جمعہ، 16 فروری، 2018

معاشرتی فلسفے

اس وقت دنیا میں تین قسم کے نظریات/ فلسفہ پاۓ جاتے ھیں جن پر اک معاشرہ تشکیل پا تا ہے

1- کسی بھی معا شرے کے مجموعی وسائل صرف اک چھوٹے سے طبقہ کے پاس ھوں (سرمایادار یا جاگیردار) اور معاشرہ مختلف طبقات میں بٹا ہوا ھو جہاں اک طرف تو امارت ھو اور دوسری طرف غربت کا آپنی عروج پر ھو، یہ سرمایادارانہ اور جاگیردارانہ معاشرے کا نظریہ ہے.دولت کا ارتکاز صرف سرمایادار اور جاگیردار کی طرف ھو اور باقی طبقات صرف اک طبقہ(سرمایادار یا جاگیردار) کے لیے کام کریں اور ان کی دولت میں اضافہ کرتے رہیں. دولت کی تقسیم سرمایا کی بنیاد پر ہے ، دولتمند ہونے کے لیے دوسروں کا استحصال لازمی ہے اور سود اس نظام کی رہڑھ کی ہڈی ہے.   
2- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ معاشرے کے تمام وسائل حکومت کے پاس ھوں اور حکومت کی ذمہ داری ھو کہ وہ آپنی ریاست کے ھر شہری کو مکان، صحت، نوکری، تعلیم اور ضروریات زندگی مہیا کرے ، ھر بندے سے اتنا کام لے جتنی اس کی استعداد ہے اور اس کو اتنا دیا جاۓ جتنی اس کی ضرورت ہے ، اس نظریہ میں طبقات کا خاتمہ ہے ، اس نظریہ کے مطابق امیر اور غریب کا کوئی فرق ختم ہے معاشرے میں صرف اک ہی کلاس ہے اور یہ اشتراکی نظریہ ہے.
3- تیسرا نظریہ اسلام کا ہے جو طبقات کا انکار کرتا ہے ہاں درجات اس میں موجود ھیں ، ھر بندہ آپنی صلاحیت کے اور محنت سے امیر ھو سکتا ہے لیکن سرمایا کی بنیاد پر نہیں، معاشرے کے وسائل پر سب کا حق برابر ہے، صحت، تعلیم، اور تمام بنیادی ضروریات معاشرے کے تمام افراد کے لیے برابر ھیں. ارتکاز دولت یعنی دولت کا اک طبقہ میں جمع ہونا جرم ہے . دولت کی گردش کسی بھی معاشرے میں اس طرح ھو گی جس طرح خوں جسم میں گردش کرتا ہے اس لیے معاشرے کی ترقی مجموعی ھو گی نہ کہ طبقاتی بنیادوں پر، سود کی قطعی طور پر ممانعت ہے.
اس مقصد کے لیے یہ تینوں نظریات /فلسفہ اپنے اپنے معاشی، سیاسی اور معاشرتی اصول دیتے ھیں جن کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے. ھر فلسفہ اور نظریہ کی جموریت مختلف ہے، بدقسمتی ہمارا معاشرہ جاگیردارانہ اور سرمایادارانہ اصولوں کی بنیاد پر قائم ہے.
اس وقت اسلام کا نظریہ/فلسفہ پر مبںی دنیا میں کوئی بھی معاشرہ قائم نہیں ہے اور مسلمان تعداد کے حوالے سے دنیا میں دوسری بڑی آبادی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں