جمعرات، 15 مارچ، 2018

بریکوں کے بغیر

ﺑﺮﯾﮏ
۔۔۔۔
ﭼﻮﮞ ﮐﮧ ﺫﯾﺸﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﺑﯿﭻ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﺳﮯ ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﻮﺭﻭﻣﺰ ﮔﮭﻮﻡ ﮔﮭﻮﻡ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻣﺎﻍ ﭼﮑﺮﺍ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﮨﻮﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎ ﮨﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺭﻭﮈ ﮐﮯﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﮭﮍﯼ ﺍﯾﮏ ﻟﺶ ﭘﺶ ﮔﺎﮌﯼ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺟﺲ ﮐﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﭘﺮ ‘‘ ﮔﺎﮌﯼ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﻓﺮﻭﺧﺖ ’’ ﮐﺎ ﺍﺷﺘﮩﺎﺭ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﯽ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﮔﺎﮌﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ۔ ﺫﯾﺸﺎﻥ ﮐﺎ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﻣﯿﺮﻭﻥ ﮐﻠﺮ، ﭼﻤﮑﺘﯽ ﺑﺎﮈﯼ، ﻧﺌﮯ ﭨﺎﺋﺮ، ﺁﭨﻮﻣﯿﭩﮏ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺍﻭﺭ ﮔﯿﺌﺮ۔ ﺫﯾﺸﺎﻥ ﮐﻮ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﻣﻞ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺫﯾﺸﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﻮﭼﮭﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﻨﺎﺏ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﯿﺎﻥ ﺳﻦ ﻟﯿﮟ ﻗﯿﻤﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮍﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺑﺎﺕ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔
ﯾﮧ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﮐﻢ ﭼﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﻮﮞ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﮟ ﺟﺐ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺯﯾﺮﻭ ﻣﯿﭩﺮ ﺧﺮﯾﺪﯼ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ، ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻓﻘﻂ ﭼﮭﯿﺎﻟﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﭼﻠﯽ ﮨﮯ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺮﺍﺵ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﻠﺮ ﺍﻭﺭﯾﺠﻨﻞ ﮨﮯ، ﺍﻧﺠﻦ ﺟﯿﻨﺌﯿﻦ ﮨﮯ، ﭨﺎﺋﺮ ﺍﻟﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ، ﮈﻭﺭﺯ ﺍﻭﺭ ﮔﯿﺌﺮ ﺁﭨﻮﻣﯿﭩﮏ ﮨﮯ۔ ﮈﯾﺶ ﺑﻮﺭﮈ، ﮈﯾﺸﻨﮓ، ﺳﯿﭩﯿﮟ ﺁﺭﺍﻣﺪﮦ، ﺍﮮ ﺳﯽ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ، ﮨﺎﺭﻥ ﺳﺮﯾﻼ ﺍﻭﺭ ﮈﮔﯽ ﮐﺸﺎﺩﮦ ﮨﮯ۔
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ۔۔۔
ﺫﯾﺸﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎﭨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ، ﺑﮭﺌﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﻭ، ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻗﯿﻤﺖ ﺗﻮ ﺑﺘﺎﺅ ، ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﮯ؟
ﺳﺮ، ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ۔۔۔۔۔
ﯾﺎﺭ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﭼﮭﻮﮌﻭ، ﺟﺘﻨﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﺮﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺑﺲ ﺗﻢ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻗﯿﻤﺖ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﮧ ﮐﺘﻨﮯ ﮐﯽ ﮨﮯ؟
ﺳﺮ ﻗﯿﻤﺖ ﺻﺮﻑ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﮨﮯ۔
ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ؟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﻢ ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮ؟ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﺟﮑﻞ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟
ﺳﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﮯ۔
ﮐﯿﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﮯ؟ ﺫﯾﺸﺎﻥ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
ﺳﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯾﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﮑﯿﻨﮑﺲ ﻧﮯ ﭼﯿﮏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﯾﮏ ﻟﮓ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ، ﮨﯿﻨﮉ ﺑﺮﯾﮏ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﭼﻼﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺩﻣﺎﻍ ﺗﻮ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ؟ ﺑﻐﯿﺮ ﺑﺮﯾﮏ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﻔﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻟﻮﮞ۔ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﻭﻗﺖ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﯿﺎ، ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺑﺘﺎﯾﺎ؟ ﺍﯾﺴﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺭﻭﮐﻮﮞ ﮔﺎ؟ ۔۔۔ ﺫﯾﺸﺎﻥ ﻏﺼﮧ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ۔
ﺳﺮ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ !
ﮨﻮﻧﮩﮧ، ﺑﺮﯾﮏ ﮨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﻼ ﮨﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﺑﯿﭽﻨﮯ ! ﺫﯾﺸﺎﻥ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﺑﮍﺍﯾﺎ۔
ﺫﯾﺸﺎﻥ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﮍﮪ ﻟﯽ، ﭼﻠﯿﮟ ﺁﺝ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺟﻮ ﺑﮍﯼ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ، ﭼﻤﮑﯿﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﺶ ﭘﺶ ﮨﮯ۔ ﻣﺰﮦ ﮨﯽ ﻣﺰﮦ ﮨﮯ۔ ﺳﺮﻭﺭ ﮨﯽ ﺳﺮﻭﺭ ﮨﮯ۔ ﮨﻢ ﺳﺐ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﻮ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻧﮯ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﻮ ﮨﻢ ﭼﻮﺑﯿﺲ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﮓ ﭨﭧ ﺩﻭﮌﺍﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﺮﻭﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺱ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺟﻮ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺗﮭﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﯾﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﺻﺮﻑ ﺑﺮﯾﮏ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ :
ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﯾﮑﺴﮉﻧﭧ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺑﺮﯾﮏ ﺟﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﺘﮯ، ﭨﮭﻮﮎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﮩﺖ ﺗﯿﺰ ﺩﻭﮌﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺸﺘﺮ ﺑﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﮨﻮﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﮭﯿﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﺑﺮﯾﮏ ﺟﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ؟
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻤﺰﻭﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﺮﯾﮏ ﺟﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﯿﺴﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﺑﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﮨﻮﮐﺮ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔
ﺑﺮﯾﮏ ﺟﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ ﺭﮐﯿﮟ ﮔﮯ؟
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﻮﭺ، ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﯿﺎﻻﺕ، ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺧﻮﺍﮨﺸﺎﺕ ۔۔ ﺁﻭﺍﺭﮔﯽ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺑﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﮨﯿﮟ
ﮨﺎﮞ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﺘﺎ ﺗﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ : ﺑﺮﯾﮏ ﺟﻮ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﯾﺴﺎ ﺗﻮ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﺍﭼﮭﺎ؟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﺮﯾﮏ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺷﻄﺮ ﺑﮯ ﻣﮩﺎﺭﮮ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﺫﺭﺍ ﺑﺘﻼﺅ ﺗﻮ، ﺳﻤﺠﮭﺎﺅ ﺗﻮ !
ﺳﻨﻮ ! ﺍﮔﺮ ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ۔ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﺍﮔﺮ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ۔
ﻭﮦ ﺑﺮﯾﮏ ﮨﮯ ‘‘ ﺗﻘﻮﯼٰ ’’ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ۔ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﺑﺪﮨﯽ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ۔
ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺗﻘﻮﯼٰ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ﮔﻮﯾﺎ ﮐﮧ ﮔﺎﮌﯼ ﺳﮯ ﺑﺮﯾﮏ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔

Job opportunities in South Korea and Romania

*Urgent required for South Korea*
5 year agreement
Age 20-40 year
*Job:Mali*
Salary 1000 $ USD
*Job:Cleaner*
Salary 1200 $ USD
*Job:Aluminium worker*
Salary 1200 $ USD
*Expence 7 lack with out ticket protector*
1 lack with documents an other amount after visa.
Process 3 month
Document required:
1.Orignal passport+12 pictures white back ground+Cnic colour copy own/father/mother+Medical report.

Urgent Need for *Romania* (Europe ) good chance to make settlement in Europe .
*Job:Arc Welder* salary $650 + accommodations, transportation & after 2 years return ticket,
*Expence with ticket protector 7,20,000/-PKR*

اتوار، 11 مارچ، 2018

علم کے پانچ درجات

🌹 *السلام علیکم* 🌹
*علم* کے پانچ درجے ہیں۔
*پہلا* درجہ یہ ہے کہ انسان خاموش رہنا سیکھ لے۔س
*دوسرا* درجہ یہ ہے کہ توجہ سے سننا سیکھ لے۔
*تیسرا* درجہ یہ ہے کہ جو سنے اسے یاد رکھنے کی کوشش کرے۔س
*چوتھا* درجہ یہ ہے کہ جو معلوم ہو جائے اس پر عمل کی کوشش کرے۔
*پانچواں* درجہ یہ ہے کہ جو علم ہو اسے دوسروں تک پہنچائے۔
  طالب دعا والدین اور اہل خانہ
شکریہ

علامہ مشرقی. ایک عجوبہ روزگار شخصیت

لاہور اچھرہ کے ذیلدار روڈ پر پرانے مکان میں کھڑی 1942 کی مرسیڈیز رینالٹ اور اس کے برابر دو قبریں کس کی ہیں؟

علامہ مشرقی-نوبل پرائز کے لئے نامزد ایک جینئیس جس کو ہماری قوم اور تاریخ دانوں نے فراموش کردیا۔

لاہور کےاچھرہ کی تنگ گلیوں سے گزر کر جب آپ ذیلدار روڈ پر پہنچیں گے تو ایک الگ تھلگ سیمنٹ کے پلاسٹ والا پرانا مکان نظر آئے گا۔ زنگ آلود گیٹ کھول کر اندر جائیں تو اب بھی ایک لکڑے کے بوسیدہ شوکیس میں آپ کو 1942 کی رینالٹ بینز کا ڈھانچہ نظر آئے گا۔ اس زنگ آلود گلتی سڑتی کار کے بالکل ساتھ ہی دو قبریں بھی ہیں- ایک علامہ عنایت اللہ مشرقی کی اور دوسری ان کی شریک حیات کی۔ یہ کار ایڈولف ہٹلر نے علامہ صاحب کو بطور تحفہ پیش کی تھی۔ ب1942 ماڈل کی رینالٹ بینز کے بارے میں بتاتا چلوں کہ جب نازی فوجوں نے فرانس پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے بہت محدود تعداد میں مرسیڈیز بینز کا اسپیشل ایڈیشن تیار کیا تھا۔ کیونکہ اس کو رینالٹ کی فیکٹری میں تیار کیا گیا تھا اس لئے اس کو رینالٹ بینز کا نام دیا گیا۔ اس لہز سے اس کار کی تاریخی اہمیت اور قدرو قیمت کا اندازہ لگا لیجئے جس کا ہماری کسی حکومت نے قدر نہیں کی اور نہ اس نایاب ورثے کی حفاظت کا کوئ انتظام کیا گیا۔ تصاویر میں آپ نئی رینالٹ اور اس کی موجودہ حالت زار دیکھ سکتے ہیں۔ علامہ مشرقی ایک ایسا جینئس تھا کہ جس کے نام اور کام کو ہماری درسی کتب میں ہونا چاہئے لیکن ہمارے اصل ہیروز کو کوئ نہیں جانتا کہ سچ مچ بھینس کو بھلا بین کی کیا سمجھ۔ 

خود ہٹلر کے پاس چھ رینالٹ بینز موجود تھیں جبکہ اس نے جنرل رومیل سمیت ڈیڑھ سو افراد کو یہ کاریں بطور تحفہ پیش کی تھیں جن میں سے ایک علامہ مشرقی بھی تھے۔ علامہ کی سائنسی سوجھ بوجھ اور ماہر ریاضیات کی حیثیت سے ان کی خدمات کے اعتراف میں یہ کار پیش کی گئی۔ ان کو انڈیا کے بہترین دماغ کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ 1970 میں بینز کمپنی نے علامہ کی فیملی کو اس کار کے بدلے پانچ لاکھ ڈالر کی پیشکش کی تھی جو علامہ صاحب کی فیملی نے رد کردی۔ اب نئی نسل کو اس بیش قیمت ورثہ کے باعے میں کچھ خبر نہیں کہ یہ کیا حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کار آج بھی اپنی اور اپنے مالک کی بے توقیری پر نوحہ کناں ہے۔ حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب کا فرض بنتا ہے کہ اس کار کو قومی و تاریخی ورثہ قرار دے کر اس کی مرمت و رنگ و روغن کروا کر اس کو کسی میوزیم میں محفوظ کیا جائے ورنہ کچھ عرصہ بعد یہ صرف ایک کاٹھ کباڑ کا ڈھیر رہ جائے گی۔ صحافی حضرات اس کی طرف توجہ دیں اور حکومت کی توجہ اس کی جانب مبذول کروائیں۔

اسی لاہور میں وہ عظیم المرتبت شخص علامہ مشرقی رہتا تھا جسکے بارے میں آئن سٹائن نے کہا کہ یہ ایک جینئس ہے…کہا جاتا ہے کہ علامہ مشرقی نے حساب کا ایک سوال جو آئن سٹائن کو بھی پریشان کرتا تھا۔
ایک ڈبیہ پر حل کر دیا تھا…اڈولف ہٹلر بھی اس کی شخصیت سے اتنا متاثر ہواکہ اسے ذاتی طور پر ایک سیاہ ڈیملر لموزین تحفے میں دی اور یہ کار ابھی تک اچھرے میں ایک چھت سے معلق ہے…علامہ مشرقی کی جدوجہد آزادی کی کہانی ہمارے کسی نصاب میں شامل نہیں…تین سو تیرہ خاکسار… جنگ بدرکی یادگار…جب لاہور کے اندربٹی گلی میں پورے انگریز سامراج سے ٹکرائے تھے اس کا ہمارے نصابوں میں کتابوں میں کوئی تذکرہ نہیں‘ صرف تحریک گور کنان کے قصے ہیں‘ ہماری آج کی نسل نہ بھگت سنگھ کی قربانیوں سے واقف ہے اور نہ ہی علامہ مشرقی کی جرأت اور ولولے اور جینئس سے آگاہ ہے…اس لئے کہ …جو کچھ بھی ظہور پذیر ہو جائے اس کا ریکارڈ آئندہ نسلوں تک منتقل نہ کیاجائے تو گویا کچھ بھی ظہور پذیر نہ ہوا تھا۔فورڈ کے کہنے کے مطابق تاریخ واقعی ایک بینک ہے۔

• عالم اسلام کے فرزند....جنہوں نے دنیا کی قوموں کو اجتماعی موت و 
حیات کے متعلق پیغام اخیر اور تسخیر کائنات کا پروگرام اپنی شہرہ آفاق کتاب”تذکرہ“ (1924) کے ذریعے دیاتو دنیا بھر کے عالم دنگ رہ گئے۔ جس پر 1925ءمیں مشروط طور پر ادب کا ”نوبل پرائز“ پیش ہوا کہ اردو ہماری تسلیم شدہ زبان نہیں، کسی یورپی زبان میں اس کا ترجمہ کیا جائے مگر شہرت و دولت سے بے نیاز مصنف نے لینے سے انکار کر دیا۔
بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ برسوں پہلے 1924ءمیں علامہ عنایت اللہ مشرقی صاحب کو 36سال کی عمر میں اپنی کتاب ” تذکرہ ” پر نوبل پرائز کے لئے نامزد کیا گیا تھا – لیکن نوبل کمیٹی نے شرط یہ رکھی تھی کہ علامہ صاحب اس کتاب کا کسی یورپی زبان میں ترجمہ کروائیں- مگر علامہ مشرقی نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس طرح وہ نوبل پرائز نہ حاصل کر سکے – تذکرہ کتاب میں علامہ صاحب نے قران اور قدرت کے قوانین کا سائنسی تجزیہ کیا ہے – اس کتاب کا ترجمہ نہ کروانے کی ان کی کیا توجیح ہو گی یہ سمجھ نہیں آتی – کیونکہ وہ نہ 
صرف روایتی ملا نہ تھے بلکہ ان کے بہت خلاف تھے

ءمیں دنیا کے بیس ہزار سائنسدانوں کو ”انسانی مسئلہ“ کے عنوان سے خط لکھ کر دنیاوی ترقی کو بے جان مشینوں کے چنگل سے نکال کر کائنات کو مسخر کرنے ، انسانی زندگی اور اس کی روح کو کنٹرول کرنے اور دیگر کروں میں زندگی کی موجودگی کے آثار کے راز ازروئے قرآن افشاں کر دئیےجس کا ہماری کسی نصابی کتب میں ذکر تک نہیں۔ صد افسوس!!!!
علامہ عنایت مشرقی صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے – ایک بہت بڑے ریاضی دان کے علاوہ وہ سیاسی ، سماجی اور مذہبی سکالر بھی تھے – انگلستان میں اپنی تعلیم کے دوران کیمبرج یونیورسٹی میں ان کی دوستی سر جین جونزجیسے بڑے سائنسدانوں سے ہوئی – جنہیں علامہ صاحب نے اسلام اور اپنے پیغمبر صلعم کے بارے میں آگاہ کیا – اور شنید ہے انہوں نے اسلامی کتب کے مطالعہ کے بعد علامہ صاحب سے جنگ کے دوران قید ہونے والی خواتین سے سلوک پر سوال اٹھایا – جس پر علامہ بہت پریشان ہوے اور کچھ عرصہ تعلیمی سلسلے کو منقطع کر کے قران اور حدیث کے مطالعہ میں اپنے آپ کو غرق کر لیا – اس کے بعد ہی انہوں نے تذکرہ اور ملا کا غلط مذہب نامی کتب لکھیں – اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ حدیثوں میں جنگی قیدی خواتین سے جس سلوک کا ذکر ملتا ہے کہ انہیں اپنی مرضی سے استعمال کیا جا سکتا ہے قران میں ایسے سلوک کا enayatذکر ہر گز نہیں ہے – اللہ نے تو صاف کہا ہے کہ قیدی خواتین کو جزیہ لے کر دشمنوں کے حوالے کر دیں – اور اگر وہ جزیہ دینے سے انکاری ہوں تو صلح رحمی کرتے ہوے بغیر جزیہ کے دشمن کو ان کی خواتین واپس کر دیں ۔ ہمارے سیدی مودودی صاحب نے اپنی تفسیر میں حدیث والے ورژن کو ہی مستند لکھا ہے اور اس سلوک کی انتہائی بھیانک شکل کا مظاہرہ آجکل داعش کے جنگی جنونی کر رہے ہیں
علامہ مشرقی صاحب صرف 25سال کی عمر میں کالج پرنسپل بن گئے تھے اور 29 سال کی عمر میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے انڈر سیکریٹری بن گے تھے – بعد میں انہیں کئی بڑے عہدے آفر ہوے جیسے افغانستان کی سفارت مگر انہوں نے ایسی کسی آفر کو قبول نہیں کیا بلکہ سرکاری ملازمت چھوڑ کر 1930ءمیں خاکسار تحریک کی داغ بیل ڈالی – اس تحریک کا بنیادی مقصد غریب عوام کی بلاتفریق مذہب و فرقہ خدمت کرنا تھا – اس تحریک کیلئے کئی دفعہ وہ جیل بھی گئے۔ وہ انڈیا کی تقسیم کے حق میں نہیں تھے اور اسے انگریزوں کی سازش قرار دیتے تھے – علامہ مشرقی نے 1956ءمیں منٹو پارک میں پیش گوئی کی تھی کہ اگر مشرقی پاکستان کے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو یہ علیحدہ ہو جائے 
گا اور ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی –

• پاکستان کے وہ رہنما....جن کی نماز جنازہ میں دس لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کر کے ان کے عمل و کردارکی صداقت پر اپنی مہرثبت کی۔ • پاکستان کے پہلے رہنما....جن کو بعد از مرگ حضوری باغ (بادشاہی مسجد لاہور) کے وسیع و عریض مقام پر قائدین خاکسار تحریک کوحکومت کی جانب سے تدفین کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اپنے عظیم المرتبت قائد کی وصیت منظر عام پر لاکر امت مسلمہ اور ملت پاکستانیہ کو حیرت زدہ کر دیا کہ”مرحوم کی تدفین، ان کی اپنی زرخرید زمین ذیلدار روڈ، اچھرہ لاہور میں ہو اور اس پر گھنٹہ گھر تعمیر کر کے تحریر کیا جائے کہ "جو قوم وقت کی قدر نہیں کرتی تباہ ہو جاتی ہے“ ۔ جہاں پر چھولداری میں بیٹھ کرآپ نے ”خاکسارتحریک“ کو عا لمگیر سطح پر چلایا اور اسی مقام پر ہی پیوند خاک ہوکر اپنی خودداری ثابت کر دی۔
• مقام غور و فکر ہے کہ ایسی عظیم المرتبت شخصیت کے ساتھ ۱۹۴۷ءسے لے کر اب تک حکمرانوں ، ارباب تعلیم و صحافت، تاریخ نویسوں، کالم نگاروں، محققوں، قومی رہنماﺅں اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا متعصبانہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر نوجوان نسل سے انہیں کیوں بے خبر رکھا جا رہا ہے؟ جس کا واضح ثبوت یہی ہے کہ ابھی تک ”باقیات فرنگی سامراج“ کاخاتمہ نہیں ہو سکا؟ جو ہم سب کےلئے لمحہ فکریہ ہے!

Sanaullah Khan Ahsan

ماں کی خدمت کا ہھل

۔

*حضرت اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو جنت کے دروازے پر کیوں روک لیا جائے گا؟*

       حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلّم نے فرمایا کہ *"جب لوگ جنت میں جا رہے ہوں گے تو اویس قرنی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کو جنت کے دروازے پر روک لیا جائے گا _"*
حضرت اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کون ہیں؟
اویس نام ہے ، عامر کے بیٹے ہیں ، مراد قبیلہ ہے ، قرن ان کی شاخ ہے اور یمن ان کی رہائش گاہ تھی _
حضرت اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ماں کی حد درجہ خدمت کی _ وہ آسمانوں تک پہنچی _ اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنی ماں کی خدمت کی وجہ سے حضورِ اقدس صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم کی خدمتِ اقدس میں حاضر نہیں ہو سکے _
       جبرائیل علیہ السلام آسمان سے پہنچے اور ان کی بات کو حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے بیان کیا _ چونکہ حضورِ اقدس صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم دیکھ رہے تھے کہ آئندہ آنے والی نسلیں اپنی ماؤں کے ساتھ کیسا سلوک کریں گی؟ ایک سائل نے سوال کیا : یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم ! قیامت کب آئے گی؟ تو آپ صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد فرمایا : مجھے نہیں معلوم ، کب آئے گی؟ تو سائل نے کہا کہ کوئی نشانی تو بتا دیں _ تو آپ صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے فرمایا : جب اولاد اپنی ماں کو ذلیل کرے گی ، تب قیامت آئے گی _
       حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے کہا کہ تمہارے دور میں ایک شخص ہو گا جس کا نام ہو گا اویس بن عامر ، درمیانہ قد ، رنگ کالا اور جسم پر ایک سفید داغ ہو گا _ حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے ان کا حلیہ ایسے بیان کیا ، جیسے سامنے دیکھ رہے ہوں _ وہ آئے گا _ جب وہ آئے تو تم دونوں نے اس سے دعا کروانی ہے _
       حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی دعا کی ضرورت نہیں تھی _ بلکہ یہ امت کو پیغام پہنچانے کے لیے تھا کہ ماں کا کیا مقام ہے؟ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ حیران ہو گئے اور سوچنے لگے کہ حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم کیا کہہ رہے ہیں؟ کہ ہم اویس سے دعا کروائیں _ تو حضورِ انور صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے فرمایا : عمر ، علی _ اویس نے ماں کی خدمت اس طرح کی ہے کہ جب وہ ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللّٰہ اس کی دعا کو خالی نہیں جانے دیتا _
       حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ دس سال خلیفہ رہے دس سال حج کیا _ لیکن انہیں اویس نہ ملے _ ایک دن سارے حاجیوں کو اکٹھا کر لیا اور کہا کہ تمام حاجی کھڑے ہو جاؤ _ آپ کے حکم پر تمام حاجی کھڑے ہو گئے _ پھر کہا کہ سب بیٹھ جاؤ صرف یمن والے کھڑے رہو _ تو سب بیٹھ گئے اور یمن والے کھڑے رہے _ پھر کہا کہ یمن والے سارے بیٹھ جاؤ _ صر ف مراد قبیلے والے کھڑے رہیں _ پھر کہا ، مراد قبیلے والے سب بیٹھ جاؤ صرف قرن والے کھڑے رہو _ تو مراد قبیلے والے بیٹھ گئے ، صرف ایک آدمی بچا تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا کہ تم قرنی ہو؟ تو اس شخص نے کہا کہ ہاں میں قرنی ہوں _ تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا کہ اویس کو جانتے ہو؟ تو اس شخص نے کہا کہ ہاں ، جانتا ہوں _ میرے بھائی کا بیٹا ہے _ میرا سگا بھتیجا ہے _ اس کا دماغ ٹھیک نہیں _ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ توحضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا کہ مجھے تو تیرا دماغ صحیح نہیں لگ رہا _ آپ رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا : کدھر ہے؟ تو اس نے کہا کہ آیا ہوا ہے _ پوچھا کہاں گیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ وہ عرفات گیا ہے اونٹ چرانے _ آپ رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو ساتھ لیا اور عرفات کی طرف دوڑ لگا دی _ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے ہیں اور اونٹ چاروں طرف چر رہے ہیں _ یہ آ کر بیٹھ گئے اور اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے _ جب حضرت اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے محسوس کیا کہ دو آدمی آ گئے ہیں تو انہوں نے نماز مختصر کر دی _ سلام پھیرا تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا : کون ہو بھائی؟ تو کہا ، میں مزدور ہوں _ اسے خبر نہیں کہ یہ کون ہیں؟ تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا کہ تیرا نام کیا ہے؟ تو اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کہا کہ میرا نام عبد اللّٰہ یعنی (اللّٰہ کا بندہ) _ تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا کہ سارے ہی اللّٰہ کے بندے ہیں ، تیری ماں نے تیرا نام کیا رکھا ہے؟ تو حضرت اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کہا کہ آپ کون ہیں میری پوچھ گچھ کرنے والے؟ ان کا یہ کہنا تھا کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے کہا کہ یہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ ہیں اور میں ہوں علی (رضی اللّٰہ عنہ) بن ابی طالب _ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا یہ سننا تھا کہ وہ کانپنے لگے اور کہا کہ جی میں معافی چاہتا ہوں _ میں تو آپ کو پہچانتا ہی نہیں تھا _ میں تو پہلی دفعہ آیا ہوں تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا کہ تو ہی اویس ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں ہی اویس ہوں _ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا کہ ہاتھ اٹھا اور ہمارے لیے دعا کر _ اویس قرنی رونے لگے اور کہا کہ میں دعا کروں؟ آپ لوگ سردار اور میں نوکر آپ کا _ میں آپ لوگوں کے لیے دعا کروں؟ تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا کہ ہاں ! اللّٰہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے فرمایا تھا _
       عمر اور علی رضی اللّٰہ عنہما جیسی ہستیوں کے لیے حضرت اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاتھ اٹھوائے گئے _ کس لیے؟ اس کے پیچھے جہاد نہیں ، تبلیغ نہیں ، تصوف نہیں _ اس کے پیچھے ماں کی خدمت ہے _ جب لوگ جنت میں جا رہے ہوں گے تو حضرت اویس قرنی بھی چلیں گے اس وقت اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ باقیوں کو جانے دو اور اویس کو روک لو _ اس وقت حضرت اویس قرنی رحمۃ اللّٰہ علیہ پریشان ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ اے اللّٰہ ! آپ نے مجھے دروازے پر کیوں روک لیا؟ تو ان سے اس وقت اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ پیچھے دیکھو ، جب وہ پیچھے دیکھیں گے تو پیچھے کروڑوں اربوں کی تعداد میں جہنمی کھڑے ہوں گے _ تو اس وقت اللّٰہ فرمائے گا کہ اویس تیری ایک نیکی نے مجھے بہت خوش کیا ہے _ *’’ ماں کی خدمت‘‘* تو انگلی کا اشارہ کر _ جدھر جدھر تیری انگلی پھرتی جائے گی ، میں تیرے طفیل ان کو جنت میں داخل کرتا جاؤں گا _
سبحان اللّٰہ !!!!!!!!!

                            *(نظر ثانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تبسّم ملک)*

مدد ایسے بھی کی جا سکتی ہے

Copied#
Great Idea#
احباب متوجہ ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،

نیا تعلیمی سال شروع ہو رہا ہے۔ کتابوں کی دکانوں پر رش ہے۔ آپ جا کر دیکھئیے آپ کو کئی ایسے والدین ملیں گے جو اپنا پیٹ کاٹ کر بھی بچوں کے لیے پوری کتابیں کاپیاں خریدنے سے قاصر ہیں۔ بار بار بٹوے میں موجود پیسے گنتے ہیں۔ کبھی کچھ چیزیں کم کرواتے ہیں کبھی بچوں کو کہتے ہیں فلاں چیز بعد میں لے لیں گے۔ جن کے زیادہ بچے ہیں ان کے چہرے پر ہوائیاں اَڑی ہوئی ہیں۔ 

آپ حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے اعتماد کے دکانداروں سے بات کریں کہ غریب والدین کے جو پیسے کم پڑیں گے وہ آپ ادا کر دیں گے۔ آپ حسب استطاعت یہ کام کریں۔ بہت سے والدین اپنی اور اپنے بچوں کی نظروں میں شرمندہ ہونے سے بچ جائیں گے۔

خدا نے خود ایسے غربا کی مدد کی سفارش کی ہے جو لوگوں سے لپٹ لپٹ کر نہیں مانگتے اور کوئی آنکھ والا ہو تو انہیں ان کے چہروں سے پہچان سکتا ہے ۔ ماخوذ

صرف ایک جج نے بدل ڈالا

*روزنامہ 92 نیوز*
*اوریا مقبول جان*
*صرف ایک جج*
  مارچ 10, 2018

اس سال چودہ فروری کس قدرخاموشی سے گزرگیا. نہ ٹیلی ویژن چینلزکے پروگراموں میں‌ کسی نے آستینیں چڑھائیں، غصے سے لال پیلے ہوئے اورنہ ہی اپنے مؤقف کے حق میں ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوئے. اخبارات میں بڑے بڑے جغادری کالم نگاروں کی پرجوش تحریریں بھی سننے کونہ ملیں. نہ ویلنٹائن ڈے کے حق میں اورنہ ہی اس کے مخالف. کسی این جی اوزدہ خاتون کا غصے میں بھرا ہوا لال پیلا چہرہ بھی ٹی وی پریہ کہتے ہوئے نظرںہ آیا کہ “یہ لوگ محبت کے دشمن ہیں، لوگوں کو ہنستا ہوا نہیں دیکھ سکتے”. دوسری جانب آنکھوں میں خون اتارے وہ مذہبی لوگ بھی ٹی وی کیمروں کے سامنے یہ احتجاج کرتے ہوئے نظرنہ آئے کہ ویلنٹائن ڈے بے حیائی ہے، نوجوان نسل کے بے راہ روکرنے کا ایک راستہ ہے. پورے ملک میں کس قدرخاموشی تھی. صرف وہ طبقہ جوبڑے شاپنگ مالز، کلبوں، پوش علاقوں کی شاہراہوں یا مہنگے مہنگے مغرب زدہ تعلیمی اداروں‌ میں نظرآتا ہے، انہوں نے چند لمحے سرخ پھول ایک دوسرے کوپیش کرکے دل کے ارمان پورے کرلیے. لیکن اس ساری کاروائی کی خبرلاہورمیں نہ شاہدرہ کوہوئی اورنہ ہی شاد باغ کو، کراچی میں نہ اورنگی ٹاؤن والے اس دن سے آگاہ ہوسکے اورنہ ہی ملیرکی ماڈل کالونی. یہی حال پشاور، کوئٹہ، حیدرآباد، فیصل آباد، راولپنڈی اورایسے کئی شہروں کی ننانوے فیصد آبادیوں کا تھا جنہیں علم تک نہ ہوسکا، ویلنٹائن ڈے آیا اورآکرگزرگیا. اس دفعہ شوبزکی شخصیات کوبھی یہ دن یاد نہ رہا. نہ کوئی شوخ چنچل اداکارہ زرق برق لباس میں ملبوس ہاتھوں میں پھول پکڑے نظرآئی اورنہ ہی کوئی بوڑھا کہنہ سال اداکاربچوں کوسرخ گلاب دیتا دکھائی دیا. بےشمارٹیلی ویژن کیمرے چودہ فروری کی صبح آرام اورسکون کی نیند سوئے رہے. پرویز مشرف اوراس کی ذریت نے گزشتہ پندرہ سال سے اس قوم کوجس ہیجانی کیفیت کا شکارکررکھاتھا، کتنی حیران کن بات ہے ایک لمحے میں سب کچھ زمین بوس ہوگیا. اسلام آباد ہائی کورٹ کے قابل احترام جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے صرف اتنا فیصلہ دیا کہ تم ویلنٹائن ڈے والے دن، جوچاہے کرو، جس کے ساتھ جیسے محبت کا اظہارکرنا چاہتے ہو، پھول پیش کرنا چاہتے یویا گلدستہ، سب کرولیکن میڈیا پراس کی تشہیرنہیں ہوگی. چودہ فروری 2018ء کوصرف ایک فیصلے نے واضح کردیا کہ اس پاکستان میں پھیلی ہیجانی کیفیت، آپس میں دست وگریباں عوام، ایک مصنوعی پاگل پن، سب کا سب میڈیا کا پیدہ کردہ ہے اورننانوے فیصد عوام کا اس سے کوئی تعلق نہیں. اگرمغربی آقاؤں اورکارپوریٹ سرمایہ داروں کے اشتہارات پرپلٹنے والے میڈیا کا دماغ درست ہوجائے تواس ملک کے آدھے سے زیادہ مسئلے ختم ہوجائیں. اس سارے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ کام جوبائیس کروڑعوام کی نفرت اورغصہ نہ کرسکی، دانشوروں کے مضامین اورگفتگوجولگام میڈیا کونہ ڈال سکے صرف ہائی کورٹ کے ایک جج کے مختصرسے فیصلے نے ڈال دی. اس فیصلے نے یہ حقیقت بھی روزروشن کی طرح واضح کردی کہ اس ملک کی اخلاقیات، سماجی زندگی، خاندانی نظام اورمذہبی جذبات کوبگاڑنے اوراس بگاڑکوترقی، تہذیب اورعالمی معاشرت کہنے کا بھونڈا اورمکروہ کھیل صرف میڈیا ہی پرکھیلا جاتا ہے اوراس کھیل کے پیچھے ایک بہت بڑا ایجنڈا ہے جسے تحریرکرنے والے اورنافذکرنے والے بائیس کروڑمیں سے صرف ایک فیصد سے بھی کم ہیں، اوران کی عوام میں پذیرائی کا عالم یہ ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے اس فیصلے نے جہاں‌ لوگوں کوسکون واطمینان بخشا وہاں ان جدید تہذیب کے متوالوں کے لیے احتجاج کرنے والی ایک آواز بھی برآمد نہ ہوسکی.



یہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا پہلا فیصلہ نہیں ہے. آج سے تقریباَ دس سال قبل جب انٹرنیٹ پرفیس بک اوردیگرسوشل میڈیا کے دروازے کھلے، توجہاں بے شمارمعاشرتی تعلقات کی کھڑکیاں واہوئی، وہیں ان کھڑکیوں‌ سے غلاظت اورتعفن کی بدبوپھیلنے لگی. کردرارکشی، لوگوں کے بارے میں بے سروپا جعلی خبریں، شریف عورتوں پرالزامات، غرض ہرغلیظ ذہن کا گند سوشل میڈیا پرنکلنے لگا. اس دوران اس سوشل میڈیا کا ایک ایسا استعمال شروع بھی ہوا جس نے پوری امت مسلمہ خصوصاً پاکستان کے مسلمانوں کوجھنجوڑکررکھ دیا. فیس بک پرلاتعداد پیجزایسے بنائے گئے اوربے شمارٹوئٹراکاؤنٹ کھولے گئے جن میں براہ راست سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی جاتی، شرمناک کارٹون اورویڈیوجاری کی جاتیں. وہ لوگ جوگزشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا پرسرگرم تھے انہیں ایک ایک شخص کا علم اورادراک تھا کہ کون کون ایسا کررہا ہے. پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت سے لاتعداد لوگوں نے رابطہ کیا. اس کی وزیرتک لوگوں‌ نے اپنا احتجاج پہنچایا. وہ ڈائریکٹوریٹ جس کے پاس اس کا اختیارتھا کہ وہ ان پیجزکوروک سکتی تھی، ان ویب سائٹس کوبند کرسکتی تھی، اس کے اعلیٰ ترین افسران بھی بے بس محسوس ہوئے. لگتا تھا کہ کسی کوسیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی کوئی پرواہ نہیں. ایسے میں‌ جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے اس معاملے کواپنے ایمان کا معاملہ سمجھتے ہوئے اوربائیس کروڑعوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اپنی عدالت میں سننا شروع کیا. شروع شروع میں پاکستانی موم بتی مافیا اسلام آباد کی سڑکوں پردرجن بھرلوگوں کے ساتھ ان بلاگرزکی حمایت میں نکلا. عالمی میڈیا نے ان کے متعلق آواز اٹھائی. پاکستانی سیکولردبی زبان میں بولتے رہے، لیکن جسٹس شوکت صدیقی ڈٹ گئے. پیجزبند ہونا شروع ہوئے، حکومت نے فیس بک انتظامیہ سے مذاکرات کیے، ویب سائٹ بلاک کردی گئیں. ایک خوف کی لہران لوگوں کے جسموں‌ میں دوڑی جویہ سمجھتے تھے کہ ہم توہین رسالت کرتے رہیں گے اورمیڈیا میں ہماری وکالت کی وجہ سے کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا. جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کئی سوصفحات پرمشتمل اپنا فیصلہ تحریرکیا. یہ فیصلہ پاکستان عدلیہ کی تاریخ ہی نہیں‌ بلکہ امت مسلمہ کی ایک تاریخی دستاویزہے. اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے لے کراب تک کا وہ سب کیس لاء “Case Law” شامل کردیا گیا ہے. یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے کئی سوججوں‌ کے درمیان یہ واحد آواز تھی جس نے اس طوفان پربند باندھنے کی کوشش کی. باقی اسے مسلسل روکنے کی ذمہ داری توحکومت کی تھی اوراس کا قبلہ شاید ابھی تک درست نہیں ہے. البتہ ان بلاگرزکواس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ اگرایک جج چاہے تووہ ان کے نتھنوں‌ میں نکیل ڈال سکتا ہے.
جسٹس شوکت عزیز صدیقی ان دنوں‌ ایک اورمحاذپرسرگرم ہیں. اس ملک میں‌ قادیانی خود کومسلمان ظاہرکرکے یہاں رہتے ہیں، نوکری کرتے ہیں، سیاست میں حصہ لیتے ہیں اورپھرریٹائرمنٹ کے بعد خود کوقادیانی بتا کرشناختی کارڈ اورپاسپورٹ تبدیل کرواتے ہیں. مغربی ممالک میں جاکرکہتے ہیں، کہ ہم پاکستان میں ہراساں ہورہے تھے، ہم پرزندگی کے دروازے بند ہوگئے تھے، اس لیے ہمیں تمہارے ملک میں پناہ چاہیے. یہاں رہتے ہوئے یہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کومسلمان ظاہرکرتے ہیں. اس ملک سے تمام فوائد اٹھاتے ہیں اورپھرایسی ملک کودھوکا دے کربیرون ملک جا کراسے بدنام کرتے ہیں. اس مقدمے کے شروع میں ہی وہ سیکولرلبرل طبقہ شوکت عزیزصدیقی پرتلوارسونت کرکھڑا ہوچکا ہے. سیکولرطبقے کی رہنما عاصمہ جہانگیرتورخصت ہوگئیں جنہوں نے شوکت عزیز صدیقی کے لئے کہا تھا کہ اسے امام مسجد ہونا چاہیے، لیکن اس کام کا ذمہ اب ایک ویب اخبارنے لیا ہوا ہے اورشوکت عزیز صدیقی کے خلاف مضامین لکھوائے جارہے ہیں. کیس زیرسماعت ہے اس پروقت کے ساتھ ساتھ گفتگوہوتی رہے گی. لیکن سوچنا یہ ہے کہ صرف ایک صاحبِ ایمان جج اپنے چند فیصلوں سے اس ملک میں ہیجان، انارکی، بےیقینی ختم کرسکتا ہے، بائیس کروڑلوگوں کی امنگوں کوسکون بخش سکتا ہے تواگرایسے صرف ایک درجن جج تعینات ہوگئے تو….. سوچیں پاکستان کتنی آسانی سے تبدیل ہوسکتا ہے.

کچھ کفریہ کلمات

میں یہاں پر کچھ کفریہ کلمات آپکے کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ جو عام طور پر ہمارے مسلمان بھائی بہن بول ڈالتے ہیں۔جن سے ان کا ایمان ضائع ہوجاتا ہے اور نکاح بہی ختم ہوجاتا ہے ان کو خبر بھی نہیں ہوتی۔تو جب تک از سر نو ایمان کی تجدید اور از سر نو نکاح کی تجدید نہ ہو تو تب تک زنا ہی میں مبتلاء رہیں گے.. 

☄1۔ جیسے کوئی مصیبت کے وقت کہے۔" اللہ نے پتہ نہیں مصیبتوں کے لئے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے"

☄2۔ یا موت کے وقت کوئی کہہ دے۔"پتہ نہیں اللہ کو اس شخص کی بڑی ضرورت تھی جو اس کو اپنے پاس اتنی کم عمر میں بلا لیا"۔

☄3۔ یا کہا ۔ نیک لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ جلدی اٹھا لیتا ہے کیوں کہ ایسوں کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بھی ضَرورت پڑتی ہے

☄4۔ یااللہ ! تجھے بچّوں پر بھی ترس نہیں آیا۔

☄5۔ االلہ ! ہم نے تیرا کیابِگاڑا ہے! آخِر ملکُ الموت کوہمارے ہی گھر والوں کے پیچھے کیوں لگا دیا ہے

☄6۔ اچّھا ہے جہنَّم میں جائیں گے کہ فلمی اداکار ئیں بھی تو وہیں ہوں گی نہ مزہ آجائے گا۔

☄7۔ اکثر لوگ فیس بک پر اس طرح کے لطائف لکھ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی کفر ہے۔ جیسے اگر تم لوگ جنّت میں چلے بھی گئے تو سگریٹ جلانے کیلئے تو ہمارے ہی پاس (یعنی دوزخ میں)آنا پڑے گا

☄8۔ آؤ ظہر کی نماز پڑھیں ، دوسرے نے مذاق میں جواب دیا :یا ر ! آج تو چُھٹّی کا دن ہے ، نَماز کی بھی چُھٹّی ہے ۔

☄9۔ کسی نے مذاق میں کہا:''بس جی چاہتا ہے یہودی یا عیسائی یا قادیانی بن جاؤں۔ ویزہ تو جلدی مل جاتا ہے نا۔

☄10۔ صبح صبح دعا مانگ لیا کرو اس وقت اللہ فارِغ ہوتا ہے

☄11۔ اتنی نیکیاں نہ کرو کہ خُدا کی جزا کم پڑجائے

☄12۔ خُدا نے تمہارے بال بڑی فرصت سے بنائے ہیں

☄13۔ زید نے کہا:یار!ہوسکتا ہے آج بارش ہوجائے۔ بکرنے کہا:''نہیں یار ! اللہ تو ہمیں بھول گیا ہے۔

☄14۔ کسی نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مذاق اڑایا توکافر ہے۔

☄15۔ دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی؟ تو نے کاہے کو دنیا بنائی؟ (گانا)

☄16۔ حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے ۔ خدا بھی نہ جانے تو ہم کیسے جانے (گانا)

☄17۔ میری نگاہ میں کیا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ قسم خدا کی ' خدا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ (گانا) اس طرح کے بے شمار گانے جو ہمارے مسلما ن اکثر گنگناتے دیکھائی دیتے ہیں۔

☄18۔ نَماز کی دعوت دینے پر کسی نے کہا:''ہم نے کون سے گُناہ کئے ہیں جن کو بخْشوانے کیلئے نَماز پڑھیں۔

☄19۔ایک نے طبیعت پوچھی تو دوسرے نے مذاق کرتے ہوئے جواب دیا: نصْرمِّنَ اللہِ وَ ٹِّھیک ۔ کہہ دیا ۔کہنے والے پر حکم کفر ہے کہ آیت کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔

☄20۔ رَحمٰن کے گھر شیطان اور شیطان کے گھر رَحمٰن پیدا ہوتا ہے۔

☄21۔مسلمان بن کر امتحان میں پڑ گیا ہوں۔

وغیرہ وغیرہ۔۔ مزید تفصیل کےلئے "کفریہ کلمات " نامی کتاب کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔ 
طالب الدعاء. 
عظمت حسین عطاری

اپنی موت سے پہلے نصیحت پکڑیں!

اور اپنی موت سے پہلے یہ نصیحت پکڑیں:
میں اپنی موت پر افسوس ہرگز نہیں کروں گا اور میں اپنے جسم کی کوئی پرواہ نہیں کروں گا
پس مسلمان اپنے جو فرائض انجام دیں گے وہ یہ ہیں:
1۔مجھے اپنے کپڑوں سے جدا کر دیں گے 
2۔مجھے نہلائیں گے 
3۔مجھے کفن پہنائیں گے 
4۔مجھے اپنے گھر سے نکال باہر کریں گے 
5۔مجھے اپنے نئے گھر یعنی قبر تک پہنچائیں گے 
6۔اور بہت سے لوگ میرے جنازے کے ساتھ آئیں گے بلکہ بہت سے تو مجھے دفنانے کے لیے اپنی مصروفیات اور مشغولیات سے وقت فارغ کر کے آئیں گے 
اور بہت سے تو میری یہ نصیحت بھی بھلا دیں گے
اور ایک دن ۔۔۔
7۔ میری چیزوں سے وہ خلاصہ پائیں گے ۔۔۔
میری چابیاں
میری کتابیں 
میری سوٹ کیس یا بیاگیں 
میرے جوتے 
میرے کپڑے اور اس طرح ۔۔۔
اور اگر میرے گھر والے اگر متفق ہوں تو وہ یہ صدقہ کریں گے تاکہ مجھے اس سے نفع پہنچے ۔۔
یاد رکھو کہ دنیا مجھ پر غم ہرگز نہیں کرے گی ۔۔اور نہ ہی دنیا کی حرکت رکے گی ۔۔۔
اور تجارت وکاروبار چلتی رہے گی ۔۔
اور میرا وظیفہ شروع ہو جائے گا 
جسے غیر لے لینگے۔۔۔
اور میرا مال وارثوں کے حوالے ہوجائے گا ۔۔
جبکہ مجھے اس کا حساب دینا ہوگا 
کم ہو یا زیادہ ۔۔ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے یا شگاف کے برابر بھی ہو۔۔

اور سب سے پہلے میری موت پر مجھ سے جو چھین لیا جائے گا وہ میرا نام ہوگا! !!
اس لئے جب میں مرجاوں گی تو لوگ کہیں گے کہ" لاش کہاں" ہے؟  
اور مجھے میرے نام سے نہیں پکاریں گے ۔۔!
اور جب نماز جنازہ پڑھانا ہو تو کہیں گے "جنازہ لےآؤ "!!!
میرانام نہیں لینگے ۔۔!
اور جب میرے دفنانے کا وقت آجائے تو کہیں گے "میت کو قریب کرو" !!! میرانام بھی یاد نہیں کریں گے ۔۔۔!
اس وقت مجھے میرا نسب اور نہ قبیلہ میرے کام آئے گا اور نہ ہی میرا منصب اور شہرت۔۔۔
کتنی فانی اور دھوکہ کی ہے یہ دنیا جسکی طرف ہم لپکتے ہیں۔۔
پس اے زندہ انسان ۔۔۔ خوب جان لے کہ تجھ پر غم و افسوس تین طرح کا ہوتا ہے :

1۔ جو لوگ جو تجھے سرسری طور پر جانتے ہیں وہ مسکین کہکر غم کا اظہار کریں گے ۔
2۔ تیرے دوست چند گھنٹے یا چند روز تیرا غم کریں گے اور پھر اپنی اپنی باتوں اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو جائیں گے ۔
3۔ زیادہ سے زیادہ گہرا غم گھر میں ہوگا وہ تیرے اہل وعیال کا ہوگا جو کہ ہفتہ دو ہفتے یا دو مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال تک ہوگا 
اور اس کے بعد وہ تجھے یادوں کی پنوں میں رکھ دیں گے! !!

لوگوں کے درمیان تیرا قصہ ختم ہوا 
اور تیرا حقیقی قصہ شروع ہوا اور وہ ہے آخرت کا ۔

تجھ سے چھن گیا تیرا ۔۔۔
1۔ جمال ۔۔۔
2۔ مال۔۔
3۔ صحت۔۔
4۔ اولاد ۔۔
5۔ جدا ہوگئےتجھ سے مکان و محلات۔
6۔ شوہر/بیوی ۔۔۔
اور کچھ باقی نہ رہا تیرے ساتھ سوائے تیرے اعمال کے 
اور حقیقی زندگی کا آغاز ہوا ۔

اب سوال یہاں یہ ہیکہ : 
تو نے اپنی قبر اور آخرت کے لئے اب سے کیا تیاری کی ہے ؟
یہی حقیقت ہے جسکی طرف توجہ چاہئے ۔۔
اس کے لیے تجھے چاہئے کہ تو اہتمام کرے : 
1۔ فرائض کا
2۔ نوافل کا
3۔پوشیدہ صدقہ کا 
4۔ نیک کاموں کا 
5۔ رات کی نمازوں کا 
شاید کہ تو نجات پاسکے 

اگر تو نے اس مقالہ کو لوگوں کی یاددہانی میں مدد کی جبکہ تو ابھی زندہ ہے
تاکہ اس امتحان گاہ میں امتحان کا وقت ختم ہونے سے تجھے شرمندگی نہ ہو اور امتحان کا پرچہ بغیر تیری اجازت کے تیرے ہاتھوں سے چھین لیا جائے
اور تو تیری اس یاددہانی کا اثر قیامت کے دن تیرے اعمال کے ترازو میں دیکھےگا
(اور یاددہانی کرتے رہئے بیشک یاددہانی مومنوں کو نفع دیگا)

میت صدقہ کو کیوں ترجیح دیتی ہے اگر وہ دنیا میں واپس لوٹا دی جائے۔۔
جیسا کہ اللہ نے فرمایا 
"اے رب اگر مجھے تھوڑی دیر کے لئے واپس لوٹا دے تو میں صدقہ کروں اور نیکوں میں شامل ہو جاؤں (سورة المنافقون )
یہ نہیں کہیگا کہ۔۔
عمرہ کروں گا 
نماز پڑھوں گا
روزہ رکھوں گا 

علماء نے کہا کہ :
میت صدقہ کی تمنا اس لئے کریگا کیوں کہ وہ مرنے کے بعد اس کا عظیم ثواب اپنی آنکھوں سے دیکھے گا 

اس لئے صدقہ کثرت سے کیا کرو 
بیشک مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا 
اور اب اس وقت جو صدقہ کرسکتے ہیں 10 سکنڈ کے اندر وہ اس میسیج کو نصیحت کی نیت سے پھیلائے ۔

متوقع ٹرانسفر پالیسی 2018 پنجاب محکمہ تعلیم اسکول

متوقع ٹرانسفر پالیسی 
ٹرانسفر کے خواہشمنداساتذہ کرام (مردانہ/ زنانہ) متوجہ ہوں  
ٹرانسفر کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات کے مطابق فائل تیار کریں۔

1۔ ٹرانسفر فارم فل کریں
2۔ سادہ کاغذ پر سکیل کے مطابق ٹرانسفر اتھارٹی کے نام درخواست لکھیں۔ سکیل وائز ٹرانسفر اتھارٹی کی تفصیل نیچے دی گئی ہے
۔3۔اپنے تمام تصدیق شدہ کوائف لف کریں۔ اور ان کی متعلقہ بورڈ یا یونیورسٹی سے ویریفکیشن کی فوٹو کاپی ساتھ لگایئں
۔4۔ جو سبجیکٹ پچھلے تین سال آپ نے پڑھائے ہیں ان کے رزلٹ کا پروف ساتھ لگائیں۔ یہ رزلٹ صرف پیک/بورڈ کی کلاسز کاہو گا۔ اگر آپ نے پیک/بورڈ کی کلاسز کو نہیں پڑھایا تو جو رزلٹ سکول کا ہو گا وہی رزلٹ آپ کا بھی تصور ہو گا۔
5۔ سروس سرٹیفکیٹ
6۔اپنے اپائنٹمنٹ آرڈر اور پرموشن آرڈر ساتھ لگائی
۔7۔اپنی سروس بک کی تصدیق شدہ فوٹو کاپی ساتھ لگایئں۔اس کو اپنے متعلقہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور ڈسٹرکٹ اکاوئنٹ آفیسر سے تصدیق کروائیں
۔8۔ تصدیق شدہ تصاویر اور شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی ساتھ لگائیں
۔9۔مو جودہ سیلری سلپ
10۔سکیل 16 کے لیے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفیسر سے سروس سٹیٹمینٹ حاصل کریں۔
11۔ نو ابجیکشن سرٹیفکیٹ ساتھ اٹیچ کریں۔
12۔ نو انکوائری سرٹیفکیٹ ساتھ لگائیں
۔13۔ نو آڈٹ پیرا سرٹیفکیٹ ساتھ لگائیں
۔14۔جس سیٹ کے لیے آپ اپلائی کر رہے ہیں۔ اس سکول کے ہیڑ یا متعلقہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر سے ویریفکیشن سرٹیفکیٹ ساتھ اٹیچ کریں
۔15۔ آب جس سکول میں پیلے جاب کر رہے ہیں اس کا گھر سے فاصلے کے لیے ڈسٹینس سرٹیفکیٹ ساتھ اتیچ کریں۔ ساتھ ڈومیسائل لگائیں
16۔بیوہ، طلاق یافتہ، معذور ہونے کی صورت میں متعلق سرٹیفکیٹ ساتھ اٹیچ کریں
۔17۔ باہمی تبادلہ کی صورت میں دونوں اپلیکیشن فارم جمع کروائیں گے
۔18۔اپلیکیشن فارم کو اپنے متعلقہ ہیڈ۔ڈپٹی ڈی او اور متعلقہ ڈی ای او سے ویریفکیشن کروائیں۔
مندرجہ بالا تمام کوائف پر مشتعمل فائل تیار کریں۔ بہتر ہو گا کہ جمع کروانے سے پہلے اک دفعہ کسی سینیئر ٹیچر کو دکھا لیں اور ای ڈی او آفس میں جمع کروائیں۔——————ایک ہی ڈسٹرکٹ میں ٹرانسفر اتھارٹی
:سکیل 1 سے لے کر 10 تک Ceo
سکیل 11 سے لے کر 18 تک Dc
۔انٹر ڈسٹرکٹ ٹرانسفر اتھارٹی:سکیل 1 سے لے کر 15 تک ڈی پی آئی ایلیمنٹری ایجوکیشن
 سکیل 16 سے لے کر 17 تک ڈی پی آئی سیکنڈری ایجوکیشن پورے صوبے میں ٹرانسفر اتھارٹی
:سکیل 18 سے لے کر 19 تک سیکرٹری ایجوکیشن سکیل 20وزیر اعلی پنجاب

Transfer Criteria= Academic results (40 Mark results in PEC/ Board Exams (Service in far flung Area=20 Marks Seniority = 10 Marks Wedlock Basis = 15 Marks Compassionate Grounds = 15 Marks

ٹرانسفر رولز:
1 ایک سکول میں 3 سال گزارنے لازمی ہیں

2 ۔ جس سکول میں 1 یا 2 اساتذہ ہیں وہاں سے کوئی ٹیچر ٹرانسفر نہیں کروا سکتا جب تک وہ اپنا متبادل نہ دے
 باہمی تبادلہ
۔(3): ٹرانسفر پر پابندی کے باوجود کوئی بھی طلاق یافتہ یا بیوہ فی میل ٹیچر 3 سال پورے ہونے سے قبل اپنا تبادلہ کروا سکتی ہے۔ پوری سروس میں وہ اک دفعہ یہ حقاستعمال کر سکتی ہے۔

۔4 ٹرانسفر پر پابندی کے باوجود کوئی بھی شادی شدہ فی میل ٹیجر 3 سال پورے کیے بغیر اپنا ٹرانسفر کروا سکتی ہے۔ پوری سروس میں ایک بار وہ یہ حق استعمال کر سکتی ہے۔

۔ 5: ٹرانسفر پر پابندی کے باوجود کوئی بھی معزور اساتذہ بھی 3سال پورے کیے بغیر ٹرانسفر کروا سکتے ہیں اگر میڈیکل بورڈ اجازت دے۔

۔6: صرف اک جیسی پوسٹ/سبجیکٹ والے اساتذہ باہمی تبادلہ کروا سکتے ہیں۔

۔ 7:ریٹائرمینٹ ڈیٹ سے ایک سال پیلے جو اساتزہ ٹرانسفر کروانا چاہیں ان کے لیے ایک سکول میں 3 سال گزارنے کی شرط لاگو نہیں ہو گی۔

۔ 8:وہ فی میل اساتذہ جو گھر سے کافی زیادہ فاصلے پر پڑھا رہی ہیں۔ وہ بھی ٹرانسفر کے لیے اہل ہیں۔ اور ان کے لیے بھی 3 سال کی شرط لاگو نہیں ہو گی.
منجانب۔۔۔ صفدر کالرو مرکزی نائب صدر 
پنجاب ٹیچرز یونین پنجاب

الدنیا مزرعة الاخرة : حدیث ھے یا مشہور قول؟

الدنیا مزرعة الاخرة : 
حدیث ھے یا مشہور قول؟  
ایک تحقیقی جائزہ: 

آج کل پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب میں "الدنیا مزرعۃ الاخرہ" کے حدیثِ رسول یا مشہور قول ھونے پر بحث جاری ھے کیونکہ پہلے والی کتب میں اسے حدیث لکھا گیا تھا اور اب اس جملے کو مشہور قول لکھا گیا ھے ۔ 

اس جملے "الدنیا مزرعۃ الاخرہ" کی تحقیق سے پہلے ایک اہم بات کو ذہن نشین کرانا ضروری ھے ۔ 

بعض اوقات قرآن و حدیث کی تفسیر کرتے ھوئے کوئی صحابی یا مفسر یا محدث یا ولی اللہ ایسا زبردست جامع جملہ استعمال کرتا ھے کہ وہ زبان زدِ عام ھو جاتا ھے ۔ وہ مفہومًا درست اور کسی آیت یا حدیث کی کامل تفسیر ھوتا ھے لیکن پھر بھی قولِ رسول (ص) نہیں ھوتا۔ اب بعض اوقات کوئی خطیب یا نیک آدمی بے دھیانی میں یا علم کی کمی کی وجہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے ھوئے اس جملے کو حدیثِ رسول (ص) کہہ دیتا ھے اور سننے والے اس کو پھر بطور حدیث بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ قولِ صحابی میں اکثر ایسا ھو جاتا ھے کہ قولِ صحابی کو حدہثِ رسول کہہ کر بیان کر دیا جائے ۔ پھر وہ بعض حدیث کی کتب میں بھی آ جاتا ھے اور بطور حوالہ بیان ھونے لگتا ھے، لیکن اپنے مفہوم کی کاملیت، اعلٰی کلام اور صحیح تفسیر ھونے کے باوجود بھی وہ حدیث نہیں قرار دیا جا سکتا۔ 

اب آتے ہیں زیرِ بحث جملہ "الدنیا مزرعۃ الاخرہ" (دنیا آخرت کی کھیتی ھے) کی طرف۔ 

یہ جملہ صحاحِ ستہ(بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) میں کہیں پر بھی بطور حدیث درج نہیں ھے۔ 

محدث ابوبکر بن لال (متوفی 398ھ) نے اپنی کتاب "مکارم الاخلاق" میں اسے حدیث قرار دیا ھے ۔ 

امام حاکم (متوفی 405ھ) نے "مستدرک حاکم" میں اسے صحیح حدیث قرار دیا ھے ۔ ان کی روایت میں ایک راوی عبدالجبار نام کا بھی ھے ۔

محدث ابو شجاع الدیلمی(متوفی 509ھ) نے اپنی کتاب "المسند الفردوس" میں بلاسند ابن عمر سے مرفوعًا روایت کیا ھے اور حدیث قرار دیا ھے ۔ 

اب آتے ہیں دوسری آراء کی طرف۔۔۔۔۔۔

امام ابوجعفر محمد بن عمرو بن موسی العقیلی (م 322ھ) نے اسے اپنی کتاب الضعفاء میً ضعیف قرار دیا ھے ۔

امام غزالی (م 505ھ) نے الاحیاء العلوم میں فرمایا ھے کہ میں اس قول کو بطور حدیث نہیں جانتا۔ 

امام شمس الدین الذہبی (م 748 ھ) نے امام حاکم کے اسے صحیح حدیث قرار دینے پر ان کا تعاقب کیا ھے اور اس کو قولِ منکر یعنی حدیثِ منکر قرار دیا ھے کیونکہ اس میں ایک راوی عبدالجبار موجود ھے جو کہ اپنے احوال کے لحاظ مجہول و نامعلوم ھے ۔ 

مشہور محدث شمس الدین امام سخاوی (م 902ھ) نے اپنی مشہود کتاب " المقاصد الحسنۃ فیما اشتھر علی الالسنۃ" (حسین مقاصد کے وہ اقوال جو لوگوں کی زبانوں پر مشہور ھو گئے ہیں) میں کہا ھے کہ میں بطور حدیث اس قول سے واقف نہیں ھوں ۔ 

مشہور محدث حضرت ملا علی قاری (م 1014ھ) نے اپنی کتاب "موضوعات کبیر" میں اسے موضوع حدیث قرار دیتے ھوئے یہ فرمایا ھے : 
"یہ حدیث نہیں ھے البتہ حکمت کا اعلی قول ھے جو علماء استعمال کرتے ہیں، اور اس کا معنی صحیح ھے جو قرآن مجید کی سورہ شورٰی کی آیت 30 کے مطابق ھے کہ 
"من کان یرید حرث الاخرہ نزد لہ فی حرثہ"

لہذا مندرجہ بالا ساری بحث سے نتیجہ یہ اخذ ھوتا ھے کہ قول "الدنیا مزرعۃ الآخرہ" کو حدیثِ رسول(ص) قرار نہیں دیا جاسکتا البتہ یہ ایک حکمت سے بھرپور قول ھے جو کئی قرآنی آیات اور احادیث کے مفہوم کے مطابق ھے ۔

اسلام کا درس امن اور علامہ خادم رضوی صاحب

کاش #بابا_خادم_حسین_رضوی_صاحب نےاسلام کےامن کا درس پڑھاہوتا

تو ہر وقت وہ سخت باتیں نہ کرتے عجیب ہے یہ بابا جی کہتے ہیں ہم نے پڑھا ہی یہی ہے تو بیان کیوں نہ کریں تم ہی بتاؤ کیا اسلام امن کا درس نہیں دیتا؟؟؟؟؟؟؟؟ 

میں نے یہ بات سنی تو واقعی میں بہت مایوس ہوا کہ امیرالمجاھدین نے اسلام امن کادرس دیتا ہے کا قول کیوں نہیں پڑھا اگر بابا جی نے اسلام کی اتنی بنیادی بات نہیں پڑھی تو سوچنے کی بات ہے کہ بابا نے پھر پڑھا کیا ہے آئیں بابا خادم حسین رضوی صاحب سے ہی پوچھتے ہیں 

بابا جی کیا آپ نے اسلام کے امن کا درس نہیں پڑھا؟؟؟؟؟؟؟..؟؟؟؟؟.؟؟ 

#بابا_خادم_حسین_رضوی : بیٹا میں نے بالکل یہ درس پڑھا ہے لیکن میں پھل موسم دا تے گل ویلے دی کے فارمولے پر اپنی زندگی گزارنے کا عادی ہوں میں امن کا یہ درس اس وقت یاد کرتا ہوں جب کوئی دہشت گرد مسجد میں گھس کر پھٹتا ہے تو دل بار بار یہی درس دیتا ہے کہ خادم حسین رضوی یاد رہے اسلام امن کا درس دیتا ہے 
پھر جب کوئی شخص کسی مزار پر جا پھٹتا ہے تو اپنے آپ کو تسلی دے کر کہتا ہوں کہ خادم حسین رضوی خبردار اسلام امن کا درس دیتا ہے پھر جب کوئی دہشت گرد کسی امام بارگاہ چرچ یا بازار میں پھٹتا ہے تو مجھے فورا اسلام کا یہ درس یاد آجاتا ہے پھر جب مجھے جان سے مارنے کے لیے مجھ پر فائرنگ کی جاتی ہے تو میں گولی سینے پر کھانے کے لیے باہر نکل آتا ہوں اور کہتا ہوں اگر میری موت نے اسی راستے سے آنا ہے تو یہ لو میرا سینہ حاضر ہے لیکن یادرہے اسلام امن کا درس دیتا ہے بقول میرے مخالفین کے جب 60 لاکھ لوگ میرے پاس سڑکوں پر تھے اور عاشق رسول کا جنازہ غم و غصے کی انتہاء اور پارلیمنٹ ہمارے سامنے تھی تب بھی میں نے اسی درس کو سامنے رکھ کر امت مسلمہ کو پیغام دیا کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے پھر جب ختم نبوت کے مجاھدین کو شہید کیا گیا مجھ پر شیلوں کی بارش کی گئی عوام ایک اشارے کی منتظر تھی پھر بھی میں اس درس کو نہیں بھولا اور امت مسلمہ کو مسلسل پیغام دیتا رہا کہ خبردار اسلام امن کا درس دیتا ہے 

لیکن جب کبھی کوئی آوارہ بدچلن شرابی کبابی عیاش دین اور ضمیر فروش اسلام کے خلاف کوئی بکواس کرتا ہے تو مجھے اسلام کا وہ درس بھی یاد آتا ہے جب خالد بن ولید کہتا ہے کہ محمد عربی کے غلام خون پیتے ہیں رومیو سنا ہے تمھارا خون بہت لزیز ہے 
جب کوئی بے لگام گھوڑا اسلام کی اساس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وہ تلوار یاد آجاتی ہے جو انھوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے بے نیام کی تھی 
پھر جب کوئی چوڑا میرے آقا کی شان کے خلاف کچھ بکتا ہے تو مجھے صحابہ کی وہ لڑی گئی 23 جنگیں یاد آجاتی ہیں 
پھر جب کہیں کوئی آسیہ ملعونہ پیدا ہوتی ہے تو مجھے نابینا صحابی اور ممتاز حسین قادری شہید یاد آجاتے ہیں 
جب راجہ داہر کا کوئی بیٹا محمد بن قاسم کو کو گالی دیتا ہے تو مجھے کشتیاں جلا دینے کا درس یاد آتا ہے پھر جب کوئی ملالہ کو اسلام کی بیٹی کہتا ہے تو مجھے ام عمارہ یاد آجاتی ہیں پھر جب شہباز شریف جیسے سیاستدانوں کی چاپلوسی میں شہباز شریف کو اس دور کا عمر فاروق کہا جائے اور اس پر اسی عنوان سے کتاب لکھی جائے مجھے امن کا درس بعد میں اس سے پہلے مجھے گستاخ رسول کا سر یاد آتا ہے

میرے بچو ابھی بھی وقت ہے ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اگر درد پیٹ میں ہو تو سر کا علاج مناسب نہیں اگر مرض دل کا ہو تو دوا جلد کی لینا مناسب نہیں 

یہی تو کب سے امت مسلمہ کو سمجھا رہا ہوں کہ ہم امن کے داعی ہیں مگر ہماری شرافت اور اس نعرے کو ہماری کمزوری سمجھا تو یاد رہے پھر 
ہم جانشین فاروق اعظم کے ہیں 
ہم جانشین شیر خدا کے ہیں 
ہم جانشین غازی عباس کے ہیں 
ہم جانشین سیف اللہ کے ہیں 
ہم جانشین صلاح الدین ایوبی کے ہیں 
ہم جانشین سلطان محمودغزنوی غزنوی کے ہیں 
ہم جانشین ٹیپو سلطان کے ہیں 

میرے دوست ہم مسلمان امن کے داعی ضرور ہیں مگر یہ مت بھولو کہ میرے آقا کی وفات پر 9 تلواریں موجود تھی جو اس بات کا چیخ چیخ کر اظہار کر رہی تھیں کہ یاد رکھنا امن کا درس امن کے زمانے میں دینا 
دشمن سر پر کھڑا ہو تو میری 9 تلواریں ضرور یاد کرنا 
میرے دوست میرے بچو میں نے تو یہی پڑھا ہے کہ ایک ماں نے اپنا بیٹا کھو دیا اپنا شوہر کھو دیا اپنا والد کھو دیا پھر بھی یہ نہیں کہا کہ اسلام تو امن کا درس دیتا ہے تو پھر یہ خون ریزی کیوں؟؟؟؟ 
کیونکہ وہ خوش قسمتی سے صحابیہ تھیں اس دور کی مولوی نہیں جنھیں آج تک یہ ہی سمجھ نہیں آیا کہ امن کا درس یاد کہاں کرنا ہے 
پترو تم ابھی نہیں سمجھو گے کیونکہ ابھی تمھارے گھروں میں امن کا درس چل رہا ہے ڈرو اس وقت سے جب تم امن کا درس دو اور تمھارے گھر کی عزتوں کا جنازہ نکل جائے 
لیکن ٹھہرو 

ابھی نہیں 

کیونکہ 
ابھی تو شام میں امن کا درس چل رہا ہے جب وہاں امن کا درس ختم ہوگا تو پھر پاکستان اور افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں امن کا درس چلے گا بس تم اس وقت کا انتظار کرو کہ جب شام والے امن کا درس سوا تین لاکھ سے دس لاکھ لاشیں لے کر تمھاری دہلیز پر کھڑا ہوگا پھر تمھیں یہ بابا ضرور یاد آئے گا
پترو یاد رکھنا اس وقت کٹے اور پھٹے ہوئے جسموں سے ایک ہی آواز آئے گی کہ کاش ہم نے امن کے درس کا صحیح مطلب سمجھا ہوتا

شام کی سرحد پر

بولیں شام کی سرحد سے چند فرلانگ پر ھوں..آواز انتہائ ڈوبی ھوئ یہ عائشہ سید تھیں..کچھ دیر قبل یتیم بچوں کے کیمپ سے آئ تھیں...
بولیں میرے کچھ جذبات کو الفاظ کی زبان چاھیے افشاں بھن الفاظ گونگے ھیں یہاں آکر..
بچوں کی عمریں دوسے پانچ برس تھیں سینکڑوں پیارے سرخ سفید بچے یتیمی کے داغ پیشانیوں پر لگے تھے..بچوں نے جو ماں کی شفقت محسوس کی بے طرح چمٹ گیے.اک بچہ قدموں میں بیٹھ گیا..کچھ خود آکر گودوں میں بیٹھ گئے..سہمے ھوئے بچے جو کیمروں سے چھپ رھے تھے.آپ سوچئے اگر ان کے پاس بیان کی قدرت ھوتی تو کیا کیا بیان کرتے..مگر انکو کہنے کی ضرورت بھی کیا ھے ان کے آنسو سب کچھ کہ رھے ھیں..کاش ھم نے یہ سب یوں نہ دیکھا ھوتا کہ انکے غموں کے مداوے کو کیا ھے ھمارے پاس?? 
اللہ کی دنیا ھے اس کی مشیت ھے بس اک احساس ان کیمپوں کی حالت دیکھ کر رات رات بھر سونے نھیں دے رھا کہ رب خفا ھوگیا ھے..کیسے منائیں..کیا کریں??
جو دنیا چھوڑ گئے وہ اچھی جگہ چلے گئے..جو شدید زخمی ھیں انکی تصویر بھی اتارنے سے کیمرہ عاجز..
پاکستانی این جی اوز امہ کے جسم میں روح ڈالنے کی تگ ودو میں ھیں دوسرے ملکوں کے رضاکار بھی رات کے آرام سے بے نیاز چوبیس گھنٹے لگے ھوئے ھیں.
میری آنکھیں تاب نھیں لاسکیں ان نظاروں کی جب جگہ جگہ شامی کیمپوں پر پاکستانی جھنڈے نظر آئے.حکومتوں کی اپنی مصلحتیں مگر اھل پاکستان تو ایسے ھی تڑپ رھے ھیں جیسے جگر انکا چھلنی ھوا ھے جس جس سے ملی ھوں جس میڈیا سے ملاقات ھوئ ھے پاکستانیوں کے جذبات پہنچائے ھیں..
اک ماں ھوں .کتنی بے بس ھوتی ھیں ھم مائیں اولادوں کے دکھ میں مگر یہ ھزاروں بچے تو ساری زندگی محروم رھیں گے ٹھنڈی چھاؤں سے..
وہ گلابی گالوں اور سنہری بالوں والی بچی میرا ھاتھ چھوڑنے پر تیار نہ تھی.جی چاھتا تھا اور ھم سب کا اک ھی جی چاہ رھا تھا کہ ان کو بازؤں میں بھر لوں اور ان دکھوں کی دنیا سے دور کہیں لے جاؤں..مگر انکی ماں تو کہیں بھی نہ ملے گی انھیں..
رضا کار الخدمت کے ھوں یا دیگر تن من دھن اک کیے ھوئے ھیں..امہ زندہ ھے مگر حکمران لکڑی کے کندے ھیں شائد جو ایوان اقتدار میں چن دیے گئے ھیں..اردوان ھمیں بریف کررھے تھے انکے مومنانہ عزائم قرون اولی کی یاد تازہ کررھے تھے.
امہ یہاں تک کیسے ہہنچتی اگر صرف حکمران مخلص مل جاتے...

جمعرات، 1 مارچ، 2018

چکوال کے سرکاری اسکولوں میں داخلہ کا آغاز

چکوال
یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے سلسلہ میں چکوال میں داخلہ مہم کا آغاز کردیا گیا ھے۔جناب عبدالوحید رضا چیف ایگزیکیٹو آفیسر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کی ھدایات پر یو پی ای 2018 کے سلسلہ میں گورنمنٹ محمد علی ایلیمنٹری سکول چکوال سے جناب عتیق الرحمن اسحاق ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر چکوال نے تحصیل چکوال میں یکم مارچ 2018 سے گورنمنٹ سکولوں میں داخلہ مہم کا آغاز کردیا ھے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ھوئے عتیق الرحمن اسحاق ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ایجوکیشن چکوال نے کہا کہ ضلع چکوال شرح خواندگی کے لحاظ سے بہت بہتر پوزیشن میں ھے۔موجودہ چیف ایگزیکٹیو آفیسرایجوکیشن چکوال جناب عبدالوحید رضا کی ھدایات کی روشنی میں انشاءاللہ سو فیصد داخلوں کا ھدف حاصل کرلیا جائے گا۔چکوال کے سرکاری سکول ھر لحاظ سے معیاری تعلیمی ادارے ھیں۔ طلباء کو گورنمنٹ مفت کتب فراھم کررھی ھے۔ھر سال اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کا تقرر عمل میں لایا جارھا ھے۔ حال ھی میں اساتذہ کی بھرتی کا عمل جاری ھے اور پالیسی کے مطابق کم از کم ماسٹرز لیول کے اساتذہ کا تقرر کیا جا رھا ھے۔جس سے یقینا کوالٹی آف ایجوکیشن میں مزید بہتری آئے گی۔
سرکاری سکولوں میں تمام سہولیات کی فراھمی یقینی بنا دی گئ ھے۔موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر سکولوں کی سیکورٹی فول پروف بنا دی گئ ھے۔انہوں نے عوام الناس کو پیغام دیا ھے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرائیں۔کیونکہ حکومت پنجاب تعلیم کے معاملے میں بہت زیادہ سنجیدہ اقدامات کررھی ھے۔مفت اور معیاری تعلیم اور سو فیصد شرح خواندگی کا حصول حکومت پنجاب کا ھدف ھے۔

غوطہ. شام. کچھ معلومات

*چھوٹا کالم*

*یا الہیٰ:اب تیرا ہی آسرا ہے*

"غوطہ" دنیا کی چار جنتوں میں سے ایک،آخر زمانے میں ہونے والی عظیم ترین جنگ کے دوران مسلمانوں کا مرکز اور آخرت میں *محشر والی زمین کا حصہ بتایا جاتا تھا۔* آج وہاں آتش و آہن کی شکل میں گویا جہنم کے دہانے کھل گئے ہیں اور غضب یہ ھے کہ ہسپتالوں پر بھی بمباری ھو رھی ھے اور ھلال احمر کے امدادی کارکنوں کو بھی اندر جانے نہیں دیا جا رھا۔ انسانیت سے عاری شامی حکومت اپنے دارالحکومت کے قریب مسلمانوں کی آبادی والے اس چھوٹے سے خطے کو کسی صورت برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ گزشتہ سالوں میں اس منطقے کی آبادی کو محصور کر لیا گیا تھا اور *وہ ایک زندہ جیل کے قیدی تھے۔* اب ترکی حکومت عفرین کے یرغمال عوام کو چھڑالے تو اس کا پاگل پن،ورنہ کسی کو بچ کر جانے نہیں دینا۔

غوطہ کے محصورین پر موت کی برسات اس واسطے کی جا رہی ہے کہ *شام سے مسلمانوں کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے۔*
بہت اندر واقع ہونے کی وجہ سے ترکی پہنچ نہیں سکتا اور کسی اور نے آنا نہیں ہے ، *کسی کو اپنی تیسری نااہلی کا رونا ہے اور کسی کو اپنی تیسری اہلیت کی فکر'*
 لہٰذا جنونی شامی حکمران جو اپنے خاص مذہبی و ذہنی پس منظر میں مسلمانوں کا جان و مال حلال سمجھتے ہیں ، *خونخواری کی آخری حدود عبور کرچکے ہیں۔*
انہیں ہر حال میں اپنے ملک کے باقی ماندہ حصے مسلمانوں سے خالی کروانے ہیں تاکہ دنیا کے اس خوبصورت تاریخی مسلم ملک کو کاٹ کاٹ کر "تن کی اجلی, من کی کالی" طاقتوں کو پیش کیا جائے جن کی ہوس کی تسکین کے لیے *آج کل خون مسلم سے زیادہ مرغوب کوئی چیز نہیں۔*
ہر طرف اندھیرہے اندھیر ۔ مغربی دنیا کی آنکھ سے شرم اور دل سے رحم نکل گیا ہے۔ اللّٰه رب العزت کے علاوہ کوئی آسرا ہی نہیں،اور *اللہ رب العزت کو راضی کرنے کے لئے کچھ زیادہ نہیں، آنسووں سے تر صرف ایک سجدہ کافی ھے۔* تمام امتی اس طرح کے ایک سجدے کے بعد مانگ لیں:اےکمزوروں کے رب!ہمیں اصلاح کی توفیق کے ساتھ غیب سے کوئی مددگار، نجات دہندہ بھیج دے۔(آمین)

تحریر: مفتی ابولبابہ شاہ منصور

آمین کہ کر آگے بھیجنا مت بھولیں

دو سسر دو داماد

*رسول اللہ ص کے ایک امتی نے توفیق مالک سے کمال کر دکھایا ،*

*بھلا کیا۔۔۔۔؟؟؟*

*کہ چاروں خلفاء راشدین*

*حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ*
*حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ*
*حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ*
*حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ*

*کی سیرت پر ماشآءاللہ 270*
*صفحات پر مشتمل غیر منقوط کتاب لکھ ڈالی ۔*

*کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟*

 *مطلب ، اسکی خاصیت یہ ھے کہ پوری کتاب میں کوئی ایک بھی حرف یا لفظ نقطے والا نھیں ھے ،*

*یعنی پوری کتاب میں کوئی ایک بھی نقطہ نھیں ھے* ،

*کتاب کا نام ھے* 

*دو سسر دو داماد* 

*کیا مطلب۔۔۔؟؟؟*

*مطلب ، یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سسر تھے*
*اور*
*حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ یہ دونوں داماد تھے ۔*

*اسلئے کتاب کا نام رکھا*
*دو سسر دو داماد*

*شاید جناب نے پھلے کبھی ایسی کتاب نہ دیکھی ھو ۔*

*پیش خدمت ھے مطالعہ کیجئے* 

*تحفے کا مزہ آئے تو اپنے تمام جاننے والے حضرات کی خدمت میں پیش کیجئے گا جی ۔۔۔*

*اللہ تعالی آپکو جزائے خیر عطا فرمائے آمین ۔۔۔*

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حسنین عليه السلام کو مولائے کائنات کی نصیحت

🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵
مولاِکائنات امیرالمومنین اِمامِ علیؑ اِبْنِ اٙبی طالب عٙلٙیْہِ السّٙلام نے مولا اِمامِ حسن عٙلٙیْہِ السّٙلام سے فرمایا:
وٙقٙالٙ عٙلٙیْہِ السّٙلامُ ! یٙابُنٙیّٙ، اِیّٙاکٙ وٙمُصٙادٙقٙةٙالْاٙحْمٙقِ فٙاِنّٙہُ یُریْدُاٙنْ یّٙنْفٙعٙکٙ قٙیٙضُرُّکٙ،وٙاِیّٙاکٙ وٙمُصٙادٙقٙةٙ الْبٙخِیْلِ فٙاِنّٙہُ یٙبْعُدُعٙنْکٙ اٙحْوٙجٙ مٙاتٙکُوْنُ اِلٙیْہِ،وٙاِیّٙاکٙ وٙمُصٙادٙقٙةٙالْفٙاجِرِفٙاِنّٙہُ یٙبِیْعُکٙ بِالتّٙافِہِ،وٙاِیّٙاکٙ وٙمُصٙادٙقٙةٙالْکٙذّٙابِ فٙاِنّٙہُ کٙالسّٙرٙابِ:یُقٙرِّبُ عٙلٙیْکٙ الْبٙعِیْدٙ،وٙیُبٙعِّدُعٙلٙیْکٙ الْقٙرِیْبٙ۔
اے فرزند ! بیوقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گاتو نقصان پہنچائے گا۔اوربخیل سے دوستی نہ کرناکیونکہ جب تمہیں اس کی مدد کی انتہائی احتیاج ہو گی وہ تم سے دُور بھاگے گااور بدکردار سے دوستی نہ کرناورنہ وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی نہ کرناوہ سراب کے مانندتمہارے لیے دُور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دُورکرکے دکھائے گا۔
نہج البٙلاغہ خُطبہ نمبر(38)
. . . . . . . . . . . . . اِلتماسِ دُرود۔
🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵🏵

دینی مدارس کی امداد

( احباب لازمی ملاحظہ فرمائیں)
مدارس کی سرکاری امداد پہ دوست کہ تبصرہ کا مثبت جواب۔۔۔۔۔۔۔
منافقت اور طالبانایزیشن کا لائسنس دینے والے دوست سے عرض ہے کہ آپ کی لبرل ازم کی فیکٹریوں سے نکلنے والے گند نے ہی دنیا کو اس دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔۔مغربی آقاؤں کو خوش کرنےکے لئےہماری تعلیم سے مذہب اور اخلاقیات کو مکھی کی طرح نکال کہ نام نہاد modernism اور انگریزی تعلیم کو پروان چڑھایا اور پھر ہم قرآن سے نکل کر دوسری اقوام کے ذہنی غلام بن کر frustration کاشکار ہوتے گۓ۔۔۔۔ اور قرآن کی تعلیم کو مدارس تک محدود کر کہ ملائیت کو فروغ دیا۔۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ایک امام اور مٶذن کی سرکاری تنخواہ 3 ہزار اور یونیورسٹی کے پروفیسر کی تنخواہ 3 لاکھ ہے۔پھر ہم اپنے ہی کمزور بچوں کو مدارس میں بھیجتے رہے جہاں بدقسمتی سے ریاستی سرپرستی کی بجاۓ ہر ملا کی اپنی سوچ پروان چڑھتی رہی۔۔اور پھر انھی بچوں کو ہم نے جہاد کے نام پہ افغان جنگ میں جھونک کر ظلم کے پہاڑ گراۓ۔۔۔پھر جب دل بھر گیا تو ہم نے ان پہ بموں سے بوچھاڑ کر کہ انکی نسلوں کو دہشتی گردی کا لیبل لگا کہ چھوڑ دیا۔۔اور آج ہم ٹائم پاس کرنے کیلئے انھیں بچوں کو دہشت گرد کا لیبل لگا کہ چسکے بھی لیتے ہیں اور مداوا بھی نہیں کرتے۔۔۔خدارا یہ قوم کے بچے ہیں انھیں آج بھی وہی اوقات دے دی جاۓ جو ایچی سن اور GC کے فارغ التحصیل طلبا کی ہے تو یہ قوم دہشتی گردی سے بچ جاۓ گی۔۔۔عمران خان مدارس کو سنبھالنے اور انکے بچوں کو ملک و قوم کے فرزندان سمجھنے پہ آپکو تہه دل سے سلام پیش کرتا ہوں۔۔تمام مکاتب فکر کے مدارس اور انکے بچوں کو وہی حق حاصل ہے جو اس ملک کے نام نہاد ارسطووں اور افلاطونوں کو ہے۔۔۔

چاٹ کی اقسام

ایک دہی بھلے , چھولے چاٹ کی دکان پر چاٹ کی اقسام بمعہ قیمت , فہرست آویزاں تھی جس پر لکھا تھا .

1. سادہ چاٹ .... 20 روپے
2. اسپیشل چاٹ ... 22 روپے 
3. ایکسٹرا اسپیشل چاٹ ... 24 روپے 
4. ڈبل ایکسٹرا اسپیشل چاٹ ... 25 روپے
5. سنڈے اسپیشل چاٹ ... 30 روپے 

میں نے سوچا روز آنہ یہ مختلف قسم کی چاٹ کا زائقہ چکھنا چاہیۓ .

تین , چار دن میں احساس ہوا کہ زائقہ تو ایک ہی ہے کوئ فرق نہیں ہے . 

دکاندار سے پوچھا کہ بھائ یہ کیا ماجرا ہے تو وہ بولا کہ 

سادہ چاٹ ایسے ہی پلیٹ میں دے دی جاتی ہے .
اسپیشل چاٹ ,, چمچہ دھو کے دی جاتی ہے .
ایکسٹرا اسپیشل چاٹ ,, چمچہ اور پلیٹ دھو کے دی جاتی ہے .
ڈبل ایکسٹرا اسپیشل چاٹ ,, ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ میں اپنے ہاتھ بھی دھو کے دیتا ہوں .

میں نے پوچھا بھائ یہ سنڈے اسپیشل چاٹ میں کیا ہوتا ہے تو وہ بولا سنڈے یعنی اتوار کو میں خود نہا کر آتا ہوں .

ایجوکیٹرز مطالبات

تمام ایجوکیٹرز کو تاریخ تقرری سے مستقل کی جاۓ اور خواتین اساتذہ کو فوری گرلز سکولوں میں اور مرد اساتذہ کو مردانہ سکولوں میں شفٹ کیا جاۓ پنجاب ایجوکیٹرز ایسوسی ایشن میاں چنوں خانیوال کا اجلاس ضلعی صدر چودھری نثار احمد کمبوہ ایڈوکیٹ کی زیر صدارت ہوا,اجلاس میں چیئرمین ضلع خانیوال سید اسرار حسین گردیزی, میڈیاسیکریٹری ضلع خانیوال راناظفر اقبال خان,ڈویژنل آرگنائزر و صدر کبیر والہ ہارون خاں پنیاں صاحب,چیئرمین میاں چنوں یاسرمحمود صاحب,نائب صدر پنجاب ایجوکیٹرز ایسوسی ایشن میاں چنوں چودھری ریاض احمد آرائیں,مہر خضر امین لک ایڈوکیٹ صدر مرکز میاں چنوں, چودھری اختر صابر کمبوہ میڈیا سیکریٹری میاں چنوں, نصراللہ طور ایڈیشنل میڈیا سیکریٹری,ملک غضنفر علی فنانس سیکریٹری میاں چنوں,شبیر حسین رضا,اویس مغل,محمد الیاس حیدر مغل,شکیل عروجی اور قیصر ندیم عظمت صدر پنجاب ایجوکیٹرز ایسوسی ایشن میاں چنوں و دیگر اساتذہ کرام نے شرکت کی.اجلاس میں درج ذیل فوری حل طلب مسائل زیر بحث آۓ . ضلع خانیوال میں نئی بھرتی سے پہلے 2002 تا حال بھرتیوں کے مطابق 50% محکمانہ پروموشن دینے کا مطالبہ کیا گیا . نئی بھرتی سے پہلے فی میل اساتذہ کو مردانہ سکولوں سے گرلز سکولوں اور مرد اساتذہ کو گرلز ضم کیۓ گۓ سکولوں سے مردانہ سکولوں میں شفٹ کرنے کا مطالبہ اور 2000 تا حال بھرتی ہونے والے اساتذہ کو تاریخ تقرری سے فوری مستقل کرنے ,آئندہ بھرتی مستقل بنیادوں پر کرنے اور ٹیچر سن کوٹہ رکھنے کا فیصلہ ہوا .ریٹائرمنٹ سے کم از کم چھ ماہ پہلے ریٹائرمنٹ کاعمل مکمل کرکے ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی گریجوایٹی و پینشن شروع کر نے کا مطالبہ کیا گیا اور دوران سروس موت کی صورت میں لواحقین کو فوری واجبات ادا کیۓ جائیں تا کہ . گروپ انشورنس کی مد میں جمع کی گئ رقم بیس یا پچیس سال کے بعد دینے کا مطالبہ کیا اور دیگر اساتذہ کے مسائل رخصت,بے جا چیکنگ,طلباء کا فیل پاس کا نظام بحال کرنے,طلباء کی تعداد کیمطابق اساتذہ کی تعداد پوری کرنے کا مطالبہ کیا

کرامات اور روحانیت سے متعلق سوالات و جوابات

وہابیوں کے سوالات کے منہ توڑ جوابات۔

1۔کسی ولی کے تھوکنے سے کھوہ میٹھا نہیں ہوتا


جواب۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن میں شہد کی مکھی کو الہام کیا تین حکم کیئے

1۔پہاڑوں میں گھر بنا اور چھتوں میں 

2۔ہر قسم کے پھل میں سے کھا


3۔اور اپنے رب کی راہیں چل


شہد کی مکھی کو یہ تین حکم اللّٰہ تعالیٰ نے کیے اور اس نے پورے کیے تو اس کا زکر قرآن میں پوری سورت نحل اتار دی گئی پھر اس کا اجر شہد کی مکھی کو یہ ملتا ہے کہ جب وہ الٹی کرتی ہے تو اس کا شہد بنتا ہے جو لوگوں کے لیے شفا ہے یہ قرآن کا فرمان ہے


اب تین حکم شہد کی مکھی پہ اتریں وہ تین حکم پورے کرئے تو اس کی الٹی میں شفا ہے

اللّٰہ تعالیٰ کہ لاکھوں حکم بندے پہ اتریں وہ لاکھوں حکم پورے کریں پھر بابا فرید کنویں میں تھوک دیں کنواں میٹھا کیوں نہ ہو


2۔اعتراض۔
مردے نہیں سنتے 


حدیث پاک میں آتا ہے جب تم قبروں کو جاو تو اسلام کرو مُردے جواب دیتے ہیں وہ ہمارا سلام سنتے ہیں تو جواب دیتے ہیں اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں سنتے تو پھر حدیث غلط ہوگی نعوذبااللّٰہ

وہ سنتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں یہ حدیث سے ثابت ہے
تو پھر ہم ان کا جواب نہیں سنتے کہنا تو یہ چاہیے کہ مُردے سنتے ہیں ہم نہیں سنتے اگر روحانیت باکمال ہو تو وہ ضرور سنتا ہے اصل فرق مادیت اور روحانیت کا ہے روحانیت کے ذریعے بزرگ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں مادیت کے زریعے مادہ پرست لوگ دیکھتے ہیں سنتے ہیں جیسے فون کے زریعے ہزاروں میل دور شخص سن بھی سکتا ہے اور دیکھ بھی سکتا ہے لیکن وہ مادیت کا کمال ہے روحانیت کا نہیں 

روحانیت کا کمال یہ تھا کہ جب کوی چیز زریعہ نہیں تھی مثلاٙٙ اب نلکے موٹر ٹیول کے زریعے پانی نکالا جاتا ہے زمین سے یہ مادیت کا کمال ہے 

لیکن

جب ایڑیاں رگڑنے سے پانی نکلے یہ روحانیت کا کمال ہے جب لوگ قحط پڑھ جاتا تھا لوگ انبیاّء اکرام کے پاس آکر پانی مانگتے تھے 

ہمیشہ مادیت اور روحانیت کا فرق رکھے کہ مادہ پرست مادیت کے زریعے کمالات دکھاتا ہے اور روحانیت والا روحانیت سے کمال دکھاتا ہے 


اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو دماغ دیا ہے چاہے کافر ہے چاہے مسلم ان کو اختیار دیا کہ راستے دو ہیں ایک شیطان کا ایک رحمن کا اب کس کے پیچھے چلنا ہے یہ تجھ کو اختیار دیا ہے 

اس لیے حدیث پاک ہے دنیا کافر کے لیے جنت ہے مومن کے لیے قید خانہ 

جب دنیا کا سازوسامان دنیا کی ترقی دیکھ کر اگر روحانیت کو بھول گیا تو پھر اس کا راستہ شیطان والا ہو گیا اگر یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی اس جہان پہ توجہ نہ دے تو روحانیت پہ یقین رکھنے والا ہے بتاو کیا وجہ ہے جو چیز 1400 سال بعد وجود میں آتی ہے نبی پاک چودہ سو سال قبل اس حقیقت کو بیان کر دیں تو کیا وہ بنا نہیں سکتے تھے 


ہمیشہ اللّٰہ تعالیٰ مجاز سے حقیقت کی طرف لے کر جاتا ہے دنیا میں ہزاروں میل دور بیٹھ کر اگر آپ کسی کی آواز کسی کو دیکھ سکتے ہو تو یہ مادیت کا کمال ہے 
اگر غوث پاک ساری کائنات کو ہتھیلی پہ دیکھتے ہیں تو یہ روحانیت کا کمال ہے افسوس ہے کہ مجاز کو تسلیم کرنا اور حقیقت سے دور رہنا یہ اندھے ہیں بہرے ہیں گھونگے ہیں جن کو نظر ہی نہیں آتا مادیت اور روحانیت کا فرق مادہ پرست انسان مادیت سے محبت کرتا ہے اس لیے وہ اس کو دوسرا جہان اور روحانیت کے کمال نظر نہیں آتے اور جو روحانیت والا ہوتا ہے اس کے یہ جہان کے سازو سامان ترقی کچھ نظر نہیں آتا اس کے سامنے سونا اور مٹی برابر ہوتا ہے اس وجہ سے وہ خالق پہ ہی نظر رکھتا ہے یہی وجہ ہے حضرت خالد بن ولید بغیر ایٹم بمب کے ساری جنگیں فتح کرتے ہیں ایک ایک صحابی ہزاروں ہزاروں لشکر سے اکیلا لڑ جاتا تھا حضرت علیؓ میں جو طاقت تھی وہ روحانی تھی وہ کسی مادیت پہ اعتبار نہیں کرتے تھے اس وجہ سے وہ ہمیشہ کامیاب رہے ان کی روحانیت باکمال تھی


اللّٰہ تعالی شہید کو مردہ نہیں کہنے دیتا وہ اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں رزق لے رہے ہیں ۔القرآن۔
کیونکہ شہید اپنی جان قربان کرتا ہے دین پر 

لیکن اللّٰہ فرماتا ہے قیامت والے دن علماء حقانی علماء ربانی کے قلم کی سیاہی کے ساتھ شُھدا کا خون تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی بڑھ جائے گی
یعنی علماء کی فضیلت زیادہ ہوگی کیونکہ علماء نے جہاد اکبر کیا


بیشک سب سے بڑا جہاد جابر سلطان کو کلمہ حق کہنا ہے ۔الحدیث۔


افسوس ہے شہید کی فضیلت اور مقام کو ماننا اور علماء کی فضیلت اور مقام کو نہ ماننا کہنا چاہیے تھا کہ بیشک جیسے شھدا قبروں میں جی رہے ہیں رزق لے رہے ہیں اس طرح علماء حقانی علماء ربانی کا مقام اور فضیلت اور ان کا جہادِ اکبر کو مدِ نظر رکھ کہتا یہ بھی قبروں میں زندہ ہیں اور رزق لے رہے ہیں لیکن یہ کہنا کہ مردے سنتے نہیں سب بے خبر ہیں چاہے کوی کامل ہے سب برابر ہیں افسوس ہے اس جہان میں ہی سب برابر نہیں ہیں جیسے کوی کم سنتا ہے کوی زیادہ کوی مدھم سنتا ہے کوی بالکل ہی نہیں سنتا جیسے گھونگا اور کوی دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے کوی دور سے دیکھ سکتا ہے کوی نزدیک سے دیکھنا اور سننا یہ اس مجازی جہان میں ایک جیسا نہیں تو حقیقت کے جہاں میں ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے شہید زندہ ہیں مردے جواب دیتے ہیں یہ ماننا لیکن جب انبیاء اکرام اور اولیاء اکرام علماء کی بات آئے تو وہ نہیں سنتے نعوذباللّٰہ یہ کیسی سمجھ اور عقل ہے


ہمیشہ مقام اور فضیلت اس جہان میں بھی اس کا ہے جو مالک کا پٹا گلے میں ڈالتا ہے فیکٹریوں کارخانوں میں اس کا مقام اور عزت ہوتی ہے جو مالک کی ہر بات مانتا ہو 


ہم نے دیکھا ہے ایک کتا صوفے پہ بیٹھ کر کھاتا ہے دودھ پیتا ہے اس کی دیکھ بھال بہت کی جاتی ہے یہ کیوں

دوسری طرف

ایک مرغی ہے جو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پہ سار دن منہ مارتی ہے اس کی اتنی دیکھ بھال کیوں نہیں 

کتا حرام ہو کر اتنی عزت پا رہا ہے اور مرغی حلال ہوکر اتنی زلیل ہو رہی ہے آخر وجہ کیا ہے 
بزرگ فرماتے ہیں


یہ اس وجہ ہے کہ کتے نے مالک کا پٹا گلے میں ڈالا ہے اور مرغی پٹے سے خالی ہے اس وجہ سے وہ حرام اتنی عزت پا رہے ہیں اور یہ حلال اتنی زلیل ہے

تو یہ سمجھو کہ جس نے شریعت کا پٹا گلے میں ڈال لیا وہ عزت و مقام فضیلت والا ہے
دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی علماء اور اولیاء یہ شریعت کے پٹے کو گلے میں ڈالتے ہیں اس وجہ سے وہ فضیلت مقام میں ہم سے اونچے ہیں اور وہ کچھ جانتے ہیں جو میں اور آپ نہیں جانتے یہ کہنا بیوقوفی اور جہالت ہے کہ سب برابر ہیں ہر کوی برابر اس جہان میں نہیں ہوسکتا وہاں کیسے ہو سکتا جو حققیقی جہان ہے 

اس جہان میں جو گھونگا ہے وہ نہیں سنتا تو پھر زندہ اور مردہ کی بات کہاں گی گھونگا زندہ ہے لیکن سنتا نہیں لیکن یہی گھونگا اگر روحانیت میں باکمال قبروں میں جا کر وہ ہمارے اسلام کا جواب دے گا کیونکہ نبی پاک نے فرمایا مردے سنتے ہیں تو پھر وہی گھونگا شخص دنیا میں نہیں سنتا قبر میں جا کر سنتا ہے اور جواب دیتا ہے پھر زندہ مردہ کی بات کہاں گی ،


اللّٰہ پاک سب مسلمانوں کو ہدایت دے 

دعاگو۔دلشاد احمد چشتی

ملک شام کے حالات

👈 مُلکِ شام کے حالات
👈 امام مہدی كا ظہور 
اور 
👈نبی صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَسَلَّم كی پیشن گوئیاں .!

اللّٰه کے رَسُول صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے قیامت کے نشانات بتلاتے ہوئے فرمایا کہ :
" اُونٹوں اور بَکریوں کے چَروَاہے جو بَرہَنَہ بَدَن اور ننگے پاؤں ہونگے وه ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے لمبی لمبی عمارتیں بنوائیں گے اور فخر کریں گے ... "
(صحیح مسلم 8)

ریاض شہر میں عمارتوں کا یہ مقابلہ آج اپنے عُروج پر پہنچ گیا،
 دبئی میں ’’برج خلیفہ‘‘ کی عمارت دنیا کی سب سے اُونچی عمارت بن گئی تو ساتھ ہی شہزاده ولید بن طلال نے جَدَّه میں اس سے بھی بڑی عمارت بنانے کا اعلان کر دیا ہے جو دھڑا دھڑ بنتی چلی جا رہی ہے، 
عرب کی عمارتیں سارے جہان سے اونچی ہو چکی ہیں ...!

عرض کرنے کا مقصد صرف یہ کہ
میرے پیارے رسول حضرت مُحمَّد صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے جو فرمایا وه پُورا ہو چکا ہے
اور پیشگوئی پُوری ہو کر اپنے نُکتۂ کمال کو پہنچ چکی ہے ...!

عرب کا سب سے زیاده تیل خریداری کرنے والے امریکہ نے صَدَّام کو ختم کر کے تیل کی دولت سے سَیراب مُلک عِرَاق کے کنوؤں پر قبضہ جما لیا ہے
اور لاکھوں بیرل مُفت وصول کر رہا ہے
تو پھر تیل کی گِرتی مانگ نے تیل کی قیمتوں کو نچلی سطح پر پہنچا دیا
جس سے عرب ممالک کا سُنہرا دَور خاتمے کے قریب ہے ...!

■ سوال پیدا ہوتا ہے اس زوال کے بعد کیا ہے ...؟

اللّٰه کے رَسُول صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم کی ایک اور حدیث ہے کہ :
" قیامت سے پہلے سَرزَمینِ عرب دوباره سَرسَبز ہو جائیگی"
(صحیح مسلم)

سعودی عرب اور امارات میں بارشیں شروع ہو چکی ہیں،
مَکَّہ اور جَدَّه میں سَیلاب آ چکے ہیں۔ 

عرب سرزمین جسے پہلے ہی جدید ٹیکنالوجی کو کام میں لا کر سرسبز بنانے کی کوشش کی گئی ہے 
وه قدرتی موسم کی وجہ سے بھی سرسبز بننے جا رہی ہے۔
سعودی عرب گندم میں پہلے ہی خودکفیل ہو چکا ہے،
اب وہاں خشک پہاڑوں پر بارشوں کی وجہ سے سبزه اُگنا شروع ہو چکا ہے،
 پہاڑ سرسبز ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
بارشوں کی وجہ سے آخرکار حکومت کو ڈیم بنانا ہوں گے
جس سے پانی کی نہریں نکلیں گی،
 ہریالی ہو گی،
 سبزه مزید ہو گا،
 فصلیں لہلہائیں گی،
 یُوں یہ پیشگوئی بھی اپنے تکمیلی مَرَاحِل سے گزرنے جا رہی ہے
 اور جو میرے حضور صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے فرمایا اسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے جا رہے ہیں ...!

اگر احادیث پر غور کریں تو مَشرقِ وُسطیٰ کے زوال کا آغاز مُلکِ شام سے شروع ہوا لیکن شاید عرب حُکمران یا تو یہود و نصاریٰ کی چال سمجھ نہ سکے
یا بے رخی اختیار کی لیکن وجہ جو بھی ہو یا نہ ہو،
سرکار صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَسَلَّم کی بتائی ہوئی علامات کو تو ظاہر ہونا ہی تھا
حدیث کے مطابق ...!

چُنانچہ
حدیث پاک میں ارشاد ہے 
ﺭﺳﻮﻝ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
" ﺟﺐ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﻭ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ "
(ﺳﻨﻦ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ 2192: ﺑﺎﺏ ﻣﺎﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﻟﺸﺎﻡ، ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺢ)

میرے محترم و مکرم قارئین کرام یاد ﺭﮐﮭﯿﮟ ...! 
ﺍَﺣﺎﺩﯾﺚِ ﻣُﺒَﺎﺭﮐﮧ ﮐﯽ ﺭُﻭ ﺳﮯ ﺷﺎﻡ ﻭ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﺍُﻣَّﺖِ ﻣُﺴﻠﻤﮧ ﮐﺎ ﻣُﺴﺘﻘﺒﻞ ﻭَﺍﺑﺴﺘﮧ ﮨﮯ،
ﺍﮔﺮ مُلکِ شام ایسے ہی ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮتے رہا ﺗﻮ
ﭘُﻮﺭﯼ ﺍُﻣَّﺖِ ﻣُﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ،
ویسے تو 90 فیصد برباد ہو چکا .........!

اب جبکہ پانچ سالہ خُونریزی میں 8 لاکھ بےگناه بَچّے، بُوڑھے، عَورتیں شہید اور لاتعداد دُوسرے مُلک کی سرحدوں پر زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں اور اتنے ہی تعداد میں زخمی یا معذور ہو چکے،
لہٰذا شام مُکمَّل تباہی کے بعد اب نزع کی حالت میں ہے ...!

اس حدیث کے حساب سے عرب ممالک کے سُنہرے دَور کے خاتمہ کی اہم وجہ مُلکِ شام کے مَوجُودَہ حالات ہيں،
گویا نبی صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَسَلَّم کی ایک اور پیشگوئی کی عَلامَت ظاہر ہو رہی ہے یا ہوچکی ........!

یاد رکھیں ...! 
کہ مُلکِ شام کے مُتعلّق اِسرائیل، رُوس و امریکہ جو بھی جھوٹے بہانے بنائے،
لیکن ان سب کا اَصل ہَدَف جَزیرَة ُالعَرَب ہے
 کیونکہ
کُفَّار کا عقیدہ ہے کہ
 دَجَّال مَسِیحَا ہے
اس وجہ سے یہ لوگ دَجَّال کے اِنتظامات مُکمَّل کر رہے ہیں 
جس کے لیے عرب ممالک میں عَدمِ اِستحکام پیدا کرنا ہے
کیونکہ
مُلکِ شام پر یہود و نصاریٰ قبضہ کرنا چاہتے ہیں
 اور یہ ہو کر رہیگا 
حضرت مہدی عَلیهِ السَّلام کے ظہور سے قبل .....!

چُنانچہ کتابِ فِتَن میں ہے کہ :
" آخری زمانے میں جب مُسلمان ہر طرف سے مَغلوب ہوجائیں گے،
 مُسلسل جَنگیں ہوں گی،
 شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہو جائے گی،
عُلماء کرام سے سُنا ہےکہ
 سَعُودیہ، مِصر، ترکی بهى باقى نہ رہیگا
ہر جگہ کُفَّار کے مظالم بڑھ جائیں گے،
اُمَّت آپسی خَانہ جَنگی کا شِکار رہےگی.
عرب (خلیجی ممالک سعودی عرب وغیره) میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہےگی،
 خَیبَر/ الخبر (سعودی عرب کا چھوٹا شہر مَدینةُ المُنَوَّره سے 170 ک م كے فاصلے پر ہے) کے قریب تک یہود و نصاریٰ پہنچ جائیں گے، 
اور اس جگہ تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی، بچے کھچے مسلمان مَدِینة ُالمُنَوَّرَه پہنچ جائیں گے، 
اس وقت حضرت امام مہدی عَليهِ السَّلام مدینہ منوره میں ہوں گے "

دُوسری طرف دریائے طبریہ بھی تیزی سے خُشک ہو رہا ہے جو کہ مہدی عَلیہِ السَّلام کے ظہور سے قبل خُشک ہوگا ...!

اسلئے جب مَشرقِ وُسطیٰ کے حالات کو خُصُوصاً مُسَلمانوں اور ساری دُنیا کے حالات کو دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ دُنیا ہولناکیوں کی جانب بڑھ رہی ہے،
 فرانس میں حَملوں کے بعد فرانس اور پوپ بھی عالمی جنگ کی بات کر چکے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے كه
 اس عالمی جنگ کا مرکز کون سا خطہ ہو گا ...؟ 
وَاضِح نظر آ رہا ہے، مَشرقِ وُسطیٰ ہی مُتَوَقّع ہے ....!

یہاں بھی ہند و پاک کی رَنجِشیں اور کشمکش کے بڑھتے حالات سے بھی لگتا ہے کہ
غَزوه ہند کی طرف رُخ کر رہے ہیں 
کیونکہ حضرت ابو ہریره رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنه سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللّٰه
 صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا :
" میری قوم کا ایک لشکر وَقتِ آخِر کے نزدیک ہند پر چَڑھائی کرے گا
اور اللّٰه اس لشکر کو فتح نصیب کرے گا،
یہاں تک کہ وه ہند کے حُکمرانوں کو بیڑیوں میں جَکڑ کر لائیں گے۔
اللّٰه اس لشکر کے تمام گناہ معاف کر دے گا۔
پھر وه لشکر وَاپس رُخ کرے گا
اور شام میں موجود عیسیٰ ابنِ مَریم عَليهِ السَّلام کے ساتھ جا کر مِل جائے گا "

حضرت ابوہریره رَضِىَ اللّٰه تعالىٰ عَنه نے فرمایا :
" اگر میں اُس وقت تک زندہ رہا تو میں اپنا سب کچھ بیچ کر بھی اُس لشکر کا حِصَّہ بَنُوں گا،
 اور پھر جب اللّٰه ہمیں فتح نصیب کرے گا تو میں ابوہریره (جہنم کی آگ سے) آزاد کہلاؤں گا۔ پھر جب میں شام پہنچوں گا
تو عیسیٰ ابنِ مَریم عَليهِ السَّلام کو تلاش کر کے انہیں بتاؤں گا کہ
 میں مُحَمَّد صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم كا ساتھی رہا ہوں "

رسول پاک صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے تَبَسُّم فرمایا اور کہا : 
"بہت مشکل،
بہت مشکل"
(کتاب الفتن۔ صفحہ ۴۰۹)

(واللہ تعالٰی اعلم)

آنے والے اَدوَار بڑے پُرفِتن نظر آتے ہیں اور اس کے مُتعلّق بھی سَرکار صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے فرمایا تھا کہ میری اُمَّت پر ایک دَور ایسے آئیگا
جس میں فِتنے ایسے تیزی سے آئیں گے 
جیسے تسبیح ٹوٹ جانے سے تسبیح کے دانے تیزی سے زمین کی طرف آتے ہیں،
 لہٰذا اپنی نَسلوں کی ابھی سے تربیت اور ایمان کی فِکر فرمایئے،
موبائل كے بےجا استعمال سے،
 دیر رات تک جاگنے، فیشن اور یہودی انداز اپنانے سے،
نمازوں کو تَرک کرنے سے روكئے ... 
ورنہ آزمائش کا مقابلہ دُشوار ہو گا .....!

دوستوں چلتے، چلتے ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے
 اگر کوئی ایسی نایاب ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیره اچھی لگے، 
تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے،
یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا
لیکن
ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کرده تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ....!   
جزاک اللہ خیرا کثیرا ...
✴✳*⃣🔵🔴