مہربانی کرکےایک ہی نشست میں پڑھیں
محراب ومنبر کے وارث اور محنت مزدوری
مولوی محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ کیوں نہیں پالتے؟
محراب ومنبر کے وارث مزدوری کیوں نہیں کرتے؟
ان کی بڑی تعداد محنت مزدوری یا نوکری اور تجارت سے اپنا پیٹ کیوں نہیں پالتی؟ان میں سے اکثر چندے اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے بجائے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یا وزن اٹھا کر اپنی روزی کیوں نہیں کماتے؟
یہ شکایت نئی نہیں، بہت پرانی ہے اور جب مسجد اور مدرسہ نے ایک ریاستی ادارے کی حیثیت سے محروم ہوکر پرائیویٹ ادارے کی حیثیت اختیار کی ہے اور اسے اپنا وجود برقرار رکھنے اور نظام چلانے کے لیے صدقہ، زکوٰۃ، قربانی کی کھالوں اور عوامی چندے کا سہارا لینا پڑا ہے، تب سے یہ شکوہ زبانوں پر ہے اور مختلف طریقوں سے وقتاً فوقتاً اس کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔مغل حکومت کے دور میں مسجد ومدرسہ کو ریاستی ادارے کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کے اخراجات کی ذمہ داری ریاست پر تھی۔ درس نظامی ملک کا سرکاری نصاب تعلیم تھا اور عدالتوں میں اسلامی احکام وقوانین کی عمل داری تھی۔
جب اس سارے سسٹم کو 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد انگریزی سرکار نے لپیٹ کرایک طرف رکھ دیا اور مساجد ومدارس کی بندش کے ساتھ ساتھ ان کے لیے مخصوص اوقاف ووسائل بھی ضبط کر لیے تو باقی سارے معاملات سے قطع نظر کم سے کم عام مسلمانوں کی عبادات کا نظام برقرار رکھنے اور ان کے لیے دینی تعلیم کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے عوامی چندے اور زکوٰۃ وصدقات کے ذریعے سے مسجد ومدرسہ کے نظام کو چلانے کا رجحان پیدا ہوا اور کچھ اصحاب بصیرت نے غریب عوام کے سامنے جھولی پھیلا کر زکوٰۃ وصدقہ اکٹھا کرکے، قربانی کی کھالیں جمع کرکے بلکہ ایک ایک گھر سے روٹی مانگ کر مسجد ومدرسہ کے اس نظام کو تباہ ہونے سے بچا لیا، ورنہ تاشقند اور سمرقند میں ایسی مساجد ہیں جو گزشتہ نصف بلکہ پون صدی کے عرصہ میں سیمنٹ کے گودام اور سینماہال کے طورپر استعمال ہوتی رہی ہیں۔
اگر ہمارے ہاں کے منبر ومحراب کے وارث کھالوں اور چندوں کے پیچھے نہ پھرتے تو یہاں بھی صورت حال تاشقند اور سمرقند سے مختلف نہ ہوتی۔مسجد ومدرسہ مولوی اور چندہ کے اس نظام پر دو قسم کے حضرات کو اعتراض ہے اور ان کی شکایت کے پس منظر کو الگ الگ طورپر سمجھنا ضروری ہے۔ کچھ حضرات کو تو اس بات پر غصہ ہے اور وہ اپنے غیظ وغضب کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہو رہے کہ یہ نظام ابھی تک بدستور قائم کیوں ہے؟اور نہ صرف قائم ہے بلکہ مغرب اور اسلام کے درمیان گلوبل سولائزیشن وار میں ایک ناقابل تسخیر مورچہ کی حیثیت کیوں اختیار کیے ہوئے ہے؟
اور چونکہ اس نظام کے باقی رہنے بلکہ دن بدن ترقی کرنے میں ظاہری سبب یہی صدقہ زکوٰۃ، قربانی کی کھالیں اور چندہ ہے، اس لیے انہیں یہ سارا کچھ برا لگتا ہے،
لیکن کچھ حضرات خیر خواہی اور خلوص کے جذبہ کے ساتھ بھی اس خواہش کا اظہار کر دیتے ہیں کہ علماے کرام کو صدقہ وزکوٰۃ کے بجائے کوئی ہنر اپنا کر اپنی معیشت کا انتظام کرنا چاہیے۔ ایسے دوستوں کے پیش نظر انتہائی خلوص کے ساتھ یہ بات ہوتی ہے کہ منبر ومحراب کے وارثوں کا معاشرتی مقام بلند ہونا چاہیے اور انہیں لوگوں کا دست نگر ہونے کے بجائے خودکفیل ہو کر دینی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے تاکہ ان کی بات میں زیادہ وزن ہو اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ معاشرہ کی دینی قیاد ت کر سکیں، مگر منبر ومحراب کے وارثوں کے لیے اس خواہش کو پورا کرنا ؟؟؟
حافظ اور قاری کے ذاتی اور معاشرتی وقار کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف مسجد ومدرسہ کے نظام کو باقی رکھنے کے تقاضے ہیں اور مولوی پوری ہوش مندی کے ساتھ آج بھی اپنے ذاتی مفاد پر مسجد ومدرسہ کے نظام کو ترجیح دے رہا ہے۔
ایک دور میں ریاست حیدر آباد دکن کے نواب نے جو اپنے دور کے امیر ترین حکمران سمجھے جاتے تھے، دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ کو پیش کش کی کہ اگر دارالعلوم کے نصاب میں کچھ جدید مضامین کو بھی شامل کر لیا جائے تو وہ دارالعلوم کے اخراجات میں تعاون کرنے اور دارالعلوم کے فضلا کو اپنی ریاست میں ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں تو اس کے جواب میں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے یہ تاریخی جملہ کہہ کر اس پیش کش کو مسترد کر دیا تھا کہ ہم ریاست حیدر آباد کا نظام چلانے کے لیے نہیں، بلکہ مسلمانوں کی نماز، روزہ اور دینی تعلیم کا نظام باقی رکھنے کے لیے پڑھا رہے ہیں۔
ان کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگرہم بھی اپنے مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو جدید تعلیم کا ٹچ دے کر ریاستی نظام کے کل پرزے بنا دیں تو پھر مسجدوں میں نماز کون پڑھائے گا؟
اور لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم کون دے گا؟
x
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں