جمعہ، 20 مئی، 2022

جامن کا پیڑ از کرشن چندر

 "جامن کا پیڑ " ۔۔ کرشن چندر کى لازوال تحرپر 🤢🤢🤢🤢🤢🤢


رات کو بڑے زور کا جھّکڑ چلا سکریٹریٹ کے لان میں جامن کا ایک درخت گرپڑا۔ 


صُبح مالی نے دیکھا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی دبا پڑا ہے۔

مالی دوڑا دوڑا چپراسی کے پاس گیا۔

 

چپراسی دوڑا دوڑا کلرک کے پاس گیا۔

کلرک دوڑا دوڑا سُپرانٹنڈنٹ کے پاس گیا۔ 

سپرنٹنڈنٹ دوڑا دوڑا لان میں آیا۔


منِٹوں مپں درخت کے نیچے دبےآدمی کے گِرد مُجمع اِکٹھا ہو گیا۔


" بے چارا جامن کا درخت کتنا پھل دارتھا " ایک کلرک بولا۔


" اُس کی جامن کتِنی رسیلی ہوتی تھیں" دوسرا کلرک بولا۔


" میں پھلوں کے موسم میں جھولی بھر‌کے لے جاتا تھا میرے بچے جامن کِتنی خوشی سے کھاتے تھے"

تیسرا کلرک تقریباً آبدیدہ ہوکر بولا۔


"مگر یہ آدمی؟"

مالی نے دبےہوئے آدمی کی طرف اِشارہ کیا۔


" ہاں، یہ آدمی"

سپرنٹنڈنٹ سوچ میں پڑ گیا۔

" پتہ نہیں زندہ ہے کہ مر گیا"


" مر گیا ہوگا اِتنا بھاری تنا جِس کی پیٹھ پر گرے وہ بچ کیسے سکتا ہے" دوسرا چپراسی بولا۔


" نہیں میں زندہ ہوں "

دبےہوئے آدمی نے بہ مشکل کراہتے ہوئے کہا.


" زندہ ہے "

ایک کلرک حیرت سے بولا۔

" درخت ہٹاکر اِس کو نکال لیناچاہیے" مالی نے مشورہ دیا۔


" مشکل معلوم ہوتا ہے"

ایک کاہل اور موٹا چپراسی بولا۔

" درخت کا تنا بھاری اور وزنی ہے"


" کیا مشکل ہے؟" مالی بولا۔ 

" اگر سپرنٹنڈنٹ صاحب حکم دے تو ابھی پندرہ بیس مالی، چپراسی اور کلرک زور لگا کر آدمی کو نکال سکتے ہیں"


" مالی ٹھیک کہتا ہے"

بہت سےکلرک ایک ساتھ بول پڑے۔ " لگاؤ زور ہم تّیار ہیں"


بہت سے لوگ درخت کو کاٹنے پر تیار ہو گئے۔

" ٹھہرو " سپرنٹنڈنٹ بولا

" میں انڈر سکریٹری سے مشورہ کر لوں"


سپرنٹنڈنٹ انڈر سکریٹری کے پاس گیا۔ 

انڈر سکریٹری ڈپٹی سکریٹری کے پاس گیا۔ 

ڈپٹی سکریٹری جوائنٹ سکریٹری کے پاس۔ 

جوائنٹ سکریٹری چیف سکریٹری کے پاس۔


چیف سکریٹری نے جوائنٹ سکریٹری سے کُچھ کہا۔ 

جوائنٹ سکریٹری نے ڈپٹی سکریٹری سے کُچھ کہا۔ 

ڈپٹی سکریٹری نےانڈر سکریٹری سے کُچھ کہا۔ 


ایک فائل بن گئی۔ فائل چلنے لگی۔ 

فائل چلتی رہی۔ اِسی میں آدھا دِن گزر گیا۔


دوپہر کو کھانے په آدمی کے گرد بہت بھیڑ ہو گئی لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ کچھ من چلے کلرکوں نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہا۔


وہ حکومت کے فیصلے کا اِِنتظار کئے بغیر درخت کو خود سے ہٹانے کا تہیہ کر رہے تھے کہ اِتنےمیں سپرنٹنڈنٹ فائل لئے بھاگا بھاگا آیا:

" ہم لوگ خُود درخت کو یہاں سے ہٹا نہیں سکتے۔ ہم لوگ محکمہ تجارت سے متعلق ہیں اور یہ درخت کا معاملہ ہے جو محکمہءِ زراعت کی تحویل میں ہے اِس لپے فائل کو 'ارجنٹ' مارک کرکے محکمہءِ زراعت بھیج رہا ہوں 

وہاں سے جواب آتے ہی اس کو ہٹوا دیا جائے‌گا "


دوسرے دن محکمہ زراعتِ کا جواب آیا:

"درخت ہٹانے کی ذِمّہ داری محکمہءِ تجارت پر عائد ہوتی ہے"


جواب پڑھ‌کر محکمہءِ تجارت کو غصہ آ گیا اور فوراً لکِھا:

" درختوں کو ہٹانے یا نہ ہٹانے کی ذمّہِ داری محکمہءِ زراعت پر عائد ہوتی ہے محکمہءِ تجارت کا اِس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے"


دوسرے دن بھی فائل چلتی رہی شام کو جواب آ یا:

" ہم اِس معاملےکو ہارٹی کلچرل کے سپرد کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک پھل دار درخت کا معاملہ ہے اور ایگریکلچرل صرف اناج اور کھیتی باڑی کے معاملوں میں هى فیصلہ کرنے کامجاز ہے "


رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کو دال بھات کِھلایا لان کے چاروں طرف پولیس کا پہرا تھا کہ کہیں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لےکر درخت کو خود سےہٹوانے کی کوشش نہ کریں "


مگر ایک پولیس کانسٹبل کو رحم

آ گیا اور اُس نے مالی کودبے ہوئے آدمی کو کھانا کِھلانے کی اجازت دے دی۔


مالی نے دبے ہوئے آدمی سے کہا:

" تُمہاری فائل چل رہی ہے اُمید ہے کہ کل تک فیصلہ ہو جائے‌گا"


دبا ہوا آدمی کچھ نہ بولا۔ مالی نے درخت کے تنے کو غور سے دیکھ‌ کر بولا :

" حیرت گزری کہ تنا تمہارے کولہے پر گِرا اگر کمر پر گرتا تو ریڑھ کی ہڈی تو ٹوٹ جاتی "


دبا ہوا آدمی پھر بھی کچھ نہ بولا۔

مالی پھر بولا :

" تمہارا یہاں کوئی وارِث ہو تو مُجھے اُس کا اتہ پتہ بتاؤ میں اُس کو خبر دینے کی کوشش کروں‌گا "


" میں لاوارث ہوں "

دبے ہوئےآدمی نے بڑی مشکل سے کہا۔

مالی افسوس ظاہر کرتا وہاں سے ہٹ گیا۔


تیسرے دِن ہارٹی کلچرل سے جواب

آ گیا بڑا کڑا اورطنز آمیز. 

ہارٹی کلچرل کا سکریٹری بڑا ادبی مزاج کا معلوم ہوتا تھا۔


اُس نےلکھا:

" حیرت ہے اِس وقت جب درخت اُگاؤ اِسکیم بڑے پیمانے پر چل رہی ہے ہمارے مُلک میں ایسے سرکاری افسر موجود ہیں جو درخت کاٹنے کا مشورہ دیتے ہیں وہ بھی ایک پھل دار درخت کو !

اور پِھر جامن کے درخت کو جِس کا پھل عوام بڑی رغبت سےکھاتے ہیں ! 

ہمارا محکمہ کِسی حالت میں بهى اِس پھل دار درخت کو کاٹنے کی اجازت نہیں دےسکتا "


" اب کیا کیا جائے؟ " ایک منچلا بولا۔

" اگر درخت کاٹا نہیں جا سکتا تو اِس آدمى کو بیچ سے دھڑ کے مُقام سے کاٹا جائے تو آدھا آدمی اِدھر سے نکل آئے‌گا اور آدھا آدمی اُدھر سےباہر آ جائے‌گا اور درخت وہیں کا وہیں رہے‌گا "


 " مگر اِس طرح سے تو میں مر جاؤں‌گا " دبے ہوئے آدمی نے احتجاج کیا۔

" یہ ٹھیک کہتا ہے " ایک کلرک بولا۔


آدمی کو کاٹنے والی تجویز پیش کرنے والے نے پُرزور احتجاج کیا: 

" آپ جانتے نہیں آج کل پلاسٹک سرجری کے ذریعے دھڑ کے مقام پر اِس آدمی کو پھر سےجوڑا جا سکتا ہے "


فائل کو میڈیکل ڈپارٹمنٹ بھیج دیا جِس نے فوراً ایکشن لیا اور جِس دن فائل ملی اُسی دِن محکمے کا سب سے قابِل پلاسٹک سرجن تحقیقات کےلئے بھیج دیا "


سرجن نے دبے ہوئے آدمی کو اچھی طرح ٹٹول‌کر صحت دیکھ‌ کر خون کا دباؤ سانس کی آمد و رفت دل اور پھیپھڑوں کی جانچ‌کر کے رپورٹ بھیجی "


" اِس آدمی کا پلاسٹک سرجری کا آپریشن هو سکتا ہے اور کامیاب بھی ہو جائے‌گا مگر آدمی مر جائے‌گا "

 چنانچه تجویز رد کر دی گئی۔


رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کے مُنھ میں کھچڑی کے لُقمے ڈالتے ہوئے اُس کوبتایا :

" اب معاملہ اوپر چلا گیا ہے سُنا ہے سکریٹریٹ کے سارے سکریٹریوں کی میٹنگ ہوگی جِس میں تمہارے کیس کو رکھا جائے‌گا امید ہے کام ٹھیک ہو جائے‌گا "


دبا ہوا آدمی آہ بھر‌ کر بولا:

" ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو‌گے لیکن خاک ہو جائیں‌گے ہم تُم کو خبر ہونے تک "


مالی نے اچهنبے سے مُنھ میں اُنگلی دبائی اور حیرت سے بولا:

" کیا تم شاعرہو؟"

دبے ہوئے آدمی نے آہستہ سے سر ہلا دیا۔


دوسرے دن مالی نے چپراسی کو 

چپراسی نے کلرک کو،

کلرک نےہیڈکلرک کو۔ 

تھوڑے ہی عرصه میں سکریٹریٹ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ دبا ہوا آدمی شاعر بهى ہے۔


بس پھر کیا تھا۔ 

لوگ جوق درجوق شاعر کو دیکھنے آنے لگے اِس کی خبر شہر میں پھیل گئی اور شام تک محلے محلے سے شاعر جمع ہونا شروع ہو گئے۔


سکریٹریٹ کا لان بھانت بھانت کے شاعروں سے بھر گیا 

سکریٹریٹ کے کلرک اورانڈر سکریٹری تک جِن کو ادب اور شاعری سے لگاؤ تھا رک گئے۔


کُچھ شاعر دبے ہوئےآدمی کو اپنی غزلیں اور نظمیں سنانے لگے کئی کلرک اُس سے اپنی غزلوں پر اِصلاح لینےکے لئے مصر ہونے لگے۔


جب یہ پتہ چلا کہ دبا ہوا آدمی شاعر ہے تو سکریٹریٹ کی سب

کمیٹی نےفیصلہ کیا کہ چونکہ دبا ہوا آدمی ایک شاعر بهى ہے لہذا اِس فائل کا تعلق نہ ایگریکلچرل سے ہے، نہ ہارٹی کلچرل سے بلکہ صرف اور صرف کلچرل ڈپارٹمنٹ سے ہے۔


کلچرل ڈپارٹمنٹ سے اِستدعا کی گئی کہ جلد سے جلد اِس معاملے کا فیصلہ کرکےبدنصیب شاعر کو اِس شجرِسایہ دار سے رہائی دلائی جائے۔


فائل کلچرل ڈپارٹمنٹ کے مُختلف شعبوں سے گزرتی ہوئی ادبی اکادمی کے سکریٹری کے پاس جا پہنچی۔ 

سکریٹری اُسى وقت اپنی گاڑی میں سکریٹریٹ جا پہنچا اور دبے آدمی سے پوچها:


 " تم شاعر هو ؟"

" جی ہاں "


" کیا تخلص ہے ؟"

" عبث "


" عبث " سکریٹری زور سے چیخا۔

" کیا تم وہی ہو جس کا مجموعہءِ کلام " عبث کے پھُول "حال ہی میں شائع ہوا ہے؟"


دبے ہوئے شاعر نے اثبات میں سر ہلایا۔

" کیا تم ہماری اکادمی کے ممبر هو؟"

" نہیں"


" حیرت ہے" سکریٹری زورسےچیخا۔ اِتنا بڑا شاعر ’عبث کے پُھول‘ کا مُصنّف اور ہماری اکادمی کا ممبرنہیں ! 

اف ، اف کیسی غلطی ہو گئی ہم سے ! اتِنا بڑا شاعر اور کیسے گوشہءِ گُمنامی میں دبا پڑا ہے"


" گوشہءِ گُمنامی میں نہیں بلکہ ایک درخت کے نیچے دبا ہوا …براہِ کرم مُجھے اِس درخت کے نیچے سے نکالیے "


" ابھی بندوبست کرتا ہوں " سکریٹرى بولا اور فوراً جا کر اپنے محکمہ میں رپورٹ کی۔


دوسرے دِن سکریٹری بھاگا بھاگا شاعر کے پاس آیا اور بولا :

" مبارک ہو مٹھائی کھلاؤ ہماری سرکاری اکادمی نے تُم کو اپنی مرکزی کمیٹی کا ممبر چُن لیا ہے یہ لو پروانہءِ اِنتخاب"


" مگر مُجھے اِس درخت کے نیچے سے تونکالو "


دبے ہوئے آدمی نے کراہ کر کہا۔ 

اُس کی سانس بڑی مشکل سے چل رہی تھی اُس کی آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ شدید تشّنج اور کرب میں مبتلا ہے۔


"یہ ہم نہیں کر سکتے"

سکریٹری نے کہا۔ جو ہم کر سکتے تھے وہ ہم نے کر دیا ہے بلکہ ہم تو یہاں تک کر سکتےہیں کہ اگر تُم مر جاؤ تو تمہاری بیوی کو وظیفہ دلا سکتے ہیں اگر تم درخواست دو تو"


" میں ابھی زندہ ہوں" 

شاعر رُک رُک کر بولا.


" مُصیبت یہ ہے" 

سرکاری اکادمی کا سکریٹری ہاتھ ملتے ہوئے بولا:

" ہمارا محکمہ صرف کلچر سے متعلق ہے ہم نے فاریسٹ کو‘ ارجنٹ ‘ لکھا ہے"


شام کو مالی نے آکر دبے ہوئے آدمی کو بتایا کہ کل فاریسٹ کے آدمی آ کر درخت کو کاٹ دیں‌گے اور تُمہاری جان بچ جائے‌گی"


مالی بہت خوش تھا کہ گو دبے ہوئے آدمی کی صحت جواب دے رہی تھی مگر وہ کِسی نہ کِسی طرح اپنی زِندگی کے لئے لڑ رہا ہے۔ کل تک…صبح تک…کِسی نہ کِسی طرح اُس کو زندہ رہنا ہے۔


دوسرے دِن 

فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے آدمى کُلہاڑی لے کر پہنچے تو اُن کو درخت کاٹنے سے روک دیا گیا۔ معلوم ہوا کہ محکمہءِ خارجہ سے حُکم آیا کہ اِس درخت کو نہ کاٹا جائے،

وجہ یہ تھی کہ اِس درخت کو دس سال پہلے حکومتِ پیٹونیا کے وزیرِاعظم نےسکریٹریٹ کے لان میں لگایا تھا اب یہ درخت اگر کاٹا گیا تو اِس امر کا شدیداندیشہ تھا کہ حکومتِ پیٹونیا سے ہمارے تعلقات ہمیشہ کے لئے بگڑ جائیں‌گے۔


" مگر ایک آدمی کی جان کا سوال ہے"

ایک کلرک غصے سے چِلّایا۔


" دوسری طرف دو حکومتوں کے تعلقات کا سوال ہے"

دُوسرے کلرک نے پہلے کلرک کو سمجھایا۔


" اور یہ بھی توسمجھو کہ حکومت پیٹونیا ہماری حکومت کو کِتنی امداد دیتی ہے۔ کیا ہم اُن کی دوستی کی خاطر ایک آدمی کی زندگی کو بھی قُربان نہیں کر سکتے؟


" شاعر کو مر جانا چاہیے۔ بلاشبہ"

انڈر سکریٹری نے سپرنٹنڈنٹ کو بتایا:

" آج صبح وزیراعظم باہر کے دورے سے واپس آ گئے ہیں۔ آج چار بجے محکمہءِ خارجہ اِس درخت کی فائل اُن کے سامنےپیش کرے‌گا جو وہ فیصلہ دیں‌گے وہی سب کو مُنظور ہوگا "


شام پانچ بجے خود سپرنٹنڈنٹ شاعر کی فائل لےکر اُس کے پاس آیا: " سنتےہو"


آتے ہی خوشی سے فائل ہلاتے ہوئے چلایا:

" وزیراعظم نے درخت کو کاٹنے کا حکم دے دیا ہے اور اِس واقعہ کی ساری بین الاقوامی ذمہ داری اپنے سر په لےلی ہے۔ کل وہ درخت کاٹ دیا جائے‌گا اور تُم اِس مصیبت سے چُھٹکارا حاصل کر لو‌گے "


"سنتے ہو؟ آج تمہاری فائل مکمل ہوگئی" سپرنٹنڈنٹ نے شاعر کے بازو کو ہلاکر کہا۔ مگر

.

.

.

.


شاعر کا ہاتھ سرد تھا آنکھوں کی پتلیاں بے جان اور چیونٹیوں کی ایک لمبی قطار اُس کے منھ میں جا رہی تھی۔ 

اُس کی زندگی کی فائل بھی مکمل ہو چکی تھی۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں