جمعرات، 1 مارچ، 2018

دینی مدارس کی امداد

( احباب لازمی ملاحظہ فرمائیں)
مدارس کی سرکاری امداد پہ دوست کہ تبصرہ کا مثبت جواب۔۔۔۔۔۔۔
منافقت اور طالبانایزیشن کا لائسنس دینے والے دوست سے عرض ہے کہ آپ کی لبرل ازم کی فیکٹریوں سے نکلنے والے گند نے ہی دنیا کو اس دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔۔مغربی آقاؤں کو خوش کرنےکے لئےہماری تعلیم سے مذہب اور اخلاقیات کو مکھی کی طرح نکال کہ نام نہاد modernism اور انگریزی تعلیم کو پروان چڑھایا اور پھر ہم قرآن سے نکل کر دوسری اقوام کے ذہنی غلام بن کر frustration کاشکار ہوتے گۓ۔۔۔۔ اور قرآن کی تعلیم کو مدارس تک محدود کر کہ ملائیت کو فروغ دیا۔۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ایک امام اور مٶذن کی سرکاری تنخواہ 3 ہزار اور یونیورسٹی کے پروفیسر کی تنخواہ 3 لاکھ ہے۔پھر ہم اپنے ہی کمزور بچوں کو مدارس میں بھیجتے رہے جہاں بدقسمتی سے ریاستی سرپرستی کی بجاۓ ہر ملا کی اپنی سوچ پروان چڑھتی رہی۔۔اور پھر انھی بچوں کو ہم نے جہاد کے نام پہ افغان جنگ میں جھونک کر ظلم کے پہاڑ گراۓ۔۔۔پھر جب دل بھر گیا تو ہم نے ان پہ بموں سے بوچھاڑ کر کہ انکی نسلوں کو دہشتی گردی کا لیبل لگا کہ چھوڑ دیا۔۔اور آج ہم ٹائم پاس کرنے کیلئے انھیں بچوں کو دہشت گرد کا لیبل لگا کہ چسکے بھی لیتے ہیں اور مداوا بھی نہیں کرتے۔۔۔خدارا یہ قوم کے بچے ہیں انھیں آج بھی وہی اوقات دے دی جاۓ جو ایچی سن اور GC کے فارغ التحصیل طلبا کی ہے تو یہ قوم دہشتی گردی سے بچ جاۓ گی۔۔۔عمران خان مدارس کو سنبھالنے اور انکے بچوں کو ملک و قوم کے فرزندان سمجھنے پہ آپکو تہه دل سے سلام پیش کرتا ہوں۔۔تمام مکاتب فکر کے مدارس اور انکے بچوں کو وہی حق حاصل ہے جو اس ملک کے نام نہاد ارسطووں اور افلاطونوں کو ہے۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں