پیر، 29 جنوری، 2018

تصوف کے بارے میں تین نظریات

اور آخر میں میرا مشورہ خان صاحب سے

آج بروز جمعہ نعیم قاسم صاحب کے جمعرات کے لکھے ہوئے کالم کو پڑھنا شروع کیا تو بڑا لطف آیا کیونکہ اس کالم کی ابتدا موصوف نے دو بڑی اہم شخصیات کے  تعلق سے کی ان دونوں شخصیات میں سے ایک کا تعلق تصوف سے بتایا دوسری   شخصیت جس کو ملک خداداد پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے اور خاص طور پر ہمارے ملک کے ایکس وزیراعظم نواز شریف صاحب کو ان سے بڑی شناسائی ہے کیونکہ وہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ ان کے سیاسی حریف عمران خان صاحب هیں جن کا تعلق نعیم قاسم صاحب نے بشری بی بی کے ساتھ بتایا جو خان صاحب نے تصوف کی بنیاد پر ان سے قائم کیا  اور بشریٰ بی بی نے خان صاحب کو دو بڑی معروف ہستیوں کے بارےمیں آگاہی دی اور عمران خان کے دل میں  ان دونوں عظیم ہستیوں کی محبت پیدا ہوگئی وہ دو مقدس ہستیاں ابن عربی اور مولانا روم ہیں انہوں نے مزید لکھا کہ خان صاحب کہتے ہیں کہ ان کو آج کل ان رو ہستیوں سے بڑا شغف ہیں اور ساتھ ہی انہوں نےعمران خان صاحب سے اختلاف کرنا شروع کر دیا کیونکہ ان کے نزدیک آج کے اس پرفتن دور میں اگر کوئی مخلوق خدا کی نا آسودہ خواہشات کو  اللہ کی محبت میں تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے تو وہ  پروفیسر احمد رفیق اختر ہے ان کے نزدیک بشریٰ بی بی کو تصوف کی شدبد کا کیا پتہ ان کی بات بھی بلکل درست ہے کہ جب پروفیسر صاحب جیسی ہستی تصوف کے رموزو اوقاف سے اور صوفیاءکرام سے آگاہی بخشنے کے لیے شمعِ معرفت روشن کئے ہوئے ہیں تو کسی  عورت کے پاس  تصوف جاننے کی کیا ضرورت  مگر نعیم قاسم صاحب شاید یہ نہیں جانتے خان  صاحب بڑے شاطر آدمی ہیں انہوں نے بشریٰ بی بی سے مقدس ہستیوں کے بارےمیں آگاہی تو حاصل کی ہی ساتھ دوسرا فائدہ حاصل کرنے کے لیے شادی کا مشورہ بھی دے دیا خیر یہ ان کا زاتی مسئلہ ہے   اگر وہ اپنے روحانی پیشوا کو زوجیت  میں لے کر روحانیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میں یا کوئی اورکیا کر سکتا ہے نعیم قاسم صاحب  نے مزید غالب کے  اس شعر پر  تبصرہ کرتے ہوئے
                   ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب        
                  ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا      
تصوف کے دو    نظریے زکر کیے
1وحدت الوجود       2   ہمہ اوست                                  
مگر انہوں نے اس کالم میں تیسرا نظریہ زکر نہیں کیا میں ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوے تصوف کے بارے میں مزید معلومات نظر قارئین کرنا چاہوں گا معزز قارئین حقیقت میں آج تک تصوف کے بارےمیں تین نظریات پیش کیے گئے
1ہمہ اواست
2ہمہ ازاواست
3ہمہ اواست در مغزوپوست
ہمہ اوست کا دوسرا نام وحت الوجود ہے جس  کے خالق شیخ محی الدین ابن علی اندلسی ہیں جنہوں نے اپنے مکاشفات کی بنیاد پر وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا  ان کا ماننا یہ ہے خدا کے سوا کسی چیز کا وجود نہیں اس نظریہ وحدت نے تصوف کی دنیا میں پانچ سو سال تک مطلق العنان بادشاہ بن کر حکومت کی اس نظریے کا علماء اور شیوخ پر اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ شیخ کے اس پیش کردہ نظریے میں تبدیلی کرنا صوفی ازم کا گناہ عظیم سمجھتے تھے  دوسرا نظریہ شیخ احمد سر ہندی نے 971ه میں پیش کیا اس کو وحدت الشہود کہتے ہیں ان کا ماننا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے قوائے عقلیہ اور کشفیہ کی دسترس سے بہت ہی بالا تر ہے شیخ کے نزدیک تصوف صرف تزکیہ اخلاق میں ہی مدد دیتا ہے وہ کہتے ہیں کہ صفات زائد علی الزات ہیں کشف سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ شہود ہی شہود ہے حقیقت نہیں ہے یعنی اللہ تعالیٰ ایسی تمام صفات سے جو ہمارے ادراک میں آسکیں  ، بالاتر ہے شیخ کے نزدیک معرفت کے معنی فقط یہ ہیں کہ بندہ جان لے کہ وہ اللہ کو نہیں جان سکتا اور تصوف و معرفت مقام عبدیت پر فائر ہونے کا زریعہ ہے  یہ دونوں نظریے افراط و تفریط کا شکار ہیں شیخ اکبر نے وحدت الوجود میں بندے کو ہی خدا قرار دے دیا اور شیخ احمد سرہندی نے اپنے مکاشفات کے تجربات جاہل صوفیاء کے ملحدانہ نظریات اور بادشاہ اکبر کے دین الٰہی کی فروعات کو ختم کرتے ہوئے نظریہ وحدت الشہود پیش کیا تصوف کا مکمل طور پر انکار تو نہ کیا لیکن اسے صرف تزکیہ ئے نفس تک محدود کردیا  تیسرا نظریہ میرے شیخ سر اسرارزات یاهو فنا فی هو حضرت سلطان العارفین رحمت اللہ تعالیٰ علیہ نے پیس فرما کر نظریہ وحدت کی تکمیل کی اورآپ نے تصوف کو فقر محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دیا اور اس کی بنیاد چار چیزوں پر رکھی
شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم
زکروفکراور تصور اسم اللہ
الہام حضوری حق تجلی انوار زات خدا
اور حضوری مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم
اس نظریے کو وحدت المقصود کہتے ہیں یعنی لا معبود الا هو -لا موجود الا هو- لا المقصود الا هو سلطان العارفین نے ہمہ اوست اور ہمہ از اوست کے دونوں نظریات وحدت کے بعد وحدت کا تکمیلی نظریہ پیش کیا ہے وحدت الوجود کے نظریہ کو اگر علم الیقین کہیں تو وحدت الشہود کا نام عین الیقین رکھنا مناسب ہو گا جبکہ وحدت المقصود حق الیقین کا نظریہ ہے اگر حضرت سلطان باہو رحمت اللہ علیہ کے پیش کردہ نظریے کا دوسرے دونوں نظریات سے موازنہ کیا جائے تو حضرت سلطان باہو رحمت اللہ علیہ وحدت الوجود کے قائل نہیں کیونکہ وحدت الوجود میں بندے کو ہی خدا کہا جاتا ہے جبکہ آپ رحمت اللہ تعالیٰ علیہ  اللہ تعالیٰ کو خالق اور بنی آدم اور دیگر ہر شے کو مخلوق سمجھتے ہیں آپ فرماتے ہیں
             تو نمی دانی کہ باهو با خدا است
کیا تو نہیں جانتا کہ باهو با خدا ہے یعنی اپنے اور زات خدا کے درمیان لفظ .ب. زکر فرماتے ہیں جو خالق اور مخلوق کے درمیان وسیلے اور رابطے کے لیے ہیں اور بندے اور خدا کے درمیان خالق اور مخلوق کے فرق کو  واضح کر رہی ہے آپ مزید فرماتے ہیں
           اگر بائے بشریت حائل نبودے باهو عین یا هو بودے
اگر بشریت کی با درمیان حائل نہ ہوتی تو باهو عین یا هو ہوتا نظریہ وحدت الوجود میں قولہ  تعالی و نفخت فیه من روحی ہم نے آدم علیہ السلام میں اپنی روح پھونک دی گویا آدم میں اللہ کی روح ہے اس لئے وہ خدا کا دوسرا روپ ہے
سلطان العارفین رحمت اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں نفس ،قلب،روح اور سر سب مخلوق ہیں کافر کی روح  کافر منافق کی روح منافق اور مومن کی مومن ہوتی ہے جبکہ وحدت الوجود کے قائل روح کے مخلوق ہونے کے قائل نہیں ہیں حضرت سلطان باہو رحمت اللہ تعالیٰ علیہ منصور حلاج کے متعلق فرماتے ہیں ایسے نعرہ لگانے والے ابھی خام ہوتے ہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا ہے نعرہ نہیں لگایا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بھی دعویٰ کیا ہے نعرہ نہیں لگایا  آپ مزید فرماتے ہیں کہ سلطان الفقراء پر پلک جھپکنے میں ستر ہزار جلوے انوار ذات کے جو نور ربوبیت کی تجلی سے سرشار ہوتے ہیں لیکن نہ تو وہ نعرہ مارتے ہیں اور نہ ہاوء ہو کرتے ہیں بلکہ هل من مزید    اور لایئے ......... پکارتے ہیں  آخر میں خان صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ جناب ! اگر واقعتاً آپ سلوک و معرفت سمجھنا چاہتے ہیں اور اپنی ذات کو عشق میں سمونا چاہتے ہیں تو بشریٰ بی بی کو خدا حافظ کریں اور حضرت سلطان باہو رحمت اللہ تعالیٰ علیہ کی کتابوں کا مطالعہ کریں کیونکہ آپ کا فرمان عالیشان ہے میری کتابیں بھی مرشد کامل کا درجہ رکھتی ہیں
از قلم محمدعرفان سلطانی
فاضل بهیره شریف

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں