ہندوستانی ریلویز،دنیاکی چوتھی بڑی ریلوے ہے۔ ایک سوتہترسال پرانی لوہے کی یہ کمپنی روزانہ تیرہ ہزار مسافر ٹرینیںچلاتی ہے۔اس کے علاوہ نو ہزاردوسومال گاڑیاں بھی روزانہ چلتی ہیں۔ 2004 میں دنیاکی یہ مہیب ٹرین ریلوے مسائل کاگڑھ بن چکی تھی۔وہی علتیں، جو برصغیر کے نظام کاحصہ ہیں۔ حددرجہ کرپشن،گرتی ہوئی ساکھ،بے قاعدگی، ٹرینوں کاگھنٹوں نہیں دنوں تاخیرسے چلنا، مسافروں کے لیے سہولتوں کی عدم دستیابی یعنی جس قباحت کا نام لیں، اس نظام میں موجودتھی۔لوگ انجن کے پرزے سرِعام بیچتے نظر آتے تھے۔چورکھڑی ہوئی ٹرینوں سے نشستیں چرالیتے تھے۔ہندوستان کی حکومت مکمل طورپربے بس تھی۔
کیا کرے اورکیانہ کرے۔بین الاقوامی ادارے امداددیتے تھے توتنخواہیں دی جاتی تھیں۔لاکھوں ملازمین کووقت پرتنخواہ نہیں ملتی تھی۔ہڑتال کرتے تھے۔ٹرینیں روک لیتے تھے۔ پہیہ جام کردیتے تھے۔پھرجاکرمینجمنٹ،قرضہ پکڑ کر تنخواہ دیتی تھی۔دنیاکے مالیاتی ادارے اسے سفید ہاتھی کہتے تھے۔ ان کے نزدیک واحدحل ریلوے کو پرائیویٹ سیکٹرکوفروخت کرنا ہے۔یعنی پرائیویٹائزیشن۔یہ حل بین الاقوامی ادارے آج سے نہیں،دہائیوں سے چورن کی طرح بیچ رہے ہیں۔ 2004 ء کاذکرکررہاہوں۔ہندوستان کی ریلوے تقریباًدم توڑ چکی تھی۔
2004ء ہی میں ہندوستان میں الیکشن ہوااور لالوپرشادبہارسے قومی اسمبلی کاممبرمنتخب ہوا۔اس سے پہلے بہارکاطویل عرصے تک وزیراعلیٰ بھی رہا۔ مکمل طورپر دیہاتی اورغیرمہذب شخص گردانا جاتا تھا۔چارہ اسکینڈل سے لے کردرجنوں طرح کے مالیاتی اسکینڈلزکامرکزی کردار تھا۔ پورے ملک میں کرپشن کانشان تھا۔لوگ اس کے بولنے کے لہجے کی نقلیں اُتارکرٹھٹہ اُڑاتے تھے۔اس کے معمولی قسم کے کپڑے بھی اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے لیے تحقیرکاباعث تھے۔مگرایک چیزاس کے تمام مخالفین اور ناقدین فراموش کررہے تھے کہ وہ غیرمعمولی طورپرذہین انسان اورکامیاب ترین سیاستدان ہے۔الیکشن جیتنے کے بعدجب لالوپرشاددہلی پہنچا تو وزیراعظم نے پوچھاکہ کونسی وزارت لینا چاہتا ہے۔ لالو کاجواب تھا، “ریلوے”۔ وزیراعظم فرمائش سنکرششدررہ گیا۔ مگر ریلوے تومکمل طور پرڈوب چکاہے۔آپ وہاں کیا کرینگے۔
لالو کا جواب تھا کہ اسے ٹھیک کردونگا۔ وزیراعظم اور دیگر سیاستدانوں نے مسکراناشروع کردیا۔کیونکہ لالوکونہ ریلوے چلانے کاتجربہ تھا اور نہ ہی اس نے کوئی حکومتی ادارہ ٹھیک کیاتھا۔سچ پوچھیے توبگاڑاہی تھا۔تمام سینئرسیاستدانوں کاخیال تھاکہ لالومذاق کررہاہے۔اس کی نظرکسی اور وزارت پرہے۔مگروہ بضد ہوگیا۔2004ء میں لالو پرشاد،ہندوستانی ریلوے کا وزیر بن گیا۔پہلے دن دفتر گیا تو چپل اُتارکرکرسی پرپھسکڑالگاکر بیٹھ گیا۔ مخصوص لہجے میں ریلوے کے افسروں سے مسائل پوچھنے لگ گیا۔دل ہی دل میں ریلوے کے سینئر افسر بھی ہنس رہے تھے کہ کہاں یہ مکمل طورپرجاہل انسان اورکہاں ریلوے کے مہیب مسائل۔مگروہ اس لالوکونہیں جانتے تھے جواگلے چندبرسوں میں ڈوبتے ہوئے ادارے کوزندہ کرکے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتاتھا۔
کسی بھی سینئر افسرنے وزیر کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔لالونے اب افسروں کے بجائے، مسافروں، قلیوں، مزدوروں،نچلی سطح کے ملازمین، ریلوے اسٹیشن پرخوانچہ فروشوں اوراسٹیشن ماسٹروں سے ملنا شروع کردیا۔تمام مسائل سنتا تھا اورذاتی اسٹاف نوٹس لیتا رہتا تھا۔چارہفتے کے اندر، لالو کومسائل کی نوعیت کااندازہ ہوگیا۔ سیدھا وزیراعظم کے پاس گیا۔کہنے لگاکہ ایک سال میں ریلوے کوٹھیک کردونگا۔شرط صرف ایک ہے کہ اس کے کام میں وزیراعظم آفس کسی قسم کی مداخلت نہ کرے۔ وعدہ لے کر واپس آیااورپھراس نے متعدد فیصلے دیے۔
سب سے پہلے روٹس کودوحصوں میں تقسیم کیا۔ ایک وہ جن پرمنافع تھااورایک وہ جن پر نقصان تھا۔ نقصان میں چلنے والی ٹرینوں کوقطعاًبندنہیں کیا۔بلکہ ان سے چندبوگیاں اُتارکر،منافع میں چلنے والی ٹرینوں میں لگوادیں۔صرف ایک ہفتہ میں ان روٹس پرمنافع بیس فیصدبڑھ گیا۔لالونے سفرکے لیے ٹکٹ خریدنے کے نظام کوکمپیوٹرائزڈکردیا۔پہلے لوگ، ہمارے ملک کی طرح،بروقت ٹکٹ کے لیے،کسی کی مٹھی گرم کرنے پرمجبورہوتے تھے۔اب ہرانسان سہولت سے اپناٹکٹ خود کمپیوٹرپرخریدسکتاتھا۔ نشست مختص کرواسکتا تھا۔ ریلوے اسٹیشن جانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ٹکٹ خریدنے کے عمل میں سہولت سے مسافروں کی تعدادمیں اٹھارہ فیصد کا اضافہ ہوگیا۔بات یہاں نہیں رکتی۔لالونے دیکھاکہ مال گاڑیوں میں سامان صرف دن کے وقت لادا جاتا ہے۔حکم دیاکہ یہ عمل رات کوبھی جاری رکھا جائے۔
صرف ایک حکم سے مال گاڑیوں کی استطاعت میں سو فیصداضافہ ہوگیا۔ ٹرک مافیا،جوحددرجہ مضبوط تھی، نے کہرام مچادیاکہ ان کا کاروبار ختم ہوجائیگا۔ مگر لالو کا کہنا تھا کہ مال گاڑیوں میں سامان کی آمدورفت،حددرجہ سستی ہے۔ٹرک مالکان،اس کام کے دوگنے بلکہ تگنے پیسے وصول کررہے ہیں۔ لالوکے خلاف ہڑتالیں ہوئیں۔مگروہ ٹس سے مس نہ ہوا۔نتیجہ یہ نکلاکہ مال گاڑیوں کی تعداد بے حدبڑھ گئی۔اب ریلوے کاخسارہ بھی کم سے کم ترہونے لگا۔ساراملک دیکھ رہاتھاکہ اب لالواور کیا کریگا۔ اس کے بعدلالونے کہاکہ امیرآدمی سے دوگناپیسے کمائیگا۔امیرطبقے کے لیے اس نے لگژری ٹرینیں چلا دیں۔ عام گاڑیوں سے انکاکرایہ بے حدزیادہ تھا۔
راج دھانی نام کی یہ لگژری ٹرینیں حددرجہ مقبول ہوگئیں۔امیرآدمی کوکوئی فرق نہیں پڑتاتھاکہ وہ سوروپے دے رہاہے یاپانچ سو۔لالو کا کمال یہ تھاکہ اس نے عام مسافرکے لیے یعنی سیکنڈاور تھرڈ کلاس کے کرائے میں کمی کردی۔اس کے ساتھ ساتھ،اول درجے کے ڈبوں میں نشستیں بڑھادیں۔لالوکے انقلابی اقدامات سے پوری دنیامیں تہلکہ مچ گیا۔ہارورڈیونیورسٹی کے ماہرین نے لالوکی کامیابی کے ماڈل کواپنے نصاب میں شامل کر لیا۔
پوری دنیاسے طالبعلم،ہندوستان آکر،سیکھنے لگے کہ حکومتی اداروں کونقصان سے نکال کرفائدہ میں کیسے منتقل کیاجاسکتاہے۔کیاآپکواندازہ ہے کہ لالونے انڈین ریلوے کوکتنامالی فائدہ پہنچایا۔یہ کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ مجموعی طورپرریلوے کوساٹھ ہزارکروڑروپے کافائدہ ہوا۔یہ کوئی تصوراتی منافع نہیں بلکہ یہ اس اَن پڑھ نظرآنے والے شخص کی حکمتِ عملی کی بدولت ممکن ہوا،جس پرلوگ طنز کیا کرتے تھے۔آپ چاہیں،توساٹھ ہزارکروڑروپے کی رقم کی کسی بھی ذرایع سے تصدیق کرسکتے ہیں۔یہ سب کچھ، ہمارے ہمسایہ ملک میں ہوااورایک ڈوبتاہواادارہ،اپنے پیروں پرکھڑا ہوکردوڑنے لگا۔
اب پاکستان کی طرف آئیے۔ہمارے اکثرقومی ادارے شدیدمالیاتی نقصان کاسامناکررہے ہیں۔پی آئی اے کے متعلق حددرجہ منفی خبریں تواترسے موصول ہوتی رہتی ہیں۔اسٹیل مل،ریلوے اوردیگرقومی اداروں کی حالت حددرجہ خراب ہے۔ہرحکومت مسائل بتاتی ہے۔حل بہت ہی کم سامنے آتے ہیں۔اب عمران خان کی نئی حکومت آچکی ہے۔ہارورڈاورغیرملکی بہترین یونیورسٹیوں کے ماہرین آنے کاغلغلہ مچاہواہے۔وہی اقتصادی ماہرین،جوعرصہ درازسے بھیڑیوں کی طرح ملکی معیشت کوآئی ایم ایف اور دیگرمالیاتی اداروں کے سامنے بوسیدہ گوشت کی طرح ڈالتے رہے ہیں۔نت نئے مشورے دے رہے ہیں۔ان کی باتیں بیس برس پہلے بھی وہیں تھی اورآج بھی وہیں ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا،کہ محترم زرداری صاحب کی حکومت سے پہلے،جنرل جاوید،اسٹیل مل کے چیئرمین تھے۔ تقریباً دویا تین برس چیئرمین رہے۔
مشرف دورمیں تعینات ہوئے تھے۔انھیں اسٹیل مل چلانے کارَتی بھرتجربہ نہیں تھا۔مگراس شخص نے اپنے دورمیں اسٹیل مل کوخسارہ سے نکال کرمنافع بخش بنادیا۔جنرل جاویدکوئی اقتصادی ماہربھی نہیں تھا۔ فوجی ہونے کے باوجودایک اچھاشاعربھی تھا۔ سادہ سے اقدامات سے اسٹیل مل خسارے سے باہرنکل آئی۔ پھر، قیامت کی اندھیری چلی اوراسٹیل مل، “مفاہمت” کی نظرہوکر بربادہوگئی۔یہی حال پی آئی اے کاتھا۔کئی ادوارایسے گزرے ہیں،جنکی بدولت یہ قومی ادارہ فائدہ میں چلتارہا۔ مگرپھریہ”جمہوریت بہترین انتقام ہے”کی نظر ہوگیا۔ ایک منصوبہ بندی سے کرپٹ نہیں بلکہ انتہائی “دونمبر” بندے وہاں لگائے گئے۔ایسے سیاسی لوگ،سرکاری افسراور اقتصادی ماہرین بھی آئے جنہوں نے اپنے جہازچوری کرکے غیرملکوں کو بیچنے شروع کردیے۔مجموعی طورپر صورتحال دگرگوں ضرورہے مگراسکوبہترکیاجاسکتاہے۔
سوال ہے کیسے اورکیونکر۔جب عمران خان یہ اعلان کرتے ہیں کہ دنیاکے بہترین اقتصادی دماغ اکٹھے کرینگے تواَزحدخوشی ہوتی ہے۔مگرپھریہ کیفیت خوف میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔کیونکہ شوکت عزیزسے اسحق ڈارتک، ہمارے پاس بلاکے مالیاتی ماہرین رہے۔مگرصنعت اورقومی اداروں کازوال جاری رہا۔اب توجیسے ہی ان جیسے پرانے چہرے ٹی وی پرآکرخراب اکانومی پرتبصرے فرماتے ہیں۔ تواسی وقت اندازہ ہوجاتاہے کہ دراصل فرمائش کررہے ہیں کہ ہمیں خدمت کاموقع دیجیے۔ہرچیزٹھیک ہوجائیگی۔ مسئلہ کوئی نہیں۔مگریہ پرانے اورتجربہ کار بزرجمہرہمیں بارہا برباد کرچکے ہیں۔انکوموقع نہیں ملناچاہیے۔کسی بھی قیمت پر انھیں ملکی خزانہ کے نزدیک جانے کی اجازت نہیںہو نی چاہیے۔
سب سے زیادہ ضرورت”سیانے”بندوں کی ہے۔ ہرایک کو مسائل کاعلم ہے اورہرایک کوحل بھی پتہ ہے۔کوئی ایسی پیچیدہ بات نہیں جو”کامن سینس”سے بالاترہوں۔یہ سمجھدارلوگ انتہائی سادہ مگرفعال طریقوں سے قومی اداروں کوبہتربناسکتے ہیں۔ریلوے کے مسائل،ہاورڈیونیورسٹی کا پروفیسرنہیں بلکہ اسٹیشن ماسٹراورقلی سب سے اعلیٰ طریقے سے بیان کرسکتاہے۔ہرقومی ادارے کے نچلے طبقے سے مسائل کاحل پوچھیے،آپکوسب کچھ بتادیگا۔بالکل ویسے ہی جیسے لالوپرشادنے2004ء میں انڈین ریلوے کے معاملے میں کیاتھا۔مجھے ڈرہے کہ کہیں،عمران خان،دانالوگوں کودورنہ کردے۔کہیں باہرکی ڈگریوں والے کسی اقتصادی ماہرسے متاثرنہ ہوجائے۔جناب ہمیں ان مالیاتی ماہرین کی نہیں، بلکہ لالوپرشادجیسے سیانوں کی ضرورت ہے۔ (منظر حیات 16/8/18
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں