اتوار، 1 مئی، 2022

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے ’’اقتدار‘‘

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے ’’اقتدار‘‘ - افضال ریحان - 30 اپریل ، 2022

انسانیت صدیوں ٹھوکریں کھانے اور جدوجہد کرنے کے بعد کچھ حقائق تک پہنچتی ہے تو بعض جہلا بجائے ان کا ادراک کرنے یا سمجھنے کے الٹا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں، اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال کوئی نئی چیز نہیں، اقتدار کے حریص صدیوں سے اس ہتھیار کا استعمال بے دردی سے کرتے رہے ہیں۔


شعوری ترقی سے آج کی مہذب دنیا اقوام عالم کے استحصال کی اس بنیاد تک پہنچ چکی ہے اور اپنے اپنے ملکی قوانین میں اس امر کا اہتمام کررہی ہے کہ کسی بھی صورت مذہب کا بطور سیاسی ہتھیار استعمال نہیں ہونا چاہیے لیکن ہمارے ترقی پذیر ممالک بالخصوص مسلم ورلڈ میں نہ صرف یہ کہ اس کا چلن عام ہے بلکہ اچھے خاصے طاقتور گروہ اس امر پر اصرار کرتے پائے جاتے ہیں کہ ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔


اس جبری اپروچ کا نتیجہ یہ ہے کہ اقتدار کا ہر حریص اپنی سیاست چمکانے کے لیے مذہب اور مذہبی اصطلاحات کا استعمال کرتا ہے یوں عوامی جذبات بھڑکا کر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف منافرت پھیلاتا اور خود کو ایک مقدس رہنما یانجات دہندہ کے روپ میں پیش کرتا ہے۔


باریک بینی سے اسٹڈی فرمائیں آٹھ دہائیاں قبل شروع ہونے والی یہ روش ہمارے اس ملک پاکستان میں آج بھی جوں کی توں ہے اور اس کے خلاف بولنے یا لکھنے والوں کو مختلف حیلوں اور طریقوں سے دبایا جاتا ہے حالانکہ آئینی طور پر اس نوع کی قانون سازی ہونی چاہیے کہ جو شخص اپنی سیاست چمکانے کے لیے مذہبی نعرے لگائے، سوسائٹی میں مذہبی، نسلی یا جنسی امتیازات و تعصبات کو ابھارے الیکشن کمیشن اسے نااہل قرار دے دے۔


ہمارے ایک سابق کھلاڑی نے پچھلی دو دہائیوں سے تقریباً اپنی ہر تقریر میں یہ وتیرہ اپنا رکھا ہے کہ گویا وہ کوئی اوتار ہیں جو قوم کی نجات کے لیےبھیجے گئے ہیں حالانکہ ان کی ساری زندگی تعیشات سے عبارت ہے۔


موصوف مقدس رات میں دعا کے نام پر جس طرح ہماری سپریم جوڈیشری کے خلاف منافرت پھیلا رہے تھے درویش اس کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے مسکت جواب دینا چاہتا ہے۔کونسا مسلمان ہے جو حرمین شریفین کا احترام نہیں کرتا حرم شریف کی حرمت تو قبل از اسلام بھی اس قدر تھی کہ بدترین دشمن کی عزت و وقار کا پاس و لحاظ ہوتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ حرمِ نبویؐ میں کس جواز کے تحت وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے سرکاری وفد کی آمد پر چلا چلا کر نعرے بازی کی گئی؟ انہیں چور، بھکاری اور بے غیرت کی گالیاں دی گئیں، ایک بلوچ لیڈر کو لوٹا لوٹا کہتے ہوئے اس کے بال کھینچے گئے، ایک خاتون ڈیلیگیٹ پر آوازے کسے گئے ہیں، اس طرح چلانے والوں نے سابق کھلاڑی کے لیے زندہ باد کے نعرے لگائے ہیں۔ یوں گلے پھاڑ پھاڑ کر چیخنے والوں نے ذرابھی ادب کے اس اعلیٰ مقام کا کچھ ہلکا سا بھی خیال نہ کیا!


ان عاشقانِ عمران نے حرمین شریفین میں انسانی حرمت و وقار کی بھی دھجیاں بکھیری ہیں، وڈیوز میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ بلوچ رہنما زین بگٹی ان کے شر سے بچنے کے لیے سہما ہوا بھاگ رہا تھا کیا یہ کرتوت دہشت اور ہراسمنٹ میں نہیں آتی ہے؟ درویش کے ساتھ بیٹھی ڈاکٹر خلعت النسا یہ سب دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھیں کہ سعودی عرب میں کیا کوئی قانون نہیں ہے جس سے حرمین شریفین جانے والوں کی عزت و آبرو کا تحفظ ہو سکے؟ اس طرح تو لوگ مقامات مقدسہ پر جاتے ہوئے بھی ڈریں گے۔ احسن اقبال روضۂ رسولؐ سے باہر آکر پوچھ رہے تھے کہ حرمین کا تقدس کیوں پامال کیا جا رہا ہے؟؟وہ ناہنجار جو انٹرنیٹ پر ان نعرے بازوں کی سہولت کاری کرتے ہوئے انہیں جسٹی فائی کر رہے ہیں اور اس نوع کے دلائل دے رہے ہیں کہ چوروں کو ہر مقام پر چور کہنا چاہیے جنہوں نے ہماری حکومت کو گرایاہے۔ خدا نے انہیں اپنے حبیبؐ کے مقام پر ذلیل و رسوا کردیا ہے، یہ آقاؐ کی نہیں ان چوروں کی توہین ہے ان حجت بازوں کو شرم آنا چاہیے جن کی یہ گالم گلوچ کرنے والے توہین کر رہے تھے،آقاؐ نے انہیں یہ عزت عطا فرمائی ہے کہ اپنے حجرہ مبارک کے اندر بلا کر زیارت کاعظیم موقع فراہم کیا ہے۔ امید ہے سعودی حکومت بھی روضہ رسولؐ کے سامنے توہین آمیزسیاسی نعرے لگانے اور انسانی وقار و حرمت سے کھیلنے والوں کے خلاف کما حقہ کارروائی کرے گی۔


مدینہ منورہ میں یہ سانحہ اچانک نہیں ہوا، کئی روز پہلے اس کی باقاعدہ پلاننگ کی گئی تھی، پی ٹی آئی کے کئی صحافیوں اور پنڈی کے ایک بڑبولے سابق وزیر کی وڈیوز اس حوالے سے ملاحظہ کی جاسکتی ہیں لیکن اس سب سے بڑھ کر اس کا ذمہ دار انوکھا لاڈلہ ہے۔ اگر کسی کا بچہ کرکٹ کا بڑا کھلاڑی ہو لیکن اسے ڈرائیونگ نہ آتی ہو تو کیا وہ اپنی گاڑی اس اناڑی کے حوالے کرے گا؟ آپ میں جب امور حکومت چلانے اور سیاسی باریکیوں کو سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہے اور پچھلے ساڑھے تین سال میں آپ جس برے طریقے سے فلاپ ہوئے اس کے بعد تو آپ کو خود ہی گھر بیٹھ جانا چاہیےتھا لیکن آپ کوئی دن نہیں چھوڑتے جب اپنے فینز کو تشدد پر نہیں اکساتے۔ اس کا کیا مطلب ہے ’’نور عالم ذرا اپنے حلقے میں نکلو لوگ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟‘‘۔ کیا آپ اتنے لاڈلے ہیں کہ آئین قانون اور منتخب و عسکری اداروں کے خلاف کھلواڑ کریں اور آپ کو کچھ نہ پوچھا جائے۔ حیرانی اِس بات پر ہے کہ آخر ہماری نئی حکومت واضح آئین شکنی پر سابق کھلاڑی اور اُن ہمنواٶں کے خلاف اقدامات اٹھانے میں کیوں تساہل دکھا رہی ہے؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں