جمعرات، 5 مئی، 2022

حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ

 *5 مئی یوم وفات*

*امام تصوف پروانہ ختم نبوت شیخ المشائخ پیرطریقت خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ (خانقاہ سراجیہ)*

دینی خدمات و کردار تاریخ کے آئینے میں

*تحریر: صاحبزادہ فقیر نجیب احمد فرزند و خلیفہ مجاز حضرت خواجہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ*

(وفات 5 مئی 2010)

کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جب وہ دنیا سے چلی جائیں تو ان کے جانے سے ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جو مدتوں پر نہیں ہوسکتا وہ ایسی خدمات سرانجام دے کر اس دنیا سے رخصت ہوتی ہیں جو روز روشن کی طرح زمین کے نقشے پر نہ نقش ہوجاتی ہیں بلکہ ان کی وہ خدمات ہمیشہ کیلئے ان کو زندہ جاوید بنا دیتی ہیں مخلوق خدا کی اصلاح اور رہنمائی کرکے ان کیلئے ذریعہ نجات بن جاتی ہیں۔ان کااٹھنا،بیھٹنا،چلنا،پھرنا،کھانا،

پیناہر قول و فعل شریعت کے مطابق ہوتا ہے۔اس شخصیت کا نام ہے میرے باباجی شیخ المشائخ خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان محمد رحمتہ اللہ علیہ جنہیں دیکھ کر بانی خانقاہ سراجیہ حضرت اقدس ابوسعد احمد خان رحمہ اللہ نے میرے دادا جان ملک خواجہ عمر سے مانگ لیا تھا انہوں نے آپ کی خوبیوں کو جانچتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں آپ کی تربیت کی۔حضرت خواجہ ابوسعد احمد خان رحمہ اللہ نے 1920میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجدیہ کی خانقاہ سراجیہ کی بنیاد رکھی۔خانقاہ کا نام اپنے شیخ خواجہ سراج الدین رحمہ اللہ کے نام پر رکھا اسی خانقاہ سراجیہ سے حضرت خواجہ خواجگان خان محمد رحمتہ اللہ علیہ فیض یاب ہوئے آپ کے مرشد و مربی حضرت خواجہ ابوسعد احمد خان اس مسند پر بیٹھ کر1941تک تصوف و سلوک کی خدمات سرانجام دیں۔1941 میں حضرت خواجہ ابوسعد احمد کی وفات کے بعد آپ خلیفہ حضرت مولانا محمد عبداللہ لدھیانوی رحمتہ اللہ علیہ خانقاہ سراجیہ کے جانشین بنے اور اپنے پیر و مرشد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالم انسانیت کو سیراب کرنا شروع کیا اور مخلوق خدا کی اصلاح فرمائی۔حضرت خواجہ خواجگان خان محمد رحمتہ اللہ علیہ 1941 میں دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کر کےتشر یف لا ئے تو باطنی علوم اور تصوف و سلوک کے حصول کیلئے اپنے مرشد مولانا محمد عبداللہ لدھیانوی رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں میں ڈیرے ڈال دیے۔آپ شیخ و مربی آپ سے بےحد محبت کرتے تھے انہوں نے آپ کی تربیت اس طر ح کی جیسا ایک حقیقی باپ اپنے بیٹے کی تربیت کرتا ہے۔وہ اپنے مریدوں کو ایک واقعہ سنایا کرتے تھے جب شیخ الہند محمود حسن رحمہ اللہ دیوبندی ما لٹا جیل میں اسیر تھے تو انہوں نے معارف قرآن حکیم کے نام سے ایک کتاب لکھنا شروع کی چند صفحات لکھنے کے بعد چھوڑ دی اور فرمایا میں مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کو اس کتاب کی جگہ پر تیار کر رہاہوں تاکہ ایک چلتا پھرتا نسخہ تیار ہوجائے حضرت خواجہ مولانا محمد عبداللہ لدھیانوی رحمتہ اللہ علیہ یہ واقعہ سنانے کے بعد فرماتے ہیں اب میں بھی ایک چلتا پھرتا نسخہ تیار کر رہا ہوں۔وہ نسخہ مولانا خان محمد صاحب ہیں

1956میں حضرت خواجہ مولانا محمد عبداللہ لدھیانوی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد خانقاہ سراجیہ کے جانشین حضرت خواجہ خواجگان خان محمد رحمتہ اللہ علیہ بنے۔آپ وقت کے ولی کامل متبع سنت سلوک و احسان کے امام تھے آپ کی خدمات بیش بہا قابل قدر لائق تحسین ہیں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ آپ سے فیض یاب ہوئے جہالت میں ڈوبے انسان، طاغوتی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مسلمان اور شریعت محمدی سے میلوں دور رہنے والے انسانوں کا تزکیہ ہوا اور صراط مستقیم پر چلنے، خدا کے حکموں کی پاسداری کرنے والے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کی چوکیداری کرنے والے بن گئے۔

آپ کی روحانیت کی خوشبو نے ایک عالم کو معطر کیا اس کے انوارات شہر شہر گاوں گاوں پھیلے رمضان المبارک میں لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح خا نقاہ سراجیہ میں تشریف لاتے اور یکم رمضان المبارک سے30 رمضان المبارک تک شب بیداری ہوتی اور شب بیداری کا اندازہ کچھ یوں ہوتا ہر چار تراویح کے بعد باباجی بیس منٹ کا وقفہ کراتے اس مراقبہ کرتے اور مرید ین کو بھی مراقبہ کراتے نماز تراویح کا یہ سلسلہ وقت سحر تک جاری رہتا۔باباجی رحمہ اللہ اس زمانے میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجدیہ کے عظیم اور مثالی پیشوا تھے جن کے چشم فیض سے لاکھوں لوگ راہ مستقیم پر چلے۔باباجی رحمہ اللہ اس دور میں حقیقی اللہ والے تھے وہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک کے سچے وارث اور حقیقی جانشین تھے۔آپ نے خاموشی میں ایسی بادشاہت کی جسے صرف اہل دل سمجھ سکتے ہیں۔آپ کی صحبت یادالہی اور تزکیہ نفس میں روحانی ترقیات کا بڑا ذریعہ تھی۔آپ کا سلسلہ نسب خواجہ عثمان دامانی رحمہ اللہ اور عارف باللہ خواجہ مظہر جان جاناں کے واسطے سے کل 37 واسطوں سےہوتاہوا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا کر ملتا ہے۔باباجی رحمہ اللہ ہر سال اپنے سلسلہ کے شیوخ کے نام پر حج کیا کرتے تھے آپ نے یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع کیا اور اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمد عبداللہ لدھیانوی رحمتہ اللہ علیہ تک تمام مشائخ کا حج کیا۔باباجی نے پچپن برس خانقاہ سراجیہ کے جانشین رہے اور دینی خدمات سرانجام دیں آپ ہر دینی تنظیم کی سر پرستی فرماتے تصوف و سلوک کا میدان ہو یادینی مدارس ہوں یادعوت تبلیغ کا شعبہ ہو یا مذہبی سیاسی جماعتیں ہوں۔آپ خاص طور پر عقیدہ تحفظ ختم نبوت کے مشن کیلئے ہروقت جہدوجہد میں لگے رہتے اس عقیدہ کا تحفظ اپنے مشائخ سے وراثت میں ملا تھا آپ کا سلسلہ نسب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور عقیدہ تحفظ ختم نبوت کی خاطر منکرین ختم نبوت کے تعاقب کیلئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اس میدان میں اترے اور وہی اس کے امیر اول تھے۔باباجی رحمہ اللہ نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی خاطر میانوالی جیل،بورسٹل جیل،سنٹرل جیل لاہور میں 1953 میں قید و بند صعوبتیں برداشت کی آپ ختم نبوت کیلئے کسی قسم کی قربانی سےدریغ نہیں فرماتے تھے۔

1974میں حضرت مولانا سید یوسف بنوری رحمہ اللہ سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ بننے کی درخواست کی گئی تو انہوں نے فرمایا میں ایک شرط پر امیر بنوں گا وہ یہ کہ اگر خواجہ خان محمد صاحب کو نائب امیر بنائیں۔یہ بات ختم نبوت والوں نے مان لی۔آپ اس بات سے اندازہ لگائیں باباجی رحمہ اللہ کے مقام کا کہ وقت کے محدث العصر علا مہ حضرت بنوری یہ شرط لگا رہے ہیں کہ خواجہ خان محمد رحمہ اللہ نائب بنے تب میں امیر بنوں گا۔حضرت بنوری سے پوچھا گیا آپ نے یہ شرط کیوں لگائی حضرت بنوری نے فرمایا حضرت خواجہ کی دعائیں اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں ہم کام کریں گے اور دعائیں کریں گے۔

1977 محدث العصر علامہ سید یوسف بنوری رحمہ اللہ کے وصال کے بعد باباجی رحمہ اللہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر منتخب ہوئے۔

1977 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں تحریک ختم نبوت نے زور پکڑا تو اسلام آباد کی سڑکوں پر آپکے بوڑھے جسم پر لاٹھیاں برسائی گئیں آپ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹےاپنے کارکنوں کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے رہے 1984 قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر پاکستان شے بھاگ کر لندن جانے پر مجبور ہوا اس کا پیچھا نہیں چھوڑا لندن میں جاکر محنت کی اور ختم نبوت کے دفاتر قائم کیے۔آپ کی ذات محض ایک گوشہ نشین بزرگ کی نہیں بلکہ جب ضرورت پڑتی اور باطل کو للکارا نے کا وقت آتا تو آپ میدان عمل میں ہوتے اور امیر قافلہ کا کردار ادا کرتے باطل کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک کی سرپرستی فرمائی۔زندگی کی آخری سانسوں تک آپ نے عقیدہ تحفظ ختم نبوت کے تحفظ کا فریضہ جرات وہمت سے ادا کیا۔

آپ کے وصال سے ایک خلا پیدا ہو گیا ایک عظیم روحانی سر پرست سے محروم ہوگئے آپ کاوجود سایہ رحمت تھا اللہ تعالٰی سے دعا ہے کی باباجی رحمہ اللہ کا فیض ان کے خلیفوں، بیٹوں،متوسلین،مریدین کی صورت میں ہمیشہ جاری و ساری رہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں