آج ہی ایک خبر نظر سے گزری کہ سیاسی اختلاف پر دوران بحث راڈ مار کر فریق مخالف کو جانبحق کر دیا گیا۔ بہت وقت سے معاشرتی عدم برداشت کے خلاف بات کر رہا ہوں۔ حتیٰ کہ اسی پر خطبہ جمعہ میں بھی بات کر چکا ہوں۔ نظریات، تصورات ، تخیلات میں اختلاف انسانی سوچ کا عکاس ہے مگر دوسرے کی رائے کو سن لینے اور برداشت کر لینے کاسبق بھی ضروری ہے۔
بدقسمتی سے سیاسی ہوں یا مذہبی اپنے حق میں عوام کو استعمال کرنے کے لیے ان کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے جو کہ معاشرے میں ایٹم بم بن جاتا ہے۔ اور وقتاً فوقتاً گستاخ، غدار وغیرہ کے نعروں کے ساتھ اپنے حریف کی جان تک لینے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ سیاسی و مذہبی لیڈرز کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس نظریاتی یا سیاسی اختلاف کو دھیمے لہجے اور خوبصورت انداز سے اور مکمل طور پر اپنے چاہنے والوں تک پہنچائیں تاکہ وہ صرف ڈائیلاگ کریں اور فریق مخالف کو دوران گفتگو اپنا دشمن نہ تصور کریں۔ آگ لگانے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے اختتام پر راکھ اس کے گھر کی ہوگی یا صرف کوڑا کرکٹ کی؟ اسی لیے جذبات کی آگ کو اتنا ہی لگایا جائے جتنا ضروری ہو اور راکھ کس کس چیز کو بنانا ہے علم میں ہونا چاہیے وقت کے بعد قوم کی حالت کیا ہوگی اور ان جذبات کو کنٹرول کیسے رکھنا ہے پتا ہونا چاہیے۔
جذبات کا یہی سمندر جو دیکھنے کو بھلا لگتا ہے لیکن وہی جب جان لینے یا دینے تک جاتا ہے تو سیاسی و سماجی وقتی فوائد کا حصول تو ہو یا نہ ہو لیکن وہ انسانیت کا دشمن بن جاتا ہے۔ کیونکہ جس نے ایک انسان کا قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔
یہاں فریق مخالف پر سیاسی طور پر غداری اور مذہبی طور پر کفر کے ٹیگ اتنے بکے کہ فارس و عرب کی پرانی دشمنیوں کی بھی پراکسیز بھی اسی خطہ عرض پر انجام پائیں۔ گھر ہمارے اجڑے، گلستاں ہمارے برباد ہوئے اور پیسہ
اس کا کیا ہے جتنا ان پراکسیز میں دیا گیا اس سے کہیں زیادہ اس پر قابو پانے کے لیے بہایا گیا۔
دنیا بھر میں دہشت گرد گروہوں کی ابتدا کو دیکھا جائے تو انہی لوگوں کے ہاتھوں ہی ہوئی جنہیں اب ان لوگوں سے خطرات لاحق ہیں۔ ایک جنگ کے جذبات میں مغلوب شخص کو مفت کا کفیل بن کے چارپائی توڑنا کہاں پسند آنا تھا تو پھر داعش نے تو بننا ہی تھا۔ پہلے ان کو انتہا پسند جنگو بنایا بھی تو انہیں نے جن کو اب ڈومور کہنے کی یا ضرورت ہے یا اپنے بندوں کو قربان کرنا پڑتا ہے۔
اب تو سوشل زمانہ ہے اور تحقیقی مواد چند کلکس کے فاصلے پر واقع ہے۔ موجودہ ملکی حالات میں بنا تحقیق و تصدیق افواہوں کو بحث میں لانے سے پہلے بحیثیت باخبر و باشعور شہری اگر اتنا سا بھی تردد کر لیا جائے تو وہ اس وقت کے وقتی جزبات سے کنارہ کشی کا ذریعہ اور علمی اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ اور جہاں غیر ضروری و دل آزاری والی گفتگو کے خدشات پائے ہی جاتے ہوں وہاں اپنے لیے ہی ذہنی اذیت کا سامان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ مگر بدقسمتی یہ بھی ہے کہ زیر قلم تحریر کے کچھ وسیع ہونے کے سبب مکمل پڑھنے کو وقت ہی کہاں میسر آئے گا لیکن اس کو پڑھنے سے کہیں زیادہ وقت ایک دوسرے سے حالات حاضرہ پر بحث میں لگ جائے گا۔
تحریر: حافظ وقار احمد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں