Must read it,,, copied
مجھے پروفیسر سے چپڑاسی لگادو
میں ایک سرکاری کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوں مگر اب میری خواہش ہے کہ حکومت مجھے پروفیسر کی جگہ وزیراعلی ہاوس یا گورنرہاوس میں چپڑاسی چوکیدار بھرتی کرے۔ میں اپنے کیریر میں جونیئرکلرک اور سینئرکلرک بھی رہاہوں۔ میرے دشمن نمادوست اور بدخواہ مسلسل مجھے اکسا رہےتھے کہ تم اردو اور براہوئی کی پانچ کتابوں کے مصنف ہو ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعر بھی ہو تم کیوں پروفیسر نہیں بنتے؟
وہ میری اتنی تعریفیں کرتے تھے گویا میں ارسطو اور افلاطون کا استاد ہوں۔
یہ ناظم حکمت، فیض احمد فیض، محمود درویش، ٹالسٹائی، چیخوف، گل خان نصیر، علامہ اقبال، خلیل جبران وغیرہ جیسے ادیب و شاعر میرے سائے کے بھی برابر نہیں۔ تب میں ان کی سازشوں میں آیا خود کو عظیم شاعر و ادیب سمجھ کرخوب محنت کی۔کمیشن کے امتحان میں اپنے سبجیکٹ میں ٹاپ کیا۔پھر ایم۔فل کی ڈگری بھی سابقہ صدر پاکستان ممنون حسین نے اپنے ،، دست مبارک،، سے مجھے دی۔
ابھی بلوچستان یونیورسٹی میں پی۔ایچ۔ڈی کا اسکالر ہوں لیکن ابھی بہت پشیمان ہوں کیونکہ مجھے کسی بے شرم دوست نے مشورہ نہیں دیاکہ کسٹم میں سپاہی بنو، واپڈا میں لائن مین بنو یا کم ازکم وزیراعلی ہاوس یا گورنرہاوس میں چوکیدار یا چپڑاسی بنو۔ خیرقیامت کے دن ان بے شرم دوستوں کا گلا پکڑونگا۔ ابھی وہ مجھے دیکھ کر کہتے ہیں۔کیسے ہو ماشٹر یار؟؟
ویسے بھی لفظ ماسٹر اب مزاق بن گیاہے مردم شماری، الیکشن یا جو بھی کام ہو انھی ماسٹروں سے لیتے ہیں۔جن بچوں کے ناک یہی استاد صاف کرتے، جن کے پیشاب کے بعد شلوار بھی یہی ماسٹر پہناتے۔ جن کے ہاتھوں میں قلم تھماکر انھیں زیور تعلیم سے آراستہ کرتے وہی اب ڈاکٹر، بیوروکریٹ، انجینئر حتی کہ الف بے سے ناواقف ،،بنگو،، جیسے سیاستدان اورعوامی نمائندے بھی بڑی بے شرمی سے ماسٹروں کا مزاق اڑاتے ہیں آج ایک ڈاکٹر دو سے پانچ لاکھ تنخواہ لے رہاہے ایک بیوروکریٹ اصل تنخواہ رشوت اورکمیشن کے علاوہ پچاس ہزار سے ڈیڈھ لاکھ اضافی تنخواہ لے رہاہے۔ میں چیلنج سے کہتاہوں میرے ساتھ اٹھارہ سال پہلے بھرتی ہونے والے ایک گریڈ انیس کے پروفیسرکی تنخواہ ایک لاکھ بھی نہیں۔
حالیہ بھرتی ہونیوالے جے،وی،ٹی کی تنخواہ کتنی ہے؟؟
صرف بیس ہزارسات سو۔
سیکریٹریٹ کے ایک جونیئرکلرک کو اصل تنخواہ کے علاوہ بجلی اورگیس کے مد میں 6000، اسپیشل الاونس 3409 اور ہاوس ریکوزیشن کے مد میں 17209 روپے ملتا ہے۔ پھر بھی سب ٹیچر پر بھونکتے ہیں۔ ایک دلچسپ بات گزشتہ سال 14دسمبرکو ایک نوٹیفیکیشن کے زریعے وزیراعلی ہاوس کے ملازمین کی تنخواوں میں سو فیصد جی ہاں سوفیصد اضافہ کیاگیا۔ سوناچاندی اورگیس اگلتی سر زمین بلوچستان کے ملازمین بہ شمول خواتین ڈسپیرٹی الاونس کے لئے دس دن مسلسل دھرنا دیا۔ نتیجہ زیرو حکمرانوں نےشرم وحیا کی تمام حدیں پار کیں۔ اب ہاتھ باندھ کر حکومت بلوچستان سے اپیل ہے کہ ملک کے سب سے زیادہ امیرصوبے کے سب سے کم تنخواہ لینے والے ملازمین کی تنخواوں میں ڈسپیرٹی الاونس کے ساتھ کم ازکم پچیس فیصد مزید اضافہ کریں۔ اگر نہیں تو تمام اساتزہ یا کم ازکم مجھے پروفیسر سے وزیراعلی ہاوس میں چپڑاسی بھرتی کریں۔ کیونکہ یہ ڈگریاں، یہ محنت، یہ قوم کے معمار، معزز استاد کے جھوٹے القابات یہ بے فاہدہ کے گریڈ۔ یہ سب بھاڑمیں جائیں۔ ہمیں کچھ نہیں چائیے ان سے ہم اپنے بچوں کو اعلی تعلیم نہیں دلاسکتے ان سے اب ہم اپنی سفیدپوشی بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ہماری سماجی حیثیت کا لوگ مزاق اڑاتے ہیں رشوت خور اور کرپٹ ملازمین کے بچے ہمارے بچوں کا مزاق اڑاتے ہیں۔ جبکہ وزیراعلی ہاوس میں چپڑاسی بھرتی ہوکر دیگر سہولیات کے علاوہ سو فیصد اضافی تنخواہ ہاوس ریکوزیشن کئی یوٹیلٹی الاونس ملنے کے بعد کم ازکم میرے بچے عیش کرینگے میں بقائمی ہوش وحواس التجا کرتا ہوں کہ ہم پر اور ہمارے معصوم بچوں پر رحم کھاکر مجھ سمیت تمام اساتزہ کو وزیراعلی ہاوس میں چپڑاسی بھرتی کریں۔
جناب کی عین نوازش ہوگی۔
والسلام
تحریر-پروفیسرغلام دستگیرصابر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں