جمعہ، 29 اپریل، 2022

جمعہ کی مبارکباد کے حوالے سے اختلاف رائے

جمعہ کی مبارکباد کہنے کے حوالے سے اختلاف رائے


جمعہ کی مبارکباد کے حوالے سے دو مختلف تحریریں سوشل میڈیا پر اکثر پڑھنے کو ملتی ہیں۔

پہلی تحریر یہ ہے:

*جُمعہ مُبارک کہنے کی بِدعت* 

 *تحریر مولانا مفتی تقی عثمانی* 


 آج سے 50 سال بعد نئی نسل میں جُمعہ کی مُبارک دینا ایک لازمی قسم کا رواج بن چُکا ہو گا۔

اور مزید پچاس ساٹھ سال میں اِسے ایک سُنت یا فریضےکےطور جانا جاٸے گا۔

اُسوقت جو لوگوں کو بتائے گا کہ یومِ جُمعہ کی مُبارکباد دینا نہ تو سُنت ہے نہ فرض، بلکہ اُسے ایسا سمجھنا بِدعت ہے، کیونکہ ایسا کرنا قرآن و حدیث اور صحابہ سے ثابت نہیں ہے،

 تو لوگ اُس سے کہیں گے تُم عجیب باتیں کر رہے ہو، ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے اور اُنکے عُلماء بھی اُنکو منع نہیں کرتے تھے تو تُم اُن عُلماء سے زیادہ علم رکھتے ہو ؟ 

بلکہ تُم نئی بات کر رہے ہو،، 

وہ شخص اُس دور کا وہابی کہلائے گا اور بزرگوں کا گستاخ ٹھہرے گا حالانکہ حق پر ہو گا ہماری آنکھوں کے سامنے سوشل میڈیا کی اِیجاد کے بعد پروان چڑھنے والی اَن گنت ایسی بِدعات اور خُود ساختہ خرافات اور موضوعات کی حوصلہ شکنی کیجیے اور اپنے آپ کو اور آئندہ نسل کو بِدعات سے بچائیے

 اگر یومِ جُمعہ کی مُبارک دینا مستحسن کام ہوتا تو رَسُول اَللہ صَلّ اَللہ عَلیّہ وَآلہِ وَسَّلِم ضرور بہ ضرور اِسکا حُکم دیتے اور صحابہ کرام اُسے ضُرور اپناتے کیونکہ وہ دین کی سمجھ اور نیک عمل کی محبت میں یقیناً ہم سے آگے تھے۔


 *وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ.* 

اور ہماری ذمہ داری اِس سے زیادہ نہیں ہے کہ صاف صاف پیغام پہنچا دیں۔


دوسری تحریر یہ ہے جو جواب میں بھیجی جاتی ہے۔


 جمعہ کےدن کی مبارک باد دینا بالکل جائز ہے کیونکہ: 

پہلی بات تو یہ کہ شریعت نے اس سے منع نہیں کیا اور جس کام سے شریعت منع نہ کرے وہ بالکل جائز ہوتا ہے, 

جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے:👇 

*("اَلْحَلاَلُ مَااَحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَالْحَرَامُ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَمَاسَکَتَ عَنْہُ فَھُوَمِمَّاعَفَاعَنْہٗ")* 

یعنی حلال وہ ہے جسے اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی اختیار فرمائی (یعنی منع نہ فرمایا) وہ معاف ہے 

(یعنی اس کے کرنے پر کوئی گناہ نہیں)۔ 

*📕{جامع ترمذی ابواب اللباس باب ماجاءفی لبس الفراء ،سنن 

*🖋دوسری بات👇* 

 جمعہ کا دن ہمارے لیۓ مبارک اور اچھا ہے اور مبارک و اچھی بات کی مبارک باد دینا، اس کی اصل صحیح حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے چنانچہ: 

"معراج کی رات جب نبی پاک ﷺکا گزر آسمانوں سے ہوا تو انبیاءکرام علیٰ نبیناوعليهم الصلاة والسلام نے آپ ﷺ کو معراج پر مبارک باد پیش کی۔👇  

*{کمافی کتب الاحادیث مشھور}*

لہذاثابت ہوا کہ جمعہ کے دن کی مبارک باد دینا بالکل درست وجائز ہے. 

*واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وﷺ*

جمعہ کی مبارک باد کے حوالے سے کچھ باتیں جو سمجھنے اور یاد رکھنے کی ہیں:

بدعت کی تعریف اور اقسام:

جمعہ کی مبارکباد کو بدعت کہنے والوں کے نزدیک بدعت کچھ یوں ہے:
بدعت شرعی کی دو قسمیں ہیں ایک بدعتِ اعتقادی اور دوسری بدعتِ عملی، اعتقادی بدعت یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ ایسے عقائد ونظریات اختیار کرے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کے عقائد کے خلاف ہوں جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ، حاضر وناظر اورمختار کل ہیں، اسی طرح شیعہ خوارج معتزلہ قدریہ اور جبریہ وغیرہ گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ یہ سب اعتقادی بدعات ہیں اور یہ سب فرقے شرعی اصطلاح میں اہل بدعت ہیں، اصولِ حدیث کی کتابوں میں ان کے لیے یہی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، اور عملی بدعت یہ ہے کہ عقیدہ تو درست ہو اور ایسے اعمال اختیار کرے کہ جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین سے منقول نہیں ہیں جیسے مزاروں (قبروں) کو پختہ بنانا ان پر گنبد تعمیر کرنا اور قبروں پر چراغ روشن کرنا وغیرہ“۔ (محاضرہٴ علمیہ ص۳۱، جز نمبر۲)
جائز کہنے والوں کے حوالے سے بدعت کچھ ایسی ہے:

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: مَنْ اَحْدَثَ فِيْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ یعنی جس نے ہمارے اس دین میں ایسا طریقہ ایجاد کیا جس کا تعلّق دین سے نہیں ہےتو وہ مَرْدُود ہے۔(بخاری،ج2،ص211،حدیث:2697)
 ہر وہ نیا کام کہ جس کو عبادت سمجھا  جائے حالانکہ وہ شریعتِ مطہّرہ کے اُصولوں سے ٹکرا رہا  ہو یا کسی سنّت، حدیث کے مخالف ہو تو وہ کام مَرْدُود (یعنی قبول نہ ہونے والا) اور محض باطل ہے۔البتہ اس میں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ جو چیز شریعت کے دلائل سے ثابت ہو یا دینِ اسلام کے اُصولوں کے خلاف نہ ہو، تو وہ مَردُود نہیں اور نہ اس حدیث کے تحت داخل ہے، چنانچہ  علّامہ عبدُ الرَّؤوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1031ھ) اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: ”اما ما عضده عاضد منه بان شهد له من ادلة الشرع او قواعده فليس برد بل مقبول كبناء نحو ربط و مدارس وتصنيف علم وغيرها“ ترجمہ: جو چیز دین کے لئے  مددگار ہواورہوبھی کسی دینی قانون وضابطےکےتحت، وہ مَردُود نہیں ہے، بلکہ وہ مقبول ہے، جیسا کہ سرحدوں کی حفاظت کے لئے قلعے بنانا، مدارس قائم کرنا اور علم کی تصنیف کا کام کرنا وغیرہ وغیرہ۔(فیض القدیر ،ج 6،ص47،تحت الحدیث:8333)

بنیادی طور پر بدعت کی دو قسمیں ہیں : (1) بدعتِ حسنہ: ایسا نیا کام جو قراٰن و حدیث کے مخالف نہ ہو اور مسلمان اسے اچھا جانتے ہوں، تو وہ کام مَردُود اور باطِل نہیں ہوتا۔ مثلاً: اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے قلعے بنانا، مدارس قائم کرنا اور عِلمی کام کی تصنیف کرنا وغیرہ وغیرہ  (2)بدعتِ سَیِّئَہ: دین میں ایسا نیا کام کہ جو قراٰن و حدیث سے ٹکراتا ہو۔ مذکورہ بالا حدیثِ پاک میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ مثلاً:اُردو میں خُطْبہ دینا یا اُردو میں اذان دینا وغیرہ، جیسا کہ بدعت کی تقسیم کرتے ہوئے علّامہ بَدْرُ الدِّین عینی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 855ھ) فرماتے ہیں:ثم البدعۃ علی نوعین: ان کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی مستقبحۃ‘‘ ترجمہ: بدعت کی دو قسمیں ہیں: (1)اگر وہ شریعت میں کسی اچھے کام کے تحت ہو، تو بدعتِ حسنہ ہوگی۔ (2)اگر شریعت میں کسی قبیح امر (بُرے کام) کے تحت ہو، تو بدعتِ قَبیحہ یعنی سیئہ ہو گی۔ (عمدۃ القاری،ج 8،ص245، تحت الحدیث:2010) جبکہ علّامہ ابنِ حَجر عَسْقَلانیرحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 852ھ) فرماتے ہیں: ”قال الشافعی البدعۃ بدعتان محمودۃ ومذمومۃ فما وافق السنۃ فھو محمودۃ وما خالفھا فھو مذموم ترجمہ:امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:بدعت دو اقسام پرمشتمل ہے: (1)بدعتِ محمودہ یعنی حَسَنہ اور (2)بدعتِ مَذْمُومہ یعنی سَیِّئہ۔جو سنّت کے موافق ہو، وہ بدعتِ محمودہ (جس کی تعریف ہویعنی اچھی) اور جو سنّت کے خلاف ہو، وہ بدعتِ مَذْمومہ(جس کی مذمت کی جائے یعنی بُری) ہے۔(فتح الباری،ج14،ص216،تحت الحدیث:7277)

بدعت کی یہی دو قسمیں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےاس فرمان سے بھی ماخوذ ہیں: ’’مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَایَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ عَلَیْہِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَا یَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْءٌ“ ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا کام جاری  کیا اور اُس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کی طرح اَجْر ملے گا اورعمل کرنے والوں  کے اَجْر و ثواب میں بھی  کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ نکالااور اُس کے بعد اُس پرعمل کیا گیا تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کی مانند گناہ   ملے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہ کی جائے گی۔( مسلم،ص394،حدیث:2351)

بدعتِ سیّئہ کی ایک پہچان

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّممَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَۃً فِی دِیْنِھِمْ اِلَّا نَزَعَ اللہُ مِنْ سُنَّتِھِمْ مِثْلَھَا‘‘ ترجمہ:کوئی قوم کسی بدعت کو ایجاد کرے، تو اللہ پاک اس کی مثل سنت کو اٹھا دیتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ج1،ص56،حدیث:188) مُحدّثِ کبیر حضرت علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1014ھ) اس حدیثِ پاک میں مذکور لفظ ’’بدعت‘‘ کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’ای سیئۃ مزاحمۃ لسنۃ‘‘ ترجمہ: یعنی اس سے مراد بدعت سیئہ (بُری)ہے جو کسی سنّت کے مخالف ہو۔(مرقاۃ المفاتیح،ج1،ص433،تحت الحدیث:188)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ  علیہ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ”لَیسَ مِنہُ“ کی شَرْح میں فرماتے ہیں:  ”لَیسَ مِنہُ سے مراد قرآن و حدیث کے مخالف، یعنی جو کوئی دین میں ایسے عمل ایجاد کرے جو دین یعنی کتاب و سنّت کے مخالف ہوں جس سے سنّت اُٹھ جاتی ہو وہ ایجاد کرنے والا بھی مَرْدُود ایسے عمل بھی باطل جیسے اُردو میں خطبہ و نماز پڑھنا، فارسی میں اذان دینا وغیرہ۔ “(مراٰۃ المناجیح ،ج1،ص146)

بدعتِ حسنہ کی چند مثالیں

ایسا اچھا نیا کام جو شریعت سے ٹکراتا نہیں ہے، اس کی بہت ساری مثالیں ہیں، جن میں سے پانچ یہ ہیں: (1)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قراٰن  پاک کو ایک جگہ جمع کروایا اور اس کی تکمیل حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوئی (2) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت شروع کروائی (3) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں جمعہ کی اذانِ ثانی شروع ہوئی (4) قراٰنِ پاک میں نقطے اور اِعراب حجاج بن یوسف کے دور میں لگائے گئے۔ (5)مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کے لئے محراب ولید مَرْوانی کے دور میں سیّدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے ایجاد کی تھی۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے ایسے کام ہیں، جو نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دورِ مبارک میں نہیں تھے، بعد میں ایجاد ہوئے، تو یہ سارے کے سارے کام کیا مَرْدُود اور باطل ہیں؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔

سنت اور بدعت کے علاوہ شرعی احکامات میں ایک تیسرا حکم مباح بھی ہے۔ جائز کا لفظ عموما مباح کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ اگر جمعہ کی مبارکباد کو اس نظر سے دیکھا جا تو معاملہ عدم برداشت کی طرف نہیں جاتا۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مباحات میں تشدد جائز نہیں یعنی اختیار کرنے والے کو بزور قوت روکنا اور نہ کرنے والے کو بزور قوت منع کرنا، دونوں غلط ہیں۔ مباح کو لازم سمجھنا کسی وقت سنت کے ترک کا باعث بن سکتا ہے جو بدعت کے زمرہ میں آتا ہے۔ لہذا مباح امور میں بحث سے پرہیز بہتر ہے۔

مباح:

جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اسے لغت میں مباح کہتے ہیں، جیسا کہ کہا گیا ہے :

ولقد أبحنــا ما حميـت ولا مبيح لما حمينا

ترجمہ: یقیناً ہم نے اس کو حلال (مباح)کرلیا جس کی حفاظت کرنے کی تو نے کوشش کی اور جس کی ہم حفاظت کریں اس کو کوئی حلا ل نہیں کرسکتا۔

اصطلاح میں ہر اس خطاب کو مباح کہتے ہیں جس میں کام کرنے یا چھوڑنے کے درمیان اختیار ہو، لہٰذا نہ تو کام کرنے پر کوئی ثواب ہواور نہ چھوڑنے پر کوئی گناہ ہو، جیسا کہ کھانا، پینا، سونا،ٹھنڈک حاصل کرنے کےلیے نہانا۔

ایسا اس وقت تک ہوتا ہے جب تک اس میں نیت کو دخل نہ دیا جائے لیکن اگر مباح کام کرتے وقت نیکی کی نیت کرلی جائے تو اس کا اجر ضرور ملے گا۔


جمعہ کے دن کیے جانے والے مسنون و مستحب اعمال (سنت اور مستحب)

جمعہ کے دن درج ذیل امور مسنون ومستحب ہیں:

(۱)غسل کرنا۔(۲)مسواک کرنا۔(۳)خوشبو لگانا۔( ۴)عمدہ لباس پہننا۔( ۵)تیل لگانا۔ فا لمستحب فی یوم الجمعة لمن یحضر الجمعة ان یدہن ویمس طیبا ویلبس احسن ثیابہ ان کان عندہ ذالک ویغتسل ،لان الجمعة من اعظم شعائر الاسلام،فیستحب ان یکون المقیم لہا علی احسن وصف(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع: ۱ / ۴۰۶) ( ۶)نماز فجر میں امام کا سورہ سجدہ اور سورہ دہر کی تلاوت کرنا-(۷)نماز جمعہ کے لئے پیدل جانا-(۸)جمعہ کے لئے مسجد میں جلدی جانا-(۹)امام کے قریب بیٹھنا-(۱۰)جمعہ کے خطبے کو خاموشی کے ساتھ سننا-(۱۱)نماز جمعہ میں امام صاحب کا سورہ اعلی اور سورہ غاشیہ یاسورہ جمعہ اور سورہ منافقین کی تلاوت کرنا۔ عن ابن عباس انہ قال :"سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقرأ فی صلاة الجمعة فی الرکعة الاولی سورةالجمعة،وفی الثانیة :سورة المنافقین(بدائع الصنائع:۱ /۶۰۳/ ط زکریا دیوبند)۔( ۱۲)جمعہ کے دن درود پاک کثرت سے پڑھنا ۔اکثرو الصلاة علی یوم الجمعة فانہ مشہود یشہد ہ الملائکة الخ(مشکوة شریف:۱/ ۱۲۱) (۳۱)جمعہ کے دن دعا مانگناخاص کر دونوں خطبوں اور عصر سے مغرب کے درمیان واضح رہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان دعاصرف دل دل میں کی جائے ،زبان سے نہیں اور نہ ہی اس کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں ۔ فی الجمعة لساعة لا یوافقہا عبد مسلم یسأل اللہ تعالی فیہا خیرا الا اعطاہ ایاہ(مشکوة شریف:۱ /۱۱۹)التمسوا الساعة التی ترجی فی یوم الجمعة بعد العصر الی غیوبة الشمش(مشکوة شریف: ۱ / ۱۲۰) جہاں تک مسئلہ ہے کہ جمعہ کے دن کون سی سورت کی تلاوت کرنا افضل ہے ،تو جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کرناافضل ہے احادیث شریفہ میں اس کے بڑے فضائل مذکور ہیں؛چنانچہ نبئ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے روز سورہ کہف پڑھے وہ اگلے آٹھ دن تک ہر فتنہ سے محفوظ رہے گا،حتی کہ اگر دجال نکل آئے تو اس کے فتنے سے بھی محفوظ رہے گا۔من قرأ سورة الکہف یوم الجمعة فہو معصوم الی ثمانیة ایام من کل فتنة وان خرج الدجال عصم منہ(ابن کثیر عن الحافظ المقدسی/ ۸۰۳)

اللہ کریم امت مسلمہ کو اتفاق و اتحاد نصیب فرمائے اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں