دفعہ سائنس کا نوبل انعام آیا، اڑھائی بالشت کا ملک اسرائیل سائنس میں چار نوبل انعام لے چکا ہے جبکہ یہودیوں کے حاصل کردہ نوبل انعامات کی فہرست دیکھنے کے لئے خود گوگل کریں اور مسلمانوں کا نوحہ پڑھیں ۔

تربیت زیادہ کارآمد یا ماحول

*وزیر کی جان پہ بنی ہوئی تھی، فقیر بات ہی نہیں سُن رہا تھا. اۤخر طویل مِنت سماجت کے بعد فقیر نے سر اٹھایا.*

ہاں بولو کیا کہنا ہے ؟

وزیر نے بتانا شروع کیا. 
ایک مہینہ پہلے ہمارے بادشاہ سلامت نے اچانک دربار میں ایک سوال اچھالا کہ کامیاب کردار کے لئے تربیت زیادہ کارآمد ہے یا ماحول ؟

 میرے ایک ہم منصب وزیر نے جھٹ کہا کہ عالی جاہ ! تربیت.  
جبکہ میں نے عجلت میں کہا جناب ! ماحول ، ماحول تربیت پر فوقیت رکھتا ہے. 

بادشاہ سلامت نے ہماری طرف رعونت سے دیکھا اور فرمایا تم دونوں کو اپنا اپنا جواب عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا جو ثابت نہ کر سکا اس کا سر قلم کر دیا جائے گا اور اس کے لئے ہمیں ایک ماہ کی مہلت دے دی. 

ہم دونوں اپنے جواب کی عملی تعبیر تلاشنے میں لگ گئے. میں سوچ سوچ کے پاگل ہونے کے قریب تھا مگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، کہ 24 دن بعد اچانک میرے ہم منصب وزیر نے میری موت کے پروانے پر دستخط کرتے ہوئے دربار میں اپنے جواب کو عملی طور پر ثابت کرنے کی اجازت چاہی. اجازت ملنے پر اس نے دربار میں کھڑے ہو کر تالی بجائی. تالی بجتے ہی ایک ایسا منظر سامنے آیا کہ بادشاہ سمیت تمام اہلِ دربار کی سانسیں سینہ میں اٹک گئیں. دربار کے ایک دروازے سے 10 بِلیاں منہ میں پلیٹیں لیے جن میں جلتی ہوئی موم بتیاں تھیں، ایک قطار میں خراماں خراماں چلتی دربار کے دوسرے دروازے سے نکل گئیں. نہ پلیٹیں گریں اور نہ موم بتیاں بجھیں. دربار تعریف و توصیف کے نعروں سے گونج اٹھا. میرے ہم منصب نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا:
حضور ! یہ سب تربیت ہی ہے کہ جس نے جانور تک کو اس درجہ نظم و ضبط کا عادی بنادیا. 

بادشاہ نے میری جانب دیکھا. 
مجھے اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی. میں دربار سے نکل آیا. تبھی ایک شخص نے آپ کا نام لیا کہ میرے مسئلے کا حل آپ کے پاس ہی ہوسکتا ہے. میں 2 دن کی مسافت کے بعد یہاں پہنچا ہوں. دی گئی مدت میں سے 4 دن باقی ہیں. اب میرا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے. 

فقیر نے سر جھکایا اور آہستہ سے بولا:
 واپس جاؤ اور بادشاہ سے کہو کہ 30 ویں دن تم بھرے دربار میں ماحول کی افادیت ثابت کرو گے. 

مگر میں تو یہ کبھی نہ کر سکوں گا ۔ وزیر نے لاچارگی سے کہا. 
اۤخری دن مَیں خود دربار میں آؤں گا۔ فقیر نے سر جھکائے ہوئے کہا. 
وزیر مایوسی اور پریشانی کی حالت میں واپس دربار چلا آیا. 

مقررہ مدت کا اۤخری دن تھا. دربار کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. وزیر کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا. سب کی نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھتی تھیں کہ اچانک ایک مفلوک الحال سا شخص اپنا مختصر سامان کا تھیلا اٹھائے دربار میں داخل ہوا. بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا:
وقت کم ہے، میں نے واپس جانا ہے. اس وزیر سے کہو تربیت کی افادیت کا ثبوت دوبارہ پیش کرے. 

تھوڑی دیر بعد ہی دوسرے وزیر نے تالی بجائی اور دوبارہ وہی منظر پلٹا. دربار کے دروازہ سے 10 بلیاں اسی کیفیت میں چلتی ہوئی سامنے والے دروازے کی طرف بڑھنے لگیں. سارا مجمع سانس روکے یہ منظر دیکھ رہا تھا. وزیر نے امید بھری نگاہوں سے فقیر کی طرف دیکھا. جب بلیاں عین دربار کے درمیان میں پہنچیں تو فقیر آگے بڑھا اور ان کے درمیان جا کے اپنا تھیلا اُلٹ دیا. تھیلے میں سے موٹے تازے چوہے نکلے اور دربار میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے. بلیوں کی نظر جیسے ہی چوہوں پر پڑی، انہوں نے منہ کھول دیے. پلیٹیں اور موم بتیاں دربار میں بکھر گئیں. ہر طرف بھگدڑ مچ گئی. بلیاں چوہوں کے پیچھے، لوگوں کی جھولیوں میں گھسنے لگیں. لوگ کرسیوں پر اچھلنے لگے. دربار کا سارا نظام درہم برہم ہوگیا. 

فقیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا :
*آپ کسی جنس کی جیسی بھی اچھی تربیت کر لیں، اگر اس کے ساتھ اسے اچھا ماحول فراہم نہیں کریں گے تو تربیت کہیں نہ کہیں اپنا اثر کھو دے گی ۔کامیاب کردار کے لیے تربیت کے ساتھ ساتھ بہتر ماحول بے حد ضروری ہے.*

اس سے پہلے کہ بادشاہ اسے روکتا، فقیر دربار کے دروازے سے نکل گیا تھا۔ 

*ہمارے ہاں ساری ذمے داری استاد کی تربیت پر ڈال دی جاتی ہے، گھروں کا کیا ماحول ہے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی.*

دوسرا رخ ۔ ۔ ۔ گر تو برا نہ مانے

*۰۰۰۰۰۰R e s u l t* ۰ ۰ ۰ ۰ ۰   
                
     *دوسرا رخ ۔ ۔ ۔ گر تو برا نہ مانے*

          گزشتہ تین دنوں سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر میٹرک پارٹ ون کا رزلٹ گردش کر رہا ہے، کسی کے بھائی نے 90% نوے فیصد نمبر حاصل کیے ہیں، کسی کا بیٹا 94% چورانوے فیصد نمبر لیے ہوئے ہے اور کسی کی صاحبزادی نے 90% نوے فیصد نمبر حاصل کیے ہیں۔۔۔۔ یہ سب طلباء ، ان کے والدین اور اساتذہ مبارکباد کے مستحق ہیں ، یقیناً انہوں نے محنت کی ہے جس کا ثمر آج پالیا ہے۔۔۔۔

اللہ پاک ان بچوں کے روشن مستقبل کو پاکستان کی سربلندی کا ذریعہ بنائے- 
  
  ہمدانی کا ناقص خیال ہے کہ ہمار ا امتحانی سسٹم کرپٹ ہو چکا ہے ۔ بوٹی مافیا اور نقل گینگز ایگزامز پر قابض ہیں ۔ UMC کرانے پہ اساتذہ مجبور ہیں۔ PEEDA کا خونخوار بھیٹریا روٹی روزی چھننے پہ تلا ہوا ہے۔ PEC. نے تو ٹیچرز کی عزت و وقار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ طالبعلم پاس ہو کے بھی عملاً فیل اور زیرو ہیں۔   
  ۔.         
   مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ پچھلے تین چار سالوں سے اچانک نئی نسل *آئن سٹائن* ہوگئی ہے    
                    یا 
ہمارے تعلیمی نظام میں مارکس بانٹے جارہے ہیں۔۔۔
پچھلے سال کبیر والا کی ایک لڑکی نے نویں جماعت میں 505 میں سے 504 نمبر حاصل کر کے بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کی۔۔۔اس نے اردو سمیت تمام سبجیکٹس میں سو فیصد نمبر حاصل کیے ،ماسوائے انگلش کے جس میں ایک نمبر کی کمی رہی۔۔۔ممکن *ہے یہ عالمی سطح کا ریکارڈ ہو جو باعث فخر ہوسکتا ہے لیکن میرے لیے یہ باعثِ فکر ہے۔*۔۔۔

نمبروں کی یہ " *بندر بانٹ*" میرٹ میں تشویشناک حد تک اضافہ کا باعث بن رہی ہےجس کی وجہ سے زیادہ نمبروں اور کم نمبر حاصل کرنے والے طلباء کے درمیان خلیج یعنی واضح فرق پیدا ہوچکا ہے۔۔۔

 یعنی اگر آپ پچاسی فیصد سے زائد نمبر حاصل نہیں کرتے تو آپ میرٹ کی دوڑ سے باہر ہوجاتے ہیں۔۔۔یہی نمبرز حاصل کرنے کی مشینیں عملی زندگی میں صفر Zero % او ر ان میں سے اکثریت سیدھے سادھے " لاجیکل سوالات" حل کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتے

 ۔۔۔میں اسے ہمارے بوسیدہ تعلیمی نظام کا شاخسانہ سمجھتا ہوں جس کی وجہ سے آدھی زندگی تعلیم میں کھپانے کے بعد آپ صرف اس وجہ سے صفر قرار دیے جاتے ہیں کیوں کہ آپ کے مقابلے میں کسی اور کے نمبرز زیادہ ہیں۔۔۔

*اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں* *اپنی تعلیمی نظام کے پیمانے بدلنا ہوں* *گے۔۔۔وگرنہ یہی صورتحال رہی تو نمبرز بڑھتے جائیں گے لیکن معیار تعلیم بدستور کم ہوتا جائے گا* ۔۔۔۔!!

بڑا گوشت اور ہندوستانی حکماء !

بڑا گوشت اور ہندوستانی حکماء !
::::::::::::::::::::::::::::::::::::

ہمارے ہاں کا مولوی ہو خواہ ڈاکٹر و انجینئر سب ہی "اکابر پرستی" کے معاملے میں لکیر کے فقیر ہیں۔ آپ نے اپنے ڈاکٹر سے کبھی نہ کبھی تو یہ سنا ہوگا کہ

"بڑے گوشت سے پرہیز کیجئے"

اس شگوفے کی ایک ایسی حقیقت معدے اور کولسٹرول کے علاج کے دوران کھلی کہ حیران رہ گیا۔ دس سال سے ہمارے گھر میں ایک خبیث ڈاکٹر کے کہنے پر ہی بڑے گوشت کا داخلہ بند تھا۔ چھوٹا خریدنے کی استطاعت ویسے ہی نہیں تھی سو گوشت کے نام سے صرف مرغی کی شامت لائی جاتی۔ چند ماہ قبل عالمی شہرت رکھنے والے ڈاکٹر وسیم جعفری سے کولسٹرول کے علاج کے سلسلے میں ملا تو دوران گفتگو انہوں نے یہ فرما کر حیران کردیا

"چھوٹے اور بڑے گوشت میں کولسٹرول کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں"

حیران ہو کر عرض کیا کہ ڈاکٹر اور حکیم تو بڑے گوشت سے عام منع کرتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ یہ بہت خطرناک ہے"

فرمانے لگے یہ شوشہ ہندوستان کے حکیموں نے ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے چھوڑا تھا تاکہ "گاؤ ماتا" کی جان بخشی رہے اور ہندو خوش رہیں، ورنہ بڑے اور چھوٹے گوشت میں فائدے اور ضرر کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔ ادھر اپنا یہ حال ہے کہ اگر بڑے مفتی صاحب سے کوئی حیران کن فتوی سن لیں تو تب تک یقین نہیں کرتے جب تک کسی چھوٹے مفتی سے اس کی تائید نہ حاصل کرلیں۔ چنانچہ پاکستان کے سب سے بڑے ڈاکٹر کے اس ارشاد کی تصدیق کے لئے عالم اسلام کے سب سے جونئر ڈاکٹر Muzammil Shaikh Bismil سے رجوع کیا تو انہوں نے بھی ایک دم تصدیق فرمادی کہ "الجواب صحیح" سو بھائیو ! جس جس نے کسی کے طبی لکیر کے فقیر کے کہنے پر کل سے بیف کو ہاتھ نہیں لگایا وہ رج کر اپنا شوق پورا کر سکتا ہے !

Riayatullah Farooqui

جدید اصطلاحات

جدید اصطلاحات  
speed breaker رفتار شکن   
think tank فکری جرگہ  
sepal انکهڑی  
inernode پوری / مٹی  
heater تاپو  
cooler ٹهارو  
oscillations ہلارے / ہلونے  
triple point تہرا نقطہ  
 fission ٹوٹ /پارگی  
binary fission دوگانہ ٹوٹ /دو پارگی  
lamina پت پنجہ /کف برگ  
calyx پھول کٹوری  
midrib (شہ رگ (پتے کی  
mentoring صلاح کاری  
mentor صلاح کار  
mass تول /مقدار مادہ  
gravitational force مادی کشش  
chromosome چتر ریشہ /رنگریشہ /چتر دھاگہ  
 passport گذر نامہ  
visa جواز سفر  
impulse ٹولہ ، ٹونہ :جیسے گلی ڈنڈا و کرکٹ میں 
converging lens ارتکازی عدسہ  
diverging lens انتشاری عدسہ  
Focal point نقطہ روک / ارتکازی نقطہ  
fall out جهاڑ :فصل یا مشین کا 
auxiliary bud بغلی کلی  
sharpener گهاڑو ( گھڑنے والا ) / پنسل تراش  
eraser مٹاونی  
تحقیق و تحلیق : اشتیاق احمد

Interesting facts about Allama Iqbal

Interesting facts about Allama Iqbal:
----------------------------------------
- iqbal spoke seven languages - german, persian, arabic, english, punjabi, urdu and sanskrit
.
- Iqbal had two bachelors degrees, a masters, and a phd.....he also qualified as a lawyer from lincoln's inn......
.
- iqbal's father was born a hindu (rattan lal); a kashmir brahiman.......and converted to islam (noor muhammad).....iqbal had two uncles and five aunts......all following hindu faith......
.
- iqbal's father was a tailor.....
.
- iqbal learned to play the sitar in school......
.
- Iqbal didn't publish his first work of Urdu poetry - The Call of the Marching Bell (baang - e - daraa) till 1924.....14 years before his death....till then, all his publications were in farsi.....
.
- iqbal's first book on poetry was in farsi, in 1915, when he was 38.......The Secrets of Self (israr-e-khudi)
.
- iqbal wrote 12,000 verses of poetry......out of which 7,000 were in farsi......and 5,000 in urdu.....so he was primarily a farsi poet.....
.
- - Iqbal didn't really consider himself a poet - "I have never considered myself a poet…I have no interest in the art of poetry. I have adopted the poem as a way of describing some issues pertinent to this country (British India).”....his main ambition seems to have been to reform Islamic thought at a global level........
.
- Iqbal completed his PhD dissertation in the filed of philosophy from Germany......the title of his dissertation was, "The Development of Metaphysics in Persia"......his main 
struggle was to bring intellectual reform in the muslim world, starting from iran......
.
- Iqbal only book in English - Reconstruction of Religious Thought in Islam - was published 8 years before his death....it is compilation of his lectures on religion....
.
- Iqbal wrote, "Taaran-e-Hind" at the age of 27....it remains a very popular tune in India, and is played by the Indian Armed forces Band on Independence day.....
.
- iqbal's first daughter was born when he was 18 years old (and his wife was 21 years old).......his first daughter died when she was 19....
.
- iqbal separated from his first wife after 23 years of marraige...
.
- his famous son - justice javed iqbal - is from his second wife...
.
- iqbal married a third time also (not sure if he separated from his second wife...maybe had two wives simultaneously)........
.
- iqbal's third wife died ten years after marraige, along with a son, during childbirth.......
.
- iqbal was knighted at the age of 45, and became Sir Dr. Allama Muhammad Iqbal Lahori.......the Sir from Britain......the Dr. from Germany....the Allama from India...and the Lahori from Iran........
.
- in 1907, at the age of 30, to complete his PhD, Iqbal took German lessons from Fraulein Emma Wegenast.....
.
- It is said Iqbal was in love with Emma......he would write to her after returning to Lahore, "I have forgotten all my German....but I remember only one word - Emma"....
.
- Apparently, he was also very close to a lady name Atiya Faizi in London from his college days......."I am not conscious of what good you have done to me. This is true and better so....."
.
- For the last four years of his life (1934 - 38) when he was sick and had stopped practicing law, Iqbal was given a pension by Nawab of Bhopal.......
.
- after going through many intellectual journies, iqbal finally settled on maulana rumi as his guide and pir......
.
- Iqbal has a holiday, medical college, a university campus, an airport, a stadium and many housing societies named after him.....( forwarded as received)

پرائیویٹ نظام تعلیم

پرائیویٹ نظام تعلیم
ہوسکتاہےآنےوالےوقتوں میں بورڈکی جانب سے1100میں سےطالبعلم کو1105نمبرملنےلگیں
_____________________________
گزشتہ دنوں فرسٹ ائیر کے داخلوں کے انٹرویوز میں 900 سے 1052 تک مارکس لینے والے طلبہ کے چند دلچسپ جوابات
سوال: قائداعظم نے کب وفات پائی؟
جواب: 1947 میں 
سوال: پاکستان بننے سے پہلے یا بعد میں؟
جواب: پہلے
سوال: پھر انھیں پاکستان کا بانی کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب: انھوں نے مرتے ہوۓ مسلمانوں کو کہا تھا کہ پاکستان بنانا ہے۔
سوال: علامہ اقبال کون تھے؟
جواب: انھوں نے ایک رات پاکستان بنانے کا خواب دیکھا تھا اور قائداعظم سے کہا تھا تم پاکستان بنا دو۔
سوال: آئین کیا ہے؟
جواب: یہ ایک کتاب ہے جو قائداعظم نے لکھی تھی اور اس کو مشرف نے پھاڑ دیا تھا۔
سوال: پاکستان کے صدر کا نام؟
جواب: عمران خان
سوال: پاکستان کا وزیراعظم ؟
جواب: جنرل قمر باجوہ
سوال: مشرقی پاکستان کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
جواب: بلوچستان کو مشرقی پاکستان کہتے ہیں۔
سوال: پنجاب کا دارالحکومت؟
جواب: پتہ نہیں
سوال: لاھور کیا ہے
جواب: یہ پاکستان کا صوبہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔اور کہاں تک سنائیں؟
ایک دوست کی وال سے

ضمیر مرتا ہے احساس کی خاموشی سے

*ضمیر مرتا ہے احساس کی خاموشی سے ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰ ۰۰ ۰ ۰*


 آج با زار میں عجب ہی منظر دیکھا 

*چکن کی شاپ کھلی تھی تعجب ہوا، فوری رکا اور سوچنے لگا کہ " آج تو غریب کے گھر بھی قربانی کا گوشت پکے گا 
 پھر    
 *یہ شاپ آج کھلنے کی منطق سمجھ نہی آئی* "؟     
  
اپنے ہی سوال کا جواب جاننا ضروری سمجھا۔ ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کے لوگوں کوچکن خریدتے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حیرانگی میری توجیسے اپنے عروج پر تھی معلوم کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں:   

 *جن کے گھر قربانی کے گوشت کی ایک "بوٹی" بھی نہی آتی اور یہ ایسے سفید پوش لوگ ہیں جو کسی کے آگے ہاتھ نہی پھیلاتے اپنے بچوں کو چکن عید کے روز اس لیے کھلاتے ہیں تاکہ انکو محسوس نہ ہو کہ ہم نے سال بعد عید کے روز بھی گوشت نہی کھایااسکے علاوہ یہ بھی چکن شاپ والے نے انکشاف کیا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو سارا سال چکن کھانا بھی نصیب نہی ہوتا ۔ خدا کی قسم مجھے اس وقت رونا آگیا یہ منظر دیکھ کر جب مینے ماں اور بیٹی کو نظرے چرا کر مرغی کے پنجے ایک درجن بعوض 20روپے لیتے دیکھا حالانکہ نظریں تو ہمیں ان سے چرانی چاہیے تھی۔یقین کیجیے مجھ میں اتنی ہمت نہی ہوئ کہ میں انکی فوٹو بنا لوں آخر انکے چہرے دکھا کر انکی عزت نفس کے ساتھ کھیلنے کے سوا اور کیا ہونا تھا ؟ آج کے اس واقعہ نے میرے دل میں ہزاروں سوال چھوڑیں ہیں عجیب سوچ میں گم ہوگیا ہوں کہ ہم پھر یہ کیسی قربانی کرتے ہیں ؟ کیا صرف دکھاوا ہے؟ اور گوشت ایک دوسرے کو ایکسچینج کرنے کا نام ہی قربانی ہے*؟        
              یہ تو 
                 
                    
   *No profit No loss*
والی بات ہوئ
 مطلب جتنا گوشت آپ دیتے ہیں اتنا ہی آپ کو وہاں سے واپس مل جاتا ہے اور سارا سال فریج۔۔۔۔۔ اور ہم یہ بھی بڑا یاد رکھتے ہیں کہ
 "پچھلے سال فلاں کے گھر سے گوشت نہی آیا تھا ہم نے بھی اس دفعہ نہيں دینا" 

 اور یہ بھی ان کانوں نے اکثر سنا ہے کہ 
"نکڑ والا گھر ہاں وہی بڑی کوٹھی والے کو پوری ران ہی دے آنا پچھلی دفعہ ہمیں انہوں نے کافی گوشت دیا تھا"ہاں اگر کبھی ہمیں کسی غریب کا خیال آہی جائے تو گوشت دیتے وقت اپنا ساراتعارف ضرور کرواتے ہیں نکر والا گھر فلا نام ادھر سے آیا ہے وغیرہ وغیرہ تاکہ وہ سارا سال آپ کا احسان مند رہے اور آپکو دیکھتے ساتھ اپنا سر جھکا لے۔ کیا یہ بتانا ضروری ہے کہ کہاں سے گوشت آیا کس نے بھجوایا؟ دروازے پر اگر کوئ بچہ آئے تو کہا جاتا ہے ابو کو بھیجو تاکہ انکو پتہ چلے کہ کون گوشت دینے آیا ہے۔
 کہا جاتا ہےقربانی خدا کیلیے کی جاتی ہے تو پھر خدا کے بندوں کو بتانا ضروری ہے؟ 
 یا وہ خدا جسے بتانا بھی نہیں پڑتا وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور دلوں کے حال خوب جانتا ہے۔ بقول شاعر ِ  

ضمیر مرتا ہے احساس کی خاموشی سے  

یہ وہ موت ہے جس کی کوئی قبر نہیں

Time to Unite for Imaan

When you attack black people they call it racism. When you attack country they call it terrorism. When you attack homosexuality they call it intolerance. When you attack women they call it gender discrimination. When you attack Jews they call it anti semitism. But when they attack Holy Prophet #Mohammad (P.B.U.H) they call it freedom of speech.
Share if you can.
At least it is the lowest rank of emaan.
Raise your voice...
#TimeToUnite 😐

کل کے مخبر آج کے رہبر

کل کے مخبر 
آج کے رہبر
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک پروفیسر ڈاکٹر تراب الحسن صاحب نے ایک تھیسس لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ھے۔ جس کا عنوان ھے...
Punjab and the War of
. . Indpendence 1857
اس تھیسس میں انہوں نے جنگ آزادی کے حالات پر روشنی ڈالی ھے. جس کے مطابق اس جنگ میں جن خاندانوں نے جنگ آزادی کے مجاھدین کے خلاف انگریز کی مدد کی، مجاھدین کو گرفتار کروایا اور قتل کیا اور کروایا ان کو انگریز نے بڑی بڑی جاگیریں مال و دولت اور خطابات سے نوازا ان کے لئے انگریز سرکار نے وظائف جاری کئے۔
اس تھیسس کے مطابق تمام خاندان وہ ھیں جو انگریز کے وفادار تھے اور اس وفاداری کے بدلے انگریز کی نوازشات سے فیضیاب ھوئے۔ یہ خاندان آج بھی جاگیردار ھیں اور آج بھی اپنے انگریز آقا کے جانے کے بعد ھر حکومت میں شامل ھوتے ھیں۔
Griffin punjab chifs 
Lahore ;1909
سے حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق سید یوسف رضا گیلانی کے بزرگ سید نور شاہ گیلانی کو انگریز سرکار نے ان کی خدمات کے عوض 300 روپے خلعت اور سند عطا کی تھی۔
Proceeding of the Punjab Political department no 47, june 1858
کے مطابق دربار حضرت بہاؤالدین زکریا کے سجادہ نشین اور تحریک انصاف کے رھنما شاہ محمود قریشی کے اجداد نے مجاھدین آزادی کے خلاف انگریز کا ساتھ دیا۔ انہیں ایک رسالہ کے لئے 20 آدمی اور گھوڑے فراھم کئے۔ اس کے علاوہ 25 آدمی لیکر 
خود بھی جنگ میں شامل ھوئے۔ 
انگریزوں کے سامان کی حفاظت پر مامور رھے۔ ان کی خدمات کے عوض انہیں تین ھزار روپے کا تحفہ دیا گیا۔ دربار کیلیئے 1750 روپے کی ایک قیمتی جاگیر اور ایک باغ دیا گیا جس کی اس وقت سالانہ آمدن 150 روپے تھی۔
جو حوالہ وزیر اعظم گیلانی کا ھے وھی اپوزیشن لیڈر چوھدری نثار علی خان کے اجداد چوھدری شیر خان کا ھے۔ان کی مخبری پر کئی مجاھدین کو گرفتار کر کے قتل کیا گیا۔ انعام کے طور پر چوہدری شیر خان کو ریونیو اکٹھا کرنے کا اختیار دیا گیا اور جب سب لوگوں سے اسلحہ واپس لیا گیا تو انہیں پندرہ بندوقیں رکھنے کی اجازت اور 500 روپے خلعت دی گئی۔
Gujranwala Guzts 1935-36 
Govt of Punjab. 
کے مطابق حامد ناصر چٹھہ کے بزرگوں میں سے خدا بخش چٹھہ نے جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دیا وہ اس وقت جنرل نکلسن کی فوج میں تھے۔
قصور کے خیرالدین خان جو خورشید قصوری کے خاندان سے تھے نے انگریزوں کے لیئے 100 آدمیوں کا دستہ تیار کیا اور خود بھتیجوں کے ساتھ جنگ میں شامل ھوا۔ انگریزوں نے اسے 2500 روپے سالانہ کی جاگیر اور ھزار روپے سالانہ پنشن دی۔
"۔’’احمد خاں کھرل کی مقبولیت بڑھی تو انگریزوں کو ڈر پیدا ہوا کہ ان کے مقامی سپاہی جلد یا بدیر احمد یا کھرل سے جا ملے گے۔ اس لئے 10جون1857ء کو ملتان چھاؤنی میں پلاٹون نمبر 69 کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا او رپلاٹون کما نڈر کو مع دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑادیا گیا۔ آخر جون میں بقیہ نہتے پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا او رتہ تیغ کردیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کردی تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے علم بغاوت بلند کیا۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاؤنی کے درمیان پل شوالہ پر دربار بہاء الدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا او رتین سو کے قریب نہتے مجاہدین کو شہید کردیا۔ یہ شاہ محمود قریشی ہمارے موجودہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے لکڑ دادا تھے۔ ان کا نام ان ہی کے نام پر رکھا گیا کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہرسے باہر نکل رہے تھے کہ انہوں نے دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا او ران کا قتل عام کیا ۔مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لئے دریا میں چھلانگ لگادی کچھ ڈوب کر جان بحق ہوگئے او رکچھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ۔پار پہنچ جانے والوں کو سیدسلطان قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلال پور پیروالہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کردیا۔ جلال پور پیروالہ کے موجودہ ایم این اے دیوان عاشق علی بخاری انہی کی آل میں سے ہیں۔ مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کو نگاکی طرف نکل گئی جسے پیر مہر چاہ آف حویلی کورنگانے اپنے مریدوں او رلنگریال، ہراج، سرگانہ ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیرلیا او رچن چن کر شہید کردیا۔ مہر شاہ آف حویلی کورنگا سید فخرامام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا ۔اسے اس قتل عام میں فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپے نقد او رایک مربع اراضی عطا کی گئی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو1857ء کی جنگ آزادی کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نقد جاگیرسالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سواسی روپے آٹھ چاہات جن کی سالانہ آمدنی ساڑھے پانچ سوروپے تھی بطور معافی دوام عطاہوئی مزید یہ کہ1860ء میں وائسرائے ہند نے بیگی والا باغ عطا کیا مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے معاوضہ کے طور پر وسیع جاگیر عطا کی گئی
‏·

ہفتہ، 18 اگست، 2018

جہنم کا تعارف

*جہنم کا تعارف*
😱😱😱

1/ جہنم میں گرایا گیا پتھر 70 سال بعد جہنم کی تہ میں پہنچتا ہے- (مسلم)

2/ جہنم کے ایک احاطہ کی دو دیواروں کے درمیان 40 سال کی مسافت کا فاصلہ ہے- (ابو یعلی)

3/ جہنم کو میدان حشر میں لانے کے لے 4 ارب 90 کروڑ فرشتے مقرر ہوں گے-(مسلم)

4/ جہنم کا سب سے ہلکا عذاب آگ کے دو جوتے پہننے کا ہوگا جس سے جہنمی کا دماغ کھولنے لگے گا- (مسلم)

5/ جہنمی کی ایک داڑھ (بڑا دانت) احد پہاڑ سے بھی بڑی ہوگی- (مسلم)
6/ جہنمی کے جسم کی کھال 42 ہاتھ (63 فٹ) موٹی ہوگی- ( ترمذی)

7/ جہنمی کے دونوں کندھوں کے درمیان تیزرو سوار کی 3 دن کی مسافت کا فاصلہ ہوگا- (مسلم)

8/ دنیا میں تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کے برابر جسم دیا جائے گا-(ترمذی)

9/ جہنمی اس قدر آنسو بہائيں کے کہ ان میں کشتیاں چلائی جاسکیں گی-(مستدرک حاکم)

10/ جہنمیوں کو دیے جانے والے کھانے (تھوہر) کا ایک ٹکڑا دنیا میں گرا دیا جائے تو ساری دنیا کے جانداروں کے اسباب معیشیت برباد کردے- (احمد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ)

11/ جہنمیوں کو پلائے جانے والے مشروب کا ایک ڈول (چند لٹر) دنیا میں ڈال دیا جائے تو ساری دنیا کی مخلوق کو بدبو میں مبتلا کردے- (ابو یعلی)

12/ جہنمیوں کے سر پر اس قدر کھولتا ہوا گرم پانی ڈالا جائے گا کہ وہ سر میں چھید کرکے پیٹ میں پہنچ جائے گا اور پیٹ میں جو کچھ ہوکا اسے کاٹ ڈالے گا اور یہ سب کچھ (پیٹھ سے نکل کر) قدموں میں آگرے گا- (احمد)

13/ کافر کو جہنم میں اس قدر سختی سے ٹھونسا جائے گا جس قدر نیزے کی انی دستے میں سختی سے گاڑی جاتی ہے-(شرح اسنہ)

14/ جہنم کی آگ شدید سیاہ رنگ کی ہے- (جس میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے گا) ( (مالک)

15/ جہنمیوں کو آگ کے پہاڑ "صعود" پر چڑھنے میں 70 سال لگيں گے اترے گا تو پھر اسے چڑھنے کا حکم دیا جائے گا- (ابو یعلی)

16/ جہنمیوں کو مارنے کے لیے لوہے کے گرز اتنے وزنی ہوں گے کہ انسان اور جن مل کر بھی اسے اٹھانا چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے- (ابو یعلی)

17/ جہنم کے سانپ قد میں اونٹوں کے برابر ہونگے اور ان کے ایک دفہ ڈسنے سے کافر 40 سال تک اس کے زہر کی جلن محسوس کرتا رہے گا- (حاکم)

18/ جہنم کے بچھو قد میں خچر کے برابر ہوں گے ان کے ڈسنے کا اثر کافر 40 سال تک محسوس کرتا رہے گا- (حاکم)

19/ جہنمیوں کو جہنم میں منہ کے بل چلایا جائے گا- (مسلم)

20/ جہنم کے دروازے پر عذاب دینے والے 4 لاکھ فرشتے موجود ہونگے جن کے چہرے بڑے ہیبت ناک اور سیاہ ہوں گے کچلیاں باہر نکلی ہوں گی سخت بے رحم ہوں گے اور اس قدر جسیم کہ دونوں کندھوں کے درمیان پرندے کی 2 ماہ کے مسافت کا فاصلہ ہوگا- (ابن کثیر)
یہ ہے وہ ہولناک اور المناک عقوبت خانہ آخرت جس کا قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بار بار جہنم کے نام سے ذکر کیا گیا ہے- 
اللہ تعالی ہم میں سے ہر مسلمان کو اپنے فضل و کرم اور احسان عظیم کے صدقے اس سے محفوظ اور مامون فرما‏ئے، بے شک وہ بڑا بخشنہار اور رحم فرمانے والا ہے اور جو چاہے وہ کرنے پر قادر ہے- آمین

☜ *اللّہم اجرنی من النّار*
☜ *اللّہم اجرنی من النّار*
☜ *اللّہم اجرنی من النّار*

                  •┈┈• ❀ 🍃🌸🍃 ❀ •┈┈•
🎈

جمعہ، 17 اگست، 2018

پھر "مارو تالی"

ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺻﺪﺭ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﮐو اطلاع ملی کہ ﮐﺎﺑﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔

 ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻋﺎﻡ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ

 "ﻣﺤﺘﺮﻡ، ﭘُﻞ ﭼﺮﺧﯽ (ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ) ﺗﮏ ﮐﺎ ﮐﺘﻨﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﻟﻮﮔﮯ؟"

ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ،

"ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻧﺮﺥ ﭘﺮ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔"

ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 20 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : اﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 25 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ: ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 30 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 35 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ

 ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻓﻮﺟﯽ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺍﺷﺘﮩﺎﺭﯼ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺟﻨﺮﻝ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﻣﺎﺭﺷﻞ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﮐﮩﯿﮟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ

ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺍُﮌﮔﯿﺎ
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎﮐﮧ ﮈﺭ ﮔﺌﮯ ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﮐﺎﻧﭗ ﮔﺌﮯ ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮔﯿﻠﯽ ﮨﻮﮔﺌﯽ ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ

ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﯿﻞ ﺑﮭﯿﺠﻮ ﮔﮯ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺟﻼﻭﻃﻦ ﮐﺮﻭﮔﮯ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﺎﺅ ﮔﮯ ؟
 ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ

 اگر دو چار تالیاں ہمارے ملک میں بھی بج جائیں تو نظام میں بہتری آ سکتی ہے۔

خسارے کو منافع میں کیسے بدلا گیا

ہندوستانی ریلویز،دنیاکی چوتھی بڑی ریلوے ہے۔ ایک سوتہترسال پرانی لوہے کی یہ کمپنی روزانہ تیرہ ہزار مسافر ٹرینیںچلاتی ہے۔اس کے علاوہ نو ہزاردوسومال گاڑیاں بھی روزانہ چلتی ہیں۔ 2004 میں دنیاکی یہ مہیب ٹرین ریلوے مسائل کاگڑھ بن چکی تھی۔وہی علتیں، جو برصغیر کے نظام کاحصہ ہیں۔ حددرجہ کرپشن،گرتی ہوئی ساکھ،بے قاعدگی، ٹرینوں کاگھنٹوں نہیں دنوں تاخیرسے چلنا، مسافروں کے لیے سہولتوں کی عدم دستیابی یعنی جس قباحت کا نام لیں، اس نظام میں موجودتھی۔لوگ انجن کے پرزے سرِعام بیچتے نظر آتے تھے۔چورکھڑی ہوئی ٹرینوں سے نشستیں چرالیتے تھے۔ہندوستان کی حکومت مکمل طورپربے بس تھی۔

کیا کرے اورکیانہ کرے۔بین الاقوامی ادارے امداددیتے تھے توتنخواہیں دی جاتی تھیں۔لاکھوں ملازمین کووقت پرتنخواہ نہیں ملتی تھی۔ہڑتال کرتے تھے۔ٹرینیں روک لیتے تھے۔ پہیہ جام کردیتے تھے۔پھرجاکرمینجمنٹ،قرضہ پکڑ کر تنخواہ دیتی تھی۔دنیاکے مالیاتی ادارے اسے سفید ہاتھی کہتے تھے۔ ان کے نزدیک واحدحل ریلوے کو پرائیویٹ سیکٹرکوفروخت کرنا ہے۔یعنی پرائیویٹائزیشن۔یہ حل بین الاقوامی ادارے آج سے نہیں،دہائیوں سے چورن کی طرح بیچ رہے ہیں۔ 2004 ء کاذکرکررہاہوں۔ہندوستان کی ریلوے تقریباًدم توڑ چکی تھی۔

2004ء ہی میں ہندوستان میں الیکشن ہوااور لالوپرشادبہارسے قومی اسمبلی کاممبرمنتخب ہوا۔اس سے پہلے بہارکاطویل عرصے تک وزیراعلیٰ بھی رہا۔ مکمل طورپر دیہاتی اورغیرمہذب شخص گردانا جاتا تھا۔چارہ اسکینڈل سے لے کردرجنوں طرح کے مالیاتی اسکینڈلزکامرکزی کردار تھا۔ پورے ملک میں کرپشن کانشان تھا۔لوگ اس کے بولنے کے لہجے کی نقلیں اُتارکرٹھٹہ اُڑاتے تھے۔اس کے معمولی قسم کے کپڑے بھی اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے لیے تحقیرکاباعث تھے۔مگرایک چیزاس کے تمام مخالفین اور ناقدین فراموش کررہے تھے کہ وہ غیرمعمولی طورپرذہین انسان اورکامیاب ترین سیاستدان ہے۔الیکشن جیتنے کے بعدجب لالوپرشاددہلی پہنچا تو وزیراعظم نے پوچھاکہ کونسی وزارت لینا چاہتا ہے۔ لالو کاجواب تھا، “ریلوے”۔ وزیراعظم فرمائش سنکرششدررہ گیا۔ مگر ریلوے تومکمل طور پرڈوب چکاہے۔آپ وہاں کیا کرینگے۔

لالو کا جواب تھا کہ اسے ٹھیک کردونگا۔ وزیراعظم اور دیگر سیاستدانوں نے مسکراناشروع کردیا۔کیونکہ لالوکونہ ریلوے چلانے کاتجربہ تھا اور نہ ہی اس نے کوئی حکومتی ادارہ ٹھیک کیاتھا۔سچ پوچھیے توبگاڑاہی تھا۔تمام سینئرسیاستدانوں کاخیال تھاکہ لالومذاق کررہاہے۔اس کی نظرکسی اور وزارت پرہے۔مگروہ بضد ہوگیا۔2004ء میں لالو پرشاد،ہندوستانی ریلوے کا وزیر بن گیا۔پہلے دن دفتر گیا تو چپل اُتارکرکرسی پرپھسکڑالگاکر بیٹھ گیا۔ مخصوص لہجے میں ریلوے کے افسروں سے مسائل پوچھنے لگ گیا۔دل ہی دل میں ریلوے کے سینئر افسر بھی ہنس رہے تھے کہ کہاں یہ مکمل طورپرجاہل انسان اورکہاں ریلوے کے مہیب مسائل۔مگروہ اس لالوکونہیں جانتے تھے جواگلے چندبرسوں میں ڈوبتے ہوئے ادارے کوزندہ کرکے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتاتھا۔

کسی بھی سینئر افسرنے وزیر کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔لالونے اب افسروں کے بجائے، مسافروں، قلیوں، مزدوروں،نچلی سطح کے ملازمین، ریلوے اسٹیشن پرخوانچہ فروشوں اوراسٹیشن ماسٹروں سے ملنا شروع کردیا۔تمام مسائل سنتا تھا اورذاتی اسٹاف نوٹس لیتا رہتا تھا۔چارہفتے کے اندر، لالو کومسائل کی نوعیت کااندازہ ہوگیا۔ سیدھا وزیراعظم کے پاس گیا۔کہنے لگاکہ ایک سال میں ریلوے کوٹھیک کردونگا۔شرط صرف ایک ہے کہ اس کے کام میں وزیراعظم آفس کسی قسم کی مداخلت نہ کرے۔ وعدہ لے کر واپس آیااورپھراس نے متعدد فیصلے دیے۔

سب سے پہلے روٹس کودوحصوں میں تقسیم کیا۔ ایک وہ جن پرمنافع تھااورایک وہ جن پر نقصان تھا۔ نقصان میں چلنے والی ٹرینوں کوقطعاًبندنہیں کیا۔بلکہ ان سے چندبوگیاں اُتارکر،منافع میں چلنے والی ٹرینوں میں لگوادیں۔صرف ایک ہفتہ میں ان روٹس پرمنافع بیس فیصدبڑھ گیا۔لالونے سفرکے لیے ٹکٹ خریدنے کے نظام کوکمپیوٹرائزڈکردیا۔پہلے لوگ، ہمارے ملک کی طرح،بروقت ٹکٹ کے لیے،کسی کی مٹھی گرم کرنے پرمجبورہوتے تھے۔اب ہرانسان سہولت سے اپناٹکٹ خود کمپیوٹرپرخریدسکتاتھا۔ نشست مختص کرواسکتا تھا۔ ریلوے اسٹیشن جانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ٹکٹ خریدنے کے عمل میں سہولت سے مسافروں کی تعدادمیں اٹھارہ فیصد کا اضافہ ہوگیا۔بات یہاں نہیں رکتی۔لالونے دیکھاکہ مال گاڑیوں میں سامان صرف دن کے وقت لادا جاتا ہے۔حکم دیاکہ یہ عمل رات کوبھی جاری رکھا جائے۔

صرف ایک حکم سے مال گاڑیوں کی استطاعت میں سو فیصداضافہ ہوگیا۔ ٹرک مافیا،جوحددرجہ مضبوط تھی، نے کہرام مچادیاکہ ان کا کاروبار ختم ہوجائیگا۔ مگر لالو کا کہنا تھا کہ مال گاڑیوں میں سامان کی آمدورفت،حددرجہ سستی ہے۔ٹرک مالکان،اس کام کے دوگنے بلکہ تگنے پیسے وصول کررہے ہیں۔ لالوکے خلاف ہڑتالیں ہوئیں۔مگروہ ٹس سے مس نہ ہوا۔نتیجہ یہ نکلاکہ مال گاڑیوں کی تعداد بے حدبڑھ گئی۔اب ریلوے کاخسارہ بھی کم سے کم ترہونے لگا۔ساراملک دیکھ رہاتھاکہ اب لالواور کیا کریگا۔ اس کے بعدلالونے کہاکہ امیرآدمی سے دوگناپیسے کمائیگا۔امیرطبقے کے لیے اس نے لگژری ٹرینیں چلا دیں۔ عام گاڑیوں سے انکاکرایہ بے حدزیادہ تھا۔

راج دھانی نام کی یہ لگژری ٹرینیں حددرجہ مقبول ہوگئیں۔امیرآدمی کوکوئی فرق نہیں پڑتاتھاکہ وہ سوروپے دے رہاہے یاپانچ سو۔لالو کا کمال یہ تھاکہ اس نے عام مسافرکے لیے یعنی سیکنڈاور تھرڈ کلاس کے کرائے میں کمی کردی۔اس کے ساتھ ساتھ،اول درجے کے ڈبوں میں نشستیں بڑھادیں۔لالوکے انقلابی اقدامات سے پوری دنیامیں تہلکہ مچ گیا۔ہارورڈیونیورسٹی کے ماہرین نے لالوکی کامیابی کے ماڈل کواپنے نصاب میں شامل کر لیا۔

پوری دنیاسے طالبعلم،ہندوستان آکر،سیکھنے لگے کہ حکومتی اداروں کونقصان سے نکال کرفائدہ میں کیسے منتقل کیاجاسکتاہے۔کیاآپکواندازہ ہے کہ لالونے انڈین ریلوے کوکتنامالی فائدہ پہنچایا۔یہ کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ مجموعی طورپرریلوے کوساٹھ ہزارکروڑروپے کافائدہ ہوا۔یہ کوئی تصوراتی منافع نہیں بلکہ یہ اس اَن پڑھ نظرآنے والے شخص کی حکمتِ عملی کی بدولت ممکن ہوا،جس پرلوگ طنز کیا کرتے تھے۔آپ چاہیں،توساٹھ ہزارکروڑروپے کی رقم کی کسی بھی ذرایع سے تصدیق کرسکتے ہیں۔یہ سب کچھ، ہمارے ہمسایہ ملک میں ہوااورایک ڈوبتاہواادارہ،اپنے پیروں پرکھڑا ہوکردوڑنے لگا۔

اب پاکستان کی طرف آئیے۔ہمارے اکثرقومی ادارے شدیدمالیاتی نقصان کاسامناکررہے ہیں۔پی آئی اے کے متعلق حددرجہ منفی خبریں تواترسے موصول ہوتی رہتی ہیں۔اسٹیل مل،ریلوے اوردیگرقومی اداروں کی حالت حددرجہ خراب ہے۔ہرحکومت مسائل بتاتی ہے۔حل بہت ہی کم سامنے آتے ہیں۔اب عمران خان کی نئی حکومت آچکی ہے۔ہارورڈاورغیرملکی بہترین یونیورسٹیوں کے ماہرین آنے کاغلغلہ مچاہواہے۔وہی اقتصادی ماہرین،جوعرصہ درازسے بھیڑیوں کی طرح ملکی معیشت کوآئی ایم ایف اور دیگرمالیاتی اداروں کے سامنے بوسیدہ گوشت کی طرح ڈالتے رہے ہیں۔نت نئے مشورے دے رہے ہیں۔ان کی باتیں بیس برس پہلے بھی وہیں تھی اورآج بھی وہیں ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا،کہ محترم زرداری صاحب کی حکومت سے پہلے،جنرل جاوید،اسٹیل مل کے چیئرمین تھے۔ تقریباً دویا تین برس چیئرمین رہے۔

مشرف دورمیں تعینات ہوئے تھے۔انھیں اسٹیل مل چلانے کارَتی بھرتجربہ نہیں تھا۔مگراس شخص نے اپنے دورمیں اسٹیل مل کوخسارہ سے نکال کرمنافع بخش بنادیا۔جنرل جاویدکوئی اقتصادی ماہربھی نہیں تھا۔ فوجی ہونے کے باوجودایک اچھاشاعربھی تھا۔ سادہ سے اقدامات سے اسٹیل مل خسارے سے باہرنکل آئی۔ پھر، قیامت کی اندھیری چلی اوراسٹیل مل، “مفاہمت” کی نظرہوکر بربادہوگئی۔یہی حال پی آئی اے کاتھا۔کئی ادوارایسے گزرے ہیں،جنکی بدولت یہ قومی ادارہ فائدہ میں چلتارہا۔ مگرپھریہ”جمہوریت بہترین انتقام ہے”کی نظر ہوگیا۔ ایک منصوبہ بندی سے کرپٹ نہیں بلکہ انتہائی “دونمبر” بندے وہاں لگائے گئے۔ایسے سیاسی لوگ،سرکاری افسراور اقتصادی ماہرین بھی آئے جنہوں نے اپنے جہازچوری کرکے غیرملکوں کو بیچنے شروع کردیے۔مجموعی طورپر صورتحال دگرگوں ضرورہے مگراسکوبہترکیاجاسکتاہے۔

سوال ہے کیسے اورکیونکر۔جب عمران خان یہ اعلان کرتے ہیں کہ دنیاکے بہترین اقتصادی دماغ اکٹھے کرینگے تواَزحدخوشی ہوتی ہے۔مگرپھریہ کیفیت خوف میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔کیونکہ شوکت عزیزسے اسحق ڈارتک، ہمارے پاس بلاکے مالیاتی ماہرین رہے۔مگرصنعت اورقومی اداروں کازوال جاری رہا۔اب توجیسے ہی ان جیسے پرانے چہرے ٹی وی پرآکرخراب اکانومی پرتبصرے فرماتے ہیں۔ تواسی وقت اندازہ ہوجاتاہے کہ دراصل فرمائش کررہے ہیں کہ ہمیں خدمت کاموقع دیجیے۔ہرچیزٹھیک ہوجائیگی۔ مسئلہ کوئی نہیں۔مگریہ پرانے اورتجربہ کار بزرجمہرہمیں بارہا برباد کرچکے ہیں۔انکوموقع نہیں ملناچاہیے۔کسی بھی قیمت پر انھیں ملکی خزانہ کے نزدیک جانے کی اجازت نہیںہو نی چاہیے۔

سب سے زیادہ ضرورت”سیانے”بندوں کی ہے۔ ہرایک کو مسائل کاعلم ہے اورہرایک کوحل بھی پتہ ہے۔کوئی ایسی پیچیدہ بات نہیں جو”کامن سینس”سے بالاترہوں۔یہ سمجھدارلوگ انتہائی سادہ مگرفعال طریقوں سے قومی اداروں کوبہتربناسکتے ہیں۔ریلوے کے مسائل،ہاورڈیونیورسٹی کا پروفیسرنہیں بلکہ اسٹیشن ماسٹراورقلی سب سے اعلیٰ طریقے سے بیان کرسکتاہے۔ہرقومی ادارے کے نچلے طبقے سے مسائل کاحل پوچھیے،آپکوسب کچھ بتادیگا۔بالکل ویسے ہی جیسے لالوپرشادنے2004ء میں انڈین ریلوے کے معاملے میں کیاتھا۔مجھے ڈرہے کہ کہیں،عمران خان،دانالوگوں کودورنہ کردے۔کہیں باہرکی ڈگریوں والے کسی اقتصادی ماہرسے متاثرنہ ہوجائے۔جناب ہمیں ان مالیاتی ماہرین کی نہیں، بلکہ لالوپرشادجیسے سیانوں کی ضرورت ہے۔ (منظر حیات 16/8/18

🌷 *کوئی دن ماں باپ کے بغیر نہیں*🌷

💞🌱💞💐💞🌱💞

 🌷 *کوئی دن ماں باپ کے بغیر نہیں*🌷

💐 *جانتے ہو ... ؟*

💞 ہم اپنے ماں باپ پہ سب سے بڑا ظلم کیا کرتے ہیں۔..؟
ہم ان کے سامنے *"بڑے"* بن جاتے ہیں ...
🍁 *"سیانے"* ہو جاتے ہیں ...
اپنے تحت بڑے *"پارسا نیک اور پرہیزگار"* بن جاتے ہیں ...
💞وہی ماں باپ جنہوں نے ہمیں سبق پڑھایا ہوتا ہے ۔.
انھیں *"سبق"* پڑھانے لگتے ہیں ...
ابا جی یہ نہ کرو یہ غلط ہے ۔.
🍂اماں جی یہ آپ نے کیا کیا ..
آپ کو نہیں پتا ایسے نہیں کرتے ...
ابا جی آپ یہاں کیوں گیے۔.
🥀اماں جی پھر گڑبڑ کر دی آپ نے  ..
سارے کام خراب کر دیتی ہیں آپ ..
اب کیسے سمجھاؤں آپ کو ...

💐 *جانتے ہو  ...؟*

ہمارا یہ *"بڑا پن یہ سیانا پن"* 
🥀ہمارے اندر کے *"احساس"* کو مار دیتا ہے ...
وہ احساس جس سے ہم یہ محسوس کر سکیں ...
🍁 کہ ہمارے ماں باپ اب بالکل بچے بن گئے ہیں۔.. 
وہ عمر کے ساتھ ساتھ بے شمار 
💞ذہنی گنجلکوں سے آزاد  ہوتے جا رہے ہیں ...
 چھوٹی سی خوشی ...
🌷تھوڑا سا پیار...
ہلکی سی مسکراہٹ ... 
💐انھیں نہال کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ...

💞انھیں *"اختیار"* سے محروم نہ کریں  ....
🍄 *"سننے"* کا اختیار ...
🍄 *"کہنے"* کا اختیار ...
🍄 *"ڈانٹنے"* کا اختیار ...
🍄 *"پیار"* کرنے کا اختیار ...
یہی سب انکی خوشی ہے ..
چھوٹی سی دنیا ہے ...

💐ہمارے تلخ رویوں سے وہ اور  کچھ سمجھیں یا نہ سمجھیں ...
 یہ ضرور سمجھ جاتے ہیں ک اب وقت انکا نہیں رہا ...
🥀وہ اپنے ہی خول میں قید ہونے لگتے ہیں ...
🍁اور بالآخر رنگ برنگی ذہنی اور جسمانی بیماریوں  کا شکار ہونے لگتے ہیں ...

*اس لئے  ...*

💞اگر ماں باپ کو خوش رکھنا ہے  ..
تو ان کے سامنے  زیادہ *"سیانے"*  نہ بنیں ...
🌱 *"بچے"* بن کے رہیں ..
تا کے آپ خود بھی *"بچے"* رہیں ...

🍂سعود عثمانی کا ایک شعر ~~~

🌷 _*میں ان کو خانوں میں کیسے بانٹوں*_
🌷 _*جو میری عمر ِرواں کے دن ہیں*_

🌷_*تمام دن میرے باپ کے دن*_
🌷 _*تمام دن میری ماں کے دن*_
*(سعود عثمانی )*


🌷🌱🌷🌱💞🌱🌷🌱🌷

جمعرات، 16 اگست، 2018

قربانی کرنے والے توجہ فرمائیں

*درد بھری تحریر*
بابا بابا ! تِین دِن رہ گئے ہیں قربانی والی

عید میں۔ ہمیں بھی گوشت ملے گا نا؟

بابا : ہاں ہاں کیوں نہی بِالکُل ملے گا۔۔

لیکن بابا پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں

گوشت نہیں دیا تھا، اب تو پورا سال ہو گیا

ہے گوشت دیکھے ہوئے بھی،

نہیں شازیہ :اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا،

میری پیاری بیٹی، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ

ڈاکٹر صاحب قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں، 

اور ماسٹر جی بھی تو بکرا لے کر آئےہیں، 

ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے، 

امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں،

آج عیدالضحٰی پے مولوی صاحب بیان فرما رہے ہیں

کہقربانی میں غریب مسکین لوگوں کونہیں بھولنا چاہئے۔۔ 

ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔۔

خیر شازیہ کا باپ بھی نماز ادا کر کےگھر پھنچ گیا، 

گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد شازیہ بولی۔۔ 

بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا، 

بڑی بہن رافیہ بولی۔۔ چپ ہو جاٶ شازی بابا کو تنگ نہ کرو۔

وہ چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا رہا اور نظرانداز کرتا رہا۔۔

کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں بولی۔ 

سنیۓ میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیۓہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا، 

کہیں بھول تو نہیں گۓ ہماری طرف گوشت بجھوانا۔

آپ خود جا کر مانگ لائیں، 

شازیہ کی ماں تمہیں تو پتہ ھے آج تک ہم نےکبھی کسی سے مانگانہیں ، 

اللہ کوئ نہ کوئ سبب پیدا کرے گا۔۔

دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے اسرار پر پہلے ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے، 

اور بولے ڈاکٹر صاحب۔ میں آپ کاپڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت ملسکتا ہے؟ 

یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا، 

اور حقارت سے بولے پتہ نہیں کہاںکہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے،

تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا ۔۔

توہین کے احساس سے اسکی آنکھوں میں آنسو گۓ۔۔

اور بھوجل قدموں سے چل پڑا راستےمیں ماسٹر جی

کے گھر کی طرف قدم اٹھے اور وہاں بھی وہی دست سوال۔ 

ماسٹر جی نے گوشت کا سن کرعجیب سی نظروں سے دیکھا اور چلےگۓ۔ 

تھوڑی دیر بعدد باہر آۓ تو شاپر دے کرجلدی سے اندر چلۓ گۓ۔

جیسے اس نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔۔

گھر پہنچ کر دیکھا تو صرف ہڈیاں اور چربی۔۔

خاموشی سے اٹھ کرکمرے میں چلے گئے اور خاموشی سے رونے لگ گئے۔

بیوی آئ اور بولی کوئی بات نہیں۔۔ آپ غمگین نہ ہوں۔

میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔۔

تھوڑی دیر بعد شازیہ کمرے میں آئ۔

اور بولی بابا، 

ہمیں گوشت نہںں کھانا ۔ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ویسے بھی،

یہ سننا تھا کہ آنکھوں سے آنسو گرنےلگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے 

لیکن رونے والے وہ اکیلے نہیں تھے۔۔

دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہے تھے۔۔

اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئ۔۔

جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔۔ 

انور بھائی، 

دروازہ کھولو، 

دروازہ کھولا تو اکرم نے تین چار کلوگوشت کا شاپر پکڑا دیا، 

اور بولا ،

گاٶں سے چھوٹا بھائ لایا ہے۔ 

اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے۔

یہ تم بھی کھا لینا 

خوشی اورتشکر کے احساس سےآنکھوں میں آنسو آ گۓ ۔

اور اکرم کے لیۓ دل سے دعا نکلنے لگی۔

گوشت کھا کر ابھی فارغ ھوۓ ہی تھے کہ بہت زور کا طوفان آیا ۔

بارش شروع ہو گئ۔ اسکے ساتھ ہیبجلی چلی گئی۔

دوسرے دن بھی بجلی نہی آئی۔ 

پتہ کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا۔

تیسرے دن شازیہ کو لے کرباہر آئے تو دیکھا کہ، 

ماسٹر جی اور ڈاکٹر صاحب بہت سا گوشت باہر پھینک رہے تھے ۔ 

جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔ 

اور اس پر کُتے جھپٹ رہے تھے۔

شازیہ بولی، 

بابا۔ 

کیا کُتوں کے لیۓ قربانی کی تھی؟ 

وہ شازیہ کا چہرہ دیکھتے رہ گیے ۔ 

اور ماسٹر جی اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔ 

خدرا احساس کریں غریب اور مسکین لوگوں کا۔

یہ صِرف تحریر ھی نہیں، 

اپنے آس پاس خود دار مساکین کی‎ ‎ضرورتوں سے ہمہ وقت آگاہ رھنے کی درخواست بھی ھے۔

جناح تو الله کا ولی ہے

"جناح تو اللّه کا ولی ہے "
قائد اعظم محمّد علی جناح پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن ان کی روحانی زندگی پر زیادہ کچھ نہیں لکھا ملتا ۔ میں یہاں ان کے ایک لکھے گئے خط پر روشنی ڈالوں گا ۔
حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحب نے آپ کے لئے قرآن پاک ، جائے نماز ، تسبیح ، آب زم زم اور کچھ دوسری اشیا بھیجیں ان کے جواب میں آپ نے ان کو خط لکھا جس کے الفاظ یہ تھے 
" جب تک آپ جیسے بزرگوں کی دعائیں میرے ساتھ ہیں یہ پہلے سے ہی میرے مشن میں کامیابی کی ضمانت ہیں ۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں مجھے کتنی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے میں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔آپ نے مجھے قرآن پاک تحفے میں دیا کیوں کہ میں مسلمانوں کا لیڈر ہوں یہاں تک کہ مجھے تو سہی طریقے سے اس پاک کتاب کا خاص علم بھی نہیں اور اچھی طرح سمجھتا بھی نہیں ہوں تو میں کیسے مسلمانوں کو لیڈ کر سکتا ہوں ؟ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں ضرور قرآن پاک کو پڑھوں گا میں نے انگلش ٹرانسلیشن لے لی ہے اور اب ایک بہترین عالم کی سرچ میں ہوں کہ وہ مجھے اچھی طرح گائیڈ کر سکے۔ آپ نے مجھے جائے نماز دیا کیوں کہ جب میں اپنے رب کی نہیں سن رہا ہوں گا تو لوگ میری کیوں کر سنیں گے ؟ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں باقاعدگی سے نماز پڑھوں گا ۔آپ نے مجھے تسبیح دی تا کہ میں درود شریف پڑھ سکوں وہ انسان جو کہ آقا دو عالم صلی اللّه علیہ وسلم کا فیض نہیں حاصل کر سکتا اللّه تعالیٰ کیوں کر اس پر اپنی رحمت فرماے گا ؟ میں ضرور عمل کروں گا انشاء اللّه" 
جب یہ خط حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحب نے پڑھا تو حیران رہ گئے اور فرمایا 
" میں حیدر آباد میں بیٹھا ہوں جب کہ جناح ممبئی میں ہے اس کو کیسے پتا چل گیا جو کہ میرے دل میں تھا یہاں تک کہ میں نے مینشن بھی نہیں کیا تھا سچ میں جناح اللّه کا ولی ہے "

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے ...
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ذرا سوچئے!

زرا سوچیئے🤔


پورا سال یہودیوں کے خود ساختہ فارمی مرغی 🐣🐓کھاتے رہتے ہیں جو ھر قسم جراثیم کا منبع ہے اور جس کو سائنس ھزار بار مضر صحت ثابت بھی کر چکا ہے اسکے بارے میں کوئی پریشانی نہیں 

پورا سال یہ مال مویشی🐃🐪🐫🐏🐐 پاکستان کے اندر ہی رہتا ہے اور قصاب کے ھاتوں سے اور گندے ھوٹلز سے کھاتے رہتے ہیں کسی کو کانگو نہیں ہوتا 
🤔🤔🤔🤔🤔🤔
لاکھوں زمینداروں نے مال مویشی پالے ھوئے ہیں اور پورا سال اپنے ھاتوں سے اس کے نگہداشت کرتے ہیں 
سال بھر کوئی نہیں کہتا کہ کانگو وائرس ہے 
سال بھر یہ سبق نہیں پڑھایا جاتا 
کہ دستانے 🥊پہن کر گوشت🍖 بنائیں عید قربان کے بابرکت موقع پر ان بے غیرت محکموں💳 کو اور بے غیرت میڈیا 📡کو کانگو یاد آتا ہے تا کہ اس عظیم جزبے کو آہستہ آہستہ متنازعہ بنا دیا جائے اور لوگوں کو اس حد تک ڈرا دیا جائے کہ ان کے ذہن میں آ جائے کہ قربانی کے جانور اچھوت ہیں 
تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہ ان لعنتیوں کی باتوں پہ دھیان مت دیں قربانی کے جانوروں سے محبت کریں ۔خصوصاََ قربانی سے ایک دن پہلے ان کو اپنے ہاتھوں سے نہلا کر تیار کریں.
صدقہ جاریہ
سمجھ کر زیادہ سے زیادہ شئیر کریں📜

شعور کی تین سطحیں

ﺷﻌﻮﺭ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﺳﻄﺤﯿﮟ ﮨﯿﮟ -
ﺷﻌﻮﺭ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﻄﺢ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﺪ ﮐﻼﻣﯽ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺪ ﮐﻼﻣﯽ ﺳﮯ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ, ﺍﯾﻨﭧ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﺘﮭﺮ ﺩﮮ ﻣﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ-
ﺷﻌﻮﺭ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﻄﺢ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﺪ ﮐﻼﻣﯽ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﺪ ﮐﻼﻣﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺎﻝ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ-
ﺷﻌﻮﺭ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺳﻄﺢ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ- ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﭘﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﺮﮮ ﺍﺧﻼﻕ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺍﺧﻼﻕ ﺳﮯ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ-
ﺷﻌﻮﺭ ﮐﯽ ﯾﮩﯽ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺳﻄﺢ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﺪ ﺗﺮﯾﻦ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﻮ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺩﻭﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎ ﺍﺧﻼﻕ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ۔

🕋 Dhul Hijjah Checklist for 10 Days ✅

🕋 Dhul Hijjah Checklist for 10 Days ✅

✅ Tahajjud 🌘
☑ Ale Imran Last 10 Ayahs 📜
✅ Long Beautiful Fajr Salah 🌥
☑ After Salah Adhkaar 
✅ Recite Qur'an 📖
☑ Morning Adhkaar ☀
✅ Salaat al-Duhaa 🌤
☑ Memorize an Ayah 🎯
✅ Takbeerat ⏰ 
☑ Do Istighfaar 💬
✅ Dhuhr Salah 🕌
☑ After Salah Adhkaar 
✅ Nap Time After Dhuhr 💤
☑ Takbeerat ⏰
✅ Give Sadaqah💰
☑ Share Something Beneficial with Others 🖥
✅ 'Asr Salah 🕌
☑ After Salah Adhkaar 
✅ Learn Something New 🛋
☑ Evening Adhkaar 🌙
✅ Maghrib Salah 🕌
☑ After Salah Adhkaar 
✅ Call/Message a Family Member ☎
☑ Review the Memorized Ayah💡
✅ Isha Salah 🕌
☑ After Salah Adhkaar 
✅ al-Mulk & al-Isra & al-Sajdah & al-Zumar 📜
☑ Forgive Everyone Before Sleeping 💤
✅ Bed Time Adhkaar 🛏
☑ Seek Allah's Forgiveness 🛌
✅ Do Wudu before you Sleep 🚿

Let's make our days rewarding ✅

The Messenger (peace be upon him) said, 🕋🌄“There are no days in which righteous actions are more beloved to Allah than these ten days...”🌄 🕋 (Al-Bukhari, 2/457)