اتوار، 11 مارچ، 2018

صرف ایک جج نے بدل ڈالا

*روزنامہ 92 نیوز*
*اوریا مقبول جان*
*صرف ایک جج*
  مارچ 10, 2018

اس سال چودہ فروری کس قدرخاموشی سے گزرگیا. نہ ٹیلی ویژن چینلزکے پروگراموں میں‌ کسی نے آستینیں چڑھائیں، غصے سے لال پیلے ہوئے اورنہ ہی اپنے مؤقف کے حق میں ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوئے. اخبارات میں بڑے بڑے جغادری کالم نگاروں کی پرجوش تحریریں بھی سننے کونہ ملیں. نہ ویلنٹائن ڈے کے حق میں اورنہ ہی اس کے مخالف. کسی این جی اوزدہ خاتون کا غصے میں بھرا ہوا لال پیلا چہرہ بھی ٹی وی پریہ کہتے ہوئے نظرںہ آیا کہ “یہ لوگ محبت کے دشمن ہیں، لوگوں کو ہنستا ہوا نہیں دیکھ سکتے”. دوسری جانب آنکھوں میں خون اتارے وہ مذہبی لوگ بھی ٹی وی کیمروں کے سامنے یہ احتجاج کرتے ہوئے نظرنہ آئے کہ ویلنٹائن ڈے بے حیائی ہے، نوجوان نسل کے بے راہ روکرنے کا ایک راستہ ہے. پورے ملک میں کس قدرخاموشی تھی. صرف وہ طبقہ جوبڑے شاپنگ مالز، کلبوں، پوش علاقوں کی شاہراہوں یا مہنگے مہنگے مغرب زدہ تعلیمی اداروں‌ میں نظرآتا ہے، انہوں نے چند لمحے سرخ پھول ایک دوسرے کوپیش کرکے دل کے ارمان پورے کرلیے. لیکن اس ساری کاروائی کی خبرلاہورمیں نہ شاہدرہ کوہوئی اورنہ ہی شاد باغ کو، کراچی میں نہ اورنگی ٹاؤن والے اس دن سے آگاہ ہوسکے اورنہ ہی ملیرکی ماڈل کالونی. یہی حال پشاور، کوئٹہ، حیدرآباد، فیصل آباد، راولپنڈی اورایسے کئی شہروں کی ننانوے فیصد آبادیوں کا تھا جنہیں علم تک نہ ہوسکا، ویلنٹائن ڈے آیا اورآکرگزرگیا. اس دفعہ شوبزکی شخصیات کوبھی یہ دن یاد نہ رہا. نہ کوئی شوخ چنچل اداکارہ زرق برق لباس میں ملبوس ہاتھوں میں پھول پکڑے نظرآئی اورنہ ہی کوئی بوڑھا کہنہ سال اداکاربچوں کوسرخ گلاب دیتا دکھائی دیا. بےشمارٹیلی ویژن کیمرے چودہ فروری کی صبح آرام اورسکون کی نیند سوئے رہے. پرویز مشرف اوراس کی ذریت نے گزشتہ پندرہ سال سے اس قوم کوجس ہیجانی کیفیت کا شکارکررکھاتھا، کتنی حیران کن بات ہے ایک لمحے میں سب کچھ زمین بوس ہوگیا. اسلام آباد ہائی کورٹ کے قابل احترام جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے صرف اتنا فیصلہ دیا کہ تم ویلنٹائن ڈے والے دن، جوچاہے کرو، جس کے ساتھ جیسے محبت کا اظہارکرنا چاہتے ہو، پھول پیش کرنا چاہتے یویا گلدستہ، سب کرولیکن میڈیا پراس کی تشہیرنہیں ہوگی. چودہ فروری 2018ء کوصرف ایک فیصلے نے واضح کردیا کہ اس پاکستان میں پھیلی ہیجانی کیفیت، آپس میں دست وگریباں عوام، ایک مصنوعی پاگل پن، سب کا سب میڈیا کا پیدہ کردہ ہے اورننانوے فیصد عوام کا اس سے کوئی تعلق نہیں. اگرمغربی آقاؤں اورکارپوریٹ سرمایہ داروں کے اشتہارات پرپلٹنے والے میڈیا کا دماغ درست ہوجائے تواس ملک کے آدھے سے زیادہ مسئلے ختم ہوجائیں. اس سارے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ کام جوبائیس کروڑعوام کی نفرت اورغصہ نہ کرسکی، دانشوروں کے مضامین اورگفتگوجولگام میڈیا کونہ ڈال سکے صرف ہائی کورٹ کے ایک جج کے مختصرسے فیصلے نے ڈال دی. اس فیصلے نے یہ حقیقت بھی روزروشن کی طرح واضح کردی کہ اس ملک کی اخلاقیات، سماجی زندگی، خاندانی نظام اورمذہبی جذبات کوبگاڑنے اوراس بگاڑکوترقی، تہذیب اورعالمی معاشرت کہنے کا بھونڈا اورمکروہ کھیل صرف میڈیا ہی پرکھیلا جاتا ہے اوراس کھیل کے پیچھے ایک بہت بڑا ایجنڈا ہے جسے تحریرکرنے والے اورنافذکرنے والے بائیس کروڑمیں سے صرف ایک فیصد سے بھی کم ہیں، اوران کی عوام میں پذیرائی کا عالم یہ ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے اس فیصلے نے جہاں‌ لوگوں کوسکون واطمینان بخشا وہاں ان جدید تہذیب کے متوالوں کے لیے احتجاج کرنے والی ایک آواز بھی برآمد نہ ہوسکی.



یہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا پہلا فیصلہ نہیں ہے. آج سے تقریباَ دس سال قبل جب انٹرنیٹ پرفیس بک اوردیگرسوشل میڈیا کے دروازے کھلے، توجہاں بے شمارمعاشرتی تعلقات کی کھڑکیاں واہوئی، وہیں ان کھڑکیوں‌ سے غلاظت اورتعفن کی بدبوپھیلنے لگی. کردرارکشی، لوگوں کے بارے میں بے سروپا جعلی خبریں، شریف عورتوں پرالزامات، غرض ہرغلیظ ذہن کا گند سوشل میڈیا پرنکلنے لگا. اس دوران اس سوشل میڈیا کا ایک ایسا استعمال شروع بھی ہوا جس نے پوری امت مسلمہ خصوصاً پاکستان کے مسلمانوں کوجھنجوڑکررکھ دیا. فیس بک پرلاتعداد پیجزایسے بنائے گئے اوربے شمارٹوئٹراکاؤنٹ کھولے گئے جن میں براہ راست سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی جاتی، شرمناک کارٹون اورویڈیوجاری کی جاتیں. وہ لوگ جوگزشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا پرسرگرم تھے انہیں ایک ایک شخص کا علم اورادراک تھا کہ کون کون ایسا کررہا ہے. پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت سے لاتعداد لوگوں نے رابطہ کیا. اس کی وزیرتک لوگوں‌ نے اپنا احتجاج پہنچایا. وہ ڈائریکٹوریٹ جس کے پاس اس کا اختیارتھا کہ وہ ان پیجزکوروک سکتی تھی، ان ویب سائٹس کوبند کرسکتی تھی، اس کے اعلیٰ ترین افسران بھی بے بس محسوس ہوئے. لگتا تھا کہ کسی کوسیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی کوئی پرواہ نہیں. ایسے میں‌ جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے اس معاملے کواپنے ایمان کا معاملہ سمجھتے ہوئے اوربائیس کروڑعوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اپنی عدالت میں سننا شروع کیا. شروع شروع میں پاکستانی موم بتی مافیا اسلام آباد کی سڑکوں پردرجن بھرلوگوں کے ساتھ ان بلاگرزکی حمایت میں نکلا. عالمی میڈیا نے ان کے متعلق آواز اٹھائی. پاکستانی سیکولردبی زبان میں بولتے رہے، لیکن جسٹس شوکت صدیقی ڈٹ گئے. پیجزبند ہونا شروع ہوئے، حکومت نے فیس بک انتظامیہ سے مذاکرات کیے، ویب سائٹ بلاک کردی گئیں. ایک خوف کی لہران لوگوں کے جسموں‌ میں دوڑی جویہ سمجھتے تھے کہ ہم توہین رسالت کرتے رہیں گے اورمیڈیا میں ہماری وکالت کی وجہ سے کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا. جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کئی سوصفحات پرمشتمل اپنا فیصلہ تحریرکیا. یہ فیصلہ پاکستان عدلیہ کی تاریخ ہی نہیں‌ بلکہ امت مسلمہ کی ایک تاریخی دستاویزہے. اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے لے کراب تک کا وہ سب کیس لاء “Case Law” شامل کردیا گیا ہے. یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے کئی سوججوں‌ کے درمیان یہ واحد آواز تھی جس نے اس طوفان پربند باندھنے کی کوشش کی. باقی اسے مسلسل روکنے کی ذمہ داری توحکومت کی تھی اوراس کا قبلہ شاید ابھی تک درست نہیں ہے. البتہ ان بلاگرزکواس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ اگرایک جج چاہے تووہ ان کے نتھنوں‌ میں نکیل ڈال سکتا ہے.
جسٹس شوکت عزیز صدیقی ان دنوں‌ ایک اورمحاذپرسرگرم ہیں. اس ملک میں‌ قادیانی خود کومسلمان ظاہرکرکے یہاں رہتے ہیں، نوکری کرتے ہیں، سیاست میں حصہ لیتے ہیں اورپھرریٹائرمنٹ کے بعد خود کوقادیانی بتا کرشناختی کارڈ اورپاسپورٹ تبدیل کرواتے ہیں. مغربی ممالک میں جاکرکہتے ہیں، کہ ہم پاکستان میں ہراساں ہورہے تھے، ہم پرزندگی کے دروازے بند ہوگئے تھے، اس لیے ہمیں تمہارے ملک میں پناہ چاہیے. یہاں رہتے ہوئے یہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کومسلمان ظاہرکرتے ہیں. اس ملک سے تمام فوائد اٹھاتے ہیں اورپھرایسی ملک کودھوکا دے کربیرون ملک جا کراسے بدنام کرتے ہیں. اس مقدمے کے شروع میں ہی وہ سیکولرلبرل طبقہ شوکت عزیزصدیقی پرتلوارسونت کرکھڑا ہوچکا ہے. سیکولرطبقے کی رہنما عاصمہ جہانگیرتورخصت ہوگئیں جنہوں نے شوکت عزیز صدیقی کے لئے کہا تھا کہ اسے امام مسجد ہونا چاہیے، لیکن اس کام کا ذمہ اب ایک ویب اخبارنے لیا ہوا ہے اورشوکت عزیز صدیقی کے خلاف مضامین لکھوائے جارہے ہیں. کیس زیرسماعت ہے اس پروقت کے ساتھ ساتھ گفتگوہوتی رہے گی. لیکن سوچنا یہ ہے کہ صرف ایک صاحبِ ایمان جج اپنے چند فیصلوں سے اس ملک میں ہیجان، انارکی، بےیقینی ختم کرسکتا ہے، بائیس کروڑلوگوں کی امنگوں کوسکون بخش سکتا ہے تواگرایسے صرف ایک درجن جج تعینات ہوگئے تو….. سوچیں پاکستان کتنی آسانی سے تبدیل ہوسکتا ہے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں