![]() |
سرنگا پٹم میں ٹیپو سلطان کے مقبرہ (گنبد سلطانی) کی تصویر |
اور سرنگاپٹم سے ایک تحفہ۔۔۔
اقبال دوپہر بارہ بجے کے قریب سلطان ٹیپو کے مقبرے یعنی گنبد سلطانی پر پہنچے۔ مقبرے کے دروازے پر ریاست کی طرف سے ہر وقت نوبت بجتی رہتی ہے۔ روضہ سیاہ سنگ مرمر یا سنگ موسی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اقبال نے مزار کے اندر داخل ہوتے ہی قرآن مجید کی وہ آیت جو شہدا کے ضمن میں ہے (وہ جو اللہ کے راستے میں مارے گئے، انہیں مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں۔ مگر لوگوں کو شعور نہیں ہے) تلاوت فرمائی۔
مزار کے اندر کی فضا ایسی ہے کہ انسان پر ہیبت تاری ہو جاتی ہے۔ اقبال نے جس عقیدت اور خلوص سے روضہ کے اندر فاتحہ خوانی کی، اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔
روضے سے باقی لوگ تو باہر چلے گئے، لیکن تنہا اقبال، سلطانِ شہید کی تربت کے قریب آنکھیں بند کئے دیر تک کھڑے رہے اور سب سے آخر میں باہر نکلے۔ عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں کہ میں نے جو منظر اقبال کا یہاں دیکھا اسے الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں۔
روضے کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ اس کے باہر صحن میں سب لوگ جا کر بیٹھ گئے اور علی جان، دکن کے مشہور و معروف خوشنوا مطرب، نے نہایت سوز کے عالم میں اقبال کا اردو اور فارسی کلام گانا شروع کر دیا۔ اقبال کے آنسووں کا سلسلہ نہ تھمتا تھا اور حاضرین پر بھی رقت طاری تھی۔ علی جان یہ کیفیت دیکھ کر گھبرا گئے اور گاتے گاتے رک گئے۔ اقبال نے بڑے اضطراب کے عالم میں کہا: رک کیوں گئے جاری رکھو۔ سو علی جان گاتے رہے اور اقبال آنسو بہاتے رہے۔
جب وہاں سے رخصت ہوئے تو میسور کے مشہور تاجر محمد عباس نے، جو انکے ساتھ تھے، پوچھا کہ سلطانِ شہید نے آپکو کوئی پیغام دیا۔ اقبال نے جواب دیا کہ ان کی معیت میں میرا ایک لمحہ بھی بیکار نہیں گزرا۔ پھر فرمایا کہ ایک پیغام یہ ملا ہے
در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست
ہمچوں مرداں جاں سپردن زندگیست
یہ شعر اس واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جب سلطان ٹیپو کو شہادت سے کچھ دیر قبل کسی مشیر نے رائے دی تھی کہ انگریزوں سے مصالحت کر لی جائے، اور انہوں نے فوراً جواب دیا تھا کہ گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔
بعد ازاں رستے میں چار اور اشعار کی بھی آمد ہو گئی، جو اقبال کے انتہائی ذاتی تاثرات پر مبنی تھے اور انکے کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں:
آتشے در دل دگر بر کردہ ام
داستانے از دکن آ وردہ ام
در کنارم خنجر آئینہ فام
می کشم اورا بتدریج از نیام
نکتہ گویم ز سلطانِ شہید
زاں کہ ترسم تلخ گردد روز عید
پیشتر رفتم کہ بوسم خاکِ او
تا شنیدم از مزارِ پاکِ او
در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست
ہمچوں مرداں جاں سپردن زندگیست
(یعنی میں دکن سے ایک داستان اپنے ساتھ لایا ہوں، جس نے میرے دل میں نئی حرارت پیدا کر دی ہے۔ میرے پہلو میں آئینے جیسا ایک چمکدار خنجر ہے جسے میں آہستہ آہستہ نیام سے باہر نکال رہا ہوں۔ سلطان شہید کی طرف سے مجھے ایک نکتہ ملا ہے۔ جسے بیان کئے دیتا ہوں، گو مجھے خوف ہے کہ اسے سن کر کہیں تیری عید کی خوشیوں میں تلخی کا رنگ نہ بھر جائے۔ میں جب انکی خاک کو بوسہ دینے کی غرض سے وہاں تک پہنچا تو مزار پاک سے ندا آئی: اگر جہاں میں مردوں کی طرح زندہ رہنا ممکن نہ ہو تو مردانہ وار جان قربان کر دینے ہی میں زندگی ہے)۔
۴ مئی۔ یوم شہادت ٹیپو سلطان۔
Copied from the wall of Munib Iqbal Grandson of Allama Muhammed Iqbal
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں