ابھی ایک جگہ نکاح مسیار اور متعہ کے حوالے سے تقابلی مضمون پڑھا ۔مجھے افسوس ہوا کہ پڑھے لکھے لوگ اور پڑھنے لکھنے والے لوگ بھی دانستہ امانت و دیانت کو تیاگ دیتے ہیں ۔۔
شریعت اسلامیہ نے معاشرے کو فساد سے بچانے کے لیے نکاح کا ادارہ قائم کیا اس کے کچھ اصول و ضوابط طے کر دیے ۔
نکاح کی بنیادی شرائط میں
(۱) فریقین کا ایجاب و قبول
(۲) لڑکی کے ولی کی رضامندی
(۳) کم از کم دو مرد گواہان کی موجودگی اور
(۴) مہر کا تعین ہے
یہ بنیادی شرائط ہے اس کے بعد جزئیات میں چلے جاتے ہیں تو مزید تفصیل ملتی ہے ۔اور میں نکاح کی بعض الگ صورتیں بھی سامنے آتی ہے ۔۔ان میں متعہ اور مسیار ہیں جن کو غلط فہمی سے بعض لوگ ایک ہی سمجھ لیتے ہیں ، جبکہ بعض گروہ اپنی "مسلکی ضروریات" کے تحت دونوں کو ایک بنا کر پیش کرتے ہیں ۔
جبکہ نکاح مسیار اور متعہ میں جوہری فرق ہے ۔۔
نکاح متعہ میں عورت مقرر شدہ حق مہر کے عوض خود کو مرد کی قبولیت میں دے دیتی ہے ، مرد مقررہ حق مہر دینے کا پابند ہوتا ہے ، اولاد ہو جائے تو اس کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے ۔۔لیکن خرابی اس سے آگے شروع ہوتی ہے ۔ عورت مرد کی جائیداد میں وارث نہیں بن سکتی ، مرد اس کے نان و نفقہ کا پابند نہیں ہوتا ۔۔۔بات یہاں تک رہتی تو بھی گوارا تھی خرابی اس سے کہیں فزوں تر ہے کہ یہ نکاح مقررہ مدت کے لئے ہوتا ہے ۔۔اور اس مدت کی کوئی حد نہیں ۔۔یعنی کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ آدھے گھنٹے کے لئے بھی متعہ کر سکتا ہے ، اور جب مقررہ وقت ختم ہو جاتا ہے تو طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔دونوں آزاد اپنے اپنے گھر ۔۔۔اور بالفرض یہ مدت سالوں پر بھی محیط ہو گئی تو بھی علیحدگی کے لیے طلاق کی ضرورت نہیں صرف وقت ختم ہونے پر علیحدگی ہوجائے گی اور عورت بھلے بیس سال ہیں مرد کے اس عارضی نکاح میں رہی اس کو اس کی وراثت میں سے ایک پائی نہیں ملے گی ۔۔۔اور یہ بھی ایک دلچسپ بات نوٹ کر لیجئے کہ معمول کے نکاح میں اگر ایک عورت کا نکاح ہوتا ہے اور نکاح کی مجلس میں ہی خاوند فوت ہو جاتا ہے عورت اس کی وراثت کی حقدار ہو جاتی ہے ۔۔اندازہ کیجئے حقیقی اور مروجہ نکاح میں عورت کے لیے کس قدر برکات ہیں ۔۔۔۔
اب ہم آتے ہیں نکاح مسیار کی طرف ۔۔۔
نکاح مسیار کی عمومی صورت یہ ہوتی ہے کہ حالات کے سبب کچھ ایسی شرائط نکاح میں شامل کر دی جاتی ہیں جو عمومی نکاح میں نہیں ہوتیں ۔۔اس کو میں چند مثالوں سے سمجھاؤں گا تاکہ بات اچھے طور پر سمجھ آ جائے ۔۔
بسا اوقات کسی عورت کو نکاح کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ نکاح کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ مرد کو نکاح کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ بھی نکاح کے لوازمات پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا ۔۔۔ایسے میں فریقین کچھ ایسی شرائط طے کر لیتے ہیں جن میں سے بعض حقوق پر کمپرومائز کر لیا جاتا یعنی ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے ۔۔۔
اس کی طرف اشارہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے بھی سورۃ نساء میں کیا ہے
وَاِنِ امْرَاَ ةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْـرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْـهِمَآ اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَـهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْـرٌ ۗ وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ۚ وَاِنْ تُحْسِنُـوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّـٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْـرًا (128)
اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے لڑنے یا منہ پھیرنے سے ڈرے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح سمجھوتہ کر لیں، اور سمجھوتہ بہتر ہے، اور (انسان کے) نفس میں حرص تو ہوتی ہے، اور اگر تم نیکی کرو اور پرہیزگاری کرو تو اللہ کو تمہارے اعمال کی پوری خبر ہے۔
یہاں پر اللہ تعالی کہہ رہے کیا میاں بیوی کے مزاج نہیں ملتے تو ایسے میں دونوں کچھ صورت سمجھوتے کی نکال لیں لیکن گھر بچا رہے اس میں کوئی گناہ والی بات نہیں ۔
ایک عورت چالیس برس کی عمر میں بیوہ ہو جاتی ہے ۔۔اس کے چار بچے ہیں ، اور آپ کے معاشرے میں ایسی عورت کے دوبارہ نکاح کے امکانات بہت کم ہیں ۔۔بہت نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ اس کی جنسی ضروریات بھی ہیں ۔۔اور اس سے بڑھ کر اس کو سر پر ایک مرد کی ضرورت ہے ۔۔۔اب خاندان میں تجویز پیش ہوتی ہے کہ بچوں کا چچا جس کے اپنے بھی اپنی بیوی سے تین بچے ہیں ، وہ اس بیوہ بھابھی سے نکاح کرلے تاکہ بچے گھر کے گھر میں رہیں ، غیروں کے در پر نہ جا پڑیں ۔۔۔اب چچا کہتا ہے میں نکاح کے لیے تیار ہوں لیکن میرے لیے یہ انصاف کرنا ممکن نہیں کہ ایک رات ادھر رہوں گا ایک رات ادھر رہوں گا ۔۔۔
اب عورت کہتی ہے کہ میرے لیے اتنا کافی ہے کہ آپ ہفتے میں ایک رات آ جایا کریں میرے گھر کے معاملات کو نظر ڈال دی ، اہل محلہ کو پتہ چل گیا کہ اس کے سر پر سائیں بیٹھا ہوا ہے ۔۔یہ عورت لاوارث نہیں کہ ہر للچائی نظر اس کی طرف اٹھنی شروع ہو جائے اور ہر آوارہ منش کو وہ آسان شکار نظر آنے لگے ۔ اب یہ بات تو آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ محلے میں کوئی جوان بیوہ عورت رہتی ہو بچے اس کو چھوٹے ہوں اور وہ لاوارث ہو تو ہر دوسرے مرد کے منہ میں پانی آنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ اس کا بنا نکاح کے مفت میں وارث بننے کی خواہش دل میں پالنے لگتا ہے ۔۔۔۔
بہرحال اوپر بیان کردہ شرائط پر فریقین راضی ہو جاتے ہیں اور یہ نکاح ہو جاتا ہے اس کو نکاح مسیار کہتے ہیں ۔۔۔یعنی عورت نے اپنا خالص حق کسی دوسری فائدے کے لیے چھوڑ دیا ۔۔۔
اس نکاح میں مدت کا تعین نہیں ۔۔۔۔اگر مدت کا تعین ہو جائے تو یہ نکاح بھی حرام ہے ۔۔۔
اسی طرح اس نکاح میں سابقہ بھابھی موجودہ بیوی اپنے سابقہ دیور اور موجودہ شوہر کی جائیداد کی اسی طرح وارث ہوگی جیسے پہلی بیوی تھی ۔۔۔
اور اگر خاوند الگ ہونا چاہے گا تو باقاعدہ طلاق دے گا ۔۔۔۔
اور اگر نکاح میں طلاق کی شرط لگائی جائے گی تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا کیوں کہ طلاق یعنی علیحدگی کی شرط اور وقت پہلے سے مقرر کر لیا جائے تو وہ نکاح نہیں ہوتا ۔۔۔
اور یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ اگر کوئی شخص کاروبار یا طلب علم کے لئے بیرون ملک جاتا ہے اور وہاں اپنے جنسی حاجات کو پورا کرنے کے لیے نکاح کرتا ہے اور نیت یہ ہوتی ہے بھلے اس نیت کا اظہار کرے یا دل میں رکھے کہ
"جب میری مدت تعلیم مکمل ہوگی میں صورت کو چھوڑ کے نکل جاؤں گا "
تو یہ نکاح نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کو مسیار کہا جائے گا ۔اوپر چکا ہوں کے مسیار میں دائمی پن پایا جاتا ہے اس نکاح میں مدت کا تعین ہو ہم سی آر بھی نہیں ہوتا اور حلال بھی نہیں ہوتا ۔۔اسی طرح عرض ہے کہ طلاق کی نیت سے نکاح ہی نہیں ہوتا ۔۔ہاں ایک اور صورت ہے کہ عورت کو یہی پتہ ہے کہ میں اس کی مستقل بیوی ہوں اور وہ اسی اطمینان کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے جبکہ مرد کی نیت میں کھوٹ ہے اور اس کی نیت ہے کہ میں اپنا وقت پورا کرکے اس کو طلاق دے دوں گا تو اس صورت میں عورت معصوم اور بے گناہ ہے ۔۔اور خلوت میں گزارا گیا اس کا وقت خالص حلال ہے ۔البتہ مرد دھوکے باز بھی ہے اور گناہ گار بھی ہے ۔۔۔لیکن نکاح مسیار اس کو بھی نہیں کہا جائے گا ۔
نکاح مسیار کی وہ صورت ہی ہے کہ جو میں نے اوپر بتا دی ہے کہ کوئی عورت اپنے حالات کے تحت یا اپنی ضرورت کے تحت اپنا کوئی جائز حق چھوڑ دے ۔۔۔
مسیار میں چھوڑے گئے حقوق کی اور بھی شکلیں ہیں جیسا کہ کوئی عورت نکاح کے بعد کہے کہ میں اپنے والدین کے گھر میں ہی رہوں گی بھلے خاوند یہاں روز نہ آئے ہفتے بعد آئے ، پندرہ دن بعد آئے ۔۔۔۔اس طرح کوئی عورت ذاتی حیثیت میں امیر ہے ، صاحب جائیداد ہے تو وہ اپنے خاوند کو کہہ سکتی ہے کہ آپ میرا خرچ نہ اٹھائیں آپ اس حوالے سے آزاد ہیں ۔جب کہ اس کا نان نفقہ خاوند کے ذمہ ہے لیکن وہ اس کو اس حق سے آزاد کر رہی ہے ۔۔
خلاصہ کلام یہ ہے کے نکاح متعہ میں مدت مقرر ہوتی ہے ، علیحدگی کی نیت ہوتی ہے ، عورت وارث نہیں ہوتی ۔۔۔۔ان وجوہات کے سبب اہل سنت اس کو جائز نہیں سمجھتے ۔۔۔
جبکہ دوسری طرف نکاح مسیار میں مدت مقرر نہیں ہوتی اور عورت وارث ہوتی ہے اور نکاح کی باقی شرائط بھی مکمل ہوتی ہیں یعنی گواہ ، حق مہر اور علیحدگی کی صورت میں باقاعدہ طلاق ۔۔۔یہ صورت اہلسنت کے ہاں عموما جائز سمجھی جاتی ہے ۔
البتہ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بعض دیگر علمائے کرام اور اسباب کے تحت نکاح مسیار کو درست نہیں سمجھتے اور اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔۔جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ بھی اس کو درست نہیں سمجھتے کیونکہ ان کا خیال ہے اس نے عورت کی حق تلفی کا پہلو آ جاتا ہے ۔۔لیکن اس کے باوجود اس نکاح کو وہ ہرگز زنا نہیں سمجھتے اور ہو جانے کی صورت میں اس کو جائز نکاح ہی سمجھا جائے گا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں