ہفتہ، 14 مئی، 2022

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

 جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے


جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے

مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے

کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تُو نے؟

جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے


ملے خاک میں اہل شان کیسے کیسے

مکیں ہو گئے لا مکاں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے


اجل نے نہ کسری ہی چھوڑا نہ دارا

اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا

ہر ایک چھوڑ کے کیا کیا حسرت سدھارا

پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹھ سارا


تجے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا

جوانی نے تجھ کو پھر مجنوں بنایا

بڑھاپے نے آ کے کیا کیا ستایا

اجل تیرا کردے گی اک دن صفایا


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے


یہی تجھ کو دھن ہے دکھوں سب سے اعلا

ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا

جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا

تجھے حسن ظاہر نے دھوکے میں ڈالا


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے


وہ ہے عیش و عشرت کا کوئی محل بھی؟

جہاں تاک میں کھڑی ہو اجل بھی

بس اب اس جہالت سے تُو نکل بھی

یہ طرز معیشت اب اپنا بدل بھی


یہ دنیائے فانی ہے محبوب تجھ کو

ہوئی واہ کیا چیز مرغوب تجھ کو

نہیں عقل اتنی بھی مجزوب تجھ کو

سمجھ لینا اب چاہیۓ خُوب تجھ کو


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے


بڑھاپے سے پا کر پیام قضا بھی

نہ چونکا نہ جاگا نہ سنبھلا ذرا بھی

کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی

۔۔۔۔چھوڑ کر اپنے ہوشوں میں آ بھی


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے


جب اس بزم سے چل دئیے دوست اکثر

اور اُٹھتے چلے جا رہے ہیں برابر

ہر وقت پیش نظر ہے یہ منظر

یہاں پر تیرا دل بہلتا ہے کیونکر؟


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں