واجب، مستحب، حرام، مکروہ اور مباح کا معنی حکم اور فرق کیا ہے؟ |
واجب:
لغت میں واجب ’ثابت ‘ اور ’لازم‘ کو کہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”﴿ فَإذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا ﴾ [الحج:36]“
ترجمہ: تو جب وہ (اونٹ)اپنے پہلو کے بل گر جائیں (اور زمین پر قرار پکڑ لیں) تو ان میں سےکھاؤ۔
اور شاعر کہتا ہے:
أطاعت بنو بكر أميرًا نهاهموا ----- عن السلم حتى كان أول واجب
ترجمہ: بنوبکر نے ایسے امیر کی اطاعت کی جس نے انہیں صلح سے اس وقت تک کےلیے روک روکے رکھا جب تک ان کا پہلا آدمی نہیں گرا(یعنی مقتول ہوا)۔
اصطلاح میں واجب اس حکم کو کہتے ہیں جس کے سرانجام دینے والے کو فرمانبرداری کی وجہ سے ثواب ملے اور چھوڑنے والا سزا کا مستحق ٹھہرے۔
واجب کی اقسام:
1 فاعل کے اعتبار سے واجب کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ فرض عین ۲۔ فرض کفایہ
1۔ فرض عین: اگر فعل ہر ہربندے سے مطلوب ہو تو اسے فرض عین کہتے ہیں جیسا کہ پنجگانہ نمازیں۔
2۔ فرض کفایہ: اگر بعض افراد کے کام کرنے پر فعل ادا ہوجائے یعنی کفایت کرجائے تو اسے فرض کفایہ کہتے ہیں جیسے کہ نمازِ جنازہ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ شارع اس (فرض کفایہ) میں کام کرنے والوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ صرف فعل کا سرانجام دیا جاناچاہتا ہے، چاہے کرنے والا کوئی بھی ہو۔
2 وقت کے محدود ہونے کے اعتبار سے بھی اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ مضیق ۲۔ موسع
1۔ مضیق: اگر دیئے گئے وقت میں صرف وہی فعل ہوسکے اور اس کی جنس میں سے (یعنی اس جیسا) کوئی اور کام نہ ہوسکے تو اسے مضیق کہتے ہیں۔
جیساکہ رمضان میں روزے کا وقت کیونکہ روزے کا وقت طلوع فجر سے غروب آفتا ب تک ہے ۔ لہٰذا اس فرضی روزے کے ساتھ کوئی نفلی روزہ نہیں رکھا جاسکتا(کیونکہ وقت اتنا ہی ہوتا ہے جس میں صرف فرضی روزہ رکھا جاسکتا ہے۔)
اسی طرح نمازوں کے آخری اوقات جن میں صرف فرض نماز ادا وہوسکتی ہے جیسے صبح کی نسبت طلوع آفتاب سے بالکل تھوڑا سا پہلے کا وقت اور عصر کی نسبت غروب ِ آفتاب سے تھوڑا سا پہلے کا وقت۔
2۔ موسع: اگر مطلوبہ فعل کے ساتھ اسی کی جنس کا کوئی اور فعل بھی سرانجام دیا جاسکے تو اس واجب کو موسع کہتے ہیں۔
جیسا کہ پنجگانہ نمازوں کے اوقات کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے وقت میں ان کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ نوافل بھی ادا کی جاسکتے ہیں۔
3 فعل کے اعتبار سے بھی واجب کی دو ہی قسمیں ہیں:
۱۔ معین ۲۔ مبہم
1۔ معین: اگر کوئی فعل متعین کرکے کہا جائے کہ اسے ادا کرو تو اسے معین کہتے ہیں ۔
جیسا کہ نماز ، روزہ اور حج وغیرہ۔
2۔ مبہم: اگرچند ایک کام بتا کر کہا جائے کہ ان میں سے کوئی کرلو اور وہ کفایت کرجائے گا تو اسے مبہم کہتے ہیں۔
جیسا کہ قسم کا کفارہ ہے کہ گردن آزاد کرنے ، کھانا کھلانے یا روزے رکھنے میں سے کوئی بھی ایک کام کرسکتے ہیں، کیونکہ ان میں سے صرف ایک کام کرنا واجب ہے نہ کہ سارے۔
مندوب:
لغت میں مندوب ،ندب سے اسم مفعول کا صیغہ ہے ، جس کا مطلب ہے : کسی کام کےلیے پکارنا اور بلانا ، بقول شاعر
لا يسألون أخاهم حين يندبهم ـــــــــــــــ وفي النائبات على ما قال برهانا
ترجمہ: وہ (بنو مازن قبیلے والے)اپنے بھائی سے اس کی بات کی دلیل کا مطالبہ اور سوال نہیں کرتے جب وہ انہیں مشکلات میں پکارتا ہے۔
اصطلاح میں مندوب اسے کہتے ہیں: جس کے کرنے والے کو ثواب ملے اور نہ کرنے والے پر گرفت نہ کی جائے اور شارع نے اس کا مطالبہ غیر حتمی طورپر کیا ہو۔
یہ سنت،مستحب اورتطوع کے مترادف ہے۔
اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ مندوب بھی اصل میں مامور بہ ہوتا ہے (یعنی اس کا حکم دیا گیا ہوتا ہے) ان کے دلائل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے یہ فرامین گرامی ہیں:
۱۔ ﴿ إنَّ اللَّهَ يأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى﴾ [النحل:90]
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
۲۔ ﴿ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ ﴾ [لقمان:7 1]
ترجمہ: اچھائی کا حکم کرو۔
۳۔ ﴿ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ ﴾ [الأعراف:199]
ترجمہ: نیک کام کا حکم دو۔
ان مذکورہ بالا آیات میں جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے بعض مندوب ہیں۔
اسی طرح جمہور کے مذہب کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ امر طلب اور درخواست ہے اور مندوب مطلوب ومقصود ہے لہٰذا وہ(مندوب)مامور بہ ٖ ہوتا ہے۔
مباح:
جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اسے لغت میں مباح کہتے ہیں، جیسا کہ کہا گیا ہے :
ولقد أبحنــا ما حميـ ـــــــــــــ ـت ولا مبيح لما حمينا
ترجمہ: یقیناً ہم نے اس کو حلال (مباح)کرلیا جس کی حفاظت کرنے کی تو نے کوشش کی اور جس کی ہم حفاظت کریں اس کو کوئی حلا ل نہیں کرسکتا۔
اصطلاح میں ہر اس خطاب کو مباح کہتے ہیں جس میں کام کرنے یا چھوڑنے کے درمیان اختیار ہو، لہٰذا نہ تو کام کرنے پر کوئی ثواب ہواور نہ چھوڑنے پر کوئی گناہ ہو، جیسا کہ کھانا، پینا، سونا،ٹھنڈک حاصل کرنے کےلیے نہانا۔
ایسا اس وقت تک ہوتا ہے جب تک اس میں نیت کو دخل نہ دیا جائے لیکن اگر مباح کام کرتے وقت نیکی کی نیت کرلی جائے تو اس کا اجر ضرور ملے گا۔
مکروہ:
لغوی اعتبار سے مکروہ محبوب(پسندیدہ ) کا متضاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إلَيكُمُ الإيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إلَيكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيانَ ﴾ [الحجرات:7]
ترجمہ: لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر ،گناه اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے۔
اصطلاحی اعتبار سےمکروہ اسے کہتے ہیں : جس کے چھوڑنے والے کو فرمانبرداری کی وجہ سے ثواب ملے اور کرنےکی وجہ سے گناہ نہ ہو۔ مثال کے طور پر: مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے بایاں پاؤں رکھنا اور نکلتے وقت پہلے دایاں پاؤں نکالنا۔
محظور:
لغت میں محظور اس کو کہتے ہیں جس سے منع کیا گیا ہو،
اور اصطلاح میں محظور اسے کہتے ہیں جس کے چھوڑنے والے کو فرمانبرداری کی وجہ سے ثواب ملے اور کرنے والےکو گناہ، جیسے زنا، چوری، شراب نوشی، سگریٹ نوشی، شیو اور اس طرح کی دوسری چیزیں۔
اس کے دوسرے نام حرام، محرم ،معصیت، گناہ اور حجر (ممنوع) ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں