کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟؟؟
ساس، بہو، نند، سسرال، گھر گھر کی کہانی
بہو بیچاری صبح 5 بجے اُٹھتی ہے، شوہر کو ناشتہ دے کر رخصت کرتی ہے، کچھ دیر کے بعد اپنے بچوں کو اُٹھاتی ہے، ان کے منہ ہاتھ دھلا کر ناشتے کی ٹیبل پر انہیں اکٹھا کرتی ہے، جو بچہ آہستہ کھانا کھاتا ہے اُسکے منہ میں خود نوالہ ڈالتی ہے، جلدی جلدی اُنکے ٹفن تیار کر کے لاتی ہے اور بچوں کو سکول بس میں سوار کرتی ہے، پھر ساس سسر کیلئے الگ سے پرہیزی ناشتہ تیار کرتی ہے، اُن کے کھانے کے بعد اُن کے جوٹھے برتن اُٹھا کر کچن میں جاتی ہے اور خود کچن کے فرش پر بیٹھ کے بچوں کے چھوڑے ہوئے پراٹھوں، بریڈ کے ٹکڑوں اور بچی ہوئی چائے سے ناشتہ کر کے فارغ ہوتی ہے۔ اور بارہ ساڑے بارہ بجے تک سارے گھر کی صفائی ستھرائی اور برتن شرتن دھو کے ابھی اپنے کمرے میں جاتی ہے کہ اُسکی نند خواب خرگوش کے مزے لینے کے بعد ایک بے تکلف انگڑائی لیتی ہے اور باہر آ کر اپنی ماں کو "Good Afternoon" کہتی ہے۔
اتنے میں ہمسائے کی کچھ عورتیں گھر میں آتی ہیں تو وہ کیا دیکھتی ہیں کہ لاپرواہ بہو سو رہی ہے جبکہ نند بیچاری چولہے پر چائے بنا رہی ہے، وہ آکر ساس سے پوچھتی ہیں، "ماشاء اللہ! آپکی بیٹی تو شادی سے پہلے ہی بہت سگھڑ ہو گئی ہے، دیکھو پورا گھر صاف ستھرا کر دیا ہے اور ایک آپ کی بہو ہے دیکھو اُسے کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔۔۔!" اور اتنے میں بیٹی اُن عورتوں کیلئے ٹرے میں چائے لاتی ہے تو وہ ہمسائی عورتیں بڑھ کے اُس سے ٹرے تھام لیتی ہیں، اور کہتی ہیں، "بیٹی! بیٹھ جاؤ، کیوں چائے بنانے کا تکلف کیا، تم تو پہلے ہی گھر کے سارے کام کر کے تھک چکی ہو۔
یہ سب سننے اور دیکھنے کے بعد ساس کی زبان پر تالہ اور چہرے پر منافقانہ ہنسی آتی ہے، اور وہ چپ رہ کر بھی اپنی بیٹی کی حمایت کر جاتی ہے اور دوسرے کمرے میں جو اُس کی بہو بیچاری تھک ہار کے لیٹی ہوتی ہے اُس بیچاری کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ اُسکی ساری محنت کا کریڈٹ کوئی اور لے گئی ہے۔ یہ صرف ایک ساس، بہو اور نند کی بات نہیں ہے بحیثیت مجموعی ہمارے ہاں ہر گھر کی یہی کہانی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں