اتوار، 4 فروری، 2018

کوئی تو اٹھے

مارننگ شوز کے گھٹیا ساحروں ،ناشائستاؤں ، اینکروں اور ان کے پروڈیوسروں نے  بےحیائی کی آگ بھڑکا کر میری زینبوں اور عاصماوں کو درندوں کا لقمہ بنا  ڈالا ہے
میری معصوم بیٹیوں کو غیر محفوظ کر دیا ہے 
غیرت مند نوجوانوں کی کوئی تنظیم ایسی نہیں جو میڈیا پر کوریج میں کمی کے خوف سے آزاد ہو کر ان بد بختوں کا پرامن اور قانون کےدائرے میں تعاقب کر سکے ؟
جیسے کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے؟ 
کوئی جو ان کے گھروں کے ایڈریسز تلاش کرے اور کچھ نہیں تو بیس پچیس پرامن عام معاشرے کے افراد جیسے مظاہرین کے ساتھ وہاں جا کر مظاہرہ کر دے
ان کے گھروں کے اطراف مہذب زبان میں چاکنگ کر دےے
اردگرد کے گھروں کی کنڈیاں کھٹکھٹا کر ان کو آگاہ کریں کہ آپ کے پڑوس میں کون ضمیر فروش رہتا ہے
ان کے فیس بک پیجز اور ٹوئیٹر اکاونٹس اور فون نمبرز پر ان سے احتجاج کریں 
فیس بک پر ان کے خلاف کرئیٹو آئیڈیاز کے ساتھ کمپئینز ڈیزائن کی جائیں 
کوئی مسلمان وکیل اٹھے اور آئین سے متصادم ان پروگرامات کا مقدمہ کسی جسٹس شوکت کی عدالت مین لے جائے
ڈاکٹرز کی کوئی تنظیم اٹھے اور علامتی اعلان کر دے کہ ان کا علاج نہیں کرین گے جب تک یہ معاشرے کو بیمار کرنے سے باز نہیں آ جاتے
پرائیویٹ اسکولز کا کوئی گروپ علامتی طور پر ہی صحیح ان کے بچوں کو داخلے نہ دینے کا اعلان کر دے
کوئی ان کی تصویروں کے ساتھ Fix it جیسی مہم چلا دے
کوئی ان کے کچرے جیسے کاموں پر رد عمل میں کچرہ کنڈیوں پر ان کی تصویریں ٹانگ دے 
اور بہت کچھ جو آپ کے دماغ کی رسائی میں آئے کرگزریں 
واللہ یہ بہت بز دل لوگ ہیں ان سے ان کے اداروں کے صحافی اور عام کارکن تک نالاں ہوتے ہیں یہ بمشکل  ایک درجن گھٹیا بیمار زہنیت کے لوگ ہیں جو پورے معاشرے کو مریض بنانے کے بعد بیرون ملک چلے جائیں گے 
کوئی تو ُاٹھے 
کوئی پریشر گروپ بنائے 
قانونی طریقہ اختیار کرے 
پرامن ،مہذب ،باوقار پڑھے لکھے لوگوں کو ساتھ ملائے اور غلاظت کے طوفان کے سامنے مزاحمت کی دیوار چین کھڑی کر دے اور آقا ص کی حوض کوثر پر محبت بھری مسکراہٹ کا حقدار بن جائے۔۔۔
ہے کوئی؟
کوئی ہے؟
یا ہم سب بس تبصروں پر ہی گزارا کرنا چاہتے ہیں؟

خود کلامی۔۔۔زبیر منصوری
(میں الحمد للہ اپنے حصہ کے کام کر نے کی کوشش کر رہاہوں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں