جمعرات، 1 مارچ، 2018

احد چیمہ کی گرفتاری

*احد چیمہ کی گرفتاری* ۔ 

نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد اس بدمعاش راشی افسر کی گرفتاری نے پاکستان ہلا کہ رکھ دیا ہے ۔ کل ایک نیوجرسی میں مقیم پاکستانی نے میری فیس بک پر احد کی گرفتاری کی تصویر دیکھ کر خاص طور پر میرے سے ملاقات کا وقت مانگا اور ہم دونوں لنچ پر ملے ۔ احد چیمہ کا خاندان لاہور میں پہلے اُن کا کرایہ دار اور بعد میں سات مرلہ گھر میں ہمسایہ رہا ۔ اس نے بتایا کہ کیسے یہ نکر پہن کر بچوں کے ساتھ محلہ میں کھیلتا تھا اور جب اس کے والد کا انتقال ہو گیا تو اس کی والدہ نے ان تین بچوں کی پرورش کی ۔ اس نے مزید کہا کہ وہ بتا نہیں سکتا کہ اس کی والدہ جتنی نیک خاتون تھیں ۔ ان کو کبھی ہم نے خاوند کی وفات کے بعد بھی باہر نہیں دیکھا ۔ اور یہ بچہ تو کوئ حرامزادہ نکلا۔ 
میں نے اسے سمجھایا کہ یہ قدرت کا نظام ہے ہر ایک کو ڈھیل ملتی ہے ۔ 
پاکستان میں یہ واقعہ اس لیے اتنا بڑا لگتا ہے کہ اب ان افسروں نے بھی مافیا کی صورت میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ کل کمشنروں اور سیکریٹریوں کا اجلاس ہوا کہ پنجاب پولیس ڈی جی نیب پنجاب اور چیئرمین نیب کو گرفتار کرے ۔ کمال ہے ۔ 
میں نے تین سال نیب پنجاب میں نوکری کی افسروں کی نیب داخلہ پر پتلونیں ڈھیلی ہوتی دیکھیں۔ نیب پنجاب کے پہلے ڈی جی جنرل صابر نے پنجاب کی بیوریکریسی کو چھوڑ کر بہت بڑا ظلم کیا وہ بنیادی طور پر کمزور اعصاب کا مالک تھا۔ ایک دن میں اُن کے پاس بیٹھا تھا تو راؤ شکیل اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ملتان کے کیس افسر نے اس کی گرفتاری کی اجازت مانگی تو جنرل صاحب فرمانے لگے آپ کیس بنائیں گرفتاری رہنے دیں بہت سارے جرنیل بشمول کور کمانڈر ملتان اس کے سفارشی ہیں ۔ اور وہی راؤ شکیل پھر دس سال بعد حج سکینڈل میں گرفتار ہوا اور پچھلے دنوں عدالت سے بری ہو کر پھر دندناتا پھر رہا ہے۔ یہ تھا اب تک کا عدالتی اور احتسابی نظام ۔ 
پھر ایک دم چیزوں نے پلٹا کھایا، قربان جائیں اُس پانچ رکنی بینچ پر جس نے ہمت پکڑی اور غنڈوں کے سرغنہ نواز شریف کو پکڑا جس سے باقی ججوں خاص طور پر چیف جسٹس کی ہمت بندھی اور معملات یکسر بدل گئے ۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے تو کمال کر دی ، مردہ نیب کو زندہ کر دیا ۔ ۷۰ سالہ ریٹائرڈ جج ایک حاضر سروس جنرل سے نمبر لے گیا۔ 
میں کوئ لگ بھگ ۲۰ سال اسی افسر شاہی کا حصہ رہا اور اس کے اندر موجود مافیا کا شدید دشمن ۔ کُھل کر اُن سب سے لڑائ کی ۔ میں بہت وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان کو کسی ایک ادارے نے اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے تو وہ یہ بیوریوکریسی ہے ۔ انہوں نے اپنے زاتی مفادات کی خاطر ملک کا مستقبل داؤ پر لگایا اور اس کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ۔ بہت سارے جرنلسٹ میری اس جدوجہد کے گواہ رہے ہیں جن میں میک لودھی ، اشرف میلکم ، انصار عباسی ، انور سمرا، اسد کھرل، میاں غفار، میاں افضل ، رحمت علی راضی وغیرہ ۔ میں نظام کے خلاف لڑ رہا تھا لہٰزا ہارنا تھا ہار گیا۔ 
پاکستان میں آئین کے مطابق ریاست کے امور بیویوکریسی چلاتی ہے ، اسی لیے لکھا جاتا ہے سیکریٹری ٹو گورنمنٹ آف پاکستان یا پنجاب ، نہ کہ سیاستدان ۔ جیسے کہ میرے دوست سیکریٹری داخلہ نیب کی سفارش پر نواز شریف کو ای سی ایل پر ڈالنے کے مجاز تھے ، لیکن کیونکہ وہ اس کرپٹ نظام کے بیمیفیشری ہیں انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔
ایک وزیر، ایم پی اے یا ایم این اے کہ ہاتھ میں کچھ نہیں ۔ ہاں ڈیو لوشن پلان میں ناظم کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ ضرور تھا ۔ کیا ویسے حیرت کی بات ہے ، ایک امتحان رٹہ لگا کر پاس کرنے کے بعد آپ کو ایک دم اتنے اختیارات مل جاتے ہیں ، کہ بس پھر بندہ کو بندہ نہ سمجھو ، ڈاکٹروں کو ٹھُڈے مارو ، استادوں کی تزلیل کرو ۔ پیسہ بناؤ اور موج میلہ کی زندگی بسر کرو۔ میرا ہمیشہ دعوی رہا ہے کہ اگر کوئ پنجاب کا سیکریٹری اسکول صیحیح شرح خواندگی یا اسکولوں کی پنجاب میں تعداد بتا دے تو آپ میرا نام بدل دیں ۔ آج کل ایک UNESCO Confucius Laureate PhD اسکولوں کا سیکریٹری ہے ۔ موصوف اپنے بیچ میٹز سے بات کرنے کو تیار نہیں ۔ پچھلے دنوں یہاں امریکہ میں ایک پاکستانی نے مجھ سے اُن کی بابت جائز معاملہ میں معاونت کے لیے کہا اور اُن کا واٹزایپ بھی دیا ، مجال ہے میرے ایک میسیج کا بھی جواب دیا ہو ۔ یہ خدا بنے ہوئے ہیں ۔ پنجاب کے اضلاع میں زرا اسکولوں کی حالت زار دیکھیں ۔ پھر حل یہ دیتے ہیں کہ پرائیوٹ سیکٹر کو دے دیں یہ سارے اسکول ، تو آپ کا پھر حکومت نے اچار ڈالنا ہے ؟
میں ینگ ڈاکٹروں کا بہت بڑا ہمایتی ہوں ۔ کس طرح وہ بیچارے دن رات ایک کر کے پہلے ڈاکٹر بنتے ہیں اور پھر ۲۴ گھنٹے ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں ۔ ان پر بھی افسر شاہی نے ڈنڈے برسائے ، چیف جسٹس نے ٹھیک کہا کہ ان کا ڈرائیور ایک ینگ ڈاکٹر سے زیادہ تنخواہ لیتا ہے ۔ 
اپاہج غلام محمد سے لے کر غلام اسحاق تک اور فتح خان بندیال سے لے کر فواد حسن فواد تک ان غنڈے لٹیرے بابؤں نے دن دیہاڑے اس ملک کی تجوری پر ڈاکے ڈالے اور کسی نے ان کو نہیں پکڑا۔ ان افسروں کی مجرمانہ خیانت نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ۔ کروڑوں پاکستانی آج اِن درندوں کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے ننگ ، بھوک ، افلاس اور زلت کی موت مر رہے ہیں ۔ آج میں پاکستان ہوتا تو اس افسر شاہی کے خلاف سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر احتجاج کرتا ۔ ان کو کیسے جرات ہوئ کہ پکڑے جانے پر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ؟ 
دُکھ ہوتا ہے کہ آج چیزیں کس نہج پر پہنچ گئ ہیں ۔ ایک جرمن سی ای او ، پی آئ اے کا جہاز بغل میں ڈال کے لے گیا ۔ معیشت تباہ کر دی ان لوگوں نے ۔ اندازہ لگائیں کہ صرف میٹرو پنڈی سے موجودہ چیف سیکریٹری پنجاب نے ۵ ارب روپیہ ہتھیایا ، اسی لیے تو وہ احد چیمہ کی گرفتاری پر سیخ پا ہے اور ٹریڈ یونین بنا رہا ہے۔ 
یہ قدرت کی پکڑ ہے ۔ پاکستان رہے گا انشاءاللہ ، یہ بے غیرت بابو زمیں بوس ہو جائیں گے ۔ ان کو تو چوکوں میں پھانسیاں دینی چاہیے ۔ سیاستدان نے تو صرف ان سے بچا ہوا مال کھایا۔ 
اللہ پاکستان کو ان درندوں سے نجات دلوائے ۔ آمین 
نزر محمد چوہان 
نیوجرسی / امریکہ 
فروری ۲۳، ۲۰۱۸

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں