بدھ، 31 جنوری، 2018

ادب پہلا قرینہ ہے۔ (جناب جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا ایمان افروز واقعہ)

ادب پہلا قرینہ ہے

محبت، عشق، رسول اللہ ﷺ، دنیا، دین، پہلوان، جنید، بغدادی، سید، احترام، نسبت,

🍍صرف سبق آموز واقعات کیلئے🍍

جُنید بَغْدادی رحمتہ اللہ علیہ

(شروع میں) خلیفہ بغداد کے درباری پہلوان اور پوری مُملکت کی شان تھے۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ چوبدار نے اطلاع دی کہ صحن کے دروازے پر صبح سے ایک لاغَر و نیم جان شخص برابر اِصرار کررہا ہے کہ میرا چیلنج جُنید رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچا دو ،میں اس سے کُشتی لڑنا چاہتا ہوں۔لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی مگر خلیفہ نے درباریوں سے باہمی مشورہ کے بعدکُشتی کے مقابلے کیلئے تاریخ و جگہ مُتَعَیَّن کردی۔
انوکھی کشتی مقابلے کی تاریخ آتے ہی بَغداد کا سب سے وسیع میدان لاکھوں تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ اعلان ہوتے ہی حضرت جُنید بَغْدادی رحمتہ اللہ علیہ تیار ہوکر اَکھاڑے میں اُتر گئے۔ وہ اجنبی بھی کمر کَس کر ایک کنارے کھڑا ہوگیا۔ لاکھوں تماشائیوں کیلئے یہ بڑا ہی حیرت انگیز منظر تھا ،ایک طرف شُہرت یافتہ پہلوان اور دوسری طرف کمزور و نَحیف شخص ۔
حضرت جُنید رحمتہ اللہ علیہ نے جیسے ہی خَم ٹھونک کر زور آزمائی کیلئے پنجہ بڑھایا تواجنبی شخص نے دبی زبان سے کہا۔
کان قریب لائیے مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔
نہ جانے اس آواز میں کیا سِحر تھا کہ سنتے ہی حضرت جُنید رحمتہ اللہ علیہ  پر ایک سکتہ طاری ہوگیا ۔ کان قریب کرتے ہوئے کہا ،فرمائیے!
اجنبی کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ بڑی مشکل سے اتنی بات منہ سے نکل سکی۔ جُنید! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ایک آلِ رسول ہوں ،سَیِّدہ فاطِمہ رضی اللہ عنہا کا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتے سے جنگل میں پڑا ہوا فاقوں سے نیم جان ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھوک کی شدت سے بے حال ہوگئے ہیں۔ ہر روز صبح کو یہ کہہ کر شہر آتا ہوں کہ شام تک کوئی انتظام کر کے واپس لوٹوں گا لیکن خاندانی غیر ت کسی کے آگے منہ نہیں کھولنے دیتی۔ شرم سے بھیک مانگنے کیلئے ہاتھ نہیں اٹھتے۔ میں نے تمہیں صرف اس امید پر چیلنج دیا تھا کہ آلِ رسول کی جو عقیدت تمہارے دل میں ہے۔ آج اس کی آبرو رکھ لو۔ وعدہ کرتا ہوں کہ کل میدانِ قِیامت میں ناناجان صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا۔
اجنبی شخص کے یہ چند جملے نِشتَرکی طرح حضرتِ جُنیدرحمتہ اللہ علیہ کے جِگَر میں پَیوست ہوگئے پلکیں آنسوؤں کے طوفان سے بوجَھل ہوگئیں، عالم گیر شُہرت و نامُوس کی پامالی کیلئے دل کی پیشکش میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔
بڑی مشکل سے حضرتِ جُنید رحمتہ اللہ علیہ نے جذبات کی طُغیانی پر قابو حاصل کرتے ہوئے کہا کِشْوَرِ عقیدت کے تاجدار! میری عزت و نامُوس کا اس سے بہترین مَصْرَف اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسے تمہارے قدموں کی اُڑتی ہوئی خاک پر نثار کر دوں۔
اتنا کہنے کے بعد حضرتِ جنید رحمتہ اللہ علیہ  خَم ٹھونک کر للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور سچ مُچ کُشتی لڑنے کے انداز میں تھوڑی دیر پینتر ا بدلتے رہے ۔لیکن دوسرے ہی لمحے میں حضرتِ جنید رحمتہ اللہ علیہ چاروں شانے چِت تھے اور سینے پر سَیِّدہ فاطِمہ زَہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاایک نحیف و ناتُواں شہزادہ فتح کا پرچم لہرا رہا تھا۔
ایک لمحے کیلئے سارے مجمع پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی ۔ حیرت کا طِلِسْم ٹوٹتے ہی مجمع نے نحیف و ناتُواں سَیِّد کو گود میں اٹھا لیا۔ اور ہر طرف سے انعام و اِکرام کی بارش ہورہی تھی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے ایک گمنام سَیِّد خلعت و انعامات کا بیش بہا ذخیرہ لیکر جنگل میں اپنی پناہ گاہ کی طرف لوٹ چکا تھا۔
حضرتِ جُنید رحمتہ اللہ علیہ اکھاڑے میں چت لیٹے ہوئے تھے۔ ا ب کسی کوکوئی ہمدردی ان کی ذات سے نہیں رہ گئی تھی۔ آج کی شکست کی ذلتوں کا سُرُور ان کی روح پر ایک خمار کی طرح چھا گیا تھا۔
عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرتِ جُنید رحمتہ اللہ علیہ جب اپنے بستر پر لیٹے تو بار بار کان میں یہ الفاظ گونج رہے تھے۔ میں وعدہ کرتاہوں کہ کل قِیامت میں نانا جان سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا۔
دستارِ ولایت کیا سَچ مُچ ایسا ہوسکتا ہے؟کیا میری قسمت کا ستارہ یک بیک اتنی بلندی پر پہنچ جائیگا کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نورانی ہاتھوں کی بَرَکتیں میری پیشانی کو چُھولیں ۔ اپنی طرف دیکھتا ہوں تو کسی طرح اپنے آپ کو اس اعزاز کے قابل نہیں پاتا۔آہ ! اب جب تک زندہ رہوں گا قِیامت کیلئے ایک ایک دن گننا پڑیگا۔
یہ سوچتے سوچتے حضرتِ جُنید رحمتہ اللہ علیہ کی جیسے ہی آنکھ لگی ۔سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔سامنے شہدسے بھی میٹھے میٹھے آقامسکَراتے ہوئے تشریف لے آئے۔لب ہائے مبارَکہ کو جُنبِش ہوئی،رَحمت کے پھول جھڑنے لگے۔ الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے:
جُنید اٹھو، قِیامت سے پہلے اپنے نصیبے کی سرفرازیوں کا نظارہ کرلو۔ نبی زادوں کے نامُوس کیلئے شکست کی ذلتوں کا انعام قِیامت تک قرض نہیں رکھا جائیگا۔سر اٹھاؤ، تمہارے لئے فتح و کرامت کی دَستار لیکر آیاہوں۔آج سے تمہیں عرفان و تَقَرُّب کی سب سے اونچی بِساط پر فائز کیا گیا۔ بارگاہ ِیَزدانی سے گروہِ اولیاء کی سَروَرِی کا اعزاز تمہیں مبارَک ہو۔
ان کَلِمات سے سرفراز فرمانے کے بعد سرکارِ مدینہ، سرورِ قلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحبِ معطر پسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت جُنیدبَغْدادی رحمتہ اللہ علیہ کو سینے سے لگالیا۔ اس عالمِ کیف بار میں اپنے شہزادوں کے جاں نثار پر وانے کو کیا عطافرمایا اس کی تفصیل نہیں معلوم ہوسکی۔ جاننے والے بس اتناہی جان سکے کہ صبح کو جب حضرتِ جُنید رحمتہ اللہ علیہ کی آنکھ کھلی تو پیشانی کی موجوں میں نور کی کرن لہرارہی تھی۔ سارے بغداد میں آپ کی ولایت کی دھوم مچ چکی تھی،خواب کی بات بادِصبانے گھر گھر پہنچادی تھی، کل کی شام جو پائے حِقارت سے ٹھکر ادیاگیا تھا آج صبح کو اس کی راہ گزر میں پلکیں بچھی جارہیں تھیں۔ایک ہی رات میں سارا عالم زِیر وزَبر ہوگیا تھا۔طلوعِ سَحر سے پہلے ہی حضرتِ جُنید بَغْدادی رحمتہ اللہ علیہ کے دروازے پر درویشوں کی بھیڑ جمع ہوگئی تھی۔ جونہی آپ رحمتہ اللہ علیہ باہر تشریف لائے خراج عقیدت کیلئے ہزاروں گردنیں جھک گئیں۔ خلیفہ بغداد نے اپنے سرکاتاج اتار کر قدموں میں ڈال دیا۔ سارا شہر حیرت و پشیمانی کے عالم میں سرجھکائے کھڑا تھا۔حضرت جُنید بَغْدادی رحمتہ اللہ علیہ نے مسکَراتے ہوئے ایک بار نظر اٹھائی اورسامنے موجود عاشقانِ رسول کے ہیبت سے لرزتے ہوئے دلوں کو سُکون بخش دیا۔ پاس ہی کسی گوشے سے آواز آئی گروہِ اَولیاء رحمہم اللہ کی سَروَری کا اعزاز مبارَک ہو، منہ پھیر کر دیکھا تو وہی نَحیف و نزار آلِ رسول فرطِ خوشی سے مسکَرارہا تھا۔ آلِ رسول کے اَدَب کی بَرَکت نے ایک پہلوان کولمحوں میں آسمانِ ولایت کا چاند بنادیا۔ ساری فضا سَیِّدالطائفہ کی مبارَک باد سے گونج اٹھی ۔
======================
(زلف زنجیر مع لالہ زار ، انعام شکست ، ص ۶۲ تا ۷۲) .
نقل وچسپاں

امام مسجد نبوی ﷺ کا اساتذہ کے نام اہم پیغام

مسجد نبوی ﷺ کے امام کا اساتذہ کرام کو ذمہ داریوں کے حوالے سے اہم پیغام

اساتذہ، ذمہ داری، طلباء، اسلام,مسجد نبوی، پیغام,


اساتذہ کی خدمت میں چند گزارشات

📚اساتذہ کرام کی خدمت میں چند گزارشات📚

کمزور طلباء، تدریسی نسخہ جات، مجربات، اعمال و افعال، اساتذہ، طلباء

*کمزورطلبا پر محنت کرنے کا طریقہ*:

1، *سب سے پہلے طالب علم کی کمزوری کو سمجھنے کی کوشش کریں* کہ طالب علم میں کمزوری کس اعتبار سے ہے:سماعت بصارت میں کمزوری ہے یا ذہنی کمزوری ہے؟
*اگر کمزوری کی وجہ سماعت ہو*
تو استاذ اپنے قریب بٹھائے اور آواز قدرے اونچی کرے
*اور اگر نگاہ کمزور ہو*
تو بورڈ کے قریب بٹھائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس طالب علم کے والدین کو اس کے علاج کی طرف بھی متوجہ کریں۔
*اگر طالب علم ذہنی اعتبار سے کمزور ہو*
تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ استاذ سبق باربار کہلوائیں، سبق کو آسان کریں اور نئی نئی مثالیں دے کرسمجھانے کی کوشش کریں اس سے بھی کافی فرق پڑ جائے گا۔
*اگر کمزوری کی وجہ طالب علم کی جھجک یا توتلا پن ہو*
تو ایسے طالب علم کو استاذ خصوصی توجہ دے اور کوشش کرے کہ کوئی اور طالب علم اس طالب علم کا مذاق نہ اڑائے۔
2، *کمزور بچے پر اس طریقے سے محنت کریں* کہ اس بچے کو اور کلاس کے دیگر طلبا کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ طالب علم کمزور ہے ۔
3، *بعض بچے ڈر اور خوف کی وجہ سے گھبرا جاتے ہیں جس سے ان کی استعداد دب جاتی ہے*
ایسے بچوں سے نرمی کا برتاؤ کیا جائے تو ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے۔
4، *کمزور طالب علم کو مَاشَآءَاللّٰہ ،جَزَاكَ اللّٰہ خَیْرًا کہتے رہیں* اور خوب حوصلہ افزائی کریں۔
5، *بعض طلبا کی عمومی صحت کمزور ہوتی ہے جو ان کی تعلیمی کمزوری کا سبب بن جاتی ہے*
اگر ایسی صورت ہو تو والدین کو اس بچے کی صحت کی طرف متوجہ کریں۔
6، *کمزور طالب علم کو نامناسب الفاظ اور مایوس کن کلمات ہر گز نہ کہیں اور نہ کبھی طعنہ دیں،*
جیسے:نکمے، جاہل، احمق، تو تو پڑھ ہی نہیں سکتا،تیری شکل پڑھنے والوں جیسی نہیں ہے، تو پڑھنے میں زیرو ہے، کھیلنے میں تو ہیرو ہے وغیرہ وغیرہ۔
7، *کمزور طالب علم کو انفرادی وقت دیں*۔
8، *کمزور طالب علم کی ذہین طالب علم کے ساتھ جوڑی بنائیں*
9، *کمزور طالب علم کو درس گاہ میں آگے بٹھا ئیں*
10، *کمزور طالب علم سے آسان آسان سوالات پوچھیں تاکہ اس میں خود اعتمادی کی صفت پیدا ہو*
11، *دہرائی والے دن سبق یا د کرانے کی کوشش کریں*
12، *بزم والے دن کمزور طالب علم کاکمزور طالب علم سے مقابلہ کرائیں*
13، *کمزور طالب علم کو اچھے مستقبل کی خوش خبری سناتے رہیں کہ محنت کرتے رہو انشاءاللہ تمہاری محنت ضرور رنگ لائے گی*
14، *کمزور طلبا کے والدین سے ملاقات کے دوران انھیں فکر مند تو ضرور کریں تاکہ وہ توجہ کے ساتھ دعائیں مانگیں البتہ والدین سے طالب علم کی خامیوں کا ایسا تذکرہ با لکل بھی نہ کریں کہ جس سے وہ مایوس ہوں*
15، *استاذسچے دل سے اس بات کی نیت کرے کہ مجھے ہر حال میں ان کمزور طلبا کو اچھے طلباکی فہرست میں لانا ہے، انشاءاللہ جب استاذ سچی نیت کرے گا تو اللہ تعالی ضرور مدد فرمائیں گے*

منگل، 30 جنوری، 2018

شادی اور جنازہ کا فرق منظوم

نکاح اور جنازہ 

نظم، شادی، جنازہ، فرق، عبرت، دعوت، اصلاح,


شادی اور جنازہ میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ایک نظم میں خوبصورتی کا ساتھ منظر کشی کی گئی ہے ۔

فرق صرف اتنا سا تھا
فرق صرف اتنا سا تھا


تیری ڈولی اٹھی
میری میت اٹھی 



پھول تجھ پہ برسے،
پھول مجھ پر بھی برسے
فرق صرف اتنا سا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تو سج گئی!
مجھے سجایا گیا

تو بھی گھر کو چلی
میں بھی گھر کو چلا
فرق صرف اتنا سا تھا


تو اٹھ کے گئی
مجھے اٹھایا گیا  


محفل وہاں بھی تھی
لوگ یہاں بھی تھے
فرق صرف اتنا ہے 


ان کو ہنسنا وہاں
ان کو رونا یہاں 



قاضی ادھر بھی تھا
مولوی ادھر بھی تھا 


دو بول تیرے پڑھے
دو بول میرے پڑھے
تیرا نکاح پڑھا
میرا جنازہ پڑھا
فرق صرف اتنا سا تھا۔ 



تجھے اپنایا گیا
مجھے دفنایا 

موت کی فکر نہ کرتا تھا۔۔۔۔ 


گناہ کو گناہ نہ سمجھتا تھا



دل چاہتا تھا کہ پڑھوں نماز


پر مسجد تک،  جسم نہ لے جاتا تھا۔

دنیا کی رونق میں مگن تھا۔



 وقت دوستی میں  برباد کرتا تھا۔


پر ایک دن اچانک اندھیرا چھا گیا 



آنکھ کھلی تو خود کو قبر میں پایا 



پھر اللہ نے پوچھا، کہ کیا لے کر آیا۔



گھر جانا چاہا لیکن جا نہ پایا۔




قبر کی تنہائی نے بہت ڈرایا ۔


آواز دی اپنوں کو تو کوئی نہ آیا 


وقت ہے سنبھل جا؟



قرآن کا ایک رکوع روزانا پڑھنے سے سال میں تین قرآن مکمل ہو جاتے ہیں ۔
جب آپ اس پیغام کو آگے بھیجنے لگیں گے تو شیطان آپ کو روکے گا ۔


????????

 یہ سوالیہ نشان ہے 

 دیکھتے ہیں، آپ کیا کرتے ہیں ۔
ایک سیکنڈ نہ سوچیں۔ صرف کاپی اور پیسٹ کر کے اپنے تمام نمبرز کو بھیج دیں۔۔
۔

حکومت پنجاب (پاکستان) نوکری کے لیے درخواست گزارنے اور بھرتی کا نیا نظام

ﻧﮧ ﻗﻄﺎﺭ ﻧﮧ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻧﯿﺎ ﺳﺴﭩﻢ

ﻻﮨﻮﺭ : ﻋﺎﻡ ﺍﻧﺘﺨﺎﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﮐﯽ ﻓﺮﺍﮨﻤﯽ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺻﻮﺑﺎﺋﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺎ ﺍﮨﻢ ﺍﻗﺪﺍﻡ۔ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﻧﮯ ﺻﻮﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﯾﮉ 11 ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﺎﻟﯽ ﺁﺳﺎﻣﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﻥ ﻻﺋﻦ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺑﮭﺮﺗﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔
ﺗﻔﺼﯿﻼﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻧﺌﯽ ﭘﺎﻟﯿﺴﯽ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﺩﺭﺁﻣﺪ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯾﺰ ﮐﻮ ﺟﺎﺏ ﭘﻮﺭﭨﻞ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﻓﻌﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺭﻭﺯ ﺍﯾﮉﯾﺸﻨﻞ ﭼﯿﻒ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﻋﻤﺮ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯽ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯾﺰ ﮐﺎﻧﻔﺮﻧﺲ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﯾﮉ 11 ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﺎﻟﯽ ﺁﺳﺎﻣﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺁﻥ ﻻﺋﻦ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺑﮭﺮﺗﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ، ﺟﺒﮑﮧ ﺻﻮﺑﺎﺋﯽ ﻣﺤﮑﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﺎﻟﯽ ﺍﺳﺎﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻼﺕ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﺟﺎﺏ ﭘﻮﺭﭨﻞ ﭘﺮ ﺁﻥ ﻻﺋﻦ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ۔
ﺍﯾﮉﯾﺸﻨﻞ ﭼﯿﻒ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺿﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﺏ ﭘﻮﺭﭨﻞ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﻓﻌﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﯽ۔
ﺍﺟﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮨﯽ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﺟﺎﺏ ﭘﻮﺭﭨﻞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﺮﻭﻓﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻨﺎﺩ ﺍ ﭖ ﻟﻮﮈ ﮐﺮﯾﮟ، ﺳﺴﭩﻢ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺧﻮﺩ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺷﻨﺎﺧﺘﯽ ﮐﺎﺭﮈ ﺳﻤﯿﺖ ﺗﻤﺎﻡ ﮈﯾﭩﺎ ﮐﯽ ﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ، ﺑﻠﮑﮧ ﺳﺴﭩﻢ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺷﺎﺭﭦ ﻟﺴﭩﻨﮓ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔
ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﮐﺎ ﭘﺮﻭﻓﺎﺋﻞ ﺳﺴﭩﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﺳﺎﻣﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭘﻼﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ۔
ﺍﺟﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺩﯾﮕﺮ ﻣﺤﮑﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻧﺌﯽ ﺍﺳﺎﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺴﭩﻢ ﺧﻮﺩ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﮐﻮ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﻢ ﺍﯾﺲ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻧﺌﯽ ﺍﺳﺎﻣﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮐﻠﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻼﺋﯽ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ۔
ﺍﯾﮉﯾﺸﻨﻞ ﭼﯿﻒ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﺭﺳﻮﻝ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﺟﺎﺏ ﭘﻮﺭﭨﻞ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻠﮏ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺑﻮﻁ ﻧﻈﺎﻡ ﮨﮯ۔ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﻗﺎﺑﻠﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﺮﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮯ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺮﻭﻓﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ۔
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮔﺮﯾﮉ 11 ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯽ ﺍﺳﺎﻣﯿﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺘﯿﮟ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮈﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺭﯾﺌﺮ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮐﺎﺭ ﺧﺘﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﺟﺎﺏ ﭘﻮﺭﭨﻞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺁﻥ ﻻﺋﻦ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮈﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺭﺋﯿﺮ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﭽﺖ ﮨﻮ ﮔﯽ۔
ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﮏ 24 ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﺟﺎﺏ ﭘﻮﺭﭨﻞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﺮﻭﻓﺎﺋﻞ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ 14 ﻣﺤﮑﻤﻮﮞ ﮐﯽ 372 ﺍﺳﺎﻣﯿﻮﮞ ﭘﺮ 29112 ﺁﻥ ﻻﺋﻦ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺘﯿﮟ ﻣﻮﺻﻮﻝ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﯾﮉﯾﺸﻨﻞ ﭼﯿﻒ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻧﺌﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﺳﮯ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﺘﻼﺷﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﮐﺎ ﺗﻌﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﺍﻧﻔﺎﺭﻣﯿﺸﻦ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ ﺑﻮﺭﮈ ﮐﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﯽ ﺧﻮﺩ ﻣﺨﺘﺎﺭﯼ ﺍﺗﮭﺎﺭﭨﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﭙﻨﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﺴﭩﻢ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﭧ ﭘﺮ www.jobs.punjab.gov.pk ﭘﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﺍﺳﺎﻣﯿﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﻥ ﻻﺋﻦ ﺍﭘﻼﺋﯽ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

مہنگا علاج مفت دستیاب ہے

*INDUS HOSPITAL*
Korangi crossing Karachi.

Is providing medical care to poor patients free of cost.
Standard of care is equal to Aga khan hospital,
even, *Angioplasty* is being done free of cost.

At this time, following specialities are fully working;

*Urology,*
*Nephrology,*
*Orthopaedics,*
*Cardiology,*
and
*Cardiac Surgery.*

Please pass this information to needy patients.

Contact:
*Dr. Manzoor Kori.*
0331-2125062,
021-35112709 to 17

Sirf aek msg kisi ki jaan bacha sakta hay,
*Thank you for Forwarding.*

 HEPATITIS (B & C)📢
ھپٹائٹس B اور ھپٹائٹس C ایک خطرناک جان لیوا مرض ہے ۔اس کا علاج Interferon  انجکشن ہے جس کی قیمت 13000 ہزار روپے فی انجکش ہے ۔
ایسے نادار مریض جو اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔
 وہ درج نمبروں پر رابطہ کرکے اسے مفت حاصل کرسکتے ہیں۔

محمد منصور معیز صاحب۔
0300-3253403
021-32729166
0333-2731568
0305-3315024
0307-0214592
0333-3452207
0346-2011407
0347-3690704
0341-1317755
0301-2263476
0312-2008836
0344-2553659
0333-0515052
0344-0216319
0331-3661739
0333-3452207
0333-2195906
0316-5272976
0347-2180932
0305-3301471
0312-3341952
0316-2252091
0333-3375182
0304-2102187
0347-9871450
0321-6030998
0300-0275105

اس میسج کو  کسی Group میں ارسال کریں۔
کسی کی جان بچانے پر اللہ تعالی اپ کو بھی دنیا اور آخرت کی کامیابی عطاء فرمائے . آمین _

پانچویں نسل کی جنگ. ہوشیار

*انتہائی ضروری تحریر*
*خدارا ضرور پڑہیں*

         وہ تب تک حاوی نہیں ہوسکتے جب تک آپ کی فوج  ہے، فوج کو وہ خود شکست نہیں دے سکے، اب یہ کام وہ آپ سے لینا چاہتے ہیں۔ 

بس یہی ففتھ جنریشن وار ہے۔ 

اگر آپ یہ خود کشی نہیں کرنا چاہتے تو اپنی فوج کو نشانہ بنانا بند کیجیے۔ 

اور اگر مقابلہ کرنے کا دل ہے تو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو مورچہ سمجھ لیجیے۔۔۔۔۔۔۔ 

بنیادی طور پر آپ کے تین نمایاں دشمن ہیں۔ 

لبرلز:  ایمان کے دشمن 
خارجی: جان کے دشمن 
جمہوریے: مال کے دشمن

تینوں کے پاس خوبصورت نعرے 

لبرلز انسانیت کا نعرہ، 
خارجی اسلام کا نعرہ، 
اور جمہوریے حقوق کا نعرہ، 

لیکن ایک کافر کرتا ہے، دوسرا مارتا ہے اور تیسرا لوٹتا ہے۔ 

تینوں کا آپس میں ایک غیراعلانیہ اتحاد ہے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔  پاک فوج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!!

خارجی پاک فوج کو اسلام دشمن کہہ کر، 
لبرلز پاک فوج کو دہشت گرد کہہ کر، 
اور سیاست دان پاک فوج کو جمہوریت دشمن کہہ کر اس پر حملہ آور ہیں، 

ان کو امریکہ، برطانیہ اور انڈیا کی بھرپور مدد و حمایت حاصل ہے۔ 

ان سے لڑنا کیسے ہے؟

1 ۔۔۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف پوسٹ کیا گیا مواد ہرگز شیر مت کیجیے۔ 

2 ۔۔۔۔ ایسے مواد پر لائک یا کمنٹ مت کیجیے۔ مخالفت میں بھی کمنٹ کرینگے تو وہ پوسٹ کی ریچ بڑھا دیگا۔ 

3۔۔۔۔۔۔ ہوسکے تو فیس بک کو رپورٹ کیجیے۔ 

4 ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس اکاؤنٹس سے ایسا مواد شیر کیا گیا ہے اسکو انفرینڈ یا انلائک کیجیے۔

5 ۔۔۔۔۔ ایسے اکاؤنٹس اکثر فیک ہوتے ہیں اس لیے فیس بک کو رپورٹ کیجیے۔ 

6 ۔۔۔۔ پاک فوج کو سپورٹ کرنے والا مواد گروپس میں اور وٹس ایپ وغیرہ پر زیادہ سے زیادہ شیر کیجیے۔ 

7 ۔۔ پاک فوج سے متعلقہ پیجز اور اکاؤنٹس کو لائیک یا فالو کیجیے۔ 

8 ۔۔۔۔ خود بھی لکھنے کی کوشش کیجیے۔ 

9 ۔۔۔۔۔ یہ فوج آپ کے لیے جانیں دے رہی ہے اس پر بھروسہ رکھئے۔ غیر واضح معاملات میں دشمن آپ کو فوج سے بدگمان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں مت آئیے۔ 

یہ " فوج اچھی ہے اور جرنیل برے ہیں" کہہ کر آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ 

ان کے سامنے پاک فوج کی قربانی کی خبر پیش کریں تو بظاہر غم زدہ ہونے کا ڈراما کرتے ہوئے آپ کو بتائنگے کہ " یہ فلاں جرنیل کی غلطی ہے" اور یوں پاک فوج پر ہی تنقید کرینگے۔ 

اگر دشمن حملہ کرے تو بجائے اس کو ملامت کرنے کے یہ آپ کو پاک فوج کو ہی ملات کرتے نظر آئنگے  کہ " کہاں گئی اپ کی جانباز فوج" ۔۔۔۔ 

ان کی ان چالوں کو سمجھیے۔  

گستاخانہ پیجز چلانے والے، آپ پر بموں سے حملے کرنے والے اور آپ کو لوٹنے والے ہرگز ہرگز ہرگز آپ کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ 

خدا کی قسم پاک فوج نہ رہی تو افغانستان اور انڈیا آپ کو کھا جائنگے۔ ان کو تو چھوڑیں آپ ان خوارج سے ہی نہیں نمٹ سکیں گے جن کو صرف آپ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ 

اسلام کے خلاف جنگ میں پاکستان اہم ترین قلعہ ہے اور پاکستان تب تک فتح نہیں ہو سکتا جب تک پاک فوج موجود ہے۔ اپنی ہی فوج کو شکست دینے میں دشمن کا ہاتھ مت بٹائیے۔ 

💞🇵🇰👨🏻‍🎨

*نوٹ ۔۔ اپنی جنگ کا آغاز اس مضمون کو شیر کر کے کیجیے*

پیر، 29 جنوری، 2018

الله کی رحمت کے لیے اعمال کی اصلاح ضروری ہے

خطیب صاحب نے نماز جمعہ کا سلام پھیرا ہی تھا...
 کہ ایک مقتدی نے بلند آواز سے مولانا صاحب سے گزارش کی کہ بارش کےلئے بھی دعا فرمائیں.....
 مولانا صاحب نے نظر بھر کے نمازیوں کو دیکھا....
 اور کہا
 کہ اس سے پہلے ایک ضروری اعلان ہے....
 اس کے ساتھ ہی جیب سے ایک لفافہ نکالا اور بولے....
 کہ کسی شخص کے تین ہزار روپے گرے ہوں تو نشانی بتا کر لے سکتا ہے....
 اس کے بعد دعا ہو گی....
 مولانا صاحب نے بات مکمل کی ہی تھی...
 کہ بھری مسجد سے تین ہزار کے دعویدار پندرہ کے لگ بھگ نمازی کھڑے ہو گئے..... 
 مولانا صاحب نے کہا...
 کہ یہ لفافہ میری اہلیہ نے دیا تھا..... 
کچھ سودا سلف لانا تھا...
 آپ پندرہ بندے کھڑے ہو گئے ہیں....
 میں 45ہزار کہاں سے لاوں..... سب تشریف رکھیں...
 اپنے اعمال درست کریں.....
 بارشیں اللہ کریم برسا دے گا.

استاد کی اہمیت، مقام اور ذمہ داری

ایک استاد نے کلاس کو متحرک کرنے, جوش اور ولولہ سے معمور کرنے کیلیئے کلاس میں ایک طالب علم سے پوچھا آپ کی عمر کتنی ہے ؟
طالب علم نے جواب دیا : جناب انیس سال
استاد نے پھر سوال کیا : محمد قاسم نے جب سندھ کو فتح کیا تھا اس کی عمر کتنی تھی؟
طالب علم : سترہ سال
استاد : سکندر اعظم جب یونان کا بادشاہ بنا تو اس کی عمر کتنی تھی؟
طالب علم : انیس سال
استاد : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹے نبی مسیلمہ بن کذاب کی سرکوبی کیلئے جو لشکر ترتیب دیا تھا اس کے سپہ سالار اسامہ بن زید کی عمر کیا تھی ؟
طالب علم : سترہ یا انیس سال
استاد نے طنزیہ نظروں سے کلاس کی جانب دیکھا اور سوال کیا : تمھاری عمر کتنی ہے اور تم نے اب تک کیا کیا ہے؟
طالب علم نے اعتماد سے جواب دیا : استاد محترم محمد بن قاسم کی عسکری تربیت حجاج بن یوسف جیسے سپہ سالار نے کی تھی
سکندر اعظم ارسطو فلاسفی کا شاگرد تھا
اور اسامہ بن زید نے خیرالبشر حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ تربیت پائی تھی .
محترم مجھے بھی اچھے استاد دے دیں اور اچھی تربیت دے کر اچھا کردار لے لیں . بےشک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے..

پڑھتا جا، شرماتا جا

#پڑھتا جا #شرماتا جا

     (جس کی نوبت پاکستان میں زیادہ لوگوں میں کم ھی آتی ھے) 

جو لوگ #پارلیمنٹ کو #لعنت بھیجنے پر اپنی لمبی زبانوں سے بکواس کرتے رھے وہ اگر اپنا مکروہ معاشرتی چہرہ دیکھنا چاھتے ھیں تو یہ تازہ اندھوناک سچا واقعہ پڑھ لیں اور فیصلہ کریں لعنت پوری قوم پر بھیجی جائے یا پارلیمنٹ پر :-

#As #Received :

ہم سب بطور قوم مجموعی لعنت کے حقدار ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ 
ضلع سرگودھا کی ایک تحصیل کوٹ مومن ہے ، اس کے ایک گاوں کا نام بچہ کلاں ہے ، ایک غریب مسکین اور بدقسمت محنت کش احمد خان جس کی قوم مسلم شیخ ہے اس بدنصیب کا تعلق بھی اسی گاوں سے ہے 
احمد خان کی 11 سالہ بیٹی سونیا 26 جنوری 2018 یعنی پرسوں بروز جمعہ شام کے وقت کے قریب گھر دے تھوڑا دوری پر کھیتوں میں رفع حاجت کیلئے جاتی ہے ، کہ اسی دوران وہاں پر اوباش اسے زیادتی کا نشانہ بنا دیتے ہیں 
والدین گھر میں پریشان ہوتے ہیں ، بیٹی ابھی تک واپس نہیں آئی ، ماں کا صبر جواب دیتا ہے وہ دوڑتی ہوئی گھر سے نکلتی ہے اور اس کا خاوند بھی بیوی کے ہمراہ چل پڑتا ہے 
اہل علاقہ سے پوچھتے پوچھاتے کھیتوں کے پاس پہنچتے ہیں تو انہیں اپنا چاند نظر آتا ہے کہ جس کی زندگی اور کردار پر بدبخت ہمیشہ کیلئے داغ لگا چکے ہوتے ہیں ، بیٹی کو نیم مردہ حالت میں دیکھ کر ماں کی چیخ نکلتی ہے ، برہنہ جسم پر چادر ڈالتی ہے تو غریب باپ کے سر پر میلی سی پگ کھل کر گلے میں آ جاتی ہے ، میرا وجدان کہتا ہے کہ اس باپ نے ایک بار ضرور سوچا ہوگا کہ اسی سے پھندا لے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے ، لیکن شاید غریب کو اب موت بھی نہیں آتی ہے 
بیوی کی طرف دیکھتا ہے تو وہ پانی سے نکالی مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہوتی ہے ، بیٹی کو چوم چوم کر اس کا درد بانٹنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے ، اپنے آنسو گلے میں پھندے کی طرح لٹکے کپڑے سے پوچھتا ہے اور پھر بیوی کو ڈھارس بندھاتے کہتا ہے ہم ظالموں سے سونیا کا بدلہ ضرور لیں گے ، اور بیوی خالی نظروں سے کبھی احمد خان کو دیکھتی ہے اور کبھی سونیا کے جسم کو ٹٹولتی ہے کہ جس معصوم کو اس طرح مسلا گیا جیسے کلیوں کو مسلا جاتا ہے  
11 سالہ چھوٹی سی بیٹی کو احمد خان اٹھاتا ہے جائے وقوعہ سے گھر کی طرف لاتا ہے اور پھر ہمراہ کچھ مقامی افراد کے قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کیلئے تھانہ میلہ پہنچتا ہے ،لیکن شاید وہ بھول جاتا ہے کہ ہمارے قانون اور انصاف کے درودیوار غریب کی سوچ سے بھی اونچے ہوتے ہیں ، اس لیے قانون کے بیٹے اسے ہسپتال جانے کا کہتے ہیں کہ مقدمہ تب ررج کیا جائے گا اگر میڈیکل ایگزیمینیشن کروا کر لاو گے ، غریب باپ اپنی 11 سالہ لٹی ہوئی بیٹی کو لے کر تحصیل ہسپتال کوٹمومن پہنچتا ہے ، جہاں ایک بار پھر اس کی غربت کا مذاق اڑایا جاتا ہے ، 
تحصیل ہسپتال کوٹ مومن میں ان دکھوں کے مارے والدین کو کہا جاتا ہے کہ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نہیں ہیں اس لیے ابھی میڈیکل نہیں ہو سکتا ، دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور چہروں پر اپنا جرم ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ، جہاں غربت ، غربت اور غربت جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے
باپ کبھی اپنی بیٹی کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی ہسپتال میں لگی وزیراعلیٰ پبجاب شہباز شریف اور وزیر مملکت محسن شاہ نواز کی تصویروں پر نظر دوڑاتا ہے ، اگر ان میں سے ایک شخص بھی اس وقت اسے مل جاتا تو احمد خان اس وقت غریب مسلم شیخ نہیں بلکہ ایک باپ کے روپ میں تھا ان سے اپنی بیٹی کی بے حرمتی کا بدلہ لینے میں نہ ہچکچاتا
باپ اپنی ادھ موئی بیٹی کو اٹھاتا ہے ، لیکن اصل میں وہ اس تباہ شدہ نظام کو اٹھائے ہوئے ہوتا ہے ، آنکھوں میں آنسو لیے وہ گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے 
گھر پہنچتا ہے تو میاں بیوی دھاڑیں مار کر روتے ہیں ، ابھی یہ دکھ ختم نہیں ہوتا تو معلوم پڑھتا ہے کہ علاقے کی ایک  طاقتور شخصیت آئی ہے باہر نکلتے ہیں تو پتا چلتا ہے ، یہ لوگ صلح کرنے کا کہہ رہے ہیں 
کیونکہ ابتدائی طور پر معلوم پڑ جاتا ہے کہ کون شخص تھے
صلح کو دباو شروع ہوتا ہے جو آخری اطلاعات تک جاری تھا  
کوٹ مومن میں اے سی عفت النساء ہیں ، جب میرے تک یہ خبر پہنچی تو مجھے یقین تھا کہ وہ تمام دباو کا بالائے طاق رکھتے ہوئے اس غریب بچی کے سر پر ہاتھ رکھیں گی اور اسے انصاف دلائیں گی ، میں نے محترمہ کو اس حوالے سے وٹس ایپ پر پیغام بھی بھیجا کہ کیا سونیا کا مقدمہ درج ہو گیا لیکن کالج سے لے کر ریسٹورنٹس اور بیکریوں پر چھاپے مارنے والی اس خاتون افسر نے میسج پڑھنے کے باوجود مجھے جواب دینا گوارہ نہ کہا شاید ان کے خیال میں 11 سالہ بچی سے اجتماعی زیادتی اتنا سنگین جرم نہیں کہ وہ ایک سر پھرے صحافی کو جواب دیتی پھریں 
پھر میں نے ڈی ایس پی کوٹ مومن شاہد نذہر کا نمبر ملایا لیکن انہوں نے کال اٹینڈ کرنے کی زحمت نہ کی ، ان کے وٹس ایپ پر پیغام بھیجا لیکن ابھی تک انہوں نے سونیا کیس کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی شاید وہ بھی اے سی کوٹ مومن کی طرح اسے کوئی بڑا واقعہ نہ سمجھتے ہوں 
پھر میں نے تھانہ میلہ پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں کا جو نمبر مجھے دیا گیا وہ شخص انکاری ہے کہ وہ میلہ پولیس کا نمبر ہے 
ناجانے کیوں ہم دوسروں کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں نہیں سمجھتے ، ناجانے کیوں ہم غریب کو انسان نہیں سمجھتے، ناجانے کیوں 11 سالہ بچی سے زیادتی ہمارے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں
شاید اسی وجہ سے ہم سب بطور قوم مجموعی لعنت کے حقدار ہیں
سید عون شیرازی
Copied

مار نہیں پیار کے نتائج

ایک دن پہلے گورنمنٹ سے جاری کردہ نوٹس پڑھا۔اگلے دن سکول پہنچا ۔پانچویں جماعت میں داخل ہونے کے بعد روز کے معمول سے کلاس شروع کروای۔ بچوں سے کل کا دیا سبق سننا شروع کیا۔۔۔۔

پہلا بچہ۔۔۔
"استاد جی مجھے یاد نہ تھا کہ سبق یاد کرنا ہے۔"
میں نے ایک گھوری ڈالی۔۔۔کر بھی کیا سکتا تھا۔جلدی خود کو نارمل کیا ابھی تازہ تازہ ہی نوٹیفیکیشن پڑھ رکھا تھا۔۔
اگلے بچے کی طرف بڑھا۔۔۔

بیٹا آپ سناو:
"استاد جی گھر مہمان آے تھے یاد نہں کیا۔۔۔۔"
ایک دفعہ پھر لمبی سانس لی۔۔۔۔چپ سادھ لی۔۔۔

اگلا بچہ:
"استادجی کتاب گم گی۔۔۔"

یہ سنتے ہی دل کیا۔۔اس کے کان کھینچوں۔۔۔
پر
نوٹیفیکیشن۔۔۔
دل کیا۔۔۔
ذرا جھنجھوڑوں۔۔۔۔نوٹیفیکشن۔۔۔
پھر سوچا
ذرا ڈانٹ لوں۔۔۔۔۔نوٹیفیکشن۔۔۔۔
پھر جی چاھا۔۔۔
کھڑا کر دوں ۔۔۔۔۔نوٹیفیکشن۔۔۔۔
پھر دماغ میں آیا کان سے پکڑوں۔۔نوٹیفیکشنر انگریزی کے یہ سارے الفاظ یکے بعد دیگرے دماغ میں روانی کے ساتھ دوڑے۔۔۔۔۔
Smacking,
slapping,
spanking,
Scratching,
Pinching, Biting,
Pulling,
Boxing,
Forcing,
Scolding.....
کافی سوچ بچار کے بعد میں نے ایک نظر طالب علم پر ڈالی۔۔۔
اور کہا:
 "بیٹھ جا بیٹا کوئی بات نہیں، میری مجال میں کچھ کہوں۔۔۔۔دل کرے یاد کر نہیں تو ویسے ہی سکول آجانا پر آ ضرور جانا۔۔۔۔۔۔"
طالب علم یہ کہتے بیٹھ گیا۔۔۔۔
"شکریہ گورنمنٹ۔۔۔۔۔"

تصوف کے بارے میں تین نظریات

اور آخر میں میرا مشورہ خان صاحب سے

آج بروز جمعہ نعیم قاسم صاحب کے جمعرات کے لکھے ہوئے کالم کو پڑھنا شروع کیا تو بڑا لطف آیا کیونکہ اس کالم کی ابتدا موصوف نے دو بڑی اہم شخصیات کے  تعلق سے کی ان دونوں شخصیات میں سے ایک کا تعلق تصوف سے بتایا دوسری   شخصیت جس کو ملک خداداد پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے اور خاص طور پر ہمارے ملک کے ایکس وزیراعظم نواز شریف صاحب کو ان سے بڑی شناسائی ہے کیونکہ وہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ ان کے سیاسی حریف عمران خان صاحب هیں جن کا تعلق نعیم قاسم صاحب نے بشری بی بی کے ساتھ بتایا جو خان صاحب نے تصوف کی بنیاد پر ان سے قائم کیا  اور بشریٰ بی بی نے خان صاحب کو دو بڑی معروف ہستیوں کے بارےمیں آگاہی دی اور عمران خان کے دل میں  ان دونوں عظیم ہستیوں کی محبت پیدا ہوگئی وہ دو مقدس ہستیاں ابن عربی اور مولانا روم ہیں انہوں نے مزید لکھا کہ خان صاحب کہتے ہیں کہ ان کو آج کل ان رو ہستیوں سے بڑا شغف ہیں اور ساتھ ہی انہوں نےعمران خان صاحب سے اختلاف کرنا شروع کر دیا کیونکہ ان کے نزدیک آج کے اس پرفتن دور میں اگر کوئی مخلوق خدا کی نا آسودہ خواہشات کو  اللہ کی محبت میں تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے تو وہ  پروفیسر احمد رفیق اختر ہے ان کے نزدیک بشریٰ بی بی کو تصوف کی شدبد کا کیا پتہ ان کی بات بھی بلکل درست ہے کہ جب پروفیسر صاحب جیسی ہستی تصوف کے رموزو اوقاف سے اور صوفیاءکرام سے آگاہی بخشنے کے لیے شمعِ معرفت روشن کئے ہوئے ہیں تو کسی  عورت کے پاس  تصوف جاننے کی کیا ضرورت  مگر نعیم قاسم صاحب شاید یہ نہیں جانتے خان  صاحب بڑے شاطر آدمی ہیں انہوں نے بشریٰ بی بی سے مقدس ہستیوں کے بارےمیں آگاہی تو حاصل کی ہی ساتھ دوسرا فائدہ حاصل کرنے کے لیے شادی کا مشورہ بھی دے دیا خیر یہ ان کا زاتی مسئلہ ہے   اگر وہ اپنے روحانی پیشوا کو زوجیت  میں لے کر روحانیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میں یا کوئی اورکیا کر سکتا ہے نعیم قاسم صاحب  نے مزید غالب کے  اس شعر پر  تبصرہ کرتے ہوئے
                   ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب        
                  ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا      
تصوف کے دو    نظریے زکر کیے
1وحدت الوجود       2   ہمہ اوست                                  
مگر انہوں نے اس کالم میں تیسرا نظریہ زکر نہیں کیا میں ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوے تصوف کے بارے میں مزید معلومات نظر قارئین کرنا چاہوں گا معزز قارئین حقیقت میں آج تک تصوف کے بارےمیں تین نظریات پیش کیے گئے
1ہمہ اواست
2ہمہ ازاواست
3ہمہ اواست در مغزوپوست
ہمہ اوست کا دوسرا نام وحت الوجود ہے جس  کے خالق شیخ محی الدین ابن علی اندلسی ہیں جنہوں نے اپنے مکاشفات کی بنیاد پر وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا  ان کا ماننا یہ ہے خدا کے سوا کسی چیز کا وجود نہیں اس نظریہ وحدت نے تصوف کی دنیا میں پانچ سو سال تک مطلق العنان بادشاہ بن کر حکومت کی اس نظریے کا علماء اور شیوخ پر اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ شیخ کے اس پیش کردہ نظریے میں تبدیلی کرنا صوفی ازم کا گناہ عظیم سمجھتے تھے  دوسرا نظریہ شیخ احمد سر ہندی نے 971ه میں پیش کیا اس کو وحدت الشہود کہتے ہیں ان کا ماننا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے قوائے عقلیہ اور کشفیہ کی دسترس سے بہت ہی بالا تر ہے شیخ کے نزدیک تصوف صرف تزکیہ اخلاق میں ہی مدد دیتا ہے وہ کہتے ہیں کہ صفات زائد علی الزات ہیں کشف سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ شہود ہی شہود ہے حقیقت نہیں ہے یعنی اللہ تعالیٰ ایسی تمام صفات سے جو ہمارے ادراک میں آسکیں  ، بالاتر ہے شیخ کے نزدیک معرفت کے معنی فقط یہ ہیں کہ بندہ جان لے کہ وہ اللہ کو نہیں جان سکتا اور تصوف و معرفت مقام عبدیت پر فائر ہونے کا زریعہ ہے  یہ دونوں نظریے افراط و تفریط کا شکار ہیں شیخ اکبر نے وحدت الوجود میں بندے کو ہی خدا قرار دے دیا اور شیخ احمد سرہندی نے اپنے مکاشفات کے تجربات جاہل صوفیاء کے ملحدانہ نظریات اور بادشاہ اکبر کے دین الٰہی کی فروعات کو ختم کرتے ہوئے نظریہ وحدت الشہود پیش کیا تصوف کا مکمل طور پر انکار تو نہ کیا لیکن اسے صرف تزکیہ ئے نفس تک محدود کردیا  تیسرا نظریہ میرے شیخ سر اسرارزات یاهو فنا فی هو حضرت سلطان العارفین رحمت اللہ تعالیٰ علیہ نے پیس فرما کر نظریہ وحدت کی تکمیل کی اورآپ نے تصوف کو فقر محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دیا اور اس کی بنیاد چار چیزوں پر رکھی
شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم
زکروفکراور تصور اسم اللہ
الہام حضوری حق تجلی انوار زات خدا
اور حضوری مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم
اس نظریے کو وحدت المقصود کہتے ہیں یعنی لا معبود الا هو -لا موجود الا هو- لا المقصود الا هو سلطان العارفین نے ہمہ اوست اور ہمہ از اوست کے دونوں نظریات وحدت کے بعد وحدت کا تکمیلی نظریہ پیش کیا ہے وحدت الوجود کے نظریہ کو اگر علم الیقین کہیں تو وحدت الشہود کا نام عین الیقین رکھنا مناسب ہو گا جبکہ وحدت المقصود حق الیقین کا نظریہ ہے اگر حضرت سلطان باہو رحمت اللہ علیہ کے پیش کردہ نظریے کا دوسرے دونوں نظریات سے موازنہ کیا جائے تو حضرت سلطان باہو رحمت اللہ علیہ وحدت الوجود کے قائل نہیں کیونکہ وحدت الوجود میں بندے کو ہی خدا کہا جاتا ہے جبکہ آپ رحمت اللہ تعالیٰ علیہ  اللہ تعالیٰ کو خالق اور بنی آدم اور دیگر ہر شے کو مخلوق سمجھتے ہیں آپ فرماتے ہیں
             تو نمی دانی کہ باهو با خدا است
کیا تو نہیں جانتا کہ باهو با خدا ہے یعنی اپنے اور زات خدا کے درمیان لفظ .ب. زکر فرماتے ہیں جو خالق اور مخلوق کے درمیان وسیلے اور رابطے کے لیے ہیں اور بندے اور خدا کے درمیان خالق اور مخلوق کے فرق کو  واضح کر رہی ہے آپ مزید فرماتے ہیں
           اگر بائے بشریت حائل نبودے باهو عین یا هو بودے
اگر بشریت کی با درمیان حائل نہ ہوتی تو باهو عین یا هو ہوتا نظریہ وحدت الوجود میں قولہ  تعالی و نفخت فیه من روحی ہم نے آدم علیہ السلام میں اپنی روح پھونک دی گویا آدم میں اللہ کی روح ہے اس لئے وہ خدا کا دوسرا روپ ہے
سلطان العارفین رحمت اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں نفس ،قلب،روح اور سر سب مخلوق ہیں کافر کی روح  کافر منافق کی روح منافق اور مومن کی مومن ہوتی ہے جبکہ وحدت الوجود کے قائل روح کے مخلوق ہونے کے قائل نہیں ہیں حضرت سلطان باہو رحمت اللہ تعالیٰ علیہ منصور حلاج کے متعلق فرماتے ہیں ایسے نعرہ لگانے والے ابھی خام ہوتے ہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا ہے نعرہ نہیں لگایا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بھی دعویٰ کیا ہے نعرہ نہیں لگایا  آپ مزید فرماتے ہیں کہ سلطان الفقراء پر پلک جھپکنے میں ستر ہزار جلوے انوار ذات کے جو نور ربوبیت کی تجلی سے سرشار ہوتے ہیں لیکن نہ تو وہ نعرہ مارتے ہیں اور نہ ہاوء ہو کرتے ہیں بلکہ هل من مزید    اور لایئے ......... پکارتے ہیں  آخر میں خان صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ جناب ! اگر واقعتاً آپ سلوک و معرفت سمجھنا چاہتے ہیں اور اپنی ذات کو عشق میں سمونا چاہتے ہیں تو بشریٰ بی بی کو خدا حافظ کریں اور حضرت سلطان باہو رحمت اللہ تعالیٰ علیہ کی کتابوں کا مطالعہ کریں کیونکہ آپ کا فرمان عالیشان ہے میری کتابیں بھی مرشد کامل کا درجہ رکھتی ہیں
از قلم محمدعرفان سلطانی
فاضل بهیره شریف

ربڑ. شفقت پدری سے متعلق ایک تحریر

ربڑ ------- از --------گل نوخیز اختر

یہ1978 ء کی گرمیوں کی بات ہے جب پہلی بار مجھے ایک بیش قیمت خواب آیا۔ میں ملتان کے ایم سی پرائمری سکول میں دوسری کلاس میں پڑھتا تھا جسے اُس دور میں ’’پکی جماعت‘‘ کہا جاتاتھا۔یہ وہ دور تھا جب صبح صبح گلیوں میں ’’ماشکی‘‘ بڑی سی مشک اُٹھائے چھڑکاؤ کیا کرتے تھے۔میرا سکول میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔میری ماں جی نے لنڈے سے ایک ڈبیوں والی پرانی پینٹ خرید کر مجھے اس کا بستا بنا کر دیا ہوا تھا‘ اِس بستے کی خوبی یہ تھی کہ اس میں دو جیبیں تھی اورجیبوں والا یہ بستہ مجھے بہت پسند تھا۔اُس دور میں وہی ’’سیٹھ کا بچہ‘‘ شمار ہوتا تھا جس کے بستے کی جیبیں زیادہ ہوتی تھیں۔ ہر بچے کو حکم تھا کہ وہ اپنے بیٹھنے کے لیے ’’چٹائی‘‘ گھر سے لے کر آئے‘ ابا جی چٹائی تو افورڈنہیں کر سکتے تھے تاہم انہوں نے مجھے کہیں سے جگہ جگہ پیوند لگی ایک چادر لا دی تھی جو سکول میں میرے بیٹھنے کے کام بھی آتی تھی اور میں اِس سے سلیٹ بھی صاف کرلیا کرتا تھا۔صبح کے چار بجے تھے جب مجھے محسوس ہوا کہ میرے اردگرد ’’ربڑہی ربڑ‘‘بکھرے پڑے ہیں‘ میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا‘ اِدھر اُدھر ہاتھ مارا لیکن ہاتھ خالی تھے‘ میں نے جلدی سے پھر آنکھیں بند کرلیں اور اِسی حسین خواب میں پھر کھو جانا چاہا لیکن ’’ربڑ‘‘ اپنی ایک جھلک دکھلا کر غائب ہوچکے تھے۔میری نیند اُڑ گئی اور دل میں اپنی اوقات سے بڑھ کر ایک خیال اُبھرا کہ کاش میرے پاس بھی ایک ربڑ ہو اور میں بھی کچی پنسل سے کچھ غلط لکھ کر اُسے ربڑ سے مٹاؤں۔

سکول جانے کا وقت ہوا تو ماں جی نے بڑے سے پیالے میں چائے ڈال کر اُس میں پراٹھے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈال کر میرے سامنے رکھ دیے۔یہ میرا پسندیدہ ناشتہ تھا لیکن میرا دماغ تو کسی اور طرف ہی الجھا ہوا تھا۔ابا جی پاس ہی کچی زمین پر بیٹھے اپنی ہوائی چپل کو ایک مزید ٹانکا لگا رہے تھے‘ اس ہوائی چپل پر اتنے ٹانکے لگ چکے تھے کہ اب نیا ٹانکالگانے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں بچی تھی لیکن ابا جی کو شائد اِسی سے عشق تھا لہذا ہر دوسرے روز اس کی ’’بخیہ گری‘‘ میں لگ جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے ان کے پاس ایک خاکی رنگ کے پرانے سے بغیر تسموں کے بوٹ بھی تھے لیکن وہ بہت کم پہنتے تھے‘ لیکن مجھے وہ ہوائی چپل کی نسبت بوٹوں میں زیادہ اچھے لگتے تھے‘ لہذا کئی دفعہ فرمائش کرکے اُن کو زبردستی بوٹ پہنا دیا کرتا تھا‘ وہ کچھ دیر تک میری خواہش کے احترام میں بوٹ پہنے رکھتے‘ پھر یہ کہتے ہوئے اُتار دیتے کہ ’’یار۔۔۔ایہہ مینوں بہت چُبھدے نیں‘‘۔

میں نے کچھ دیراپنے خواب کے بارے میں سوچا ‘ پھر آہستہ سے کہا’’ابا جی! میں نے ربڑ لینا ہے‘‘۔ابا جی نے چونک کر میری طرف دیکھا ‘ پھر مسکراتے ہوئے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور بولے’’تم تو ابھی تختی لکھتے ہو‘ ربڑ تو چوتھی جماعت کے بچے لیتے ہیں۔‘‘ میں نے پیالہ ایک طرف رکھا اور جھٹ سے ابا جی کی گود میں چڑھ گیا’’مجھے نہیں پتا۔۔۔میں نے ربڑ لینا ہے‘‘۔ ابا جی نے کن اکھیوں سے ماں جی کی طرف دیکھا جو رات کے بچی ہوئی روٹی پر تھوڑا سا گھی لگا کر اُسے دوبارہ زندہ کر رہی تھیں‘ ماں جی شائد ابا جی سے نظریں ملانے کی متحمل نہیں ہورہی تھیں اس لیے جلدی سے دھیان چولہے کی طرف لگا لیا۔میں پھر مچلا’’ابا جی میں نے ربڑ لینا ہے۔‘‘ میرا جملہ سن کر وہ زور سے ہنسے ‘ پھر میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور بولے’’لے دوں گا‘ لیکن پہلے اچھی طرح ناشتہ کر‘‘۔یہ سنتے ہی میرے اندر پھلجڑیاں سی پھوٹ پڑیں‘ مجھے لگا جیسے میری لاٹری نکل آئی ہے‘ میں نے حکم کی تعمیل میں جلدی سے پیالہ ختم کیا اور داد طلب نظروں سے ابا جی کی طرف دیکھا۔ابا جی نے فخریہ انداز سے میرے کندھے تھپتھپائے اور بولے’’شاباش میراببر شیر پُتر‘‘۔یہ خطاب میرے لیے نیا نہیں تھا‘ ابا جی جب بھی مجھ سے خوش ہوتے تھے ایسے ہی کہتے تھے‘ لیکن اُس دن مجھے اِس خطاب کی نہیں‘ ایک ربڑ کی ضرورت تھی لہذا جلدی سے کہا’’ابا جی!اب ربڑ لینے چلیں؟‘‘ میرا جملہ سنتے ہی ابا جی کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر گذر گیا لیکن انہوں نے فوری طور پر مسکراہٹ کا ازلی نقاب اوڑھ لیا اورحسبِ معمول میرے گال تھپتھپا کر بولے’’لے دوں گا یار‘ پہلے چوتھی جماعت میں تو آجاؤ ‘‘۔۔۔میری اُمیدوں پر پانی پھر گیا‘ وہ تو کہتے تھے کہ صبح کے وقت آنے والے خواب سچے ہوتے ہیں‘ پھر میرا خواب کیوں سچا ثابت نہیں ہورہا تھا؟ کیا میری صبح سچے خواب والی صبح نہیں تھی؟میں نے بے دلی سے بستہ اُٹھایا‘ تختی اور چادر سنبھالی اورڈھیلے قدموں کے ساتھ گھر سے نکل گیا۔

سکول پہنچا تو ’’جیرے‘‘ نے بتایا کہ وہ ربڑ لایا ہے‘ مجھے یقین نہ آیا اور میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو‘ اُس نے یہ سنتے ہی جھٹ سے اپنا بستہ کھولا اور ایک استعمال شدہ ربڑ میری آنکھوں کے آگے لہرا دیا۔‘ میں جل بھن گیا‘ جیرا بھی تو پکی جماعت میں تھا‘ پھر اُس کے ابا جی نے کیسے اُسے ربڑ لے دیا؟
میں نے اُس کے ہاتھو ں سے ربڑ لے کر الٹ پلٹ کر دیکھا‘ وہ واقعی ایک ربڑ تھا‘ اصلی ربڑ۔میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے جیرے نے جھٹ سے ایک کاغذ اور کچی پنسل نکالی‘ کاغذ پر کچھ آڑھی ترچھی لکیریں ڈالیں اور بڑے فخر سے ربڑ پکڑ کر اِنہیں مٹانے لگ گیا۔میں حیرت سے گنگ بیٹھاربڑ کو لکیروں پر پھرتے دیکھ رہا تھا‘ جہاں جہاں ربڑ پہنچ رہا تھا‘ لکیریں اپنا وجود کھوتی جارہی تھیں‘ کلاس کے اور لڑکے بھی ہمارے سروں پر جمع ہوچکے تھے اور حسرت بھری نظروں سے جیرے کے ربڑ کو دیکھ رہے تھے‘ جیرا بڑے اطمینان سے سیٹی بجاتے ہوئے ربڑکو لکیروں پر پھیر رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا کاغذ ایسے صاف ہوگیا جیسے کبھی اُس پر کچھ لکھا ہی نہ گیا ہو۔میری آنکھوں میں خون اُتر آیا‘ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ جھٹ سے جیرے کا ربڑ چھینا اور دانتوں تلے دبا کر ریزہ ریزہ کر دیا۔جیرے کی ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی اور کلاس میں جیسے طوفان سا آگیا‘ ربڑکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے فرش پر بکھرے پڑے تھے اور جیرا دھاڑیں مار مار کر ربڑ کی لاش پر ماتم کر رہا تھا۔

میرے دل میں ٹھنڈ سی اُترتی چلی گئی‘ کلاس کی چیخ وپکار سن کر ’’وڈی اُستانی‘‘ تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی۔مجھے پتا تھاکہ اب میرے ساتھ کیا ہونا ہے لہذا جلدی سے بستہ ‘ چادر اورتختی اُٹھائی اور پوری قوت سے باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔وڈی اُستانی نے چلا کر دوسری اُستانیوں کو خبردار کیا‘ ساری اُستانیاں میرے پیچھے دوڑیں لیکن میں نے چھلانگیں لگائیں اور سکول کے عقب میں واقع سلیکون کے کارخانے میں گھس گیا۔یہ کارخانہ ایک بھول بھلیاں تھا لہذا مجھے اطمینان تھا کہ یہاں مجھے کسی کا باپ بھی نہیں ڈھونڈ سکتا۔سارا دن میں گلیوں میں اِدھر اُدھر گھومتا رہا اور چھٹی کے وقت گھر پہنچ گیا‘ وہاں میری ’’کاروائی‘‘ کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی‘لیکن ماں جی نے اپنے مزاج کے عین مطابق ہلکے پھلکے انداز میں ڈانٹ پلائی اور بات آئی گئی ہوگئی۔شام کو میں حسبِ معمول گلی میں ’’لُکن میٹی‘‘ کھیلنے نکلا تو مجھے احساس ہوا جیسے ہاتھوں پیروں سے جان نکلتی جارہی ہے‘ عجیب سی تھکن تھی جو مسلسل مجھے نقاہت میں مبتلا کر رہی تھی‘ میں واپس آگیا‘ چونکہ یہ خلاف توقع تھا اس لیے ابا جی کا ماتھا ٹھنکا‘ انہوں نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور کانپ گئے‘ میں نے سنا‘ وہ ماں جی کو کہہ رہے تھے کہ اِسے توسخت بخار ہے۔ رات تک سرکاری ہسپتال کا ڈاکٹر اعلان کر چکا تھا کہ مجھے خطرناک قسم کا ٹائفائیڈ ہوچکا ہے ۔میں بستر سے لگ گیا اورماں جی دیوانہ وار خدا سے دعائیں کرنے لگیں‘ ابا جی ہر نماز کے بعد مسجد کے نمازیوں سے پھونک مروا کے میرے لیے دم کیا ہوا پانی لاتے اور چند قطرے میرے منہ میں ٹپکا دیتے۔میرے اعصاب مسلسل شل ہوتے جارہے تھے‘ نیم غنودگی کے عالم میں مجھے ہر چیز اپنے قد سے بہت بڑی اور سلوموشن میں چلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔میرے روٹی کھانے پر پابندی تھی‘ دل نمکین چیز کو ترس گیا تھا‘ ایسے میں ایک دن میں نے ماں جی سے کہا کہ میں نے ’’کڑی ‘‘ کھانی ہے۔ماں جی نے بے بسی سے اِدھر اُدھر دیکھا‘پھر میری پیشانی چومی اور بولیں’’تم ٹھیک ہوجاؤ‘ پھر بنا دوں گی‘‘۔میں سمجھ گیا کہ ’’ہنوزکڑی دور است‘‘۔

یہ اُس روز کا ذکر ہے جب میرے ٹائیفائیڈ کو چھ روز ہوچکے تھے‘ میں بے جان سا ہوکر ابا جی کی گود میں بیٹھا ہوا تھا‘ ابا جی میرے بالوں میں انگلیاں پھیر تے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’میرے ببر شیر۔۔۔دوائی تو کھا لو‘‘۔میں نے بیزاری سے نفی میں سر ہلادیا۔ابا جی نے پیار سے پوچھا’’چلو پھر بتاؤ کس چیز کو دل کر رہا ہے؟‘‘ میں نے چونک کر بے یقینی سے گردن گھمائی‘ ابا جی کی آنکھوں میں دیکھا اوردھیرے سے کہا ’’مجھے ربڑ لادیں‘‘۔ابا جی پہلے تو بے اختیارہنس پڑے ‘ پھر کسی سوچ میں گم ہوگئے‘ تھوڑی دیر بعد انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور بولے’’ربڑ لادوں تو ٹھیک ہوجاؤ گے؟‘‘ میں یکدم سیدھا ہوگیا’’ہاں ابا جی! اللہ میاں کی قسم‘ میں بالکل ٹھیک ہوجاؤں گا‘‘ میں نے خوشی اوربھرپور اعتماد سے جواب دیا۔‘‘ ابا جی مسکرائے’’تو پھرپکا وعدہ‘ تم ٹھیک ہوکر دکھاؤ‘ میں ربڑ لادوں گا‘‘۔ مجھے اپنی سماعت پر یقین نہ آیا‘ میرا خواب سچ ہونے جارہا تھا‘ ایک لمحے میں میری ساری تھکن اُتر گئی‘ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ ٹائیفائیڈ میرے ربڑ کا دشمن ہے لہذا اِس دشمن کو اب ہرحال میں شکست دینی ہے۔

آٹھویں روز جب میں ہشاش بشا ش ہوکر سکول جارہا تھا تو میرے بستے میں ایک نہیں دو ربڑ تھے ‘ کچھ عجیب سے تھے لیکن میں شرط لگا کر کہہ سکتا تھا کہ اتنے بڑے اور رنگیلے ربڑ اور کسی بچے کے پاس ہوہی نہیں سکتے تھے‘ مجھے ابا جی پر بہت پیار آیا‘ وہ صرف میری خاطر نجانے کہاں سے اتنے مہنگے ربڑ خرید لائے تھے‘ وہ بھی ایک نہیں‘ پورے دو۔۔۔!!!سکول میں جب میں نے ’’جیرے ‘‘ اور دیگر دوستوں کو اپنے ربڑ دکھائے تو حیرت سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں‘ جیرے نے میرا ربڑ دیکھنے کے لیے ہاتھ بڑھائے لیکن میں نے جلدی سے ربڑ پیچھے کر لیا‘ مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے ربڑ کا بدلہ ضرور لے گا۔میرے ربڑ بہت اچھے تھے ‘ عام ربڑ کی نسبت سائز میں دوگنے تھے لیکن پتا نہیں کیوں‘ جب میں اِن سے کاغذ پر ڈالی ہوئی کوئی لکیر مٹانے کی کوشش کرتا تو یہ ربڑ لکیر مٹانے کے ساتھ ساتھ کاغذ بھی پھاڑ دیتے۔

برسوں بعد ‘ جب میں خود باپ بن چکا تھا‘ ایک روز بچپن کی بات یاد آئی تو میں نے ابا جی سے پوچھ ہی لیا کہ آخر وہ ربڑ آپ کہاں سے لائے تھے‘ ابا جی نے بات گول کرنے کی کوشش کی‘ لیکن اب ایک باپ کا مقابلہ ایک دوسرے باپ سے تھا جو تعلیم‘ تجربے اور پیسوں کے معاملے میں پہلے باپ سے بہت آگے تھا لہذا بات گول کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا‘ میں نے دوبارہ پوچھا تو ابا جی کی پلکوں کے کنارے بھیگ گئے‘ انہوں نے جلدی سے اپنی قمیض کی آستین سے آنکھیں صاف کیں اور دھیرے سے مسکرا کر بولے’’یار! وہ ہوائی چپل واقعی بہت پرانی ہوگئی تھی‘‘۔۔۔میں اچھل کر کھڑا ہوگیا۔۔۔کسی ربڑ کی طرح۔۔۔!!!

2009ء میں مہیا کی گئی N-Computing کمپیوٹر لیبارٹری کے سامان کا جائزہ (سال 2016ء)

2009ء میں مہیا کی گئی N-Computing کمپیوٹر لیبارٹری کے سامان کا جائزہ (سال 2016ء)

Computer System

  • System units 5x8000=40000
  • LCD 16x5=80,000

Furniture

  • Tables: 15x800 +1x1500 =13500
  • Chairs: 30x1500=45000
  • UPS: 1x20000=20000