جمعہ، 24 اگست، 2018

مسلمانوں کی یونیورسٹیاں

مسلمانوں کی یونیورسٹیاں
یاسر پیرزادہ

اگر آپ کے پاس اس وقت کرنےکے لئے کوئی کام نہیں تو کاغذ قلم پکڑیں اور چند بڑے شعبوں کے ماہرین کی فہرستیں بنانے کی کوشش کریں، جیسے کہ پاکستان کے نمایاں ریاضی دان، فلسفی، مورخ، ماہر ارضیات، سائنس دان، ماہر فلکیات اور بین الاقوامی قانون دان وغیرہ۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ اِن میں سے کسی بھی شعبے میں آپ مشکل سے دس بیس نام ہی تلاش کر پائیں گے یا شاید اتنے بھی نہ ملیں۔ اس کے برعکس اگر آپ پاکستان کے ٹی وی دانشور وں، مذہبی مبلغین، دفاعی امور کے تجزیہ نگاروں اور شاعروں کی لسٹ بنانے بیٹھیں تو کئی صفحات کالے ہو جائیں مگر نام ختم نہیں ہوں گے، اسی طرح ڈاکٹرز اور انجینئرز بھی کافی مل جائیں گے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے کہ اس کاداخلہ میڈیکل کالج یا انجینئرنگ یونیورسٹی میں کروا دیا جاتا ہے۔ فی الحا ل ہم دوسری اور تیسری فہرست والے لوگوں کو اِن کے ان کے حال پر چھوڑتے ہیں اور اپنی پہلی فہرست پر واپس آتے ہیں جس کے لئے ہمیں دس ناموں سے زیادہ افراد نہیں مل سکے تھے اور اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟

یہ درست ہے کہ کسی بھی معاشرے میں فلسفی، مورخ، سائنس دان یا ریاضی دان تھوک کے حساب سے دستیاب نہیں ہوتے مگر مہذب ممالک میں ایسا قحط الرجال بھی نہیں ہوتا جیسا اپنے ملک میں ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز یا کسی محکمے کے لئے قابل اور نامور افراد کاپینل بنانے کا مسئلہ درپیش ہو تو ایک سے دوسرا نام ہی ذہن میں نہیں آتا۔ ترقی یافتہ ممالک کی بات چھوڑیں، اپنے ہم پلہ ممالک کے مقابلے میں بھی ہمارا حال کچھ بہتر نہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ بیس کروڑ آبادی کا یہ ملک ان کلیدی شعبوں میں اتنا تنگ دست کیوں ہے؟ اور صرف بیس کروڑ کی بات کیوں کی جائے، اس دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے حصے کے سائنس دان، فلسفی اور ماہر فلکیات کہاں ہیں؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جن شعبوں کی ہم بات کررہے ہیں ان کے ماہرین یونیورسٹیوں میں پروان چڑھتے ہیں مگر بد قسمتی سے پاکستان میں بالخصوص اور مسلم دنیا میں بالعموم یونیورسٹیاں اس قابل نہیں کہ اس قسم کے ماہرین پیدا کر سکیں، وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں یونیورسٹیوں کا رواج ہی نیا ہے، خاص طور سے عرب ممالک میں جہاں کی تین چوتھائی جامعات بیسویں صدی کے آخری پچیس برس میں قائم ہوئیں!ایسے میں ان جامعات سے سائنسی یا سماجی علوم کے بین ا لاقوامی سطح کے ماہرین کی امید رکھنا ایسے ہی جیسے کسی عورت کی شادی کے پہلے ماہ کے اختتام پر ہی جڑواں بچوں کی پیدائش کی امید کرنا۔

ہر سال جب بھی جامعات کی بین الاقوامی درجہ بندی کی فہرست جاری ہوتی ہے تو ہم اس بات کا ماتم کرتے ہیں کہ پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی اس فہرست میں شامل نہیں۔ شیوخ الجامعات (وی سی صاحبان ) ہر مرتبہ ایک نئی تاویل لے کر سامنے آتے ہیں جس کے ذریعے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ دراصل وہ بہت قابل ہیں، ان کی یونیورسٹی بہت اچھی ہے، محدود ذرائع کے باوجود وہ نیوٹن اور ابن رشد پیدا کر رہے ہیں مگر یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں نام بنانے کیلئے لا محددو فنڈز کی ضرورت ہے جو ان کے پاس نہیں۔ یہ دلیل اس وزیر تعلیم پر تو اثر کر جاتی ہے جو خود ایسی ہی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ کچھ جامعات جو اس رینکنگ میں شامل ہیں اتنے ہی بجٹ میں کام کررہی ہیں جتنے بجٹ میں ہماری یونیورسٹیاں چلتی ہیں۔ پاکستان کی کیا بات کریں، مسلم امہ کی جامعات (جن میں سے بیشتر کو فنڈز کی کوئی کمی نہیں ) کا یہ حال ہے کہ پہلی چار سو یونیورسٹیوں میں صرف دس مسلم ممالک کی ہیں، پہلی سو میں ایک بھی نہیں!بین الاقوامی درجہ بندی کے اس طریق کار پر او آئی سی ممالک کو بھی اعتراض رہا ہے کہ اس میں زیادہ وزن تحقیق کو دیا جاتا ہے جبکہ دیگر اہم باتوں کو جن میں مسلم ممالک کی یونیورسٹیاں بہتر ہیں، نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لطیفہ مگر یہ ہے کہ او آئی سی ممبر ملکوں نے جامعات کی درجہ بندی کا اپنا نظام وضع کرنے کی کوشش کی مگر آپس میں کسی بات پر اتفاق نہ ہو سکا۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے !

اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمان ممالک (او آئی سی کے ممبران ) کی یونیورسٹیاں اپنی قومی پیداوار کا آدھا فیصد تحقیق پر خرچ کرتی ہیں جبکہ دنیا کی اوسط پونے دو فیصد سے زیادہ ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح اڑھائی سے تین فیصد ہے۔ ملائشیا وہ واحد اسلامی ملک ہے جو تحقیق پر ایک فیصد خرچ کر رہا ہے، سعودی عرب 0.07%، کویت اور انڈونیشیا 0.10%جبکہ پاکستان، اردن اور مصر تقریبا 0.41% تحقیق پر خرچ کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں جرنلز میں شائع ہونے والے تحقیقی مضامین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ دیکھنے آیا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ان میں اعلی معیار کا مقالہ شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے،مسلم دنیا میں لکھے گئے مقالوں کی بین الاقوامی سطح پر حوالے کے طور پر ’’کوٹ ‘ ‘ کئے جانے کی شرح شرمناک حد تک کم ہے۔ معیار نہیں، مقدار ہماری جامعات کا پیمانہ ہے۔ پاکستان میں نئی پرانی یونیورسٹیاں یوں کھولی جا رہی ہیں جیسے دودھ دہی کی دکان کھولی جاتی ہے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو یونیورسٹی بنا کر اس کے معیار کا بیڑہ غرق کر دیا، وہ کالج جہاں داخلہ ملنا خوش بختی کی معراج سمجھا جاتا تھا اب یونیورسٹی بننے کے بعد آوازیں دے کر لوگوں کو بلاتا ہے اور ڈپلومے بانٹتا ہے۔ گورنمنٹ کالج، لاہور کو یونیورسٹی بنا کر اس کا مضحکہ خیز نام گورنمنٹ کالج یونیورسٹی رکھ دیا گیا، اس کے علاوہ معیار میں کیا تبدیلی آئی یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ صرف صوبہ سندھ میں ہم اتنی میڈیکل یونیورسٹیاں کھول چکے ہیں جتنی ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہیں ۔ کیا نام کے ساتھ یونیورسٹی لگانے سے خود بخود اعلی تعلیم اور تحقیق یقینی ہو جاتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو تمام سرکاری اسکولوں کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دے دینا چاہئے تاکہ تعلیم کا مسئلہ تو یک جنبش قلم حل ہو جائے۔

مسلمان ممالک بشمول پاکستان انجینئرز بھی پیدا کر رہے ہیں اور آئی ٹی ایکسپرٹ بھی، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی مل جاتے ہیں اور ڈاکٹر ز بھی، مگر اس کے باوجود دنیا کی ترقی میں عملاً ہمارا کردار نہ ہونے کے برابر ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مسلم ممالک کی جامعات سماجی علوم پر توجہ نہیں دیتیں، آج کل کی دنیا کے مسائل کافی پیچیدہ ہو چکے ہیں جنہیں حل کرنے کے لئے محض تکنیکی علوم کافی نہیں بلکہ فلسفہ، عمرانیا ت اور تاریخ کا علم ہونا بھی ضروری ہے جبکہ ہمارا حا ل یہ ہے کہ سوشل سائنس میں وہ داخلہ لیتا ہے جسے ’’منفعت بخش مضامین‘‘ میں داخلہ نہیں مل پاتا اور یوں ہم ایسے ایم اے اسلامیات، ایم اے تاریخ اور ایم اے سوشیالوجی پیدا کرتے ہیں جن کی زندگی کا واحد مقصد کسی کالج میں لیکچرر شپ لے کر باقی زندگی بیوی کی خدمت میں گزارنا ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں مسلمان ممالک کے حصے میں صرف تین دفعہ سائنس کا نوبل انعام آیا، اڑھائی بالشت کا ملک اسرائیل سائنس میں چار نوبل انعام لے چکا ہے جبکہ یہودیوں کے حاصل کردہ نوبل انعامات کی فہرست دیکھنے کے لئے خود گوگل کریں اور مسلمانوں کا نوحہ پڑھیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں