جمعہ، 16 فروری، 2018

عاصمہ جہانگیر کے جنازے پر جنم لینے والے سوالات

جماعت اسلامی کے بانی مودودی کے بیٹے حیدر فاروق مودودی نے آج لاہور میں ایک ایسی خاتون کا جنازہ پڑھایا جو خود کو لادین و لامذہب کہتی تھی، اس خاتون کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرا شوہر قادیانی ہے اور مجھے اس کے قادیانی ہونے پر کوئی مسئلہ نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے کفر کو جانتے ہوئے بھی اس کے ساتھ رہتی رہی۔ ( روزنامہ جنگ لاہور، 26 جون 1986 ) 
اس قادیانی شوہر سے اس خاتون کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، ان میں سے ایک بیٹی کا شوہر کرسچن مذہب سے تعلق رکھتا ہے 
( روزنامہ امت کراچی، 13 فروری 2018 )

( یاد رہے کہ اس خاتون کی دونوں بیٹیوں کا نکاح بھی حیدر فاروق مودودی نے پڑھایا تھا )

جس خاتون کا جنازہ مودودی صاحب کے بیٹے حیدر فاروق مودودی نے پڑھایا اس کا پیدائشی نام عاصمہ جیلانی تھا، جو اپنی شادی کے بعد خود کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے کہلوانے لگ گئی، اس خاتون بارے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ” خواتین محاذِ عمل اسلام آباد کے ایک جلسے میں اس عاصمہ جیلانی نے شریعت بل کے خلاف تقریر کرتے ہوئے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غیر محتاط زبان استعمال کی۔ اس پر ایک مقامی وکیل نے احتجاج کیا اور کہا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔جس پر دونوں کے درمیان تلخی ہوگئی۔ (جسارت ،کراچی18مئی 1984)
عاصمہ جیلانی کی اس بے باکی کے بعد ملک پاکستان میں شدید غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی جس کے بعد یہ معاملہ اعلیٰ حکام تک پہنچا اور اس کے بعد آئین پاکستان میں 295C کا اضافہ کرکے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے/ والی کی سزا سزائے موت مقرر کردی گئی، لیکن اس وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والی اس خاتون کو سزا سے بچا لیا گیا، یہ خاتون جب سے 295C قانون بنا ہے اس کے خلاف زبان درازی کرتی رہی ہے اور اس قانون کو ختم کرنے کا ہر فارم پر مطالبہ کرتی رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خاتون کے جنازے میں آج ایک ایسی حرکت کی گئی ہے جو سراسر شعائر اسلام کی توہین ہے، عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں جہاں مَردوں کی صفیں بنائی گئیں تھی وہیں ان صفوں میں کندھے سے کندھا ملائے بہت سی خواتین نماز جنازہ ادا کرتی دکھائی دے رہیں تھیں، جس کی امامت مودودی صاحب کے بیٹے کررہے تھے۔

علمائے کرام سے پوچھنا یہ تھا کہ ایک ایسی خاتون جو خود کو لامذہب و لادین کہتی رہی اس کے جنازہ کی امامت کروانے والے پر کیا حکم لگے گا؟

یہ بھی بتادیں کہ جو شخص اس کے لادین ہونے کو جانتے ہوئے بھی اس کے جنازے میں شریک ہوا اس پر شریعت کا کیا حکم لاگو ہوگا؟

کیا اسلامی تاریخ میں کوئی ایسا حکم ملتا ہے جس میں مرد و زن کو ایک ہی صف میں کھڑے کندھے سے کندھا ملائے نماز یا نمازِ جنازہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہو؟ اگر ایسا کوئی حکم نہیں تو شریعت کا یوں مذاق اڑانے والوں پرکیا حکم لاگو ہوگا؟
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس جنازے میں شعائر اسلام کی توہین کی گئی ہے تو براہ کرم متفقہ فتویٰ جاری کرکے اس کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کروائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص اس طرح پوری دنیا کے سامنے شعائر اسلام کی توہین سے باز رہے

#نوٹ پوچھے گئے سوالات صرف علمائے کرام و مفتیان عظام سے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں