اتوار، 11 مارچ، 2018

شام کی سرحد پر

بولیں شام کی سرحد سے چند فرلانگ پر ھوں..آواز انتہائ ڈوبی ھوئ یہ عائشہ سید تھیں..کچھ دیر قبل یتیم بچوں کے کیمپ سے آئ تھیں...
بولیں میرے کچھ جذبات کو الفاظ کی زبان چاھیے افشاں بھن الفاظ گونگے ھیں یہاں آکر..
بچوں کی عمریں دوسے پانچ برس تھیں سینکڑوں پیارے سرخ سفید بچے یتیمی کے داغ پیشانیوں پر لگے تھے..بچوں نے جو ماں کی شفقت محسوس کی بے طرح چمٹ گیے.اک بچہ قدموں میں بیٹھ گیا..کچھ خود آکر گودوں میں بیٹھ گئے..سہمے ھوئے بچے جو کیمروں سے چھپ رھے تھے.آپ سوچئے اگر ان کے پاس بیان کی قدرت ھوتی تو کیا کیا بیان کرتے..مگر انکو کہنے کی ضرورت بھی کیا ھے ان کے آنسو سب کچھ کہ رھے ھیں..کاش ھم نے یہ سب یوں نہ دیکھا ھوتا کہ انکے غموں کے مداوے کو کیا ھے ھمارے پاس?? 
اللہ کی دنیا ھے اس کی مشیت ھے بس اک احساس ان کیمپوں کی حالت دیکھ کر رات رات بھر سونے نھیں دے رھا کہ رب خفا ھوگیا ھے..کیسے منائیں..کیا کریں??
جو دنیا چھوڑ گئے وہ اچھی جگہ چلے گئے..جو شدید زخمی ھیں انکی تصویر بھی اتارنے سے کیمرہ عاجز..
پاکستانی این جی اوز امہ کے جسم میں روح ڈالنے کی تگ ودو میں ھیں دوسرے ملکوں کے رضاکار بھی رات کے آرام سے بے نیاز چوبیس گھنٹے لگے ھوئے ھیں.
میری آنکھیں تاب نھیں لاسکیں ان نظاروں کی جب جگہ جگہ شامی کیمپوں پر پاکستانی جھنڈے نظر آئے.حکومتوں کی اپنی مصلحتیں مگر اھل پاکستان تو ایسے ھی تڑپ رھے ھیں جیسے جگر انکا چھلنی ھوا ھے جس جس سے ملی ھوں جس میڈیا سے ملاقات ھوئ ھے پاکستانیوں کے جذبات پہنچائے ھیں..
اک ماں ھوں .کتنی بے بس ھوتی ھیں ھم مائیں اولادوں کے دکھ میں مگر یہ ھزاروں بچے تو ساری زندگی محروم رھیں گے ٹھنڈی چھاؤں سے..
وہ گلابی گالوں اور سنہری بالوں والی بچی میرا ھاتھ چھوڑنے پر تیار نہ تھی.جی چاھتا تھا اور ھم سب کا اک ھی جی چاہ رھا تھا کہ ان کو بازؤں میں بھر لوں اور ان دکھوں کی دنیا سے دور کہیں لے جاؤں..مگر انکی ماں تو کہیں بھی نہ ملے گی انھیں..
رضا کار الخدمت کے ھوں یا دیگر تن من دھن اک کیے ھوئے ھیں..امہ زندہ ھے مگر حکمران لکڑی کے کندے ھیں شائد جو ایوان اقتدار میں چن دیے گئے ھیں..اردوان ھمیں بریف کررھے تھے انکے مومنانہ عزائم قرون اولی کی یاد تازہ کررھے تھے.
امہ یہاں تک کیسے ہہنچتی اگر صرف حکمران مخلص مل جاتے...

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں