*میں نے عمران خان کی حمایت کیوں چھوڑی ؟*
یہ کالم نگار عمران خان صاحب کا سخت حمایتی تھا۔ یہ حمایت 2013ء سے لے کر ان کے حکومت میں آنے کے بعد‘ چند ماہ تک‘ شد و مد سے جاری رہی۔ سالہا سال کالم ان کی حمایت میں لکھے۔2017ء میں مارچ سے لے کر نومبر تک ایک ٹیلی وژن چینل میں ایک مستقل پروگرام میں شریک رہا جو ہفتے میں پانچ دن ہوتا تھا۔ دنیا نیوز کے موجودہ اسلام آباد بیورو چیف عزیزم خاور گھمن بھی اس پروگرام میں مستقل طور پر ساتھ تھے۔تیسرے صاحب عارف نظامی مرحوم تھے۔ ایک دن میں اسی چینل میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیٹر تشریف لائے۔ ہنس کر فرمانے لگے ''آپ تو ہمیں کُند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ ایک اور چینل میں مسلم لیگ کے ایک معروف رہنما نے کالم نگار کے حوالے سے کہا کہ ''اسے کیوں بلا لیتے ہیں ؟ وہ تو ہمارے خلاف بہت ہارڈ لائن لیتا ہے‘‘۔
یہ کالم نگار عمران خان کا شدید حامی کیوں تھا ؟ کرکٹ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ آج تک کوئی میچ نہیں دیکھا۔ ذاتی ملاقات بھی نہیں! صرف ایک بار قریب سے انہیں دیکھا۔ یہ ان کے حکومت میں آنے سے پہلے کی بات ہے۔ اسلام آباد پریس کلب میں ایک کھانا تھا جس میں خان صاحب نے شرکت کرنا تھی۔ جناب ہارون الرشید کے حکم پر وہاں گیا اور پہلی بار خان صاحب کو دیکھا۔ کرکٹ سے واقفیت نہ ذاتی تعلق! تو پھر ان کی حمایت کیوں کی؟اس لیے کہ میں بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح پی پی پی اور (ن) لیگ کے باریاں لینے سے تنگ آچکا تھا۔میں بھی میرٹ کے قتل سے پریشان تھا۔ میں بھی چاہتا تھا کہ دوست نوازی ( کرونی ازم ) کا خاتمہ ہو ! میں بھی چاہتا تھا کہ پارٹیاں بدلنے والے موقع پرستوں سے جان چھوٹے۔ میں بھی چاہتا تھا کہ قرضے معاف کرانے والے مگرمچھوں سے قرضے واپس لیے جائیں۔ میں بھی چاہتا تھا کہ کوئی ایسا حکمران ہو جو مغربی حکمرانوں کی طرح عام لوگوں کے مانند دفتر میں آئے۔ چلو‘ سائیکل پر نہ آئے‘ بس سے نہ آئے مگر ایک عام‘ مڈل کلاس والی گاڑی میں‘ بہت ہی مختصر سکیورٹی کے ساتھ آئے اور جائے! میں بھی چاہتا تھا کہ پولیس کی تعیناتیوں میں اور پولیس کے پیشہ ورانہ کام میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہو۔میں بھی چاہتا تھا کہ تھانے اور کچہری میں رشوت کا ناسور ختم ہو جائے۔میں بھی چاہتا تھا کہ میرے ملک میں‘ مغربی ملکوں کی طرح‘ رُول آف لاء ہو۔میں بھی چاہتا تھا کہ اس بے حد جذباتی قوم کو‘ جس کی اکثریت کلام پاک تو کیا‘ پانچ وقت پڑھی جانے والی نماز کے معانی سے بھی ناواقف ہے‘ مذہب کے نام پر مزید استعمال نہ کیا جائے!میں بھی چاہتا تھا کہ برطانیہ کی طرح ہمارا وزیراعظم بھی پارلیمان میں موجود ہوا کرے اور فیصلے پارلیمان کے ذریعے ہوا کریں۔ میاں نواز شریف کے خلاف میرے اعتراضات میں سے ایک بڑا اعتراض یہ بھی تھا کہ وہ پارلیمان نہ آ کر پارلیمان کی بے توقیری کے مرتکب ہوتے تھے۔ میں بھی چاہتا تھا کہ ہمارے ملک میں بھی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ایک مختصر سی کابینہ ہو جو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہو اور جو مفادات کے ٹکراؤ (Conflict of Interests) کا باعث نہ بنیں ! پی پی پی اور (ن) لیگ کی حکومتوں میں کابینہ پچاس سے زیادہ وزرا پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔
عمران خان نے ان سب برائیوں کا نام لے لے کر وعدہ کیا کہ انہیں دور کریں گے۔ ایک بار نہیں‘ بارہا وعدہ کیا۔ یہ تھیں اُن وجوہ میں سے چند جن کی بنا پر میں نے بھی لاکھوں لوگوں کی طرح عمران خان سے امیدیں باندھیں! جب لوگ ان کے خلاف بات کرتے تھے تو میری سب سے بڑی دلیل عمران خان کے حق میں یہ ہوتی تھی کہ سب کو آزما لیا۔ خان صاحب کو بھی آزماؤ۔ کیا عجب یہ سچے ہوں اور ہمارے ملک کی تقدیر ان کی بدولت بدل جائے۔ جب انہوں نے ایک سیاست دان کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا تو دل نے ان کی بہادری کی تعریف کی۔ جب ایک اور سیاست دان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اسے چپڑاسی بھی نہ لگائیں تو دل میں عمران خان کی قدر و منزلت بڑھی! اسی قسم کے تو طالع آزما تھے جن سے ہم اورہمارے جیسے لوگ تنگ تھے۔ عمران خان ان گرگٹوں سے نجات دلا دیں تو اور کیا چاہیے ! چنانچہ دل و جان سے ان کی حمایت کی۔ ٹی وی پر! کالموں میں! مباحثوں میں۔ ملک کے اندر اور باہر‘ احباب اور اعزّہ و اقربا کے حلقوں میں۔چنانچہ پینتیس برسوں میں پہلی بار ووٹ ڈالنے گھر سے نکلا اور تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دیا۔
پہلا دھچکا اُس وقت لگا جب وزیر اعظم نے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ لگایا۔ آج تک تحریک انصاف کا کوئی رکن یا ہمدرد ایسا نہیں ملا جس نے اس تعیناتی کا دفاع کیا ہو۔ اس تعیناتی نے ہوش اڑا کر رکھ دیے۔ حیرت سے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ عثمان بزدار اور بارہ کروڑ کا صوبہ ! جلد ہی اوپن سیکرٹ ہو گیا کہ عمران خان بزدار کو بالکل نہیں جانتے تھے۔ تجسس ہوا کہ آخر بزدار کو کس نے متعارف کرایا؟ جلد ہی لوگوں کو معلوم ہو گیا مگر واضح ثبوت کوئی نہیں تھا۔ آج ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ پیشکش کس کی تھی۔ دوسرا جھٹکا جو پہلے سے بھی زیادہ شدید تھا اس وقت لگا جب پاکپتن پولیس کے سربراہ کو وزیراعلیٰ کے گھر ( یا دفتر) طلب کیا گیا۔وزیر اعلیٰ خاموش رہے اور پولیس افسر کی کلاس ایک اور صاحب نے لی جو وہاں موجود تھے اور جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا۔ اس بات کا اتنا چرچا ہوا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ وزیر اعظم کو معلوم نہ ہوا ہو! مگر انہوں نے کوئی ایکشن نہ لیا۔ اس پولیس افسر کے ساتھ اس کے بعد جو سلوک ہوا وہ عمران خان صاحب کی حکومت کے '' عدل و انصاف‘‘ کی ایسی جھلک تھی جو پوری قوم نے دیکھی۔ یہ گویا فلم کا ٹریلر تھا۔ اس سے اندازِ حکمرانی واضح ہو رہا تھا۔ ایک تو بزدار جیسے شخص کی تعیناتی‘ پھر اس کی باگ بھی کسی اور کے ہاتھ میں !
تیسرا جھٹکا ناصر درانی مرحوم کے چلے جانے سے لگا۔ خان صاحب نے ایک تقریر میں پوری قوم کو یہ خوشخبری دی تھی کہ پنجاب میں ناصر درانی کو لگایا جا رہا ہے تا کہ پولیس کا روایتی کلچر بدل جائے۔ ناصر درانی آئے اور ایک ہفتہ کے بعد چارج چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے آنے کی خبر خان صاحب نے قوم کو خود دی تھی تو ان کے جانے کی اطلاع بھی دینی چاہیے تھی۔ سبب بھی بتانا چاہیے تھا۔ آج تک قوم کا یہ قرض ان کے ذمہ واجب الادا ہے۔ پنجاب میں ان کے زمانے میں بدترین سیاسی مداخلت جاری رہی۔ پنجاب پولیس کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق عہدِ بزدار میں پنجاب پولیس کے چھ سربراہ آئے اور گئے۔ موجودہ سربراہ ساتویں ہیں! خان صاحب گورننس کے حوالے سے مغرب کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ کیا مغربی ملکوں میں ایک پولیس چیف کااوسط عرصۂ تعیناتی سوا چھ ماہ ہو تا ہے ؟ لازم تھا کہ اپنے وعدے کی رُو سے وہ پولیس کے سربراہ کو اپنے دائرہ کار میں مکمل آزادی دیتے اور پھر ایک معقول عرصہ کے بعد اس کا کڑا احتساب کرتے ! وفاق میں بھی اور پنجاب میں بھی ! مگر افسوس ! صد افسوس ایسا نہ ہوا!
آگے بڑھنے سے پہلے دو وضاحتیں۔ عمران خان پر تنقید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ تنقید کرنے والا زرداری یا مولانا یا شریف برادران کا حامی ہے۔ یہ ایک بے تکی بات ہے۔ ارے بھائی! ہم نے ان حضرات سے جان چھڑانے کے لیے ہی تو عمران خان کا ساتھ دیا تھا۔ دوسرے یہ کہ کالم کے عنوان سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ کالم نگار اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے‘ اور اس زعم میں ہے کہ اس نے حمایت چھوڑی تو عمران خان یا اس کی پارٹی یا حکومت کو نقصان ہوا۔ نہیں! ایسا ہرگز نہیں! ہم تو ان بے بضاعت افراد میں سے ہیں جو کسی مجلس میں موجود ہوں تو ان کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اور اگر نہ ہوں تو ان کی عدم موجودگی کو کوئی نوٹ نہیں کرتا۔ ہماری حمایت سے خان صاحب کو کیا فائدہ ہونا تھا‘ اور حمایت ترک کرنے سے ان کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ کالم اس لیے لکھنا پڑا کہ جو قارئین سالہا سال سے کالم نگار کو پڑھ رہے ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ مایوسی کی وجوہ کیا ہیں۔
یہ عمران خان صاحب کی مخالفت ہے نہ ان پر تنقید۔ یہ تو امیدوں اور خوابوں کا نوحہ ہے۔ کابینہ بنی تو تبدیلی کا منہ چڑا رہی تھی۔ وہی عمر ایوب، وہی فہمیدہ مرزا، وہی شیخ صاحب، وہی فردوس عاشق اعوان‘ وہی زبیدہ جلال، وہی سومرو صاحب‘ وہی سواتی صاحب‘ وہی سرور خان‘ وہی عشرت حسین‘ وہی رزاق داؤد‘ وہی حفیظ شیخ‘ وہی الیکٹ ایبلز! ڈاکٹر عشرت حسین کو سول سروس اصلاحات کا چارج دیا گیا۔ یہ صاحب جنرل مشرف کے عہد میں بھی یہی چورن بیچ چکے تھے۔ تبخیرِ معدہ کی شکایت کو تب بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا۔ خان صاحب نے پھر اسی سوراخ سے ڈسے جانے کا اعلان کیا تو میڈیا نے شور مچایا مگر شنوائی نہ ہوئی۔ اڑھائی تین سال کے بعد عشرت صاحب چلے گئے۔ آج تک معلوم نہیں ہوا کہ کون سی اصلاحات ہوئیں!
جو ان کے بقول سب سے بڑا ڈاکو تھا، اسے صوبے کے دوسرے بڑے منصب پر فائز کیا گیا تو امیدوں کا محل سارے کا سارا دھڑام سے نیچے آ رہا۔ ایک اینکر نے جب اس کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ اسے چھوڑیں آگے چلیں۔ نیب میں معاملات تو ان صاحبان کے بھی اٹکے ہوئے تھے۔ یہ وہ مکھی ہے جسے نگلنا نا ممکن تھا۔ آپ جنہیں خود چور اور ڈاکو کہتے ہیں اور کہتے رہے ہیں‘ ان میں سے ایک کو پکڑتے ہیں، دوسرے کو تخت پر بٹھا دیتے ہیں۔ کیوں؟ جواب ملتا ہے کہ حکومت تو بنانی تھی۔ مطلب یہ ہوا کہ مقصد محض حکومت کا حصول تھا۔ آج خان صاحب کہتے ہیں کہ غلطی ہوئی‘ اتحادیوں کو ساتھ ملانا پڑا۔ اُس وقت بچے بچے کو معلوم تھا کہ غلط ہو رہا ہے۔
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
جو بقول ان کے چپڑاسی بننے کے قابل نہ تھا اسے پہلے اہم پھر اہم ترین وزارت سونپی گئی! تبدیلی کے گال پر اس سے زیادہ زناٹے دار تھپڑ نہیں پڑ سکتا! بائیس سال کی جدوجہد! اس کا ثمر شیخ صاحب اور چوہدری صاحب! اللہ اللہ! شخصیت پرستی اس المیے کو ہضم کر سکتی ہے‘ مگر جو نظریات کی بنیاد پر ساتھ تھے وہ کیسے سمجھوتہ کرتے اور کیا تاویل کرتے؟
وعدہ تھا کہ کابینہ سترہ افراد پر مشتمل ہو گی۔ نیک بخت پچاس سے تجاوز کر گئی۔ دوست نوازی خوب خوب ہوئی۔ کوئی لندن سے آیا اور اسے سیاحت کا قلم دان سونپا گیا۔ کوئی عرب سے آیا اور بہت بڑی کارپوریشن اس کے حوالے کر دی گئی۔ ہر منتخب وزیر کے ساتھ ایک غیر منتخب مشیر فکس کیا گیا۔ مشیروں پر الزام لگے تو ہٹائے گئے مگر کسی کی تفتیش ہوئی نہ کسی کو سزا دی گئی۔ دوائیوں کا سکینڈل آج تک انصاف کا انتظار کر رہا ہے۔ چینی کا سکینڈل سب کے علم میں ہے۔
بیوروکریسی میں وہی کچھ ہوتا رہا جو ہوتا آیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں ایک شاندار منصب خالی ہوا۔ اسلام آباد میں ایک صاحب کو ایک سال پہلے ریٹائر کیا گیا۔ پھر اس منصب پر فائز کیا گیا۔ یہ سارا کام ایک ہی دن میں ہوا۔ سول ایوی ایشن کی سربراہی کے لیے اشتہار دیا گیا۔ چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ شارٹ لسٹ کئے گئے اٹھارہ نے انٹرویو دیا۔ تعیناتی ایک گورنر صاحب کے سیکرٹری کی ہوئی جو امیدوار تھے نہ ہی ان کا انٹرویو ہوا تھا۔ پریس میں سب کچھ چھپا۔ کیا ایکشن ہوا؟ یہ میرٹ کی صرف چند مثالیں ہیں۔
خان صاحب وزیر اعظم بننے کے بعد بھی جیسے اپوزیشن ہی میں رہے۔ شاید ہی کوئی تقریر، بیان یا انٹرویو ہو جس میں شریف برادران کا نام نہ لیا ہو۔ یہاں تک کہ لوگ سوچنے لگے کہ معاملہ ذاتی رنجش کا لگتا ہے۔ ترین صاحب سمیت بیسیوں پاکستانیوں کی برطانیہ میں جائیدادیں ہیں۔ شریف برادران سمیت ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے تھا۔ پیسہ شریف برادران سے ایک بھی نہ وصول ہوا۔ زبانی مذمت اس تواتر کے ساتھ کی گئی کہ رد عمل کے طور پر لوگوں کے دلوں میں ان کی ہمدردیاں پیدا ہونے لگیں۔ چاہیے یہ تھا کہ متعلقہ ادارے کرپٹ افراد کا تعاقب کرتے! سخت اور مسلسل تعاقب! قید کرتے! سزا دیتے! مگر وزیر اعظم خود ان کا نام ہی نہ لیتے۔ انہیں در خور اعتنا ہی نہ گردانتے۔ ان کی سطح پر نہ اترتے۔
اس عرصے میں کیا خارجہ پالیسی خود مختار تھی؟ اردوان اور مہاتیر کے ساتھ مل کر جو بلاک بننا تھا‘ اس کا انجام سب کے سامنے ہے۔ ایک طاقت کے کہنے پر ملائیشیا نہ گئے۔ پھر اس طاقت کا نام بھی بتا دیا۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے خود کشی کا دعویٰ تو چھوڑ ہی دیجیے۔ آئی ایم ایف کے سکہ بند ملازم کو سٹیٹ بینک کا گورنر بنانا کتنا بڑا ظلم ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا۔ اس گورنر کی تنخواہ اور مراعات دل دہلا دینے والی ہیں۔ امریکی انتخابات کے بعد رحمان ملک نے الزام لگایا تھا کہ پاکستانی سفارت خانہ ٹرمپ کے الیکشن آفس کے طور پر استعمال ہوا۔ یہ خبر معاصر اخبارات میں چھپی۔ اس کی تردید کی گئی نہ تفتیش۔ اس پر کارروائی ہونی چاہیے تھی تا کہ معاملہ شفاف ہو کر سامنے آتا۔
خان صاحب کی حکومت میں یقینا اچھے کام بھی ہوئے ( ان کا ذکر الگ کالم میں کیا جائے گا انشا اللہ ) تاہم جو امیدیں تبدیلی کی تھیں وہ بر نہ آئیں۔ کاش کوئی انہیں سمجھائے کہ مغرب کو اور ہندوستان کو ان سے بہتر جاننے اور سمجھنے والے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ضرور ہوں گے۔ پیغمبرِ خدا تو کفار سے بھی بات کر لیتے تھے۔ اپنے ملک کی اپوزیشن سے بات تک نہ کرنا اور ہاتھ نہ ملانا کہاں کی جہانبانی(statesmanship) ہے جب کہ عین اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کو آپ اعلیٰ مناصب بھی دے رہے ہوں۔ کتنی بڑی ٹریجڈی ہوئی کہ جسٹس وجیہ الدین اور تسنیم نورانی جیسے متین افراد منظر سے ہٹا دیے گئے اور جو لوگ پیش منظر پر چھائے ان کے طرز تکلم پر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے رہے۔
اگر مشیتِ ایزدی خان صاحب کو دوبارہ موقع دے تو کاش مشیت انہیں تبدیل بھی کر دے۔ غصہ اور بلا کی منتقم مزاجی ان میں نہ رہے۔ استکبار ختم ہو جائے۔ ایسی ٹیم چنیں
جس پر وہ بھی فخر کریں اور قوم بھی۔ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ پر عمل کریں۔ کاش ان میں تھوڑا سا انکسار بھی پیدا ہو جائے۔ اللہ اور اس کے حبیب کو عاجزی پسند ہے نہ یہ کہ منہ پر ہاتھ پھیر کر کہنا کہ چھوڑوں گا نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں