سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی۔
دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی۔
اہل محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا۔
میں بھی خاموش رہا اس نے بھی پرسش نہیں کی۔
جس قدر اس سے تعلق تھا چلے جاتا ہے۔
اس کا کیا رنج ہو جس کی کبھی خواہش نہیں کی۔
یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے۔
اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں