ہفتہ، 24 فروری، 2018

بینک فراڈ کا نیا طریقہ، احتیاط کریں

بینک فراڈ
------
ہمارے ہاں چند ماہ سے ایک نیا کام شروع ہوا ہے۔ کسی موبائل نمبر سے کال آتی ہے اور وہ شخص خود کو حبیب بینک کا نمائندہ ظاہر کرتا ہے اور بینک کے اکاؤنٹ کی تفصیلات پوچھتا ہے۔ چونکہ ہمارے سیلری اکاؤنٹ حبیب بینک میں ہیں اس لئے لوگ اعتبار کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی ہچکچاِئے تو اسے بظاہر بینک کے ٹول فری نمبر سے کال آتی ہے اور بندہ اعتبار کر کے اکاؤنٹ کی تفصیل بتا بیٹھتا ہے۔ چند منٹوں میں ہی اکاؤنٹ خالی ہو جاتاہے۔
:
ہمارے ایک دوست کو ایسی کال آئی ۔ اس جعلی نمائندے نے کہا کہ وہ بینک کی طرف سے بول رہا ہے اور بینک میں ہیکنگ کی واردات کی وجہ سے وہ اکاؤنٹس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ جن کی تصدیق نہیں ہو پائے گی ان کا اکاؤنٹ بند کر دیا جائے گا۔ہمارے دوست سمجھ دار تھے انہوں نے تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔ کال کے دوران ہی ان کے موبائل پر بینک کے ٹول فری نمبر سے کال آ گئی اور اُن صاحب نے اس کا حوالہ دیکر بھی پوچھا لیکن ہمارے دوست نے پھر بھی تفصیلات نہیں بتائیں۔ فون رکھنے پر کچھ ہی دیر میں بینک کے ٹول فری نمبر سے کال آئی اور بینک کی طرف سے کہا گیا کہ وہ کالز کے اژدہام کی وجہ سے ٹول فری نمبر مصروف نہیں رکھ سکتے اس لئے موبائل پہ موجود ان کے نمائندے کو اکاؤنٹ کی تصدیق کر دی جائے۔ اللہ کو کوئی بہتری منظور تھی انہوں نے موبائل پہ کسی بھی حال میں کوئی بھی معلومات شئیر کرنے سے انکار کر دیا۔ جب بینک کی مقامی شاخ سے رجوع کیا تو بینک والوں نے بتایا کہ دوتین اور حضرات اپنی معلومات فون پہ شئیر کرا کے پیسوں کا نقصان کروا چکے ہیں۔
:
ہمارے ایک دوسرے دوست جو لٹ گئے ان کو کال اس وقت آئی جب وہ گاڑی میں کہیں جا رہے تھے۔ موبائل فون والے شخص نے اپنا تعارف آئی ایس آئی کے نمائندے کے طور پر کرایا اور یہ بتا کر ان کا تراہ نکال دیا کہ ان کے نام سے سات لاکھ روپے کا ایک موبائل فون اکاؤنٹ سوات کے علاقے میں پکڑا گیا ہے۔ کچھ حالات کی سنجیدگی کا احساس دلایا کچھ ڈرایا تو ہمارے دوست نے گاڑی سائیڈ پہ لگا کر اپنا آئی ڈی نمبر، والدہ کا نام، بینک اکاؤنٹ نمبر، آن لائن اکاؤنٹ کا آئی ڈی اور پاسورڈ وغیرہ سب کچھ بتا دیا۔ ابھی فون بند ہی کیا تھا کہ پیسوں کے کسی اور اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کا ایس ایم ایس آ گیا۔
:
اتفاق سے ہمارے یہ دوست اپنے تعلقات کی بنیاد پر ایف آئی اے تک پہنچ گئے۔ ایف آئی اے نے اُس نامعلوم شخص کے موبائل نمبر کو ٹریس کیا تو پتہ چلا کہ راولپنڈی میں ایک ریٹائرڈ میجر صاحب یہ سارا ریکٹ چلا رہے ہیں۔ ایف آئی اے والوں نے بتایا کہ کوئی بہتر تہتر لاکھ اسی طرح مختصر عرصے میں لوٹے جا چکے ہیں۔ ہمارے دوست کو نہ پیسے ملے اور نہ ہی وہ فراڈ یا پکڑا گیا۔ ان کے اکاؤنٹ سے پیسے کسی موبائل نمبر پہ بھی بھیجے گئے تھے۔ سم کے ایڈریس کا پتہ کیا تو اس پہ گلی نمبرفلاں ، پتوکی، سیالکوٹ لکھا ہوا تھا۔ ظاہر ہے ایسے ایڈریس پہ کون پہنچ سکتا تھا۔
:
بینک کا ٹول فری نمبر چیک کیا جس سے کال آئی تھی تو پتہ چلا کہ ماسکنگ کے ذریعے بینک کے ٹول فری نمبر کا جھانسہ دیا گیا ہے۔ مثلاً حبیب بینک کا ٹول فری نمبر ہے
  111111425 
 لیکن فون پہ کال پہ نمبر ظاہر ہو رہا ہو گا
+111111425
اسی سے پتہ چل جاتا ہے کہ نمبر کی ماسکنگ کی گئی ہے۔ اصل نمبر کوئی اور ہے۔
:
 ہمارےدو تین اور دوست لاکھوں روپے گنوا بیٹھے۔ ایک بیچارہ سیکورٹی گارڈ جو سابق فوجی بھی ہے دو لاکھ روپے سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
:
ہماری تمام جاننے والوں سے درخواست ہے کہ فون پہ چاہے صدرِ پاکستان ہی آپ سے آپ کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیل کیوں نہ پوچھے، اسے کچھ مت بتائیں۔ صاف انکار کر دیں۔ اس لئے بھی احتیاط کریں کہ اپنا پاسورڈ بتانے کی وجہ سے آپ کے اکاؤنٹ سے پیسے نکل گئے تو اس کا ذمہ کوئی نہیں لے گا۔ اس کی انشورنس بھی نہیں ہوتی۔ سمجھیں نقصان ہو گیا تو ہو گیا۔
کوئی مسئلہ ہو تو بینک کی برانچ سے رجوع کریں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں